امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح مسلم
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا : ( دو قسمیں جہنمی ہیں میں نے انہیں دیکھا نہیں، کچھ مردوں کے
پاس گائے کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے ( اور دوسری
قسم ) اوروہ عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود بھی ننگیں ہونگی وہ مائل ہونے
والی اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہونگی ان کے سربختی اونٹوں کی
کوہان جیسے اونچے ہونگے ، یہ دونوں نہ تو جنت میں داخل ہونگی اور نہ ہی اس
کی ہوا کو پائيں گی )۔
اس حدیث میں یہ بہت سخت اور عظیم وعید ہے اور حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے
اس سے بچنا واجب اور ضروری ہے۔
وہ اشخاص جن کے ہاتھ میں گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں یہ وہ لوگ ہیں جو پولیس
وغیرہ میں سے لوگوں کو ناحق مارنے پر مقرر کیے جائيں چاہے یہ حکومت کے حکم
سے ہو یا حکومت کے حکم کے بغیر اس لیے کہ حکومت کی اطاعت معروف اور نیکی کے
کاموں میں کی جائے گی جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اطاعت تونیکی کے کام میں ہے )
اور دوسری حدیث میں فرمایا :
( خالق ( اللہ تعالیٰ ) کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے ) اور
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (کاسیات عاریات مائلات ممیلات ) کی اہل
علم نے شرح یہ کی ہے کہ :
" کا سیات " یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ان پر ہیں اور" عاریات " یعنی وہ
ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے عاری ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں
کرتیں اور نہ ہی وہ گناہ اور غلط کام ہی ترک کرتی ہیں حالانکہ ان پر اللہ
تعالیٰ کے انعامات بہت ہی زیادہ ہیں جو کہ مال ودولت وغیرہ کی شکل میں ہیں۔
اوراس حدیث کا ایک اور معنی بھی کیا گیا ہے کہ کاسیات کا معنی یہ ہے کہ وہ
ایسے کپڑے پہنے ہوئے ہونگی جس میں ستر پوشی نہیں ہوگی یا تو اس کپڑے کی
باریکی کی بنا پر اور یا پھر اتنے چھوٹے ہوں گے یہ کپڑوں کا مقصد ہی حاصل
نہیں ہوگا، تو اسی لیے فرمایا کہ " عاریات " اس لیے کہ جو کپڑا وہ پہنے
ہوئے ہیں اس سے ستر پوشی نہیں ہوتی۔
" مائلات " یعنی وہ عفت عصمت سے علیحدہ ہونے والی ہیں یعنی ان کے گناہ اور
معاصی ان عورتوں کی طرح ہیں جو کہ فحاشی کی عادی ہوں یا پھر فرآئض کی
ادائيگی میں کوتاہی کا شکار ہوں مثلاً نماز وغیرہ میں۔
" ممیلات " یعنی دوسروں کو مائل کرنے والی ہیں یعنی انہیں شروفساد کی دعوت
دیتی ہیں، تو وہ اپنے افعال اور اقوال سے دوسروں کو فساد اور معاصی کی طرف
مائل کرتی اور وہ ایمان نہ ہونے یا پھر ایمان کی کمی کی بنا پر فحاشی پر
مستمر رہتی ہیں۔
تو اس صحیح حدیث سے مقصود اور مراد یہ ہے کہ ظلم اور عورتوں اور مردوں سے
جو فساد ہے اس سے بچا جائے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( ان کے سربختی اونٹوں کی کوہان جیسے اونچے ہونگے ) کچھ اہل علم کا کہنا ہے
کہ : وہ عورتیں جو اپنے سروں کو بالوں وغیرہ سے بڑا کرتی ہیں حتیٰ کہ بختی
اونٹ کی مائل کوہان کی مانند ہوجاتا ہے۔
اور بختی اونٹ کی ایک قسم ہے جس کی دو کوہان ہیں اور ان دونوں کے درمیان
جھکاؤ اور میلان ہوتا ہے کہ یہ ایک طرف اور وہ کوہان دوسری طرف جھکی ہوتی
ہے، تو یہ عورتیں جب اپنے سروں کو بالوں وغیرہ سے ( جوڑا باندھ کر ) بڑا
کرتی ہيں تو ان کوہانوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ یہ فرمان کہ :
( نہ تووہ جنت میں داخل ہونگی اور نہ ہی جنت کی ہوا ہی پا سکیں گی ) یہ بہت
ہی سخت قسم کی وعید ہے لیکن اگر وہ مسلمان ہی مریں تو اس سے ان کا کفر اور
جہنم میں مستقل رہنا لازم نہیں آتا، جس طرح کہ سارے گناہ ہیں، بلکہ وہ اور
دوسرے گنہگار سب کے سب گناہوں کی وجہ سے آگ کی وعید دیے گئے ہیں۔
لیکن وہ سب اہل معاصی وگنہگار اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تابع ہیں اگر اللہ
سبحانہ وتعالیٰ چاہے تو ان کے گناہ معاف فرما دے اور اگر چاہے تو انہیں
عذاب سے دوچار کردے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ النساء میں دو
جگہ پر فرمایا ہے:
{ یقیناً اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرماتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش
دیتا ہے } النساء ( 48 )۔
اور جو اہل معصیت اور گنہگار جہنم میں جائيں گے وہ اس میں کفار کی طرح
مستقل اور ہمیشہ نہیں رہیں گے ، اہل سنت کے ہاں تو وہ لوگ بھی جو کہ اہل
معاصی اور گنہگار میں سے مخلد فی النارہیں مثلا قاتل، زانی، اور خودکشی
کرنے والا، تو ان کا مخلدفی النار بھی ایسا نہیں جس طرح کہ کفار ہیں بلکہ
یہ ایسی ہمیشگی ہے جس کی انتہاء ہوگی لیکن خوارج اور معتزلہ کا عقید اہل
سنت کے خلاف ہے اور اسی طرح جو خوارج اور معتزلہ کے نقش قدم پر چلنے والے
بدعتی ہیں ان کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ یہ لوگ کافروں کی طرح مخلد فی النار
ہیں۔
اھل سنت نے یہ عقیدہ اس لیے اپنایا ہے کہ احادیث صحیحہ تواتر کے ساتھ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے
گنہگاروں کے لیے سفارش کریں گے جسے اللہ تعالیٰ کئی بار شرف قبولیت بخشے گا،
اور ہر بار ان کے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی وہ اتنے اشخاص کو جہنم سے
نکل لیں۔
اور اسی طرح باقی رسول اور مومن اور فرشتے یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی
اجازت سے سفارش کریں گے ، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ اہل توحید میں سے جسے
چاہے گا وہ ان مسلمانوں کے متعلق جو اپنے گناہوں اور معاصی کی بنا پر جہنم
میں داخل ہوچکے ہوں گے سفارش کریں گے، اور جہنم میں باقی کچھ ایسے گنہگار
رہ جائيں گے جنہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش شامل نہیں ہوگی اللہ تبارک
وتعالیٰ انہیں اپنی رحمت واحسان سے نکال دیں گے تو آگ میں صرف کفار ہی رہ
جائيں گے جو کہ مستقل اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے، جیسا کہ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کفار کے بارے میں فرمایا ہے :
{ جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان کے لیے اسے اور بھڑکا دیں گے } الاسراء (
97 ) ۔
اور فرمان باری تعالیٰ ہے :
{ اب تم ( اپنے کیے کا ) مزہ چکھو ہم تمہارا عذاب ہی بڑھاتے رہیں گے }
النباء ( 30 ) ۔
اور اللہ تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کرنے والے کافروں کے بارے میں فرمایا :
{ اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں حسرت دلانے کے لیے ان کے اعمال دکھاۓ گا اور
وہ جہنم میں سے ہرگز نہیں نکلیں گے } البقرۃ ( 167 ) ۔
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارشاد کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ یقین جانو کہ کافروں کے لیے جو کچھ زمین میں ہے بلکہ اسی طرح اتنا ہی اور
بھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں تو
بھی یہ ناممکن ہے کہ ان کا یہ فدیہ قبول کرلیا جائے، ان کے لیے تو دردناک
عذاب ہی ہے۔
وہ چاہیں گہ وہ جہنم سے نکل بھاگیں لیکن وہ ہرگز اس میں نہیں نکل سکيں گے
اور ان کے لیے ہمیشگی والا عذاب ہوگا } المائدۃ ( 36 - 37 ) ۔
اس موضوع میں آیات تو بہت ساری ہیں، ہم یہی پرختم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ
سے جہنمیوں کے حالات سے عافیت سلامتی طلب کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے بچا کر
رکھے آمین۔
|