ہماری جدید تعلیم اور آداب کا فقدان
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
آج اپنے سابقہ سکول غازی داؤد شاہ گورنمنٹ
ہائی سکول نمبر 1 حویلیاں کے قریب سے گزرا توگزشتہ تعلیمی ادوار آنکھوں کے
سامنے اسطرح آگئے کہ گزشتہ حالات آنکھوں کے راستے آنسو کی شکل بن گئے،وہ
صبح سویرے گھر سے نکلنا، کتابیں بستے میں ڈال کر سڑک پر آنا ، ایک قافلے کی
شکل میں سکول آنا ، اور کبھی کبھار راکٹ بس پر فری میں سوار ہو کر سکول کو
جانا، اسمبلی سے قبل زیرو پریڈ لگانا، اسمبلی کے اندر تلاوت، نعت، دعا ئے
اقبال ، قومی ترانہ کے بعد اسمبلی میں سب کے سامنے کھڑے ہو کر تجویذ کے
ساتھ کلمے اور نماز کا سبق پڑھانا ، پی ٹی کے دوران خانواز صاحب کی ڈانٹ
ڈپٹ ، کلاس کے اندر مرحوم قاضی عمران صاحب ، قاری حاکم دین صاحب، قاری
عبدالباقی صاحب، عبد القیوم صاحب، اقبال صاحب، جدون اختر صاحب اور مشتاق
صاحب کے علاوہ دیگر اساتذہ کی دی گئی تعلیمات زندگی ،غلطی کرنے پر پہلے
اساتذہ ڈانٹ ، باز نہ آنے پر انکی مار، کلاس و سکول کے علاوہ آپس میں بھائی
چارے کا جذبہ ، ہر ماہ کے آخر میں بزم ادب کی محفل، سالانہ سپورٹس ،
ڈیکوریٹس کے علاوہ دیگر مقابلہ جات ،سب کچھ چند لمحوں میں ایسے یاد بن کے
سامنے آگیا کہ ابھی بھی ہم اسی دور کے اندر موجو د ہیں ۔ تقریباََ آج سے دس
سال قبل استاد و شاگرد کے اندر باپ بیٹے کا رشتہ قائم تھا، اداب و لحاظ اس
قدر تھا کہ استاد کے ساتھ ہر بات اس امید پر شیئر کی جاتی تھی کہ اس کے
استاد محترم اس کی بہتر رہنمائی کریں گئے اور شاگرد کو اپنی اولاد سمجھتے
ہوئے زندگی میں درپیش آنے والے تمام مسائل، واقعات اور لمحات سے آگاہی اور
ان کے حل کے لیے بہتر سے بہترین مشورہ دیتے تھے، آج ہم زندگی کے جس حصے میں
بھی داخل ہوتے ہیں تو اپنے اساتذہ کی تعلیمات یاد آتی ہیں ہم اپنے اساتذہ
کے عظیم مرتبے کو سلام پیش کرتے ہیں اگر آج بھی کسی جگہ ہم کو ہمارے استاد
مل جاتے ہیں تو ہم مہدب انداز میں کھڑے ہو کر ان کی بات سنتے ہیں یہ استاد
کا خوف نہیں بلکہ استاد کا احترام ہے۔ہمارے دور کا نظام تعلیم ٹاٹ و دری کا
ضرور تھا مگر ہم میں آداب ِ زندگی کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا تھا اور
زندگی کے تمام پہلوؤں سے ہم کو آشنا کروایا گیا تھا۔ اور اب ہمارے آج کے
جدید نظام تعلیم میں نمبروں اور میرٹ کی تعلیم کو تو فروغ دیا جا رہا ہے
مگر ہماری آنے والی نسلیں نظام معاشرت و انسانیت سے پیدل ہوتی جارہی ہیں۔
ہمارے سکولز و کالجز میں بچوں پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے مگر اچھا انسان
بنانے کے لیے نہیں بلکہ ایک اچھا رزلٹ لانے کے لیے۔ بعض سکولوں میں درس
تعلیمات دینا تو دور کی بات نعت اور دعائے اقبال بھی اسمبلی سے غائب ہو گئی
ہے۔ آج کے کچھ طالب علم اپنے اسا تذہ کے ساتھ اسقدر فری ہوتے ہیں کہ اخلاق
و آداب کے تمام دائرے ادھر جا کر ختم ہو جاتے ہیں ۔ کچھ سوشل میڈیا پر
اکھٹے ہو کر ایک فحش شاعری یا پوسٹ کو لائک و کمینٹس کر رہے ہوتے ہیں ،
فلموں کے اوپر تبصرے ، فیشن کے مقابلے، داڑھی کے ساتھ مذاق اُڑاتے ہوئے
فیشن بنانا اور تعریفیں بٹورنا، Co.education کے فوائد اور موبائل اپ ڈیٹس
کے اوپر بحث کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ معذرت کے ساتھ کچھ اساتذہ سے آداب و
اخلاق کے بارے میں سوال کر بھی دیا جائے تو وہ ہر قسم کے جواب سے اسقدر
عاری ہوتے ہیں کہ وہ بظاہر خود ایک سوالیہ نشان نظر آتے ہیں۔
ہمارے لیے سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ ہم کس طرف کو جارہے ہیں ، ہمارے بچے
کو نمبروں کی مشین بنا دیا گیا ہے جو کہ ایک اچھی نوکری کے لیے تو ٹھیک ہے
مگر کیا کل کو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آداب سے بالکل عاری ہو جائے اور ہمارے
بڑھاپے میں جب اس کو ہمارا سہارا ہونا چاہیے اس وقت یہ ہم کو اولڈ ہاؤس میں
چھوڑ کر Happy Father Day, اور Happy Mother Day کے دنوں میں ہم کو ہی صرف
دیکھائی نہ دیں، آپ کی موت کے بعد اگر اس کو غسل ،کفن دفن کے علاوہ فاتحہ
خوانی کا بھی طریقہ نہ آیا تو۔۔۔۔! جدید تعلیم کے تقاضے اپنی جگہ بالکل
ٹھیک ہیں مگر ساتھ ساتھ اپنے بچو ں کو اسلام ، آداب اور شرعی معاشرت کے
طریقے بھی سکھائیں، ان کے موبائل چیک کریں ، بچیوں کو موبائل سے حتی
الامکان دور رکھیں، فیس بک اپ ڈیٹس چیک کریں میرے کہنے کا مطلب ہر گز نہیں
کہ اپنی اولا د کے اوپر شک و شہبات پیدا کریں مگر اولاد کی اصلاح کے لے کچھ
تو اسباب ہمیں خود بھی پیدا کرنے ہوں گے۔ |
|