"ایکو فیمینزم اور عصری تانیثی اْردو
افسانہ "
ڈاکٹر نسترن اَحسن فتیحی ، ادب زندگی کی " باگمتی " کا نام ہے -
نام ہے اْس تنقیدی اور تحقیقی ذہن کے تخلیقی بہاؤ کا جہاں ندی سے ندیوں اور
نہروں کے سلسلے آگے بڑھتے ہیں -
نسترن احسن فتیحی ایک ایسی ادیبہ کا بھی نام ہے جو نئی صدی کی تیز رفتار
زندگی اور زرد پتّوں کی بارشوں میں سْنہری چٹائی تہذیب کی سہیلی بنی ہوئی
ہیں - نسترن فتیحی اپنی تخلیق و تنقید میں جدید حسیات ، لفظیات اور فنی
پختگی کے ساتھ رْوحوں میں ابدی حْسن کی ایک نئی دنیا بسانے کا کام بڑی
خاموشی سے کر جاتی ہیں -
نسترن کا ماضی سیتامڑھی کی اس زمین سے جْڑا ہْوا ہے - جہاں درختوں کی ہر
شاخ پر لہراتے ہرے بھرے پتّوں کی رفاقت میں مْسافر آج بھی اپنا سفر طئے
کرتے ہیں - یہ وہ شہر ہے جہاں برہنہ درختوں کے ہجرتوں کی دْھول نے موسم کا
مزاج ابھی نہیں بدلا ہے - یہاں آج بھی ہر موسم میں ندی کی جٹاؤں سے ریت
نہیں پانی بکھرتے ہیں - شاید کہ فتّاح صفت آدمیوں کے گھروں کے دروازے ابھی
کْھلے ہیں بند نہیں - شاید کہ ابدال کی ہتھیلیاں آسمان بن گئی ہوں گی اور
آسمان والے نے شہر کے نام ابر باران لکھ دیا ہوگا -
تخلیقی تنقیدی بصیرت کے ساتھ ادب پگڈنڈی پر چلنے والی مْعتبر خاتون ناول
نگار / افسانہ نگار/ ناقد کی کتاب " ایکو فیمینزم اور عصری تانیثی اردو
افسانہ " اپنے موضوع کے اعتبار سے قارئین کو اپنی طرف آکرشت کرتی ہے -
پرندوں کی سانسیں جب رْکنے لگیں ، مچھلیاں جب ریت پر چھٹپٹانے لگیں ،
درختوں کی جڑیں جب کولتار کی سڑکوں کے کنارے سکْڑنے لگیں اور سیمنٹ -
کنکریٹ - ریت کے گملوں میں چھوٹے قد کے اپاہج سے دیکھائی دینے والے درختوں
نے جگہ لے لی تو ماحولیات پر خواتین کے قلم سے نکلنے والے کلونجی صفت حروف
نے کہانیوں کی صورت اختیار کر لی - ہمیشہ " فیل گڈ " کی کیفیتوں کے ساتھ ،
ماضی کی طرف پیٹھ کر کے ، آگے بڑھنے والی بھیڑ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
باتیں کرتی ہے نسترن فتیحی کی یہ " صدی کتاب " -
خود کو ذہنی اور سماجی سطح پر تنہا محسوس کرنے والے حساس ماٹی بدن تخلیقی
فنکار کے احساس کی فصیل میں زخمی ہوئے بدن کا اظہاریہ ہے یہ کتاب !
ایک طرف جہاں بعض افسانہ نگاروں کو عورت بدن کی جمالیات کے بہانے لار
ٹپکانے سے فرصت نہیں ملتی وہیں دوسری طرف نئی صدی کی خواتین قلم کار تیزی
سے بدلتے موسموں کے مزاج کو پڑھنے میں مصروف دکھائی دیتی ہیں - شاید یہی
وجہ رہی کہ نسترن فتیحی کی اس کتاب کا فتح الباب ، خواتین قلم کار کے نام
ہے کہ ان کے قلم سے نکلنے والے حروف سے زم زمے بہتے ہیں -
تنقید تجّسْس کی بیقرار کیفیت کا نام ہے جس کی ابتدا تسلیم شدہ لکیروں کی
نفی سے ہوتی ہے - نظریات کے دائروں میں جب ادبی تنقید طواف کرتی ہے تو کسی
بھی تخلیق کا تند و تیز لاوا ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے - ہر اہم
کتاب آپ اپنا دفاع ہوتی ہے - ایکو فیمینزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ
نسترن فتیحی کی ایک ایسی ہی کتاب ہے -
محبّت ہوائیں -
زمین - جنّت
کائنات دھڑکن
خوشبو عورت
نماز-------!
تانیثیت ہے جہاں
میٹھی میٹھی سی نہریں ہیں وہاں -
یشودھرا کے ساتھ چلتے ہوئے اور گوتم بدھ کی اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہ "
اگر ہم عورتوں کو اپنی جماعت میں شامل نہ کر تے تو مذہب زیادہ دنوں تک خالص
رہتا "
عورت کے تقّدس کو ساتھ لئے ، آئیے نسترن کتاب کائنات کی حروف دھڑکنوں کو
سنتے ہیں اور مکالمہ قائم کرتے ہیں -
مجھے خوشی ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ اپنی فطری تخلیقی - تنقیدی صلاحیتوں کے
ساتھ آج کی خواتین قلم کار ادب سماج میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں
کامیاب ہیں -
تین سو چار صفحات کی یہ کتاب بلا شْبہ اردو کی علمی کتابوں میں ایک قابل
قدر اضافہ ہے - "حرف مدعا" میں نسترن احسن فتیحی کے حروف ، نسائی باغیانہ
چنگاری لئے بولتے نظر آتے ہیں - پدر سری سماج کی وجہ سے عورت ، درخت ، زمین
، اور ندی کا ، سارے عالم میں جو دْھواں دْھواں سا منظر دکھائی دے رہا ہے
اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانے میں کامیاب نظر آتی ہے یہ کتاب !
کتاب اپنے عہد کی تاریخ بیان کرتی ہے -
نسترن کی یہ کتاب ، تانیثیت کی چدریا اوڑھے لوک ادب میں ماحولیات کے نغمے
گنگنا رہی ہے -
" جو میں ہوتی راجا جوہی چمیلیا
مہک رہتی راجا تورے بنگلے پر "
جب ہم ماحولیات سے محبّت کرتے ہیں تو روح اور جسم دونوں نکھر نکھر جاتے ہیں
- ماحولیات سے اپنے جذباتی رشتوں کے خوبصورت اظہار کی فتیحی کوشش قابل
ستائش ہے ہر طرح کے تصنع سے خود کو بے نیاز رکھتے ہوئے نسترن احسن فتیحی نے
ایکو فیمینزم کی صورت گری میں ورق ورق پر اس احساس کو ابھارا ہے کہ تخلیقی
اذہان میں , انبساط کی وجہ , سبزہ ، درختوں کی لچکتی - تھرکتی شاخیں اور
بہتی ہوئی کہانی ندیاں ہیں -
غیر نامیاتی اور نامیاتی مرکبات
چہار سمت کا لباس
ہوا ، پانی ، زمین اور آدمی
تکاثر نے ہمیں کتنا ہلاک کر دیا -
تین سو ہارس پاور کی مرسڈیز اتنی ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑتی ہے -
کار کی ایجاد کس نے کی ؟
حیاتیاتی تنو ع کے نقصان کی وجہ کون بن رہا ہے ؟؟
آبی آلودگی کی وجہ ؟
ہر سوال کا جواب آپ سب کے پاس ہے میں کا بولوں ؟
پْر تعیش زندگی کی وجہ سے زہریلی گیس کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے اور ہمارا
ادیب انسانی تاریخ کی گرم صدی میں ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھا منٹو کی
پھینکی ہوئی نارنگیوں سے کچھ اس طرح کھیل رہا ہے کہ کمرہ میں سپٹر سپٹر کی
گونج اپنا ایک دائرہ بنا رہی ہے - مگر کون بڑے بھیا قسم کے لوگاں کو
سمجھاوے کہ خودساختہ دائروں کی اہمیت نہیں ہوتی -
آج کی عورت خود کو چتا کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکنے والی نہیں رہی آج وہ
سوئے ہوئے شہروں ، محلوں کے محرابوں اور میناروں کے لئے قندیلیں بنتی جا
رہی ہے -
شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ " ایکو فیمینزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ " کو
اپنی " کتھری" پر پڑھتے وقت میں نے اسے قندیل پْکارا تھا -
اس کتاب کا پیش لفظ فرخ ندیم نے لکھا ہے جو انگریزی کے استاد ہیں اور اردو
تخلیق و تنقید کے ایک بہت ہی اہم دستخط ہیں - ان کی آوازیں لکیروں کو مٹاتے
ہوئے کچھ اس طرح مخاطب ہیں :
:: ایکو فیمینزم کے سوالات لبرل فیمینزم سے مختلف ہیں کیونکہ بنیادی طور پر
یہاں عورت کی بغاوت نہیں ، بلکہ کھیت اور کھیتوں کی اہمیت و افادیت کو عورت
کی نظر سے دیکھا گیا ہے - ایکو فیمینزم انسانی زندگی کی زرخیزی اور سبزہ
زاری کو نامیاتی وحدت سے متشکل کرنے کی کوشش ہے ::: : } فرخ ندیم ، پاکستان
{
کتاب کے فلیپ پر سید صداقت حسین ، کراچی پاکستان کی اہم رائے بھی شامل ہے ،
صداقت بھی انگریزی میں سوچتے اور اردو میں لکھتے ہیں - ان کے قلم سے نکلنے
والے الفاظ کچھ اس طرح بولتے ہیں :
:::نسترن فتیحی نے برصغیر کے مرد بالادستی والے سماج میں خواتین کے مساوی
حقوق کا علم اٹھایا ہے ":::
اس کتاب کے تین ابواب ہے چوتھا کیوں نہیں ؟
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آواز آئی :-
" یا الل? خیر --- کیا گر گیا - کہیں گیریج کی چھت تو نیچے نہیں آن پڑی -
ہلکے پلاسٹک کی چھت جو پہلے ہی اولوں کی ستم سہہ سہہ کر کمزور ہو چکی تھی
اب تیز ہوا کے جھکڑوں کو برداشت نہ کر سکی ہو تو کیا تعجب - بھاگم بھاگ
سامنے آ کر جو دیکھا ، پام کا درخت بمع عشق پیچاں کی بیل کے زمین پر اوندھا
پڑا تھا ":::
ماحولیات بحران کے نتیجے میں ، موسم کی تبدیلی ، آبی آلودگی اور گلوبل
وارمنگ جیسے مسائل ہوں یا پھر انسانی دست درازیوں کی وجہ کر اوزون کا شگاف
، بالائے بنفشی شعاؤں سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے گھروں کے بند دروازوں اور
کھڑکیوں کے پٹ کو کھولتی ہیں اس کتاب میں شامل ہر کہانی ------
اس کتاب میں شامل کتھا - کہانیوں کو جب میں پڑھ رہاتھا تو زاہدہ حنا کی
کہانی " پانیوں میں سراب " میں مجھے سیمنٹ ، چونے بجری ، پتھر ، لوہے کے
ڈھیر کو خواب نما عمارتوں میں بدل دینے والا انسان دکھائی دے رہا تھا -
انسان ؟
انسان ہے کہاں ؟
نعمتوں کو ایک توازن و اعتدال کے ساتھ استعمال کرنے والوں کا گم ہو جانا اس
صدی کا المیہ ہے اور صدیوں کے المیہ کے بوجھ کو اپنے کاندھوں سے آزاد کرتے
ہوئے ایک نئی زبان دینے میں بہت کامیاب رہی ہیں آج کی خواتین قلم کار ،نگار
عظیم ، نسیم سید ، نسترن فتیحی ، نگہت نسیم ، عذرا نقوی ، سبین علی ، سیمیں
درانی ، ناہید اختر ، نور العین ساحرہ شاہین کاظمی ، وغیرہ سلمیٰ جیلانی ،
، انجم قدوائی ، غزال ضیغم ، ترنم ریاض ، عینی علی ،کوثر جمال ، شہناز یوسف
، روما رضوی ، صادقہ نواب سحر ، افشاں ملک ، طلعت زہرا ، عشرت ناہید ، مہر
افروز ، ثروت خان ااور ڈھیر سارے نام جنہوں نے اپنی کہانیوں میں خشکی اور
تری میں فساد برپا کرنے والے ، ترقی کے نام پر جنگلوں کو ویران کرنے والوں
کو آئنہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے -
موجودہ سماج کی بدلتی تصویر کو دیکھ سْرمئی بادل اب برسنے والے ہیں - عورت
ندی کے بہتے پانی کی طرح ہے جو بھی اس کی موجوں سے کھیلنے کی کوشش کرے گا
بہہ جائے گا - کوئی بہتے پانی سے وضوع کرتا ہے اورکوئی کیچڑ پروسنے کو اپنی
عبادت سمجھتا ہے -
ٹیڑھے میڑھے حرفوں سے صرف ایک تاثر پیش کرنے کے بہانے نہ جانے کیا کیا لکھ
گیا - اس کتاب کی کْلی مرکزیت تک پہنچنے کے لئے آپ سب ا"ایکو فیمینزم اور
عصری تانیثی اردو افسانہ "کا مطالعہ ضرور کریں کہ بے چہرگی کی بھیڑ میں
روشن تہذیب چہرہ کو پڑھنا ضروری ہے -
-----{}----
خورشید حیات |