مولانا مفتی احتشام الحق اپنے دوست مولانا مفتی محمدقاسم قاسمی کی نگاہ میں
(Abdol-Hakeem Shahbakhsh, )
گزشتہ ہفتہ اتوار چوبیس جولائی کی شام کو
بلوچستان کے ضلع کیچ میں ممتاز بلوچ عالم دین مولانا مفتی احتشام الحق آسیا
آبادی اور ان کے بیٹے کی شہادت نے سب کو متاثر کیا۔ مولانا آسیاآبادی کسی
مخصوص علاقے اور گروہ تک محدود نہ تھے اور ان کی خدمات سے سب فیض یاب ہوتے
رہے۔
مولانا احتشام الحق ایرانی بلوچستان کے حالات سے واقفیت رکھتے تھے اور
ہمیشہ وہاں کے علمائے کرام سے رابطے میں رہتے تھے۔ اسی حوالے سے صدر
دارالافتا دارالعلوم زاہدان اور سہ ماہی مجلہ ’ندائے اسلام‘ کے مدیراعلی نے
دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کی مجلس میں مفتی احتشام الحق شہید کے بارے میں
اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
درج ذیل میں مفتی قاسمی کی فکرانگیز باتوں کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش
ہے:
جب میں دارالعلوم کراچی میں درجہ اولی (پہلی جماعت) کا طالب علم تھا تو
مولانا احتشام الحق کے کمرے کا ساتھی بن گیا۔ میرے خیال میں اس وقت مولانا
درجہ سابعہ (موقوف علیہ) کے طالب علم تھے۔ طالب العلم ہونے کے باوجود آپ کا
رول طلبہ میں مصلحانہ تھا۔ مولانا ہمیشہ مدرسہ، طلبہ اور اپنے ساتھیوں کی
اصلاح کے لیے فکرمند رہتے تھے۔
ایک مرتبہ مولانا نے مجھ سے کہا: اگر خوب سبق پڑھنا چاہتے ہو تو ’تعلیم
المتعلم ‘ کی کتاب ضرور پڑھو۔ میں نے کہا کوئی استاذ نہیں جو مجھے یہ کتاب
پڑھائے۔ پھر انھوں نے خود یہ کتاب مجھے پڑھائی اور اس سے مجھے بہت فائدہ
ہوا۔
مولانا احتشام الحق رحمہ اللہ نے ’جمعیت طلبہ اہل سنت‘ (ایران) کی تاسیس
میں موثر کردار ادا کیا۔ زمانہ طالب علمی میں اپنے اساتذہ مولانا مفتی
محمدشفیع سمیت دیگر اساتذہ سے گہرا اور قریبی تعلق رکھتے تھے، حتی کہ ان
اساتذہ سے بھی تعلق رکھتے تھے جو صرف جامعہ کے استاذ تھے اور ان سے کوئی
سبق نہ تھا۔ مولانا مفتی محمدتقی عثمانی و دیگر اساتذہ سے دائمی تعلق رکھتے
تھے اور ان سے رابطہ میں تھے۔ نیز ایران کے علمائے کرام سے گہرا تعلق تھا۔
جب ایران سے کوئی عالم دین مثلا مولانا عبدالعزیز، مولانا شہداد، مولانا
محمدیوسف، مولانا خالد و غیرہم پاکستان جاتے، ضرور ناشتہ ، دوپہر یا شام کے
کھانے سے ان کی تواضع فرماتے اور مہمان نوازی کا حق ادا کرتے تھے۔
مولانا احتشام الحق شہید نے خود کو ایک ہی محاذ تک محدود نہیں کیا تھا؛ آپ
بیک وقت تمام باطل فرقوں کے خلاف مزاحمت کرتے اور عیسائی مشنریوں کے خلاف
سرگرم تھے۔ ایک مرتبہ حضرت شیخ الاسلام (مولانا عبدالحمید) کے پاس تشریف
لائے، تو ایک معصوم بچے کی طرح رو رو کر کہہ رہے تھے ہماری نئی نسل کے لیے
گرجاگھر بنائے جاتے ہیں، نئی نسل عیسائیت کی طرف جارہی ہے۔ آپ نئی نسل کے
لیے فکرمند تھے۔
مفتی احتشام الحق آسیاآبادی مدرسے کے امور میں تقوا کا دامن ہاتھ سے جانے
نہیں دیتے۔ مصالحت کرانے میں بڑے صبر و برداشت سے کام لیتے تھے۔ شاید اپنی
مقبولیت، اخلاص اور بڑی عمر کی وجہ سے بڑے بڑے کیسوں میں کامیابی حاصل کرتے
تھے، حتی کہ ایران کے علاقوں پیشین، ایرانشہر و غیرہ میں مصالحت کراتے تھے۔
اگر انہیں پتہ چلتا کسی استاذ اور طالب علم کے درمیان چپقلش پیدا ہوئی ہے،
فورا مصالحت کراتے۔ ایک مرتبہ انہیں معلوم ہوا ہمارے صوبے کے جنوب میں کسی
مدرسے کے مہتمم اور بعض اساتذہ کے درمیان غلط فہمی پیدا ہوئی ہے، تو آگے
بڑھ کر یہ مسئلہ حل کرایا۔
ان کی مقبولیت کسی علاقہ اور گروہ کی حدود سے آگے بڑھ چکی تھی۔ ان کی شہادت
نے سب کو سوگوار کیا، حتی کہ قوم پرست جماعتوں اور ذکری کمیونٹی کے رہ
نماوں نے بیان دیا اور ان کی شہادت کو عظیم سانحہ یاد کیا جو بلوچ سماج کو
بانجھ بنانے کی کوشش ہے۔ بعض نے اس واقعے کو بلوچستان اور بلوچ عوام کو
معاشرتی طورپر مفلوج کرنے کے لیے سازش یاد کی۔
مولانا احتشام الحق ایران کے حالات سے کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ میں نے
پاکستان میں ایسا کوئی عالم دین نہیں دیکھا ہے کہ اس قدر تفصیلات کے ساتھ
ایران کے حالات سے دلچسپی دکھائے۔ آپ مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ (بانیء
دارالعلوم زاہدان) اور مولانا عبدالحمید (صدر دارالعلوم زاہدان) سے محبت
کرتے تھے اور ہمیشہ ان کی خیریت دریافت کرتے تھے۔ جب ہماری ملاقات ہوتی
ہمیں معلوم تھا ہمارے داخلی مسائل کا کیسے احاطہ کرتے ہیں اور بعض اوقات
تجاویز سے بھی نوازتے تھے۔
آخر میں مولانا کے صاحبزادہ مولوی شبیراحمد رحمہمااللہ کے بارے میں عرض
کروں کہ آپ بھی بہت ہی مستعد اور ذہین تھے۔ اہلیت کے طورپر اور علمی لحاظ
سے مولوی شبیراحمد اپنے والد سے بہت ہی قریب تر تھے۔ یوں لگتا ہے کہ سوچ
سمجھ کر ان دونوں حضرات کو بڑی منصوبہ بندی کے بعد شہید کیا گیا۔ اللہ
تعالی ان کی مکمل مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے، پس ماندگان کو اجرجزیل
اور صبر جمیل عطا فرمائے اور بلوچستان کے عوام پر خصوصی کرم فرمائے۔ آمین
عبدالحکیم اسماعیل |
|