تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال

یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک تعلیم یافتہ انسان کی کیا پہچان ہے۔جواب تھا کہ وہ شخص جو"نہیں"سے"ہے"کی تخلیق کرسکے۔The person who can create thing out of nothingاس کرۂ ارض پر انسان کی کہانی"نہیں"سے"ہے" کی کہانی تو ہے۔انسان جوں جوں اپنی دماغی اور جسمانی صلاحیتوں کا استعمال کرتارہا اس نے اپنے ارد گرد بہت کچھ بنا ڈالا۔ابتداء میں ہی اس کی توجہ شکار سے زراعت کی طرف ہوئی۔اور آج7۔ارب انسانوں کے لئے خوش ذائقہ غلہ،پھل اور سبزیاں آسانی سے دستیاب ہیں۔جو قومیں اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو زیادہ استعمال کررہی ہیں۔وہ دوسری اقوام کے لئے بھی خوراک پیدا کررہی ہیں۔زراعت کے کھلے ماحول میں ہونے کی وجہ سے نقصانات بہت ہوتے تھے۔ انسان نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ناموافق حالات کو موافق زرعی حالات میں بدلنے کاکام رکا نہیں۔پھلوں کی بے شمار نئی اقسام اور نئے نئے ذائقے۔انسان نے زراعت میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال سے کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔یہ تخلیق ہی کسی شخص یا قوم کا کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی دور کا انسان صرف چند میل پیدل چلتا ۔پھر سفر کے لئے جانور سدھائے گئے اور اب تیز رفتار ہوائی جہاز۔دوسرے سیاروں کی طرف جاتے ہوئے خلائی جہاز۔ذرائع رسل ورسائل کی ترقی جسے اب ہرشخص خود استعمال کررہا ہے۔پورا کرۂ ارض سیکنڈز کی زد میں ہے۔اب انسان کی تیاری مریخ کی طرف جانے کی شروع ہے۔اور لگتا ایسا ہی ہے کہ3۔کروڑ20لاکھ کلومیٹر دور مریخ پر انسان چند سال بعد اتر رہا ہوگا۔بات اب ایٹم کو توڑنے سے بھی بہت آگے تک بڑھ چکی ہے۔اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کی وجہ سے یہ معلوم کیاجارہا ہے کہ کائنات کب تخلیق ہوئی۔؟ کیسے ہوئی؟اورپھر پھیلاؤ کی نوعیت کیا ہے؟ ان مسائل پر اب سوئیٹزر لینڈ کی (Cern Lab)میں اونچے درجے کی تحقیقات و تجربات جاری ہیں۔27۔کلومیٹر طویل زیر زمین لیبارٹری جو5۔ارب پونڈ سے تعمیر ہوئی۔کتنے اونچے درجے کے ہونگے وہاں ہونے والے تجربات۔پاکستانیوں کے لئے مسرت کا مقام ہے کہ ہم اس Cern Labکے ممبر ہیں۔یہاں کام کرنے والے سائنسدان اب کچھ ذرات کو"خدائی ذرات ـ"کہنے لگ گئے ہیں۔انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال یہاں عروج پر نظر آتا ہے۔سائنسدان اپنے طریقے سے اﷲ کا وجود تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔مذہبی لوگوں کا انداز اپنا ہوتا ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کی یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ورنہ انسان نے اب تک انسانی زندگی اور کائنات کے ہزاروں گوشوں کی پرچول کی ہے۔اور بہت کچھ معلوم کرلیا ہے۔پوری کائنات انسان کے لئے چیلنج ہے۔جوقوم اس چیلنج کو بھر پور انداز سے قبول کرکے اپنی صلاحیتوں کو اس پر صرف کرنا شروع کردے۔وہی قوم دنیا میں قابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔ایسی ہی قوم قوت بھی حاصل کرتی چلی جاتی ہے۔کرۂ ارض پر اس کا سیاسی اور معاشی غلبہ ہوجاتا ہے۔انسانی تاریخ انہی تخلیقی صلاحیتوں کے بہتر سے بہتر استعمال کی کہانی ہے۔یونان سے بات آگے بڑھی روم وایران تک پہنچی۔قدیم چین اوربھارت میں انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کیاگیا۔چند صدیوں کے لئے مسلمانوں نے بھی اپنے جوہردکھائے۔انسانیت کو کافی کچھ دیا۔مسلمانوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال سے کئی شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارنامے سرانجام دیئے۔پھر یورپ سے اندھیرے چھٹ گئے اور یورپ بیدار ہوا۔تخلیقی صلاحیتوں کا یہاں بھر پور اظہار ہوا اور اب تک جاری ہے۔تاریخ انسانی میں تخلیق و ایجادات کا جتنا کام یورپ میں ہوا کسی اور علاقے میں نہیں ہوا۔یورپ نے اپنے بہتر ہتھیاروں اور سماجی علوم کی وجہ سے ہی دنیا پر غلبہ حاصل کیا۔اور امریکہ تو یورپ کی ہیExtentionہے۔تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کو امریکیوں نے خصوصی عروج بخشا۔برطانیہ کے بعد امریکہ کا کرۂ ارض پر چھا جانا ہر شعبہ ہائے زندگی میں تخلیقی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال ہی تو ہے۔سیاسی تنظیم سے لیکر معاشی تنظیم تک بھر پور توجہ دی گئی۔کرۂ ارض سے لیکر خلاؤں تک پھیلی ہوئی ہزاروں لاکھوں ایجادات انسانی عقل کو دنگ کئے ہوئے ہیں۔اور ابھی تو کام جاری ہے۔جاپانی بھی دوسری جنگ عظیم تک اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بھر پور استعمال کی وجہ سے ایک قوت بن چکے تھے۔2۔ایٹم بموں سے تباہی کے بعد انہو ں نے اپنی صلاحیتوں کا رخ ہتھیاروں سے ـ"اشیاء سازی ـ"کی طرف موڑ لیا۔اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ جاپانی الیکٹرانک اشیاء سے لیکر کاروں نے کرۂ ارض پر دھوم مچا دی۔امریکی کارساز پریشان ہوگئے۔جاپانیوں نے صرف اپنی صلاحیتوں کا رخ ہی تو موڑا تھا۔اور اب چینی میدان میں آگئے ہیں۔صرف اور صرف40۔سالوں میں انہوں نے تکنیکی اور معاشی لہاظ سے دنیا کو فتح کرلیا۔ڈالروں سے اپنے ذخائر بھر لئے۔جب یورپ کے کسی ملک کے مالی حالات خراب ہوجاتے ہیں۔تو ٹیلی فون بیجنگ کو ہی جاتا ہے۔چینی سستی اشیاء اب یورپ اور امریکہ کی ضرورت بن چکی ہیں۔یہ جو قرآن میں کہا گیا ہے۔کہ کرۂ ارض پر قوموں کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔یہ تبدیلی تو ہماری زندگی میں ہی سامنے نظر آتی رہتی ہے۔تاریخ سامنے ہی بن رہی ہے۔روس سپر پاور بھی بنا۔رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑی سلطنت۔پھر اس سے15۔ریاستیں علیحدہ بھی ہوگئیں۔اوراب پھر اسکا ابھار نظر آرہا ہے۔تبدیلی آرہی ہے۔اور ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔کرۂ ارض پر معجزے ہوتے ہیں۔لیکن معجزوں سے بنی ہوئی اشیاء محنت کی بھٹی سے تیار ہوکر آتی ہیں۔تقدیر کا حصہ صرف10 ۔فیصد اور باقی90۔فیصد کا Creditصرف اور صرف محنت کو جاتا ہے۔طاقتور ملکوں کی تاریخ کو اگر گہرائی سے پڑھا جائے تو وہاں محنت اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال واضح طورپر نظر آتا ہے۔تمام شعبہ ہائے زندگی میں توجہ اور مثبت انداز سے آگے بڑھنا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔اگر راستے میں پہاڑ آجاتے توراستہ بدل کر سفر جاری رکھنا زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے۔حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی یہ دیکھے کہ کیا درست ہے؟مگر اجتماعی معاملات کے لئے یہ دیکھا جائے کہ ممکن کیا ہے۔جو چیز ممکن ہواس کو اپنایا جائے۔مسلم اقوام یہ شور کرتی رہتی ہیں کہ ہمارے خلاف سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔یہ جاہلانہ باتیں ہیں۔اس دنیا میں قوموں کے درمیان مسابقت جاری رہتی ہے۔ہر قوم اپنی بھلائی اور فائدہ کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔اور ایک قوم کا فائدہ دوسرے کے لئے نقصان شمار ہوتا ہے۔امریکہ نے افغانستان اور عراق کو برباد کرکے اپنے لئے فوائد سمیٹے۔اسرائیل محفوظ ہوگیا۔تباہی مسلمانوں کی ہوئی۔یہ مسابقت تو صدیوں سے جاری ہے۔اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔جب20۔ویں صدی میں مسلم اقوام استعمار سے آزاد ہوئی تھیں۔تو تب موقع تھا کہ مسلمان آئندہ کے لئے سوچ سمجھ کر پلان بناتے۔اپنی خامیوں اورکمزوریوں کو دور کرتے۔ایک بڑی کمزوری"سیاسی تنظیم"کا نہ ہوناتھا۔ریاستیں کیسے چلائی جائیں۔جدید طرز کی جمہوری ریاستی تنظیم ہی مسلمانوں کے مسائل کاحل تھی۔دوسری بڑی کمزوری عقلی علوم اور تکنیکی علوم میں پسماندگی تھی۔مسلمانوں کو اونچے درجے کی تعلیم و تربیت دینا ضروری تھا۔تعلیم یافتہ لوگوں نے ہی" نہیں "کو"ہے" میں بدلنا تھا۔لیکن ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مسلمان اپنی ان دونوں خامیوں کو دور نہ کرسکے۔مسلم اقوام اب پھر پیچھے رہ گئی ہیں۔کمزور مسلم علاقوں کو اب امریکہ،یورپ اور روس جب چاہیں تہس نہس کرسکتے ہیں۔مسلم اقوام کو چاہیئے کہ اپنے لوگوں کو تعلیم یافتہ بنائیں جیسا کہ شروع میں کہاگیا ۔تعلیم یافتہ کی پہچان کیا ہے۔ جواب تھا کہ وہ شخص جو" نہیں "سے"ہے" کی تخلیق کرے۔
 
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.