یتیموں کی سرپرستی!

گھر سے میت کے اٹھائے جانے کا وقت آیا تو ایک کہرام سا مچ گیا، گھر کا سربراہ باون برس کی عمر میں سفرِ آخرت پر روانہ ہور ہا تھا۔ غلام نازک شہزاد لودھراں میں محکمہ تعلیم کے ضلعی سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنے فرائض کو یوں نبھایا کہ گزشتہ سالوں میں دو مرتبہ لودھراں جیسا ضلع بھی پنجاب بھر میں کارکردگی کے حساب سے پوزیشن لینے والوں میں شامل ہوگیا۔ پنجاب حکومت نے بہتر کارکردگی کے لئے کچھ ضابطے اور اشاریے دئیے ہوئے ہیں، جن میں اساتذہ اور طلبہ کی حاضری، افسران کے سکولوں کے دورے، داخلوں کی شرح، معیار تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔ دفتر میں اُن کے رویے سے بعض لوگ ناخوش تھے، وجہ یہی تھی کہ وہ ہر کسی سے کام لیتے تھے، جس پر سست رو نظام میں کام کرنے والے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا، مگر اسی کام کا نتیجہ ہی تھا کہ ضلع نے پنجاب بھر میں دو مرتبہ پوزیشن لی۔ ہفتہ کی رات تک دفتر میں کام کرتے رہے، رات کو اتوار کی چھٹی کے سبب اپنے گھر ڈیرہ غازی خان چلے گئے۔ صبح دردِ دل کے باعث ڈاکٹر کے پاس گئے، مگر معاملہ زیادہ بگڑ چکا تھا، جانبر نہ ہو سکے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اگرچہ انہیں کوئی بیماری نہیں تھی، اس کے باوجود وہ کھانے پینے میں بہت زیادہ پرہیز اور احتیاط برتتے تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اس ناگہانی موت پر تو ہر کوئی دل گرفتہ تھا، تاہم گھر سے میت اٹھاتے وقت ایک بچی کی چیخوں نے ماحول کو دہلا کر رکھ دیا۔

مرحوم نے باون بہاریں دیکھی تھیں، تاہم ان کے بیٹے برسرِ روز گار تھے۔ انسان صدمے سہتا ہے، اﷲ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ وہ اپنے والدین اور دوسرے قریبی لوگوں کی جدائی کو بھی آخر کار بھول جاتا ہے۔ خاص طور پر جب گھر میں نان نفقہ کا مسئلہ نہ ہو، اپنا گھر بھی ہو اور کمانے والے بھی۔ اﷲ تعالیٰ صبر دینے والا ہے۔ معاشرے میں ایسے بے شمار لوگ ہیں، جن کا آخری وقت آجاتا ہے، کیوں کہ موت کا وقت معین ہے، مگر اس کے لئے عمر کی کوئی قید یا حد مقرر نہیں۔ دنیا داری کی حد تک مسئلہ اس وقت بنتا ہے کہ جب گھر کا کفیل فوت ہوگیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو پالنے اور سنھبالنے والا کوئی نہیں۔ ایسے میں بعض اوقات کوئی اچھا کھاتا پیتا گھر بھی غربت کی غاروں میں گھِر جاتا ہے، خوشحالی کی زندگی گزارنے والے بچے اشیائے ضرورت کو بھی ترسنے لگتے ہیں، اگر وہ پہلے سے بھی غریب تھے تو بھی سربراہِ خانہ کے بعد ان کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ان بچوں کو پالنے والا کوئی نہیں ہوتا، پالنا تو دور کی بات ہے، پوچھنے والا بھی کوئی نہیں آتا۔ یہ ایک گھمبیر معاشرتی معاملہ ہے۔ عمومی اور عملی طور پر معاشرہ ایسے گھروں سے لاتعلق ہوتا ہے، مگر از راہِ کرم افسوس وغیرہ کا اظہار کرتا رہتا ہے، اور اس خواہش کا اظہار بھی کہ کاش اس گھر کی مدد کی جاتی۔

اس کاش یا خواہش کو کچھ لوگ عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں، معاشرے میں اگرچہ ان کی تعداد اور ان کا دائرہ اثر اِس قدر وسیع نہیں کہ وہ معاشرے کے اکثر یتیم اور مستحق بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیں، مگر جتنی کوشش وہ کر رہے ہیں، وہ قابلِ تحسین اور لائق تقلید ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ایسی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا، جو ایسے بچوں کے لئے سجائی گئی تھی کہ جن کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا، اور والد کے بعد ان کا کوئی کفیل بھی نہیں تھا۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے اپنی خدمات میں ایک شعبہ ایسے ہی بچوں کے لئے مختص کر رکھا ہے۔ ان بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کئے جاتے ہیں، ان کے اہلِ خانہ کی بھی رمضان المبارک یا عید وغیرہ کے موقع پر مدد کی جاتی ہے۔ ان بچوں کا انتخاب نہایت ہی احتیاط اور چھان بین کے بعد کیا جاتا ہے۔ مذکورہ تقریب عید ملن کے نام پر منعقد کی گئی تھی اور اس کے لئے بہاول پور چڑیا گھر کا انتخاب کیا گیا تھا، تاکہ بچے، ان کی مائیں اور دیگر عزیز آئیں تو ان کے لئے سیر کا ماحول بھی میسر آجائے، ان بچوں کو دوستانہ ماحول دیا گیا، سیکڑوں روپے کی اشیا پر مشتمل گفٹ پیک تو تمام بچوں کے لئے بھی بنایا گیا تھا، مگر کھیل ہی کھیل میں سوالات وغیرہ پوچھ کر بھی بہت سے بچوں کو تحفے دیئے گئے۔الخدمت فاؤنڈیشن کی اس سکیم کے بہاول پور کے روحِ رواں ڈاکٹر منصور باجوہ کا کہنا تھا کہ ان بچوں کی دیکھ بھال اور سرپرستی ہمارا دینی فریضہ ہے، اورسنتِ رسولﷺ بھی ۔ اگر پورا معاشرے یہ روش اپنالے تو بہت بہتری آسکتی ہے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429794 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.