چترال میں دہشت گردی کا بپھرا ہواعفریت

ہمسایہ ملک افغانستان کی سرحد سے گزر کر پاکستان کی سرحد میں میں داخل ہوکر دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد اور اپنی مکروہ کار روائیوں میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں ۔ جن میں عوامی مقامات کے علاوہ سیکیورٹی اداروں کو بھی خصوصیت کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اور اب تو دہشت گردوں نے دہشت گردی کی ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے، وہ یہ کہ غریب چرواہوں کا قتل عام کیا جائے اور ان کا مال و اسباب لوٹ لیا جائے ۔

چنانچہ پہلے جمعہ کے دن افغانستان کے صوبہ نورستان سے آئے ہوئے دہشت گردوں نے ’’وادیٔ کیلاش‘‘ میں دو چرواہوں کو ذبح کرکے ان کے 300 سے زائد مویشیوں کو لے کرراہِ فرار اختیار کی تھی ۔اور جب دیکھا کہ ان کا پیچھا کوئی نہ کرسکا تو اگلے دن ہفتہ کے روز چترال کے علاقہ میں ہی حملہ کرکے مزید 3 بے گناہ کیلاش چرواہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے 700 سے زائد مویشی لے کر فرار ہوگئے ۔چنانچہ مسلسل دوروز کی اس لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کی پیہم ان دو واردات کی وجہ سے وہاں کی آبادی میں عموماً اوروہاں کے چرواہوں میں خصوصاًخوف و ہراس اور عدم تحفظ کا احساس پھیل گیا جوکہ ایک قدرتی امر ہے ۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حملہ آور دہشت گرد ’’راکٹ لانچر‘‘ اور جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے اور وہ اپنے ساتھ گاڑیاں بھی لے کر آئے تھے ۔

بلاشبہ بیرون ملک سے حملہ آور دہشت گردوں کا سرحد پار کر کے، جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوکراور گاڑیوں میں سوار ہو کر اس طرح دن دیہاڑے پاکستان کی سرحد میں داخل ہونا اور پھر لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کرکے بآسانی فرار ہوجانایقیناً سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

کیا افغانستان بارڈر سے ملحق پاکستانی علاقے اتنے ہی غیر محفوظ اور سیکیورٹی سے خالی ہیں کہ جب جس کا جی چاہے وہ ایک پرامن طریقے سے پاکستان کی حدود میں داخل ہوجائے اور داخل ہوکر اس کے علاقوں میں دن دیہاڑے اندھا دھند فائرنگ کرکے اس کی عوام کو یرغمال بنادے اور ان کا مال و اسباب لوٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتاردے اور یہ سب کچھ کرچکنے کے بعد بڑی آسانی کے ساتھ راہِ فرار بھی اختیار کرلے ؟ حالاں کہ اصل میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب جمعہ کے روز حملہ آور دہشت گردوں نے ’’وادیٔ کیلاش‘‘ میں غارت گری کی تھی تو اس کے معاً بعد حسب دستور سیکیورٹی اداروں کو چوکنا ہوجانا چاہیے تھا اور وہاں کے لوگوں اور وہاں کے علاقے کی حفاظت کے لئے فوری طور پرسیکیورٹی کے حوالے سے حفاظی اقدامات کرنا چاہیے تھے ۔ جب کہ ہوا یہ کہ اس تمام تر قتل و غارت کے واقعہ کے بعد کسی ایک بھی سیکیورٹی ادارے کے کان پر جوں تک نہ رینگی جس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ آور دہشت گردوں نے اگلے دن پھر اپنی دہشت گردی دکھانی شروع کردی اور اس سے مزید اہلیان چترال کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔

اگرحالات جوں کے توں یوں ہی چلتے رہے اور اس علاقے کے امن و امان کی خراب صورت حال کا کسی نے بھی بروقت ادراک نہ کیا اور فی الفور وہاں پر سیکیورٹی کے مناسب اقدامات نہ کیے تو یقین جانیے! وہاں پردہشت گردی کا عفریت مزید پروان چڑھنے لگے گا اور اس سے اس کے جسم میں ایک نئی جان آجائے گی اور اہلیان چترال کے لئے ان کے اپنے علاقے میں امن و امان کے حوالے سے ایک نیا بحران پیدا ہوجائے گا ۔

’’وادیٔ چترال‘‘ کی دلکشی اور اس کی رعنائی کے پوری دنیا میں گن گائے جاتے ہیں ۔ یہ وادی اپنی خوب صورتی اور اپنی لطافت کے سبب پوری دنیا میں اپنی شہرت رکھتی ہے ۔ اس کی طرف نہ صرف یہ کہ اپنے ملک کے سیاح بلکہ غیر ملکی سیاح کی بھی ایک بڑی تعداد رخ کرتی ہے ۔ اس تناظر میں اگر کل کوکوئی ایک سیاح یا سیاحوں کی کوئی پوری ٹیم ان حملہ آور دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے تو اس سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوگی اور اس کی عزت تار تار ہوجائے گی اور ان علاقوں میں جو رہی سہی سیاحت موجود ہے وہ بھی اپنا دم توڑ ڈالے گی ۔

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو دہشت گردی کے اس واقعہ کے نتیجے میں افغان حکومت کی نااہلی اور اس کی ناقص کار کردگی بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ وہ ابھی تک اپنی سرحدوں پر حفاظتی اقدامات نہ کرسکی ۔ بلکہ جب پاکستان نے 26 سو کلو میٹر طویل ترین پاک افغان مشترکہ سرحد پر گیٹ لگانے کی کوشش کی تو بجائے اس کے کہ افغانستا ن اس پر پاکستان کا شکریہ ادا کرے اُلٹا اس نے پاکستان پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردی اور خوب کھل کر اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا۔

اس وقت افغان حکومت وطن عزیز پاکستان پر ہر آئے دن نت نئے الزامات لگانے، اس کے خلاف اپنی نفرتوں کا زہر اگلنے اور اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے خالی نہیں جانے دے رہی۔

بلاشبہ افغانستان کی اس ناقص کار کردگی کی بناء پر اس کے سرحدی علاقے دنیا بھر کے دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ اور مضبوط قسم کے قلعے بن گئے ہیں جن میں حملہ آور دہشت گرد بلا روک ٹوک آتے اور جاتے ہیں اور افغان حکومت ہے کہ وہ ان کی ان غیر قانونی پناہ گاہوں اور قلعوں سے مسلسل صرف نظر کرتی جارہی ہے ۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کی ایک طویل ترین اور دشوار گزار سرحد ملی ہوئی ہے ، جس پر اگرچہ فی الفور سیکیورٹی کے حفاظتی اقدامات کرنا ممکن نہیں تاہم اب اس سے مستقل بنیادوں پردہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لئے پوری سرحد پر اپنی توجہ مرکوز کرنی پڑے گی ، خاص طور پر ان جگہوں پر کہ جہاں سے سیاحوں کی آمد ورفت بہت زیادہ رہتی ہے ۔

عرصہ ہوا تجزیہ نگار یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ افغان مہاجرین کو جتنا جلدی ہوسکے ان کے اپنے ملک افغانستان روانہ کیا جائے ، اس لئے کہ ان کے باعث پاکستان میں جہاں معاشی مسائل جنم لے رہے ہیں تو وہیں پاکستان کی سلامتی اور اس کے امن و امان کو خراب کرنے کے لئے اس کے سر پر بدامنی اور دہشت گردی کے خوفناک سائے بھی منڈ لارہے ہیں ۔

بہرحال چترال اوروادیٔ چترال میں دہشت گردی کے اس اندوہ ناک واقعہ کے جنم لینے کے نتیجے میں پہلے نمبر پر تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغان حکومت سے احتجاج کرتے ہوئے اس پر اپنا یہ دباؤ ڈالے کہ وہ افغانستان کی تمام سرحدوں پر اپنی سیکیورٹی کے حفاظتی اقدامات مؤثر بنائے تاکہ آئندہ کے بعد کوئی بھی گروہ افغانستان کی سرحدیں پار کرکے پاکستان کی حدود میں داخل نہ ہوسکے اور دوسرے نمبر پر ان دونوں ممالک یعنی پاکستان اور افغانستان کو چاہیے کہ وہ مشترکہ طور پر اپنی اپنی سرحدوں کی حفاظت خود کرنے کے لئے سنجیدہ قسم کی کوششیں کرنا شروع کردیں، تاکہ دہشت گردی کا یہ بپھرا ہوا عفریت کسی نہ کسی طرح بوتل میں بند کیا جا سکے ۔
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 253814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.