کسی نے ایک دانا آدمی سے پوچھا جمہوریت کسے
کہتے ہیں ؟دانا نے برملا کہا آزادی کو ۔سوال آیا آزادی کیا ہے؟ دانا نے
آسمان پہ اڑتے پرندوں کی طرف اشارہ کیا وہ دیکھ رہے ہو وہ آزاد ہیں ان کے
پر کھلے ہوئے ہیں ۔ان کی سانسیں تازہ ہوا سے بھری ہوئی تازہ دم ہیں وہ محنت
کرتے ہیں اور اپنے مقدر کا رزق کھاتے ہیں ۔شام ڈھلے اپنے آشیانوں میں لوٹ
آتے ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کر کے سو جاتے ہیں یہ آزادی ہے ۔شکاری ان کی تاک
میں بھی ہوتے ہیں مگر ان کا حوصلہ ان کو طاقتور رکھتا ہے ان کے پر طاقت ِ
پرواز کے ساتھ رب پہ شاکر ہیں ۔یہ، یہ بھی جانتے ہیں کہ دشمنوں کا گھیرا
اور داؤ جانے کب چل جائے مگر زندگی کے معاملے میں بھی رب پہ توکل کرتے ۔اور
ہم انسانوں کی جمہوریت؟ سوال در سوال آیا ۔ہم بھی آزاد ہیں رب نے آزاد ہی
بھیجا ہے انسان غلام نہیں ہے اس کے پاس علم ہے اسے تمام مخلوق پہ برتری ہے،
وہ مسجودِ ملائک ہے ،پتھروں کا سینہ چیر کر دودھ کی نہریں نکال لاتا ہے ،سمندر
کی گہرائی سے گوہرِآبدار کا جویا گر ہے،لہروں کا شناور ہے،آسمانوں کی حدوں
کو چھو کے چاند ستاروں تک رسائی کر ڈالی ہے دانا نے مسکراتے ہوئے کہا ۔مگر
وہ آزاد نہیں ہے بابا ہمارے ملک میں جمہوریت ہے مگر غلامی ہے بھوک ہے افلاس
ہے ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں قتل اور دہشت گردی کا بازار گرم ہے ،سوال
کی بیتابی عروج پہ تھی ۔ہاہاہا ،،دانا کا قہقہہ گونجا :او عقل کے اندھے
انسان پیدائشی جمہور ہے بس تجھے عقل ہی نہیں سن ـ:فرشتے حکم عدولی نہیں
کرتے جو حکم ملتا بجا لاتے کچھ اور نہیں سوچتے کیونکہ وہ جانتے اور سمجھتے
کہ اﷲ ان سے بہتر جانتا ۔یہ انسان ہی ہے جو اپنی سوچ کو دم پخت کرنے میں
لگا رہتا اﷲ کی مصلحت پہ چپ نہیں رہتا تاویلیں تلاشتا ۔سن نامعقول ،جہاں
تیری سوچ ختم ہو جاتی وہاں سے اﷲ کی حد شروع ہوتی تو کیا تری اوقات کیا
آزاد ہے نا جو مذہب چاہتا ہے اپناتا ہے رہی ملک کی بات تو حکمراں تو خود
چنتا کیا تجھے شعور نہیں دیا خدا نے کہ سوچ کے فیصلہ کر ؟اور دوسری طرف
دیکھ جو کرسی پہ بیٹھا وہ بھی انسان آزاد خود مختار کرسی کا غرور ہے نا نوچ
نوچ کے ٹیکسوں کے نام پہ اپنے بھائیوں کو کھا رہا ،شہادت کے فلسفے کو آڑ
بنا کے ظلم کے پہاڑ توڑ رہا۔رشوت،سفارش کے نام پہ بوٹیاں نوچ رہا انسان ہی
ہے ناں فرشتہ تو نہیں آزاد ہے نا ۔اپنی مرضی کا مالک پھر تو کیوں کہتا
جمہوریت نئیں ۔ حقیقت کو سمجھ تو بااختیار ہے آزاد ہے ۔رب نے تجھے درست اور
غلط کی سمجھ عطا کی ہے اس کا صیحح استعمال کر بچہ اسی میں تیری فلاح ہے تو
تو خوش قسمت ہے تیرے ہاتھ فلاح کا راستہ ہے تیرے پاس سنتِ نبیﷺ ہے۔اﷲ کی
مدد ہے ،اس سے بڑھ کر کیا چاہیے؟ کتاب و سنت کو تھام کے جمہوریت کو چلا سب
مسائل حل ہو جائیں گے ۔
قارئین : بات تو دانا کی درست ہے ہم الحمداﷲ کلمہ گو ہیں اور آقاﷺ نے ہر
بات ہر مسئلے کا حل نہ صرف بتا دیا بلکہ عمل پیرا ہو کر دکھایا معاملہ
حکومت کا ہو یا عدالت کا ،ریاست کا ہو یا خدمت کا ،نیابت کا ہو ۔ہر جگہ
رہنمائی کے در کھلے ہیں پھر کیوں ہم اس سے بے خبر ہیں ؟ شاید ہمیں اس
جمہوریت کا شعور نہیں جو اﷲ نے ہمیں دے کے بھیجی ہے ۔یا ہمیں اس جمہوریت کا
ادراک ہی نہیں جو صرف انسان کے حصے میں آئی ہے ۔ورنہ وہ یوں مار نہ
کھاتا۔تو ہماری بہتری اسی میں ٹھہری کہ ہم اس آزادی کو ٹھیک سے استعمال
کریں یہ نہ ہو کہ اﷲ کا غضب ہمیں آ لے اور ھم بھی بنی اسرائیل کی قوم کی
طرح نافرمان قوم کہلائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |