دادری سے گجرات تک بدلا کیا ہے؟

آج بھی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، زبان کپکپا جاتی ہے، قلب میں حدت پیدا ہوجاتی ہے، جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، کائناتِ انسانی کا ہر فرد اس درد کو یکساں طور پر محسوس کرتا ہے، جب تذکرہ ہوتا ہے دادری کے ایک مظلوم پر ہوئی جبر و تشدد کی داستان کا، اس کی بیوی کادرد، اس کے یتیم بچوں کی بے کسی ملت ہندیہ کا ہر فرد محسوس کرتا ہے اور گائے کے نام پر ہوا قتل ہندوستان کی تاریخ کا بدترین واقعہ ثابت ہواہے۔ دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہئےتھا کہ یہ واقعہ سبق ہوتا اور ملک میں پھر کوئی ایسا سانحہ رونما نہ ہوتا لیکن جو ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے، آئے دن ایسے واقعات ہوتے ہیں جن میں گائے کی حفاظت کے نام پر نوجوانوں اوور بوڑھوں کو نشانہ بنایا گیا، مظفرنگر کے گاؤںکڈلی میں دادری جیسا حادثہ ہونے کے قریب تھا لیکن افراد خانہ نے بھاگ کر جان بچائی، گھر کا سامان توڑ دیا گیا، پورا گاؤں دہشت میں مبتلا رہا، قانون کے رکھ والے تماشا ثابت ہوئے۔ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے، مدھیہ پردیش میں مسلم خواتین کی پٹائی کی گئی حالانکہ گوشت بکرے کا تھا، اگر گائے کابھی ہوتا تو ان لوگوں کو سزا دینے کا حق کس قانون اور کس ضابطہکے تحت حاصل ہوا؟ عجیب حال کہ انہیں کو گرفتار بھی کیا گیا اور تحقیق کہ بعد ضمانت ملی، یہ واقعاتعیاں کرتے ہیں کہ ملک کس صورت حال سے دوچار ہے؟ شر پسند عناصر کس موڈ میں ہیں ؟ گائے کے نام پرکس طرح مسلمانوں کو زدو کوب کیا جارہا ہے اور مسلم رہنماؤں کی زبان میں حرکت نہیں ہوتی، وہ اپنی سیاسیساکھ برقرار رکھنے کے لئے اپنے آقاؤں کے زرخرید غلام بنے ہوئےہیں، جن کی نگاہیں اس جرم کو نہیںدیکھتیں، جن کا قلب اس تکلیف کو محسوس نہیں کرتا اور وہ پارٹی کے منشور کو خدائی دستور سمجھ کر بلا چون چرا عمل پیرا ہوجاتے ہیں، ملک کامنظر نامہ اس تلخ حقیقت کو بیان کررہا ہے اور ظاہر کررہا ہے آنے والاوقت کن مسائل کو اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہے، ان سے ہماری بے اعتنائی، بے رغبتی، عظیم خسارے کی نشاندہی کررہی ہے کیونکہ فرقہ پرست عناصر کو جب ملک کی عزت و عصمت سے پیار نہیں ہے، ان کی حب الوطنی پر مفاد پرستی غالب آگئی ہے، کرسی کی چاہ نے انسانی معیار و اقدار کو گھٹا دیا ہے تو پھر نتائج کی سنگینی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ابانتخاب کا وقت جوں ہی قریب آئے گا نکل پڑیں گے خودرو گھاس کے مثل، ہر کوئی اپنے آپ کو ملت کا غمگسار، مسلمانوں کا محب ثابت کرے گا، حب ایمانی اور بے شمار رشتوں کی دہائی دے گا، مسلمانوں کے جذبات سے کھیلے گا اور ان کو بڑیخوبی سے استعمال کرے گا، ایسا احساس ہوتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مسلم چہرے استعمال کرنے کی خاطر ہی اپنے ساتھ رکھےہیں جو اپنے مفاد کے لئے اپنے اغراضو مقاصد کے لئے خود بھی استعمالہوتے ہیں اور ملت کے سادہ لوح افراد کے استعمال کا باعث اور ذریعہ بھی ثابت ہوتے ہیں اور یہ کھیل تمام مسلمانوں کی ذلت کا باعث ہے اور چندافراد کی جھولی میں کچھ سکے ضرور حاصل آجاتے ہیں، یہ ہے تصویرکا وہ بھیانک رخ جسے دیکھنا کوئی مشکل کام نہیں۔آئیے اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجئے مسلمان وہ قوم ہےجس نے 950سال اس ملک پر حکومت کی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا، لازوال قربانیاں پیش کیں، ان کی شہرت، عزت، وقار کا ڈنکا پورے عالم میں بجا اور یہ کہنے میںکوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ وہہندوستان کی سب سے باوقار قوم رہی، اس کے برخلاف دلت عرصۂ دراز سے ظلم و ستم ذلت ورسوائی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے، تعلیممذہب سماج معاشرہ معیشت ہر میدان میں پستی ہی ان کا مقدر ٹھہری، آجان کی اور مسلمانوں کی حالت یکساں ہے، وہی رویہ اور طرز ان کے ساتھ ہے اور وہی مسلمانوں کے ساتھ ڈوب مرنے کی بات تو یہی ہے مگر اب معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ روہت وومیلا کے ساتھ ناانصافی ہوئی لوگ سڑکوں پر نکلے، ظلم کے خلاف آواز بلند ہوئی، متکبر افراد کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور معاملہ ایں جا رسید کہ اب اسمرتی ایرانی اس عہدہ پر برقرار نہیں ہیں۔ مایاوتی کو گالی دی گئی، تمام دلت متحد ہوئے، بی جے پی مجبور ہوئی، احتجاج کا اثر یہاں تک ہوا نریش سنگھ کا پارٹی سے اخراج کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمے بھی درج ہوئے، گجرات میں چار دلتوں کو پیٹا گیا، ان پر مظالم کے پہاڑ توڑےگئے، بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا اورنتیجہ گجرات وزیر اعلی کے استعفی کیشکل میں ظاہر ہوا، اگر چہ 75سال سے زیادہ عمر ہونا ان کے استعفیٰ کی وجہ بتائی جارہی ہے مگر استعفیٰ کا خاص وقت سب کچھ بیان کرتا ہے، ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ دلتوں پر یہ مظالم ہوں، انہیں ستایا جائے، تکالیفمیں مبتلا کیا جائے، ہمارا منشاء و مقصدذہنوں پر پڑی گرد کو صاف کرنا اور یہ احساس دلانا ہے کہ دادری اور گجرات میں بدلا کیا ہے۔مدھیہ پردیش اور حیدرآباد میں تبدیلی کس چیز کی ہوئی وزیر عظم کی خاموشی تک ٹوٹ گئی اور انہوںنے گائے کے محافظوں کو غنڈے، بدمعاش کہنے کی جرأت کی اور غصہکا اظہار کیا، اگر چہ اس غصہ کی عملی شکل دیکھنے کی خواہش ہر ہندوستانی کے دل میں ہے وہاں بھیتکلیف ہے، درد ہے، ظلم ہے، یہاں بھی پریشانیاں ہیں، مسائل ہیں، ایکمظلوم قوم ان کا سدباب کرنے کے لئے متحد ہے۔ سیاسی طور پر بھی، مذہبی طور پر بھی، سماجی اور معاشی طور بھی اور ایک وہ قوم ہے جہاں بانی جس کی ٹھوکروں میں ہوتی تھی، بلندی جس کا تعارف اور پہچان ہے وہ منتشرہے۔ ہر محاذ، ہر میدان اور ہر موڑ پر بکھری ہوئی ہے، وقت کا کون سا طوفان ہمیں متحد کرے گا اور زمانے کی کون سی کاری ضرب ہماری عقل و ہوش کو زندہ کرے گی، وقت کی کوکھ میں پوشیدہ ہے مگر عبرت کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم دلت مسلماتحاد کا نعرہ لگارہے ہیں، دلت کو ہم سے کوئی سروکار نہیں، اگر ہوتا تو مایاوتی لوک سبھا انتخاب میں یہ نہ کہتی کہ ہم نے اپنا ووٹ بی جے پی کو دلادیا تاکہ شدت پسند فتح یاب نہ ہوجائیں، جو مسلمانوں کی پسند ہیں اور مسلمانوں نے شدت پسندوں کو ووٹ دیا، وہ ہمارے ساتھ ہماری جماعت کے تقاضوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے مسلم رہنماوں کے بیانات سن لیجئے اور معاملہ کی کیفیت اندازہ لگائیے، ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ دلتوں سے اتحاد نا کیا جائے یا یہ غلط ہے برا ہے بلکہ ایک ٹیس ہے، درد ہے، تکلیف والم کا احساس قلب پر حاوی ہے، ہم اس مرحلہ تک کیوں پہونچے؟ غور و فکر کا عنوان یہ بھی ہے اور نتائج کا فرق بھی احساس دلارہا ہے، ملک میں ہماری حیثیت کس طرح کی ہے اور ہمارا وقار و اعزاز کہاں گیا؟ فرق یہی ہے کہ ہماری سوچ وفکر تبدیل ہوگئی ہم اقدامات کرنا بھول گئے، ہم زمانے کی رفتار پر برقرار نہ رہ سکے، ہماری فکر تبدیل ہوگئی، ورنہ تنہائی میں غور کیجئے، چند لمحات ہی میں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ گجرات اور دادری میں کیا تبدیل ہوا ہے کہ گجراتمیں بی جے پی کی پوری حکمت عملی بکھر کر رہ گئی اور جماعت بڑے فیصلے کرنے پر مجبور ہوئی اور مدھیہ پردیش اور دادری میں کسیسیاسی جماعت کو گجرات جیسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 84972 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.