ڈورے مون ۔ن لیگ میں شامل ۔ ؟

ڈورے مون کامیابی کا شارٹ کٹ ہے۔وہ دورِ حاضر کا عمر و عیار ہے۔اس کی زنبیل میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔عین اس وقت جب پی ٹی آئی چیف عمران خان نے تحریک احتساب کی کال دے رکھی تھی۔ تحریکی ایم پی اے تیمور ملک نے ڈورے مون سے پنگا لے لیا۔پنجاب اسمبلی میں قرار داد جمع کروا دی۔ کہ وفاقی حکومت ڈورے مون پر پابندی لگائے۔حکومت نوبیتا کی طرح مسلسل مشکلات میں ہے۔جمہوریت بچانے کے لئے جمہوریت گرانے کی تیاری ہو رہی ہے۔اس قرار داد کے بعدڈورے مون۔ن لیگ میں شامل ہوچکا ہے۔اوردنیا جانتی ہے کہ ڈورے مون ہر بار نوبیتا کو مشکل سے نکل لیتا ہے۔

جاپانی کارٹون ڈورے مون اور نوبیتا کی تصویر

بچپن میں ریلوے اسٹیشن یا لاری اڈا کی طرف جب بھی جانے کا اتفاق ہوتا۔وہاں اکثر مداری مجمع لگا ہوتا۔ مجمعےبار بار دیکھ کرمجھےگیان ہونے لگاتھا کہ’’مداری اب کیا کرےگا‘‘۔مداری ہاتھوں کے ہنر اورزبان کےچتر ے ایسا جادو کرتا کہ ’’تاثیر‘‘روح تک اتر جاتی۔لیکن اچانک دل اچاٹ ہوگیا۔اب جستجو رہتی کہ مداری کےہاتھ کی صفائی اور زبان کی چترائی کا مشاہدہ کرؤں۔تماشہ دیکھنےوہاں کئی اوربھی تماش بین آتے تھے۔ہمارے ہاں جب مداری اورشعبدہ باز۔تماش بینوں کی آنکھوں کوخیرہ کررہے تھے۔تب پورا۔یورپ ہپناٹزم کے سحرمیں ڈوباہوا تھا۔لیکن میرےفکروخیال کےبنددریچےوا۔ہوئےتومداریوں کے علاوہ بھی کئی شعبدہ بازنظرآئے۔’’دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گرکھلا‘‘والا یک سطری شعر کئی بار یاد آیا۔عامل اور بچہ جمورا۔کی گفتگو دماغ کو۔کوہلو بنائے رکھتی۔’’ بچہ جمورا۔جی استاد۔ تھوڑا سا گھوم جا۔تھوڑا سا جھوم جا۔جوپوچھوں گا۔بتائے گا‘‘۔مجھے سب ازبرتھا کہ اب کیا باتیں ہوں گی۔؟۔اچانک تماشے میں سیاست عودکرآتی۔مداری بیداری کی باتیں کرنے لگتا۔جمورے سیاسی ہوجاتے۔اسلام آباد کی باتیں ہونے لگتیں۔اورجمورا ۔ڈُگ ڈگ پر’’فرفر‘‘ ناچنے لگتا۔

ایک مداری تماشہ کر رہا تھا اوراس کی بطخ ساتھ ہی پڑی کڑاہی میںمسلسل ناچ رہی تھی۔اچانک سرکس کا مالک وہاں آگیا اس نے بھاؤ تاؤکرکےسرکس کےلئے بطخ خریدی۔لیکن ہزارجتن کے باوجود بطخ نےوہاں ڈانس نہ کیا۔
سرکس مالک:میرے پیسے واپس کرو۔جھوٹے۔ بطخ ایک باربھی نہیں ناچی۔
مداری : جناب ناراض نہ ہوں۔ایک بارکڑاہی کے نیچے آگ جلاکردیکھ لیں۔

پاکستان میں’’کاٹھ کی کڑاہی‘‘ کئی سالوں سےچڑھی ہوئی ہے۔مداری ہمیں بطخوں کی طرح نچا رہےہیں۔ہم نےتپش سے بچنے کےلئےبندریا کی طرح پاؤں اپنے بچوں پرہی رکھ لئے ہیں۔سرکس والے جوہماری آخری امید تھے وہ بھی ’’تھیاتھیا‘‘ کرانے کو بےقرار ہیں۔ان مداریوں نےہپناٹائز کافن بھی سیکھ لیا ہے۔وہ خزانہ غائب کرچکے ہیں۔ہم کئی دھائیوں سےہپناٹائز ہیں۔قومی سیاست کےعامل بھی الگ الگ ہیں انکےپاس’’پالتو‘‘ جمورے ہیں۔وہ پلک جھپکنے میں۔گھوم جا اورجھوم جا۔کھیلنے لگتے ہیں۔ سارےجمورے جمہوری ہیں۔وہ جمہوریت کوبچانے کےلئےجمہوریت گرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔میاں نواز شریف، بلاول زرداری اور عمران خان سب کے اپنے اپنے مجمعے ہیں۔ مجمعے کافی ہٹ بھی رہے ہیں۔قوم روزانہ تماشہ دیکھ کرواپس لوٹ آتی ہے۔اگلے روز بطخیں دوبارہ کڑاہی میں ناچنےکےلئے تیار ہوتی ہے۔ میرا دوست مریدکہتا ہے کہ قوم کو مشکلات سے نکالنا ہےتوڈورے مون جیسا لیڈر چاہیے۔

ڈورے مون بلی طرز کا 22ویں صدی کا جاپانی ربورٹ ہے۔جس کے پیٹ پرچارسمتی جیب ہے۔جس میں مشکلات کےحل کےلئے کئی ٹولز(گیجٹ) ہیں۔لیکن ڈورےمون کو20ویں صدی میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ نوبیتا نامی بچےکی مشکلات حل کرسکے ۔نوبیتا ایک غیرذمہ داربچہ ہے۔جوہر امتحان میں فیل ہوجاتا ہے۔ہوم ورک بھی نہیں کرتا۔ماں سے ڈانٹ اور دوستوں سے مار کھاتا ہے۔ ڈورے مون اسے ہرباربچا لیتا ہے۔بچوں میں یہ کارٹون خاصےمقبول ہیں۔حتی کہ بچے کارٹون کی زبان بھی بولنےلگے ہیں ۔ڈورےمون کہتا ہےکہ’’یہ آپ ہرمنحصر ہے کہ اپنےمستقبل کو کتنا کامیاب بنانا چاہتے ہیں۔ماضی پر رونے کےبجائے۔مستقبل پرنظررکھنی چاہیے‘‘۔مریدکہتا ہےکہ ڈورے مون والے گیجٹ بانکےمون کےپاس ہوتے توآج دنیا میں امن ہوتا۔

ڈورےمون کی طرح ہر کارٹون کی اپنی زبان ہے جیسے۔مکی ماؤس کہتا ہے کہ ’’سوری کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ غلط ہیں ۔ بلکہ سوری انا پرستی کا خاتمہ کرتی ہے‘‘۔ٹام کہتا ہے کہ ’’دوست وہ ہوتا ہےجس کی آپ کوضرورت نہ بھی ہو تو بھی ساتھ کھڑارہا‘‘ ۔جیری کہتا ہے کہ’’ میرا کوئی خاص رویہ نہیں لیکن میری شخصیت ایسی ہے جسے آپ ہینڈل نہیں کر سکتے‘‘۔ہیکل جیکل کہتا ہےکہ’’یہ انتخاب کرنا مشکل ہےکہ آپ کی زندگی میں کون داخل ہوسکتا ہےلیکن آپ اُس کھڑکی کاانتخاب کر سکتے ہیں جس میں سے ناپسندیدہ شخص کوباہرپھینک دیں‘‘۔ان تمام اقوال پرغورکریں تویہ ہماری ذاتی،سماجی،قومی اورسیاسی زندگی پر پورا اترتے ہیں۔ہماری سیاست تو پوری ’’کارٹون نیٹ ورک ‘‘ہے۔جس میں کچھ ٹام ہیں۔کچھ جیری۔ کچھ نوبیتا ہیں اور کچھ ڈورے مون۔کچھ مکی ماؤس۔اور کچھ ہیکل جیکل۔۔مریدتو کہتا ہے کہ پیپلزپارٹی اورن لیگ کےمراسم۔ٹام اینڈ جیری کارٹون کی زندہ مثال ہیں جواکھٹے رہ سکتے ہیں اور نہ ہی الگ الگ۔

ڈورے مون کامیابی کا شارٹ کٹ ہے۔وہ دورِ حاضر کا عمر و عیار ہے۔اس کی زنبیل میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔عین اس وقت جب پی ٹی آئی چیف عمران خان نے تحریک احتساب کی کال دے رکھی تھی۔تحریکی ایم پی اے تیمور ملک نے ڈورے مون سے پنگا لے لیا۔پنجاب اسمبلی میں قرار دادجمع کروا دی۔کہ کارٹون چینلز بچوں پرمنفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔وفاقی حکومت ڈورےمون پرپابندی لگائے۔ہماری معاشرتی اقدارتباہ ہورہی ہیں۔قرارداد پربحث توپتہ نہیں کب ہوگی لیکن ’’ٹوئیٹر‘‘ پرپی ٹی آئی بمقابلہ ڈورےمون کا ہیش ٹیگ ٹرینڈزمیں پہلے نمبر پر رہا۔اس سےقبل بھارت میں بھی ڈورے مون کےخلاف احتجاج ہوچکا ہے۔کیونکہ وہاں بچے گیجٹ مانگنےلگے ہیں۔مصر نے”ٹام اینڈ جیری “ کودہشت گردی میں اضافے کا ذمہ دار قرار دےکربندکردیا ہے۔پی ٹی آئی نےبھی حکومت سے پہلے ڈورے مون سےٹکرلےلی ہے۔وہ حکومت کو گھراور ڈورے مون کو 22 ویں صدی میں بھجوانا چاہتی ہے۔

غیرملکی کارٹونز کے خلاف دنیا کے کئی ممالک میں تحریکیں چل رہی ہیں۔مجھے خوف ہے کہ تحریکیں کامیاب ہوگئیں تو پاکستانی بچوں کو ’’سیاسی کارٹون‘‘دیکھناپڑیں گے۔عمران خان کی تحریک احتساب۔وفاق کے خلاف ہے اورتیمور ملک کی ڈورے مون کے خلاف قراردادبھی وفاق کے خلاف۔حکومت نوبیتا کی طرح مسلسل مشکلات میں ہے۔نیا مجمع لگنے والا ہے۔بطخیں پھر ناچنے کےلئےتیار ہیں۔مداری اپنے اپنے تھیلے اٹھائے پھر رہے ہیں۔ جمہوریت بچانے کےلئے جمہوریت گرانے کی نئی تیاری ہورہی ہے۔مجمعے دیکھ دیکھ کر مجھے توگیان ہو چکا ہے کہ پھر کچھ نہیں ہونے والا۔ویسے بھی تیمور ملک کی قرار داد کے بعد ڈورے مون۔ن لیگ میں شامل ہوچکا ہے۔اوردنیا جانتی ہے کہ ڈورے مون ہر بار نوبیتا کو مشکل سے نکل لیتا ہے۔
 
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 94628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.