پانی کی قلت وکثرت

پاکستان میں تضادات بہت ہیں۔یہ ہر شعبہ زندگی میں نظر آتے ہیں۔کچھ امیر ایسے جن کے نام عالمی اُمراء کی فہر ست میں شمار ہوتے ہیں۔اور30فیصد آبادی ایسی کہ اسے دووقت روٹی نصیب نہیں ہوتی۔محلات ایسے بھی ہیں کہ کمروں کی گنتی مشکل،دوسری طرف ایک ہی کمرے میں بہت سے لوگوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے۔پیدل چلنے والوں کے ساتھ سے ہی فراٹے بھرتی ہوئی بڑی بڑی کاریں بھی گزر رہی ہوتی ہیں۔ہسپتالوں میں وی آئی پیز کے لئے تمام سہولتوں سے مزین کمرے۔اور ایسے سین بھی نظر آتے ہیں کہ ایک ایک بیڈ پر کئی کئی مریض لیٹے ہیں۔ایک تصویر چند دن پہلے ایسی بھی دیکھی گئی۔جہاں پانی کی قلت وکثرت ایک ہی منظر میں نظر آرہی تھی۔سیلاب کا پانی بڑی مقدار میں سمندر کی طرف جاتا دکھایا گیا۔اسی سیلابی پانی میں ایک دستی نلکاایک شخص دستی کو ہلا کر پانی نکالنے کی کوشش کررہاتھا۔اور دوسرا شخص بوند بوند نکلتے ہوئے پانی سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کررہا تھا۔پانی جو کمیاب بھی ہے اور فالتو بھی۔آج کل برسات کا موسم ہے۔تمام صوبوں سے پانی برسنے کی خبریں آرہی ہیں۔شمال میں تو کئی علاقوں میں بارش نے سیلاب کی شکل اختیار کرلی ہے۔یہ فالتو پانی سڑکوں،پلوں،عمارات اور کئی دیگر اثاثوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اسی پانی کے فالتو ہونے کی وجہ سے کئی قیمتی اثاثے سیلاب برد ہورہے ہیں۔کچھ ہی دنوں میں میدانی علاقوں میں بھی دریا اپنے کناروں سے باہر آجائیں گے۔فصلیں اور جانور پانی کی زد میں آکر بہہ جائیں گے۔گاؤں کئی سیلاب میں بہہ جائیں گے۔دریا زمینوں کو کاٹ کر مٹی اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔یوں بے شمار زرعی رقبے دریا برد ہوتے جارہے ہیں۔ہمارے ملک میں سیلابوں کا سلسلہ 2010ء سے تسلسل سے جاری ہے۔بے شمار فالتو پانی سمندر میں شامل ہورہا ہے۔اور شامل ہونے سے پہلے بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ رہی ہیں۔ہم پاکستانی یہ منظر سالہا سال سے دیکھ رہے ہیں۔سیلاب کے دنوں میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں کچھ بھاگ دوڑ کرتی نظر آتی ہیں۔کچھ گرانٹوں کا اعلان ہوتا ہے۔سکول اور ہسپتال جنکو نقصان پہنچتا ہے۔اس کی مرمت کی کوشش کی جاتی ہے۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ گزشتہ سیلاب کے نقصانات کو پورا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ نئے سیلاب نے نقصانات میں اور اضافہ کردیا ہوتا ہے۔مرمتوں کی مرمت اور گرانٹوں پر مزید گرانٹوں کا اعلان ہوتا رہتا ہے۔اگر گزشتہ سیلاب میں ایک پورا سکول بہہ گیاتھا۔تو اس کی تعمیر کے لئے طے شدہ سرکاری طریقے کے مطابق ابھی حصہ باقی تھا کہ سیلاب پھر آگیا۔تباہی پھر ہوگئی۔سکول،ہسپتال۔ڈسپنسریاں ،سڑکیں اور پل۔ ہر سال یہ بہتاہوا پانی اربوں کا نقصان کرجاتا ہے۔بے شمار نقصان پہنچانے کے بعد یہ سمندر میں جاگرتا ہے۔اور سمندر جو کُل ہے اپنے اس جزو کو آرام سے گلے لگا لیتا ہے۔ہمارے پیارے ملک میں یہ کام دہائیوں سے جاری ہے۔اس سیلابی پانی کو سنبھالنے اور محفوظ کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا۔اسے زراعت کے لئے فائدہ مند بناتے اوربجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتے۔لیکن ڈیم بنانے کاکام منگلا اور تربیلا کے بعد ختم کردیاگیا۔80ء کی دہائی میں کالا باغ ڈیم شروع ہوناتھا۔یہ سیاسی اختلافات کا شکار ہوگیا۔اب ہم پاکستانی کبھی کبھار بھاشا ڈیم کا نام سن لیتے ہیں۔لیکن ماہرین بتاتے ہیں کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر واقعی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔دور دراز اور سنگلاخ پہاڑی علاقے میں بھاشا ڈیم کی تعمیر۔یہ ایک خواب ہے۔نہ جانے کب شرمندہ تعبیر ہوگا۔جو جھیل پانی کے ذخیرہ کے لئے تعمیرہونی ہے۔اس کے راستے میں150۔کلومیٹر شاہراہ قراقرم آتی ہے۔اس شاہراہ کو متبادل جگہ تعمیر کرنا ایک اور مشکل۔یہ بھاشا ڈیم تب مکمل ہوسکے گا۔جب لمبی مدت کے لئے کم ازکم 15۔ارب ڈالر قرض دستیاب ہوگا۔داسو کی تعمیر بھی کوئی آسان نہیں ہے۔ان تمام مشکلات کا واپڈا کے ماہرین کو خوب اندازہ ہے۔اسی لئے چئیر مین واپڈا نے کئی اقساط لکھ کر کالا باغ ڈیم کی طرف لوگوں کو دوبارہ متوجہ کیا ہے۔کہ شاید چھوٹے صوبے اب بھی سمجھ جائیں۔کالا باٖغ ڈیم کی تعمیر انتہائی آسان ہے۔اور بہت ہی کم لاگت بھی۔پاکستان میں پانی کی سطح تیزی سے نیچے جارہی ہے۔کیونکہ زراعت کا 40۔فیصد انحصار ٹیوب ویلز پر ہے۔جوپانی کو تیزی سے زمین سے باہر کھینچ رہے ہیں۔مجھے ذاتی طورپر پانی کی سطح کا تجربہ ہے۔جب1963ء میں اپنے جھنگ کے رقبہ پر بجلی سے چلنے والا ٹیوب ویل لگایا تھا ۔تب زمین کے نیچے18فٹ پر پانی تھا۔اب اسکی سطح 150۔فٹ پر ہے۔اس سے پورے ملک میں پانی کی سطح کا ایک رف سا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔لاہور جیسے شہر جہاں ٹیوب ویلز شہریوں کو پانی سپلائی کرتے ہیں۔وہاں بھی یہ سطح اب بہت ہی نیچے جاچکی ہے۔پانی زیادہ گہرائی سے نکالنا اب بہت مہنگا ہوگیا ہے۔بہت سے علاقے صرف اس لئے بنجر پڑے ہیں کہ وہاں ہم پانی نہیں پہنچا سکتے۔اس کی وجہ پانی کی شدید قلت ہے۔زراعت،صنعت اور عام لوگوں کو پانی اب بہت کمیاب اور مشکل سے دستیاب ہورہا ہے۔کراچی جیسے شہروں میں تو لوگ ہر وقت پانی لانے کے لئے برتن اٹھائے پھرتے ہیں۔پانی کی سپلائی آتی نہیں۔لوگ دوردراز علاقوں سے پانی بھر کر لاتے ہیں۔یہ وہی منظر ہے جو دیہاتوں میں نظر آتا ہے۔جہاں خواتین دوردراز کے علاقوں سے پانی لاتی دکھائی جاتی ہیں۔بات وہی پانی پاکستان میں کمیاب ہے۔25سال بعد جب آبادی دگنی ہوجائیگی تو یہ کمیابی اور بھی محسوس ہوگی۔پانی کی سطح رقبہ کے لہاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بہت گہری ہے۔پاکستان ان36۔ممالک میں شامل ہے۔جہاں پانی کی قلت کا شدید مسٔلہ درپیش ہے۔زرعی پانی مہیا کرنے کے اخراجات پورے وصول کرنے چاہئے۔تاکہ حکومت کے پاس وسائل اکٹھے ہوں۔ اور اس کو مزید پانی کی فراہمی کے لئے استعمال کیا جاسکے۔جو آبیانہ حکومتوں کو وصول ہوتا ہے۔وہ اخراجات کا24فیصد ہے۔اسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔پوری پاکستانی قوم کو2025ء تک274۔ایم۔اے۔ایف پانی کی ضرورت ہوگی۔لیکن اس وقت سپلائی191۔ایم۔اے۔ایف ہوگی۔یوں طلب اور رسد کا فرق83۔ایم۔اے۔ایف ہوجائیگا۔پاکستانیوں کو برسات کے فالتو پانی کو جھیلوں اور ڈیمز کے ذریعے محفوظ بنانے کی طرف فوری توجہ دینی چاہیئے۔پورے ملک میں دریاؤں پر جہاں جہاں جھیلیں اور ڈیمز بن سکتے ہوں بنائے جائیں۔سیلابی پانی نقصان دہ کی بجائے فائدہ مند بنایاجائے۔پاکستان کا یہ تضاد کہ پانی کمیاب بھی ہے اور فالتو بھی۔اسے ختم کرنا ضروری ہے۔پانی کو زراعت اور شہروں میں کفایت شعاری سے استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے نئی اور جدید ٹیکنالوجیزاستعمال کی جائیں۔چھوٹے صوبوں کو چئیرمین واپڈا کی طرف سے پیش کی ہوئی نہایت معتبر تجاویز جو کالا باغ ڈیم سے متعلق ہیں۔توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔چاروں صوبوں کے پانی کے انجینئرز اگر مخلصانہ انداز سے مسٔلہ حل کرنا چاہیں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔کالا باغ ڈیم کا مسٔلہ خود قوم نے ہی حل کرنا ہے۔اس کا تعلق بھارت یا افغانستان سے تو نہیں ہے۔پانی کی قلت کو ختم کرنا ہے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.