پاکستان میں لا ئبریری وانفارمیشن سائنس کی
تعلیم کے سو سال(1915-2015)
(یہ مضمون مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے بعنوان ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے
فروغ اور کتب خانوں
کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ سے موخوذ ہے۔یہ مقالے کا
چوتھا باب ہے۔
مقالے پر مصنف کو جامعہ ہمدرد سے 2009 میں ڈاکٹریٹ کی سند دی)
خلاصہ :
لائبریری و انفارمیشن سائنس ایک علم ہے جو عرصہ دراز سے دنیا کی جامعات کے
نصاب میں شامل ہے۔ پاکستان میں اس علم کی باقاعدہ تعلیم کی ابتدا سو سا قبل
1915میں جامعہ پنجاب سے ہوئی تھی۔ آج یہ علم پاکستان کی متعدد جامعات کے
نصاب کا حصہ ہے۔ اس علم کی سو سالہ تاریخ کو اختصار سے بیان کیا گیا ہے ،
تعلیم کے ساتھ ساتھ اس علم میں ہونے والی تحقیق کی تفصیل بھی درج کی گئی
ہے۔ یہ مضمون مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے سے ماخوذ ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ
انٹر میڈیٹ میں لا ئبریری سا ئنس کے بطور اختیا ری مضمون متعارف ہو جا نے
کے بعد انٹر اور ایم اے کے درمیا ن کے خلا کو پر کر نا ہر اعتبا ر سے ضروری
تھا۔ اس مر حلہ پر بھی کرا چی نے پہل کی ۔ سندھ کو نسل آف اسکول و کا لج لا
ئبریرینز نے تحریری طور پر اپنے مکتوب بنام شیخ الجا معہ کرا چی ۲۹ نو مبر
۱۹۷۸ء درخواست کی کہ لا ئبریری سا ئنس کو بطور اختیا ری مضمون بی اے کے
نصاب میں شا مل کیا جا ئے۔ اپنے اس مطا لبہ کے حق میں کو نسل نے کئی دلا ئل
بھی دئے۔ درخواست شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس ، جا معہ کرا چی کو
بھیج دی گئی۔ چیر مین شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس نے ابتدائی جواب
کو نسل کے صدر کو اپنے خط بتا ریخ ۷ دسمبر ۱۹۷۹ء میں لکھا کہ یہ معاملہ
آئندہ ہو نے والے بورڈ آف ا سٹڈیز کے اجلاس ۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء میں زیر بحث لا
یا جا ئیگا (۲۰۶) طے شدہ ایجنڈہ کے مطا بق بورڈ آف ا سٹڈیز میں یہ مسئلہ
زیر بحث آیا۔چیٗر مین شعبہ لا ئبریری و انفارمیشن سا ئنس نے اپنے خط مورخہ
۲۴ جنوری ۱۹۷۹ء سندھ کو نسل آف اسکول و کا لج لا ئبریریز کے صدرکواپنے
فیصلہ سے آگاہ کر تے ہو ئے لکھا کہ ’’ لا ئبریری سا ئنس ایک پوسٹ گریجویٹ
کورس ہے ا ور یہ انڈر گریجویٹ سطح پر شروع نہیں کیا جا سکتا (۲۰۷)۔
سندھ کو نسل آف اسکول و کا لج لا ئبریریزنے اپنے مقا صد کے حصول کے لیے
جدوجہد کا آغاز کیا۔ مختلف سیاسی ‘ سما جی ‘ تعلیمی ‘ جا معہ کرا چی کی
اکیڈمک کو نسل و سینٹ کے اراکین ‘ منتخب نما ئندوں اور لا ئبریرین شپ سے
تعلق رکھنے وا لی اہم شخصیات کو مسئلہ کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا۔ اس سلسلے
میں انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جا ت کے صدر حکیم محمد سعید سے درخواست کی
گئی کہ وہ اس التواء شدہ مسئلہ کو حل کرا نے میں کر دار ادا کریں۔آپ نے اُس
وقت کے وائس چا نسلر ‘ کر اچی یو نیورسٹی کے نا م اپنے خط مورخہ ۱۲ مارچ
۱۹۷۹ء (۲۰۸) میں اس اہم مسئلہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس مضمو ن کو بی
اے کے نصا ب میں شامل کر نے کی سفارش کی۔
آپ کے خط کا اردو تر جمہ حسب ذیل ہے۔ ( خط کا عکس ضمیمہ ۱ )
وائس چانسلر کرا چی یونیورسٹی کے نا م حکیم محمد سعید کا خط
’’میں یہ خط بی اے میں لائبریری سا ئنس بطور اختیاری مضمون متعارف کرانے کے
سلسلے میں لکھ رہا ہوں طلباء ‘ والدین اور کتب خانوں کی تر قی میں دلچسپی
رکھنے وا لوں کے شدید مطالبہ جنہوں نے مجھ سے بطور صدرانجمن فروغ و تر قی
کتب خا نہ جا ت (اسپل) رابطہ کیا۔ علاوہ ازیں اخبارات میں شائع ہو نے والے
خیا لات کے با عث میں نے یہ خط لکھنے کی ضرورت محسوس کی۔ اسپل بطور شہریوں
کی تنظیم کے اپنی ذمہ داری محسوس کر تی ہے کہ اس جو ش انگیز مسئلہ پر توجہ
دے اور یو نیورسٹی کے حل وعقد سے اس معا ملہ پر منا سب توجہ مبذول کر نے کی
درخواست کر ے۔
جیسا کہ آپ جا نتے ہیں کہ اسپل پاکستان میں کتب خا نوں کی تر قی اور فروغ
میں مصروفِ عمل ہے۔ میں اس کی سر گرمیوں اور ان کا مرانیوں کی تفصیل میں جا
نا نہیں چا ہتا جو اس نے کر اچی میں انجام دیں لیکن میں یہاں بطور خا ص جا
معہ کر ا چی میں جا ری کر دہ ’’اسپل گولڈ میڈل ‘‘ کا ذکر ضرور کرونگا جس کا
مقصد پا کستان میں لا ئبریری تعلیم کا معیار بلند کر نا اور ذہین لو گو ں
کو اس شعبہ کی جا نب متوجہ کر نا ہے۔ پا کستان میں لا ئبریری تعلیم کے
حوالہ سے اسپل کی دلچسپی کا یہ انتہا ئی واضع ثبوت ہے۔
میں سمجھتا ہو ں کہ ڈگری کلاسیز میں لا ئبریری سا ئنس کو اختیا ری مضمون کی
حیثیت سے متعارف کرا نے سے لا ئبریر ی سا ئنس کی اعلیٰ تعلیم کا معیار ایم
اے کی سطح پر مزید بلند ہو گا۔ میں دیگر بے شما ر خو بیوں کا تصور کر سکتا
ہوں جو ڈگری کی سطح پر لا ئبریری سا ئنس کے بطور اختیا ری مضمون متعارف ہو
نے سے طلباء پر مشتق ہو نگی۔ پیشہ ورانہ کورس کے اجراء سے قوم پر جو فوائد
مستبط ہو نگے ان کے پیش نظر میں شدت سے محسوس کر تا ہوں کہ یونیورسٹی خصو
صیت کے ساتھ کورس کے اجراء کو فو قیت دے۔ لہذٰ ایسا کر نے سے ہم پانچویں تر
قیا تی منصو بہ کی تجویز ملا زمت فراہم کر نے والی تعلیم Job Oriented
Education پر عمل پیرا ہو سکیں گے‘‘۔
حکیم محمد سعید
لا ئبریر ی سائنس کے اس مسئلہ میں آپ کی دلچسپی کی دوسری مثال یہ ہے کہ
۱۹۸۰ء میں راقم الحروف نے اپنے کتاب ’ابتدائی لا ئبریری سائنس ‘ محترم حکیم
صا حب کی خدمت میں ارسال کی ساتھ ہی حکیم صاحب کی توجہ بی اے میں لا ئبریری
سا ئنس کے التوا کے معا ملے پر مبذول کرائی۔ آپ نے اپنے جواب مورخہ ۱۶ جون
۱۹۸۰ء (۲۰۹) میں نہ صرف کتاب کی وصولیا بی پر شکریہ ادا کیا بلکہ التوا شدہ
مسئلہ پر کچھ اس طرح استفسار کیا۔ (خط کا عکس ضمیمہ نمبر ۱ )
’’لا ئبریری پروموشن کی یہ دو مطبوعات مجھے مل گئی ہیں ۔ اس ہدیہ علمی کے
لیے میں آپ کا دلی شکریہ ادا کر تاہوں ’’ پا کستان لا ئبریری بلیٹن ‘ میں
نے تلاش کرا یا ہے ۔ اگر آیا ہو گا تو لا ئبریری سے مجھے مل جا ئے گا اور
میں اس کا مضمون جس طرف آپ نے رہنما ئی کی ہے ضرور دیکھوں گا۔اکیڈمک کو نسل
جا معہ کر اچی کے ارکان کی ایک فہرست مجھے بھجوادیجیے۔ نیز شیخ الجا معہ کی
خدمت میں جو خط میں نے بھجوا یا تھا اس کی ایک نقل بھی‘‘۔ آپ کا مخلص
حکیم محمد سعید
اس دوران پا کستان لا ئبریری ایسو سی ایشن اور پنجاب کا لج لا ئبریری ایسو
سی ایشن نے مشترکہ طور پر ’کا لج لا ئبریریز کے مسائل ‘ پر ایک سیمینار
منعقد کیا ۔ سیمینا ر میں’معلو ما ت کی سا خت اور استعمال‘ پر مبنی کورس کے
اجراء کی تجویز پیش کی گئی۔ڈا کٹر انیس خورشید کے مطا بق’’ بعد میں
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن( اب اس کا نا م ہا ئیر ایجو کیشن کمیشن ہے) نے۱۹۸۰
ء میں ان تجا ویز کی حما یت کی جب اس نے بی اے ‘ بی کا م اور بی ایس سی کے
لیے لا ئبریری اسٹڈیز کے نصا ب کی منظوری دی۔ بنیا دی طور پریہ کتب کے
استعمال پر مبنی کورس تھا۔حکو مت نے اس کورس کی تشکیل کے لیے ایک قو می
کمیٹی بھی بنا ئی ۔پا کستان لا ئبریری ایسو سی یشن کے سیکریٹری جنرل سائیں
محمد ملک نے اس مسئلہ کے حل کی کوشش کی اوریہ نصاب ۱۹۸۸ ء میں منظور ہو
گیا۔ یہ خا ص طور پر کتب کے استعما ل پر مبنی کورس کے طور پر مر تب کیا گیا
تھا جس کا مقصد لا ئبریری سا ئنس کو ایک نصا ب کے طور پر متعارف کرانا تھا
اور طلبا ء میں کتا بو ں اور کتب خا نوں کے استعما ل کا ذوق پیدا کر نا تھا
(۲۱۰) ۔ڈا کٹر خورشید کے مطابق دوسری فیکلٹیزسا ئنس اور کا مرس نے اس کورس
کوقطعاً قبول نہیں کیا(۲۱۱)۔ غا لباًسا ئنس اور کا مرس کے طلباء کے لیے اس
کورس میں کسی بھی قسم کی کشش نہیں تھی۔ پیشہ واریت(Professionalization)
اور ملازمت دلا نے والی تعلیم (Job Oriented Education) کے اس دور میں جب
کے طلباء کلیہ فنون کے بے شما ر مضا مین سے دور ہو تے جا رہے ہیں اس قسم کا
مضمو ن جو ما رکس کے سا تھ ساتھ ڈویثرن یا گریڈ (Grade)میں بہتری کا با عث
نہ ہو کیسے قبول کر سکتے تھے۔ جب کہ بی اے ‘ بی کا م (B.Com.)اور بی ایس
سی(B.Sc.) کے لیے بنا ئے جا نے والے اس مضمون کو طلبا ء نے صرف اور صرف
اپنی معلومات میں اضا فہ کے لئے ہی پڑھنا تھا۔ چنانچہ یہ کورس بی کا م اور
بی ایس کے لیے بے سود ثا بت ہو ا۔ البتہ اسی کورس نے بی اے کے لیے لا
ئبریری اسٹڈیز سے لا ئبریری سا ئنس کے نا م کے سا تھ سا تھ ایک اختیا ری
مضمو ن کی حیثیت اختیا ر کر لی اور اب یہ کورس جا معہ کر اچی سے ملحق کئی
کا لجو ں کے علاوہ پنجاب کے کئی کالجوں میں بھی پڑھا یا جارہا ہے ۔
۱۶ ۔۱۷ مئی ۱۹۷۹ ء کو ا سلا م آباد میں یونیور سٹی گرانٹس کمیشن کی قا ئم
کر دہ کمیٹی برائے نظر ثانی نصاب (Curriculum Revision Committee), UGC) نے
نصا ب تشکیل دیا۔ جا معہ کرا چی کے بورڈ آف اسٹڈیز (Board of Studies) نے
قومی نصاب کمیٹی کے نصاب کو اپنے اجلا س مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۷۹ء کو منظور کر
تے ہو ئے فیکلٹی آف آرٹس کو منظوری کے لئے بھیج دیا جسے ۲۴ دسمبر ۱۹۷۹ء کو
بورڈ آف ا سٹڈیز کی سفارشات کو منظور کر تے ہو ئے اکیڈمک کو نسل کو منظوری
کے لیے بھیجا گیا جا معہ کر ا چی کی اکیڈمک کو نسل (Academic Council) نے
اپنے اجلاس مو ر خہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۰ء کو اس کی منظوری دی (۲۱۲) ۔ ایک سال بعد
نصاب پر عمل در آمد کے لیے اسے کرا چی کے کا لجوں میں بھیجاگیا ۔ اس اقدام
کے فوری بعد کرا چی کے سر سید گو رنمنٹ کرلز کا لج میں۱۹۸۲ء میں یہ مضمو ن
پڑھا یا جا نے لگا۔ اس وقت کر اچی کے سات کا لجوں میں یہ مضمو ن بی اے میں
پڑھا یا جا رہا ہے (۲۱۳)۔
۲۰۰۱ء میں ہا ئیر ایجو کیشن کمیشن ( سا بق یو نیورسٹی گرانٹ کمیشن) نے لا
ئبریری سا ئنس کے نصاب کو جدید دور کے تقا ضوں سے ہم آہنگ کر نے کے لیے ایک
قو می کمیٹی برا ئے نظر ثانی نصاب (Curriculum Revision Committe,
UGC)تشکیل دی۔ کمیٹی کا اجلا س ہا ئیرایجو کیشن کمیشن ( سا بق یو نیورسٹی
گرانٹ کمیشن) کے ریجنل آفس واقع لیا قت میمو ریل لا ئبریری بلڈنگ میں۲۶ تا
۲۸ فروری ۲۰۰۲ء منعقد ہوا۔ اس کمیٹی میں ۱۴ نمائندوں نے شرکت کی جن میں ۴
کالج کے نمائندے تھے کمیٹی برا ئے نظر ثانی نصاب نے بی اے کے نصاب پر نظر
ثا نی کی اور نصاب کو قو می تقاضوں کے مطا بق بنانے کی کوشش کی۔
لا ئبر یری میں کمپیوٹر کا استعمال ‘ بر قی ذرائع (Electronic Sources)‘ آن
لائن ذرا ئع (Online Sources)‘ ڈسک(Disc)‘ سی ڈیز (C.Ds)‘ فلاپی ڈسک
(Floppy Disc) کے علا وہ درجہ بندی اور کیٹلاگ سا زی پر مشتمل ۲۰ نمبر کا
پریکٹیکل بھی نصاب میں شا مل کیا گیا جو اس سے پہلے نہیں تھا(۲۱۴)۔اس طرح
یہ نصاب جدید تقاضوں کے مطابق تشکیل پا گیا۔
حوالے و حواشی
206. Akhtar Hanif. Chairman, Department of Library and Information
Science,
University of Karachi letter Dated Dec. 7, 1978 to Sajjad Sajjiad.
207. Akhtar Hanif. Chairman, Department of Library and Information
Science,
University of Karachi. letter dated January 24, 1979. to Sajjad Sajjiad.
208. Hakim Muhammad Said No. SPIL/79/1272, dated 12th March 1979 to
Vice Chancellor, University of Karachi.
۲۰۹۔ حکیم محمد سعید ، خط حوالہ نمبر ھ؍ن؍ف؍ل؍۱۱۷۸۰ ‘ کراچی : ۲ شعبان
المعظم ۔ ۱۴۰۰ہجری ۱۶ جون ۱۹۸۰ء بنام
رئیس احمد صمدانی (خط کا عکس ضمیمہ ۱ )
210. Anis Khurshid. Library Education in Pakistan, ref. 92, p. 26
211. Ibid.
212. Course of Studies for B. A. (Pass) Examinations of 1986 to onword/
Karachi: Dean Faculty of Arts, University of Karachi. p: 79
۲۱۳۔ ہما منان بٹ، بی اے میں لا ئبریری سا ئنس کی تعلیم کے مسائل( کر اچی:
لائبریری پروموشن بیورو ، ۲۰۰۲ء) ، صـ ۶
214. University Grants Commission.(Higher Education Commission)
Curriculum of Library Science for B.A/BLIS/MLIS (Revised 2002)
(Islamabad:UGC, 2002) , .52p. |