ہسپتال یا مذبحہ خانے……مسیحا یا قصائی

گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب نے غالباً پنجاب کے دماغی امراض کے سب سے بڑے ہسپتال جو کہ اب ٹیچنگ ہسپتال کا درجہ حاصل کر چکا ہے لاہور جنرل ہسپتال میں ہنگامی دورہ کیا گیا اگرچہ یہ دورہ ہنگامی تھا مگر میرے ذرائع کے مطابق ہسپتال کا عملہ صبح صادق سے ہی اس دورے بارے معلومات رکھتا تھااور اس حوالے سے ہسپتال کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف اور نرسز سبھی متحرک نظر آرہی تھی حتیٰ کہ وزیراعلیٰ کے دورے کے موقع پر بہت سارا سٹاف چھٹی کے باوجود بھی ہسپتال میں موجود نظر آیااور انکی گفتگو یہ تاثر دے رہی تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب آج اس ہسپتال کا وزٹ کرنیوالے ہیں ۔ ہسپتال کی انتظامیہ بھر پور جدوجہد کرتی رہے کہ ہسپتال کے انتظامات وزیراعلیٰ پنجاب کو پسند آجائیں اور وہ ہماری تعریف کر کے چلے جائیں مگر بد قسمتی سے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے تدبر اور انکی فہم و فراست کو داد دی جا سکتی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ہسپتال کی انتظامیہ کی تمام چالاکیوں کو پس پشت رکھتے ہوئے ہسپتال کی انتظامیہ کے ناقص انتظامات پر خوب باز پرس کی اور نہ صرف باز پرس پر اکتفا کیا بلکہ صفائی کے ناقص انتظامات اور نا مناسب طبی سہولتوں کا نوٹس لیتے ہوئے ایم ایس اور ڈیوٹی پر موجود اے ایم ایس اور گاؤن نہ پہننے والے ڈاکٹرز کو معطل کر دیا ۔اگرچہ وزیر اعلیٰ کی نظر تو ابھی چند ناقص انتظامات پرپڑی مگر ہسپتال میں متعدد انتظامات ناقص ہی ہیں انہیں آج بھی چیک کریں تو وہ اپنی جگہ جوں کے توں ہیں پیرا میڈیکل سٹاف کی عام مریضوں سے بد تمیزی کی تو مثال نہیں ملتی میرے ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق جس دن وزیراعلیٰ پنجاب نے جنرل سہپتال کا وزٹ کیا اس دن ایمر جنسی کی ریسپشن پر بیٹھے مریضوں کی انٹری اور انہیں پرچی بنا کر دینے والے ڈیوٹی پر موجود عملے نے نہ صرف مریضوں اور انکے لواحقین سے بد تمیزی کی بلکہ اس موقع پر ایک مریض کے ساتھ آئے ایک نوجوان پر وہاں کی پولیس کے جوانوں کو بلا کر اسکی دھلائی بھی کروائی گئی وجہ صرف یہ تھی کہ اس نے اصرار کیا کہ مریض کی حالت تشویشناک ہے پرچی بنا دیں تاکہ میں اپنے مریض کو جلد چیک کروا سکوں یہ تو ایک معلومات ہو جو میری رسائی میں آئی ہے مگر اس طرح کے واقعات اگر جنرل ہسپتال کے آؤٹ ڈور ان ڈور یا ایمر جنسی میں داخل مریضوں اورانکے لواحقین پر ایک ہفتہ دیا جائے تو متعددتعداد میں ملیں گے چند سال قبل میں نے خود ایک ڈیوٹی ڈاکٹر کو مریض کے لواحقین پر تھپڑ رسید کرتے دیکھا تھا اور مجھے بہت افسوس بھی ہوا تھا کہ جو انسانوں کے مسیحا ہیں انکا غریب مریضوں کے لواحقین کے ساتھ ایسا رویہ کہ انسانیت بھی شرما جائے مگر وہ شرماتے ہی نہیں ۔وزیراعلیٰ پنجاب کی صلاحیتوں اورانکی حکومتی امور چلانے کی صلاحیتوں کے سب معترف ہیں مگر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے کس کس کو ٹھیک کیا جائے اور کس کس پر نظر رکھی جائے ۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے پنجاب کے تمام کمشنرز کو ٹیچنگ ہسپتالوں کے دورے کرنے اور تمام ہسپتالوں میں صفائی اور صاف بیڈ شیٹس کیلئے ایمر جنسی کے نفاذ کا اعلان یقیناً اچھا اقدام ہے ۔
ہسپتالوں کی حقیقی حالت کا ایک نقشہ قارئین کو دکھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریض کو چیک کروانے کیلئے عام آدمی کو کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اگر آؤٹ ڈور میں مریض کے چیک کروانے کا مسئلہ ہے تو ہر تین میں سے دو مریضوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہاں پر کوئی انکا شناسا ہو چاہے وہ وارڈ بوائے ،سویپر ،یا سیکورٹی میں ہی ملازم کیوں نہ ہو اور یوں مریض خود کو آسودہ سمجھتا ہے اور نہ جانے کتنوں کا حق مار کر وہ مریض جو پہلے ہی بیمار ہے وہ ایک جانب اخلاقیات کو توڑتا ہے تو دوسری جانب اس بے حس معاشرے کو منہ چڑھاتے ہوئے بہت سارے صبح صادق سے آکر بیٹھے مریضوں کے سامنے انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ مذکورہ ڈاکٹر کو چیک کروا کرگھر کی راہ لیتا ہے جبکہ بغیر سفارش کے آئے ہوئے مریض دن بھر جو ذلت کاٹنے ہیں اسکا اندازہ کرنے کیلئے آپ ایک دفعہ جنرل ہسپتال کی ہی آؤٹ ڈور میں جا کر دیکھ لیں جو دھکم پیل اور جو نا انصافی آپ کو نظر آئے گی آپ کا دل خون کے آنسو رونا شروع کر دے گا بیچارے مریض اس خوف سے اس نا انصافی پر چلاتے شور نہیں مچاتے کہ یہ نہ ہو کہ مذکورہ ڈاکٹر انہیں اس وجہ سے چیک ہی نہ کرے کہ انہوں نے حق کی خاطر آواز بلند کی اور یوں وہ اپنے اندر ایک دھکتی ہوئی آگ کے ہمراہ انتہائی ذلت کاٹنے کے بعد چیک کروا کر گھر کی راہ لے لیتا ہے یہ وہ حقیقت ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے اور میری اس بات کی تائیدبھی کرے گا اگرچہ یہ باتیں صاف اور سیدھی ہیں مگر ان میں حقیقت کا رنگ بھرا ہوا ہے کیونکہ راقم نے خود اس طرح کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے ۔

قارئین اس بد انتظامی کی وجہ ایک تو ہسپتالوں میں تنظیموں کا وجود پذیر ہونا ہے جبکہ دوسرا ہسپتالوں میں سیاسی مداخلت بھی ہے ۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت جب بھی آتی ہے تو تمام ادارے ایسے جمہوریت پسند ہوتے ہیں کہ عوام کی چیخیں نکل جاتی ہیں ماضی میں ہسپتالوں کے اندر سیاسی عنصر کا کوئی رواج نہیں تھا اسلئے کافی حد تک ہسپتال کے انتظامات بھی بہتر نظر آتے تھے مگر اب ہر ہسپتال میں پیرا میڈیکل سٹاف نے خود کوتحفظ دینے کیلئے علیحدہ سے تنظیم بنا رکھی ہے ،ڈاکٹرز نے علیحدہ سے تنظیم بنا رکھی ہے ہسپتالوں میں ان تنظیموں کا کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی ان کی ضرورت ہے ہسپتال کا تمام سٹاف اگر اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کرنا شروع کر دے تو کسی تنظیم کی ضرورت ہی نہیں مگر سرکاری محکموں میں تنظیموں کو رواج دینے والے بھی یہی ہماری قومی سیاست میں موجود سیاسی جماعتیں ہیں جو خود کرپشن زدہ ہیں اور اب ان محکموں کا ستیا ناس کرنے کیلئے ان میں بھی اپنے سیاسی ونگ بنا کر بیٹھی ہیں اور یوں ہسپتالوں سمیت دیگر محکموں کے انتظامی امور کو چلانا حکومت وقت کیلئے دشوار ہو جاتے ہیں ۔تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ سرکاری محکموں میں اس طرح کی تنظیموں کے خلاف تحریک چلائیں کیونکہ سرکاری محکموں میں کام کرنیوالے ملازمین کو کافی حد تک سہولتیں میسر ہیں انہیں تنخواہ بھی بر وقت مل جاتی ہے اور پھر ریٹائرمنٹ پر پنشن بھی میسر ہے اور پھر بوڑھے ہونے پر گریجوایٹی اور دیگر سہولتیں مکمل طور پر نہیں مگر کافی حد تک انہیں میسر ہیں اگر تنظیمیں ہی بنانا چاہتے ہیں تو پرائیوٹ اداروں میں بنائیں جہاں 100میں سے20ملازمین کو سوشل سیکورٹی کے محکمہ میں درج کروایا جاتا ہے اور باقی کو سال مکمل ہونے کے بعد نکال دیا جاتا ہے یا پھر ہر سال نیا کنٹریکٹ کر لیا جاتا ہے اور پرانا ختم کر دیا جاتا ہے تاکہ انہیں سوش سیکورٹی کے محکمہ میں درج نہ کروانا پڑ جائے اور یوں انہیں سہولتیں دینا پڑیں گی ۔ وہاں سیاسی جماعتیں اپنا کردار کیوں ادا نہیں کرتیں جہاں ملازمین کا استحصال ہو رہا ہے آج بھی پرائیویٹ سیکٹر میں حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی تنخواہ کے مطابق تنخواہ نہیں دی جاتی مگر کوئی آواز نہیں اٹھا تا سب صرف اور صرف سیاست کرنا چاہتے ہیں اور سیاست بھی وہاں کرنا چاہتے ہیں جہاں انہیں آسانی ہو ۔

دوسری جانب جتنے بھی ہسپتالوں کے قریب انتخابات میں ممبر اسمبلی چاہے وہ صوبائی ہوں ،چاہے وہ قومی ہوں یا چاہے وہ ضلعی ،تحصیلی ،یونین کونسل کے ممبر ہوں سبھی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک فون کریں تو ہسپتال کا پورا عملہ انکے حکم کی پاسداری کرے اور یہ کلچر خیبر پختونخواہ ،آزاد کشمیر سے لے کر کراچی اور کوئٹہ تک ہر جگہ موجود ہے اور کوئی اس کلچر سے پہلو تہی کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہر جگہ یہ کلچر نظر آتا ہے تمام سیاسی شخصیات کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے علاقے میں موجود ہسپتال میں جب بھی بھرتیاں ہوں تو ملازمین بھی انکی مشاورت سے اور انکے جیالے اپوائنٹ ہوں اور ساتھ ہی ہسپتال کا پورا عملہ انکے تابع رہے ۔

قارئین……!! بات یہیں پر ختم نہیں سیاستدانوں کے بعد ڈاکٹرز کا بھی اس ساری بد انتظامی میں بہت بڑا کردار ہے تمام پروفیسر رینک کے ڈاکٹرز ان میں سے شاید چند ایک ہوں جو پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرتے وگرنہ زیادہ تر پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں وہ یہاں کی بجائے پرائیویٹ کلینکس پر زیادہ توجہ دیتے ہیں یہی ڈاکٹر ز جب پرائیویٹ کلینکس پر ملتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی فرشتہ صفت شخصیت ہمارا معالج بنی ہے اور انتہائی نفاست کے ساتھ چیک اپ بھی کرتے ہیں اور بھر پور توجہ کے ساتھ مریض کی ہسٹری بھی لکھی جاتی ہے اور کئی کئی صفحوں پر ہسٹری ہی لکھی جاتی ہے اور پھر علاج شروع کیا جاتا ہے مگر جب سرکاری ہسپتالوں میں یہی ڈاکٹرز ڈیوٹی پر آتے ہیں تو انکا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے صرف چند لمحوں میں مریض کو چیک کر کے اور اسے ادویات لکھ کر دے دی جاتی ہیں ۔ویسے تو عام مریضوں کی تو باری ہی بہت کم آتی ہے زیادہ تر مریض ہسپتال میں کام کرنیوالے عملے کے ہمراہ ہی ہوتے ہیں اگر ایک خفیہ رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب مرتب کروائیں تو انہیں حیرانگی ہو گی کہ ہسپتال میں70%سے زائد مریضوں کا چیک اپ سفارش کی بنا ء پر ہوتا ہے ۔

قارئین……!!جتنا علم تھا وہ بیان کیا ہے مگر وزیراعلیٰ پنجاب سے یہ گزارش ہے کہ وہ ان تمام محرکات کا بطور جائزہ لیں اور ڈاکٹرز کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگائیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں کا مکمل ریکارڈ بھی حاصل کریں اور وقت کے ساتھ اپ ڈیٹس بھی لیتے رہیں پرائیویٹ ہسپتال ہی ساری حقیقت وزیر اعلیٰ تک پہنچا دیا کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں کوئی ایسا نظام بنایا جائے کہ کوئی شخص سفارش کا سوچ بھی نہ سکے تاکہ یہ صحت کی سہولتیں ہر عام آدمی تک پہنچیں اگر اس گھسے پٹے نظام کو ہی فعال کرنے کی جدوجہد کرتے رہے تو پھر اگلے پانچ سال بعد بھی صحت کی سہولتیں عام آدمی سے دور رہیں گی اور خصوصی طور پر ہسپتال میں مریض کے ساتھ اٹینڈنٹ کا رواج بہتر طبی سہولتیں فراہم کر کے ختم کر دیا جائے حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنی عوام کو مفت طبی سہولیات فراہم کرے وہ کلچر پاکستان میں بھی رائج کیا جا ئے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہے وہاں مریض کا علاج ڈاکٹر کرتے ہیں اوروہاں مریض کے ساتھ اٹینڈنٹ کا کوئی رواج نظر نہیں آتا مگر یہاں تو ایک مریض اور ایک ہزار اسکے اٹینڈنٹ ہوتے ہیں یہ بھی ہسپتال کے انتظامی امور میں خرابی پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہے عوام کو بھی خیال کرنا ہوگا اور حکومت کو بھی چاہئے کہ اس پر بھی خصوصی توجہ دے اگر ہسپتالوں کو بہتر کر کے عوام کو یقین دلا ادیا جائے کہ جو بھی مریض ہسپتال میں آئے گا اسکا برابری کی سطح پر علاج ہوگا تو یہ ہزاروں لواحقین کبھی بھی بیمار پرسی کیلئے نہیں آئیں گے یہ ایک جانب بیچارے مریض پر مالی بوجھ کا باعث ہوتا ہے تو دوسری جانب ہسپتال کے انتظامی امور میں خرابی کا باعث اسلئے بہتر ہیں کہ اس جانب بھی توجہ دی جائے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Asghar Ali Abbasi
About the Author: Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 21227 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.