غلط فہمی

گرم علاقوں میں ایک خاص قسم کا پتنگا پایا جاتا ہے ، جسے عام طور پر ’’عبادت گزر مینٹس‘‘ (Praying Mantis)کہا جاتا ہے ۔ حالاں کہ زیادہ صحیح طور پر اس کا نام ’’شکاری مینٹس‘‘ (Preying Mantis) ہونا چاہیے ، کیوں کہ وہ کیڑے مکوڑوں کا شکار کرکے ان سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے ۔

’’مینٹس‘‘ کی دنیا بھر میں تقریباً ایک ہزار قسمیں دریافت کی گئی ہیں ۔ وہ ایک انچ سے سات انچ تک لمبا ہوتا ہے ۔ اپنے ماحول کے اعتبار سے اس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں ۔ مثلاً : بھورا ، لال اور ہرا ۔

ایک جگہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے گھر کے پاس کھلی زمین میں اپنا ’’کچن گارڈن‘‘ بنایا ۔ چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں دھنیا ، مرچ ، بینگن اور ٹماٹر وغیرہ کی کاشت کی ۔ جب پودے بڑے اور خوب سرسبز ہوگئے تو ایک روز اس نے دیکھا کہ اس کی کیاری کے اندر بڑے بڑے دوہرے رنگ کے دو کیڑے موجود ہیں ۔ اس کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ میری لگائی ہوئی سبزی کو نقصان نہ پہنچائیں اور اسے کھا نہ جائیں ، اس لئے اس نے فوراً ان دونوں کیڑوں کو پکڑا اور انہیں مار ڈالا۔

شام کو اس کا ایک دوست اس سے ملنے آیا ۔ وہ مقامی کالج میں نباتات (Botny) کا استاد تھا ۔ اس نے اپنے دوست سے فاتحانہ انداز میں کہا کہ : ’’ آج میرے ’’کچن گارڈن‘‘ میں دو بڑے بڑے کیڑے آگئے تھے ،وہ میری لگائی ہوئی سبزی کو کھانا چاہتے تھے ، مگر اس سے پہلے کہ وہ میری سبزی کو کھاجاتے اور اس کو نقصان پہنچاتے ٗ میں نے انہیں پکڑ کرمارڈالا ہے۔

یہ واقعہ اس نے کچھ اس انداز سے بیان کیا کہ اس کے دوست کو خیال آیا کہ وہ نئے کیڑے کون سے تھے ؟ اس نے پوچھا کہ : ’’وہ مرے ہوئے کیڑے کیا اب بھی موجود ہیں تاکہ میں انہیں دیکھ سکوں؟۔‘‘ اس نے کہا کہ : جی ہاں ! موجود ہیں اور آپ انہیں دیکھ سکتے ہیں ۔‘‘ اس کے بعد اس آدمی نے وہ دونوں کیڑے اپنے دوست کو دکھلائے ۔ دوست نے کہا کہ : ’’تم نے تو بڑی نادانی کی ! تم جانتے نہیں کہ یہ تو ’’مینٹس‘‘ ہے ، اور ’’مینٹس‘‘ سبزی خور کیڑا (Herbivorous) نہیں ہوتا ، بلکہ وہ تو مسلمہ طور پر ایک گوشت خور کیڑا (Carnivorous) ہوتا ہے ۔ وہ یہاں قدرت کی طرف سے تمہاری مدد کے لئے آئے تھے ۔سبزی کو کھانا تو اس کی فطرت کے ہی خلاف ہے ۔ وہ تمہاری سبزیوں کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچاتے ۔ بلکہ وہ تو اُلٹا ان کیڑوں کو کھاتے جو تمہاری سبزیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ، اور جن کو ختم کرنا تمہارے لئے سب سے مشکل ہے ۔ تم بھی کیسے نادان ہو کہ اپنے فائدہ اور نقصان کو نہ سمجھ سکے ، تم نے تو ایک قیمتی چوکیدار کو مار ڈالاہے۔‘‘

دوست کی زبان سے یہ الفاظ سنتے ہی اس کی زبان بند ہوگئی اور اس کو اپنے کیے پر بے حد پچھتاوا ہوا ، یہاں تک کہ وہ بیمار ہوگیا اور کئی دن تک کام کرنے کے قابل نہ رہا۔
٭……٭……٭

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے ۔ سید امین گیلانی فرماتے ہیں کہ: ’’ ایک روز میرا ایک ’’سیانا بیانا‘‘ دوست آیا اور ہنس کر کہنے لگا : ’’یار! آج میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ میں فجر کی نماز کے لئے جب مسجد میں داخل ہوا تو جماعت کھڑی ہوگئی ۔ میں نے جلدی جلدی وضو کیا کہ ابھی دو سنتیں بھی پڑھنی ہیں ، کہیں جماعت سے رہ نہ جاؤں ۔ وضو کرکے اٹھا ، ٹوپی اٹھانے لگا تو ساتھ ہی ایک چمکتی ہوئی گھڑی نظر آئی ، میں نے وہ بھی اٹھا کر جیب میں ڈال لی کہ یقیناً کوئی نمازی یہاں بھول گیا ہوگا ۔ شیطان نے ورغلایا ، بجائے نماز ادا کرنے کے جوتا پہنا اور مسجد سے باہر آگیا ، دور جاکر جیب میں ہاتھ ڈال کر گھڑی نکالی کہ دیکھوں قیمتی ہے یا معمولی ؟ جب گھڑی دیکھی تو مارے حیرت کے وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا کہ وہ گھڑی تو میری اپنی تھی ، جو’’ غلط فہمی‘‘ میں کسی دوسرے کی سمجھ کر میں لے بھاگا اور نماز بھی ادا نہ کی ۔ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی ، دل ندامت میں ڈوب گیا ۔ توبہ کی اور واپس آکر تنہا نماز ادا کی ، اور اﷲ میاں سے معافی چاہی ۔

اصل بات یہ ہوئی کہ جماعت میں شامل ہونے کا احساس اتنا شدید تھا کہ یہ بھی ذہن سے محو ہوگیا کہ میں نے ٹوپی کے ساتھ گھڑی بھی اُتار کر رکھی تھی ۔
٭……٭……٭

اسی طرح طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے ۔ مولانا عاشق الٰہی بلند شہری ؒ فرماتے ہیں کہ :’’ ایک جگہ کا واقعہ ہے کہ کسی جگہ دعوت تھی ۔ مرد اور عورت ایک ہی جگہ موجود تھے ۔ ایک نو عمر کو دیکھا گیا کہ رواج کے مطابق میز پر کھانا لگا رہا ہے ۔ کسی کی زبان سے یہ نکل گیا کہ : ’’ لڑکا بڑا ہونہار ہے ، سلیقہ مندی سے کام کر رہا ہے ۔‘‘ اس پر پیچھے سے آواز آئی : ’’میاں کیا فرما رہے ہیں ؟ یہ لڑکا نہیں میری لڑکی ہے۔ ‘‘ ان صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور ایک نظر ڈال کر کہا : ’’معاف کیجئے ! مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اس کی والدہ ہیں۔ ‘‘ اس نے فوراً جواب دیا : ’’ میاں ! آپ صحیح دیکھا کیجئے ! میں والدہ نہیں اس کا والد ہوں۔ ‘‘
٭……٭……٭

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ ایک شخص جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد گیا ۔ دوران تقریر چندے کا بکس نمازیوں کے سامنے سے گھمایا پھرایا جارہا تھا ۔ بکس جب اس شخص کے سامنے پہنچا تو اس نے اپنی جیب سے 10 روپے کا ایک پرانا سا نوٹ نکال کر چندہ بکس میں ڈال دیا ۔ اس کے پیچھے بیٹھے ایک صاحب نے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور 5000 کا نوٹ اسے تھمادیا ۔ اس شخص کے دل میں ان صاحب کے لئے عزت کے جذبات ابھرے اور اس نے وہ نوٹ چندہ بکس میں ڈال کر ان صاحب کی طرف عقیدت بھری نگاہ سے دیکھا اور جزاک اﷲ کہا ۔ ان صاحب نے اس شخص کے کان میں چپکے سے کہا : ’’ احتیاط کیا کریں ! یہ نوٹ آپ کی جیب سے گرگیا تھا۔‘‘
 
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.