کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے!
(Faisal Shahzad, Karachi)
دو جون مغرب کا وقت تھا، جب موبائل پر
پیغام آمد کی بیپ ہوئی۔دیکھا تو کسی انجانے نمبر سے پیغام آیا تھا۔ پیغام
کھولا تو پہلی سطر پڑھتے ہی بے اختیار اک آہ نکل گئی۔ لکھا تھا، عارف باﷲ
حضرت مولانا شاہ حکیم اختر صاحب انتقال فرما گئے۔ پیغام چونکہ انجانے نمبر
سے تھا،اس لیے فوراً اِدھر اُدھر کچھ دوستوں سے رابطہ کیا تو اس دلخراش خبر
کی تصدیق ہو گئی۔ تصور میں حضرت کا نورانی اور بچوں کی سی معصومیت لیا چہرہ
آگیا۔ ہم نے 2004ء میں پہلی مرتبہ حضرت کی زیارت ، گلشن اقبال میں واقع
حضرت کی خانقاہ میں اپنے ایک دوست کے وسیلے سے کی۔ اس وقت بھی حکیم صاحب
رحمہ اﷲ بات نہ فرما سکتے تھے،دراصل آپ پچھلے تیرہ سال سے سخت علیل تھے۔آپ
پر 2000ء میں فالج کا حملہ ہوا تھا۔
آپ متبحرعالم بھی تھے اور عارف باﷲ بھی، داعی الی اﷲ بھی تھے اور کامل فن
شیخ طریقت بھی۔ آپ کی شخصیت میں بہت سی صفات محمودہ جمع ہو گئی تھیں لیکن
ان سب میں سب سے غالب صفت جو تمام صفات محمودہ کی گویا بنیاد ہے ، وہ اﷲ
اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی۔اسی محبت کا لازمی نتیجہ
تھا کہ حدیث پاک کے مصداق پھر آپ کی محبوبیت کے زمزمے بھی چہار عالم میں
گونجے۔نہ صرف برصغیر بلکہ افریقہ، یورپ، امریکا اور کینیڈا کے ہزاروں لوگوں
کے دل بھی آپ کی محبت سے معمور تھے۔
حضرت حکیم اختر صاحب کی دکانِ معرفت سے ہر آنے والے کو دردِ دل کی سوغات
بٹتی تھی۔ جو آپ کے دامن سے وابستہ ہوجاتا، اس کی زندگی بدل جاتی۔جو نگاہیں
سرکش ہوتیں، آپ کے مواعظ کی برکت سے جھکنا سیکھ لیتیں، کان غیبت اورلہو
ولعب سننے سے بچنے لگتے،شرعی پردے کااہتمام شروع ہوجاتا۔غرض آپ کی بیانات
کی برکت سے خاندان کے خاندان بدل گئے۔
حضرت حکیم صاحب اتحادِ امت کے زبردست داعی تھے۔تعصب سے جو آج پاکستان میں
خونریزی کی سب سے بڑی وجہ ہے، آپ کو سخت بغض تھا۔ تعصب چاہے جس رنگ میں ہو،
اس نے لسانیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو، یا قومیت کے نعرے میں چھپا ہو،اس کی
بنیاد علاقائیت ہو یا رنگ و نسل، آپ کے نزدیک امت مسلمہ کو پارہ پارہ کرنے
کی سب سے بڑی وجہ تھا۔آپ کے نزدیک وطن، قوم، نسل اورزبان و تہذیب کی ہر
نسبت سے زیادہ اسلام کی نسبت و حمیت اہم تھی۔ آپ نے اپنے درد بھرے مواعظ کے
ذریعے اسی تعصب جاہلیہ کی بیخ کنی کی اور مسلمانوں کو اﷲ اور اس کے رسول کی
محبت کے نام پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے مریدین میں دنیا
بھر کے مختلف زبان بولنے والے، ہر رنگ و نسل کے لوگ شامل تھے۔
حضرت کی رحلت سے امت ایک شفیق مربی اور عظیم عالم دین و مصلح سے محروم ہو
گئی۔ ان کا شمار عالم اسلام کی ان چند ممتاز اور نمایاں دینی و روحانی
شخصیات میں ہوتا تھا، جن سے بلا مبالغہ لاکھوں انسانوں نے بلاواسطہ یا
بالواسطہ فیض حاصل کیا۔اس فتنے کے دور میں جب اولیاء اﷲ کا وجودبہت بڑی
غنیمتہے، حضرت کی وفات یقینا امت کا ایک بہت بڑا اور ناقابل تلافی نقصان
ہے۔خصوصاً شہر کراچی کے باسیوں کے سر سے ایک سائباں تھا جو اٹھ گیا۔
ادارہ روزنامہ اسلام، ،ہفت روزہ ضرب مؤمن اورجامعۃ الرشید سے حضرت حکیم
صاحب کامشفقانہ سرپرستانہ تعلق رہا۔ان اداروں میں کئی سرکردہ شخصیات حضرت
کی تربیت یافتہ اور مجازِبیعت ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ خواتین کااسلام
کادفتراسی مکان میں ہے جہاں حضرت حکیم صاحب اوران کے شیخ حضرت پھولپوری
رحمہ اﷲ ایک طویل مدت تک قیام پذیر رہے،یہاں کے درودیوار سے اب تک ان
ہستیوں کی انفاس کی مہک آتی ہے۔
حضرت کو رخصت ہوئے کئی دن ہوئے، لیکن اب تک یقین نہیں آرہا کہ گلشن ویران
ہو گیااور حضرت یوں چپ چاپ چلے گئے……
کیسی بے فیض سے رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
|
|