ترک بغاوت اور میڈیا کا کردار

محمدقاسم حمدان
رجب طیب اروان کی طلسماتی شخصیت کایہ سحر تھاکہ ترک عوام نے انہیں2002ء سے لے کر 2015ء تک ہرالیکشن میں فتح سے ہمکنار کرایااور ہردفعہ ان کے ووٹوں کی شرح حیرت انگیز طورپر بڑھتی رہی۔ صدارت کے انتخابات میں انہوں نے 52فیصد ووٹ لے کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ ان کامیابیوں کااصل سبب ان کی دیانت،حب الوطنی اوراخلاص ہے۔ اردوان نے بحرانوں میں گھرے ترکی کو اوج ثریا پرپہنچادیاہے۔تیسری دنیایامسلم ممالک کی ابتری ،غربت اور بدحالی کی اصل وجہ ان کاآئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے سودی قرض ، ان اداروں کی من مانی شرائط اورجکڑبندیاں ہیں۔ترکی بھی 2002ء تک انہی گھمبیر حالات میں پھنساہواتھا۔عالمی طاقتیں اسے مرد بیمارکہہ کر یاد کرتی تھیں ۔

اردوان نے جب ترکی کی زمام اقتدار سنبھالی تو کایاہی پلٹ کررکھ دی۔ انہوں نے سب سے پہلے آئی ایم ایف کے ظالمانہ شکنجے سے نجات کافیصلہ کیااور اس کے 24بلین ڈالر اس کے منہ پر دے مارے ۔اردوان کے دور میں جی ڈی پی میں64فیصد اضافہ ہوا اورمہنگائی کی شرح جو 32فیصد تھی کم ہو کر8فیصد تک آپہنچی ۔قومی ذخائر بمشکل 25بلین ڈالر تھے جو اردوان کی محنت اور جہدمسلسل سے 135بلین ڈالر پرجاپہنچے۔ ایک ڈالر کے 222لیرے تھے،اب ڈالر کی قیمت تین لیرا سے بھی کم ہے۔ ترکی نے جو ترقی صرف بارہ سال میں کی وہ فوجی آمراورآمریت کی چھتری تلے بننے والی حکومتیں سترسال میں بھی نہ کرسکیں۔عوام نے تسلیم کیا کہ اصل اور عظیم اتاترک توطیب اردوان ہیں۔طیب اردوان نے فریڈم فلوٹیلا کے مسئلے پر اسرائیل کو جھکنے اورمعافی مانگ کرہرجانہ ادا کرنے پرمجبور کیا۔اردوان نے کردوں کوقومی دھارے میں مذاکرات کے ذریعے کیا۔کسی دور میں ترکی میں کرد زبان تک بولنا ممنوع تھا۔ اردوان کی شہرت اور اسلام سے والہانہ محبت اور سیکولرزم کی دم توڑتی نزع جیسی حالت سے مغرب اوروہاں کاسیکولر میڈیاگھبراہٹ کا شکار تھا۔ چنانچہ اردوان کی کردارکشی کی مہم شروع کردی گئی ۔ان کے بہت سے جھوٹے سکینڈلزبنائے گئے۔ کرپشن سمیت کئی ایک الزامات لگے۔ ایک الزام یہ تھا کہ انہوں نے میڈیا کی آزادی کو سلب کردیاہے۔ ترکی میں یورپ کے دیگر 16ممالک کی طرح 1920ء سے یہ قانون ہے کہ ریاست کے صدر جووفاق کی علامت ہیں کی تضحیک وبے عزتی کرناجرم ہے۔ اردوان ترکی کے سربراہ مملکت میں ان کی بے عزتی کرنے والے کو عدالت میں لے جایاجاتا ہے۔ترکی میں کچھ میڈیاہاؤسز،اخبارات اورچینلز نے ہمیشہ منفی کرداراداکیا۔گولن کے زیراثربغاوت کی راہ واضح اورخفیہ ہموارکی جبکہ یہ میڈیا ہی تھاجس نے سی این این کی صورت بغاوت کی ناکامی میں ہراول دستے کاکرداراداکیا۔بہرحال ترکی میں قانون کوقانون سمجھاجاتاہے اوراس پرعمل درآمد بھی ہے۔ ہمارے ہاں کامیڈیا تو شتربے مہار ہے۔پیمرا اس کے سامنے بھیگی بلی ہے۔یہ جس کی چاہے پگڑی اچھال دے۔ یہاں توفوج اورآئی ایس آئی پرکیچڑاچھالنامحبوب مشغلہ ہے۔ انڈیامیں کبھی ایسانہیں ہواکہ کوئی چینل وہاں کی خفیہ ایجنسی بارے کچھ ایساکہہ سکے ۔وہاں کے چینلز کوکوئی سول ادارہ نہیں بلکہ ’’را‘‘ کنٹرول کرتی ہے۔لیکن یہاں تومیڈیا کابھوت وزیراعظم کوبھی معاف نہیں کرتا،ان کی کردارکشی ہوئی اور باربار یہ کہاگیا کہ وزیراعظم کی بیماری ایک ڈرامہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے آزادی کے ایک جانباز برہان وانی کوشہید کہالیکن ہمارا میڈیابھارت سے بڑھ کر بھارت نوازبناہواہے۔ اس نے برہان وانی کودہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

ترکی کی موجودہ ناکام بغاوت پربھی مغرب اوراس کی ہمنوائی کرنے والوں نے اسے طیب اردوان کاڈرامہ کہا۔اردوان کو الزام دینے والوں کے ساتھ بہت بڑاڈرامہ قدرت کی طرف سے ہواہے۔
وَمَکَرُوا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔(آل عمران:54)
’’اورانہوں نے خفیہ تدبیرکی اور اﷲ نے بھی خفیہ تدبیرکی اور اﷲ سب خفیہ تدبیرکرنے والوں سے بہترہے۔‘‘
حقائق یہ ہیں کہ 15جولائی2016ء کوجب انٹیلی جنس سروس کے سربراہ کوبعض مصدقہ ذرائع سے پتہ چلاکہ آرمی میں کچھ حضرات کی سرگرمیاں باغیانہ روش کی طرف مائل ہیں تو انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل خلوصی آقار سے ملاقات کی۔ چیف آف آرمی سٹاف سے انٹیلی جنس سربراہ کی ملاقات سے چیف آف جنرل سٹاف کے ADCبھی آگاہ ہوگئے ۔ADCچونکہ باغیوں کے ساتھی تھے۔ انہوں نے اس ملاقات کااحوال باغیوں کی کمانڈ کرنے والے سرغنہ کو بتایا۔بغاوت کی ناکامی کے خوف سے باغیوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے رات تین بجے کے مقررہ وقت کو تبدیل کرکے رات دس بجے کا وقت طے کیا۔ اس سے قبل حکومت کاتختہ الٹنے کے لیے ماہ اگست کاوقت مقرر کیاگیاتھالیکن ماہ اگست میں صدراردوان کی قیادت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی فوجی شوریٰ کے اجلاس جس میں کئی ایک جنرلوں کوریٹائر کیے جانے اور ان کی جگہ نئے جنرل متعین کیے جانے تھے۔اس طلاع کی وجہ سے اگست کی بجائے 15 جولائی2016ء کی تاریخ طے کی گئی۔ رات ساڑھے گیارہ بجے چیف آف آرمی سٹاف جنرل خلوصی آقار کویرغمال بنالیاگیااور ان کو انقرہ کے قریب ایک ائیربیس پر نظربندکردیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ اس بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے جنرل کنعان ایورن بن جائیں۔اس موقع پر ان باغیوں نے فتح اﷲ گولن چیف سے چیف کی بات کرانا چاہی توانہوں نے اس سے صاف انکار کردیا۔ترکی کی اس ناکام بغاوت کے بارے مغرب کاکرداربھی اس بغاوت کے بعدکھل کرسامنے آگیا۔وہ جمہوریت وانصاف کواپناطرہ امتیازکہتے ہیں اوردنیاکومعاشی انحطاط سے نجات دلانے‘رویوں میں نرمی لانے اور برداشت کی بات کرتے ہیں۔ترکی کی ناکام بغاوت کے بعد وہاں باغیوں کوسزادینے کے لیے تین ماہ کی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔معرب اس پر چیں بچیں ہے۔ فرانس کے وزیرخارجہ نے ترکی میں دوروز قبل پارلیمنٹ کی توثیق سے تین ماہ کے لیے آئین کے مطابق نافذ کی گئی ایمرجنسی کی بڑھ چڑھ کر مخالفت اورمذمت کی ہے۔ حالانکہ ترکی میں ایمرجنسی کے نفاذ سے ایک روز قبل ہی فرانس میں تین ماہ قبل نافذ کی گئی ایمرجنسی میں صدرفرانس نے چھ ماہ کی توسیع کا فرمان جاری کیاہے۔بغاوت کے لیے ترکی میں قائم امریکی ائیربیس کو بھی استعمال کیاگیا۔اس وقت کئی ایک فوجی افسروں نے وہاں پناہ لے رکھی ہے۔جیسے بغاوت کے سرغنہ گولن نے امریکہ میں پناہ لے رکھی ہے۔

اسی طرح مغربی میڈیا نے بھی ترکی کے حوالے سیے زہرآلود اورجھوٹ پرمبنی مہم چلارکھی ہے۔ اسی مہم کے تحت بہت سی ایسی لاشیں چینلز پردکھائیں جو وردی میں ملبوس تھیں۔انہیں ترک فوجی بتایاگیا حالانکہ یہ2014ء میں یوکرائن کے اندردرجنوں فوجیوں کی لاشیں تھیں جن پر یہ سرخی جماکرپوری دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی کہ یہ ترک فوجیوں کی لاشیں ہیں۔ بغاوت کوناکام ہوتادیکھ کر ترکی کے دوست نمادشمنوں نے اپناموقف گھنٹوں میں بدل کر یہ راگ الاپناشروع کردیاکہ ان کاملک ترکی میں استحکام کاحامی ہے۔

بغاوت کو کچلنے کے لیے فوج اورپولیس نے جومزاحمت کی وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ باغیوں نے انقرہ میں آرمی ہیڈکوارٹرمیں آکر چیف آف سٹاف خلوصی آقارکے آفس میں زبردستی گھس کر آرمی چیف کے گارڈز کے روکنے پران پرگولی چلادی۔ان باغیوں نے خلوصی آقار کے بغاوت کاحصہ بننے سے انکار پران کاگلادبایاتا کہ وہ الٹی میٹم پردستخط کرنے پرمجبور ہوں لیکن جب وہ ناکام ہوئے تویہ باغیوں کی شکست کاپہلا قدم تھا۔ا س کے بعد باغیوں نے سپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر میں داخل ہوکر سپیشل فورسز کے کمانڈر میجرجنرل ذکائی آق کو گرفتارکرناچاہاتو ان کے ایڈجوٹنٹ نے کسی تاخیرکے بغیراپناپسٹل نکالااور باغی جنرل کے ماتھے پر گولی چلادی۔یہ جنرل وہیں ڈھیر ہوگیالیکن جواب میں ایڈجوٹنٹ نے اپنی شہادت پیش کرکے باغیوں کا راستہ روک دیا۔باغیوں نے خفیہ پولیس کے ہیڈکوارٹر میں ہیلی کاپٹر ز کے ذریعے اپنے فوجی اتارے جنھوں نے اندھادھند فائرنگ کرکے کافی تعداد میں پولیس کے جوان شہید کر دئیے لیکن پولیس نے مقابلہ کرکے باغیوں کوگرفتارکرلیا۔پارلیمنٹ پربمباری کی گئی ۔تاکہ ارکان خوفزدہ ہوکربھاگ جائیں لیکن انہوں نے کہاوہ آئینی حکومت کاہرقیمت پردفاع کریں گے۔

اسی طرح صدراردوان مرمریس شہرمیں ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔بغاوت کے بعدوہ ہوٹل سے نکل آئے اور کچھ دیربعد اس ہوٹل پربمباری کی گئی۔ صدروہاں سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکلے جسے لائٹس بند کرکے اورنیچی پرواز کاحکم دیاگیا۔صدر کی حفاظت پرمامورجنرل جواس وقت انقرہ میں تھے وہ باغیوں سے ملے ہوئے تھے۔انہوں نے باربار فون کر کے ہوائی روٹ دریافت کرناچاہا مگراردوان بحفاظت استنبول پہنچ گئے۔ باغیوں نے سرکاری ٹی وی پرتوکنٹرول کرلیاتھالیکن پرائیویٹ چینلز کوبندنہ کرسکے۔انہوں نے پرائیویٹ چینلز کی نشریات روکنے کے لیے انقرہ کے گولپاشی کے علاقے میں ترک ساٹ سیٹلائٹ اسٹیشن تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن ٹارگٹ محفوظ رہا۔یہ قدرت کی طرف سے اروان کی نصرت تھی کہ انہوں نے اس اثناء میں سی این این کے ذریعے عوام کوبغاوت کے سامنے سرسکندری بننے کاپیغام دیااور باغیوں کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑگئیں۔

عوام کے جوش وجذبات کے حوالے سے استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ہیڈڈاکٹرخلیل طوقار لکھتے ہیں کہ جب صدراردوان نے عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کی تومیں نے اپنی بیوی سے کہاکہ میں جارہاہوں۔بیوی نے یہ سنا تووہ بھی ساتھ چلنے پرمصر تھی۔اس اثناء میں دروازے پر دستخط ہوئی توان کی پڑوسن اپنی دوبیٹیوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ یہ لوگ سیکولر ذہن کے مالک تھے۔ اس عورت نے مجھے کہاکہ یہ وقت گھر میں رکنے کانہیں ۔

طوقار لکھتے ہیں کہ ہمارے گھر سے باسفورس پل تک گاڑی سے چوبیس منٹ کاراستہ ہے۔ وہ انسانوں سے بھراہواتھا۔ اس فاصلے کو بھرنے کے لیے تقریباً دس لاکھ لوگوں کی ضرورت ہوگی۔وہ واقعی اس وقت ہمارے علاقے میں تھے اورباقی علاقوں کاآپ خود سوچئے۔ اس مجمع میں خواتین ،بچے اور بوڑھے سبھی تھے۔ مساجد سے اعلان ہورہاتھا ،مرنے مارنے کے لیے تیار ہوجائیں۔باغیوں نے عوام پرٹینک چڑھادئیے، لوگ ٹینکوں کے نیچے کچلے گئے، ہیلی کاپٹرفائرنگ کررہاتھالیکن کوئی بھی پیچھے نہ ہٹا،کوئی بھی شش وپنج میں مبتلا نہ ہوا۔ اس رات ترکی کے عوام نے صرف اپنی منتخب حکومت کو بچانے کے لیے بلکہ اپنے ملک اور اپنی عزت کو بچانے کے لیے شہیدہوئے ،بچے یتیم ہوئے اور خواتین بیواہ ہوئیں۔

آخرمیں تمام اہل پاکستان کی طرف سے ترک قوم کو سلام کہ جنھوں نے بغاوت کوناکام بناکر پاکستان سمیت مسلم ممالک میں بغاوتوں کی سراٹھاتی راہیں مسدودکردی ہیں۔
 
Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 135028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.