بچو اور بچاؤ

بہت کٹھن وقت آن پہنچا ہے۔کوئی کسی پر بھروسا ہی نہیں کر سکتا ۔نہ جانے کون کب آپ کے ساتھ ہاتھ کر جائے۔کون کب آپ کو دھوکا دے جائے۔کب اپنا ہی وہشت پر اتر آئے اور آپ کو کسی دلدل میں دھکیل دے۔کسی دوست کسی عزیز و رشتہ دار حتی کہ اپنے سگوں پر بھی بھروسا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ایسا دور آن پہنچا ہے کہ آپ اپنے سب سے بڑے دشمن کو ہی اپنا سب سے بڑا دوست تصور کرتے ہیں مگر وہ ایک دن آپ کو ایسا تباہ کرتا ہے کہ آپ دوبارہ آباد نہیں ہوتے۔ہمیں اس موجودہ دور میں بہت سنبھل کر چلنا ہوگا خود بھی ایسے عناصر سے بچنا ہوگا اور اپنے بال بچوں گھر والوں و دوستوں کو بھی ایسے عناصر سے بچانا ہوگا۔

کبھی ایسا وقت بھی ہوا کرتا تھا کہ سب آزادانہ زندگی بسر کیا کرتے۔دکھ فکر غم اور ڈر انسان سے کوسوں دور رہتا ۔زندگی سہل تھی۔پریشانیاں کم تھیں۔لوگ کم تھے سہولتیں نہ تھیں بلکہ لفظ سہولت سے لوگ آشنا ہی نہ تھے۔مشقت کی زندگی تھی۔مگر سکون تھا۔جو جتنی زیادہ مشقت کر لیتا اتنا زیادہ اچھا کھانا کھا لیتا۔دولت نام کی کوئی چیز نہ تھی لوگ عالم نہ تھے۔اتنی سادگی تھی کہ ہم تصور ہی نہیں کر سکتے۔وقت گزرتا گیا لوگوں میں محنت و مشقت کا جذبہ پیدا ہوا۔جو جتنی زیادہ محنت کر لیتا اتنی ہی بہتر زندگی بسر کرلیتا۔آہستہ آہستہ لوگوں میں مقابلہ بازی شروع ہو گئی۔مگر زندگی بہتر بنانے کے مقابلوں میں کبھی ذاتی دشمنی کو پروان نہ چڑھنے دیا۔لوگ سادہ تھے لڑائی جگھڑا بہت کم تھا۔انسان اکٹھے ہو کر دوسری بالاؤں کا مقابلہ کرتے۔انسانوں میں اتفاق تھا۔وقت گزرا بالائیں ٹلیں تو انسان آپس میں لڑنا شروع ہوئے۔وقت کے ساتھ ساتھ لڑائیاں بڑھتی گئیں۔زمین پر انسانوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ ساتھ کئی جرم بھی بڑھے۔حتی کہ یہاں تک نوبت آن پہنچی کہ انسان اپنا مال و زر بھی بڑی احتیاط سے رکھنے لگا صدیاں گزریں مال وزر کو فتنا بنتے دیکھا گیا۔انسان نے اپنے مال ودولت کو محفوظ رکھنے کے لئے کئی اقدامات کئے مگر محفوظ نہ رکھ سکا۔گھر سے باہر نکلتے وقت کوئی اپنے پاس زیادہ رقم نہ رکھتا کہ چھن نہ جائے۔اپنے مال کی حفاظت کے لئے انسان پریشان رہنے لگا۔مگر گزشتہ کئی سالوں سے انسانوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔جب سے انسانی اسمگلنگ کے واقعات سامنے آئے تب سے انسان خود کو کہیں بھی محفوظ نہیں سمجھتا۔گھر سے باہر جاتے ہر کوئی ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی مجھے ہی نہ اٹھا لے۔پوری دنیا میں ایسے واقعات سامنے آئے انسانوں کو انسان ہی اٹھا لے جاتے ہیں۔میں جانتا ہوں ایسے لوگوں کو انسان کہنا گناہ ہے۔لیکن معذرت کے ساتھ یہ انسانی اسمگلر اور اغواء کار بھی ہم جیسے ہی ہیں کوئی اور مخلوق نہیں ہم میں سے ہی ہیں انکے بھی ہماری طرح عزیز و اقارب بھی ہیں۔پوری دنیا میں انسانی اسمگلنگ کئی طریقوں سے کی جاتی ہے۔جن میں نشہ آور چیزوں کے استعمال سے اغوا سب سے زیادہ ہے۔جہاں دنیا بھر میں انسانی قدروں کا خاتمہ ہوا انسانیت کو پامال کیا گیا وہیں پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بھی انسانی اسمگلنگ کے کئی واقعات سامنے آئے۔بچوں بڑوں بوڑھوں اور عورتوں کو بھی اغواء کیا جاتا رہا۔انسانی اسمگلر لوگوں کو اغوا کر کے روپے کے عوض فروخت کر دیتے۔با اثر لوگ انسانوں کو خرید کر ان سے طرح طرح کے دھندے کرواتے ہیں۔کچھ اسمگلرز انسانوں کو اغواء کر کے انکے جسمانی اعضاء نکال کر فروخت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ ڈاکٹرز بھی ملوث ہیں۔کچھ اغوا کار روپے(تاوان) حاصل کر کے مغوی لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔جن کے چھوٹنے پر ہمارے ادارے اپنا جعلی کریڈٹ لے جاتے ہیں۔گزشتہ کئی روز سے پنجاب بھر میں بچوں کے اغواء کے کئی واقعات سامنے آئے۔سینکڑوں بچے پنجاب سے اغوا ہوئے جن میں سے زیادہ کو بازیاب کروا لیا گیا مگر ابھی بھی بہت زیادہ غائب ہیں۔یہ سلسلہ تھما نہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ بچوں کے اغواء میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔بہت سے سوالات ہیں جو لوگوں کے دل و دماغ میں گردش کر رہے ہیں۔اغوا کار کون ہیں کیوں اغوا کرتے ہیں؟بچے آسانی سے کیسے اغوا ہوتے ہیں ؟اغوا کے واقعات کو روکا کیوں نہیں جاتا؟اور حکومت اسکی روک تھام ک لئے کیا کر رہی ہے؟آخر کہاں ہے وہ میڈیا اور سیاسی و سماجی نمائندگان جو وزیر اعظم گورنر اور چیف جسٹس کے بیٹے کے اغواء پر تو چیختے ہیں مگر عام غریب لوگوں کی آواز کیوں نہیں بنتے؟کسی بھی معاشر میں غربت و جہالت ایسے فیکٹر ہیں جو انسان کو برائی کے کسی بھی درجے پر لے جاتے ہیں۔غربت و جہالت انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا کر شیطان کے برابر بھی کھڑا کر سکتی ہے۔پاکسان میں غربت جہالت و عدم انصاف کی وجہ سے کئی جرم پروان چڑھے جس میں اغواء کاری چوری ڈکیتی جسم فروشی قتل و غارت بہت عام ہیں۔اغواء کار بھی روپے کے لالچ میں ایسے گناؤنے کام کو انجام دے رہے ہیں۔غربت و جہالت ان لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔غربت کے ستائے ہوئے یہ لوگ بااثر اسمگلروں ک ہتھے چڑھ کر روپے کے عوض اپنے اور دوسروں کے گھر اجاڑ رہے ہیں۔ روپے کے لالچ میں اپنا انجام بھول بیٹھے ہیں کہ دنیا و آخرت میں انہیں سخت سزاؤں سے کوئی بچا نہیں سکے گا ۔چھوٹے بچے انکا آسان ہدف ہوتے ہیں۔کیونکہ پاکستان میں لوگ بچوں کو جنم دے کر بھول جاتے ہیں کہ انکا خیال بھی رکھنا ہے۔سکول داخل کروا کر بھول جاتے ہیں کہ بچہ سکول بھی جاتا ہے اور اغواء کار بچوں کو کھانے کے لالچ میں نشا آور اشیاء کھلا کر سکولوں گلی محلوں سے با آسانی اٹھا کر اپنے غلط مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اغواء کے واقعات کو اس لئے روکا نہیں جا سکا کیوں کہ ہمارے ادارے سوئے ہوئے ہیں کوئی بھی ادارہ اپنے فرض سے واقف نہیں۔ہمارے سیکورٹی اداروں کے اہلکار حکومتی نمائندوں کی خدمت میں مصروف و معمور ہوتے ہیں اور عام شہریوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔یقین مانئے بے حد افسوس ہوتا ہے ایسے دہرے معیار پر حکومتی وسیاسی اور سماجی نمائندوں کی بے حسی پر جونامور شخصیات کے بچوں کے اغواء پر دن رات چیختے رہتے ہیں مگر عام شہریوں کے بچوں کے اغواء پر خاموش بیٹھے ہیں۔یہ دہرا معیار کیوں؟آخر کب اسکا خاتمہ ہوگا؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ روپے کے عوض راگ الاپتے ہیں یا پھر انسانی اسمگلروں سے ان کے اچھے مراسم ہیں۔ہمیں ان ماؤں کے غم کا کیا پتہ جن کے معصوم پھول مر جھا گئے جن کی آنکھوں کے آنسو اور روشنی ختم ہوگئی جو اپنے پیاروں کی شکل دیکھنے کو تڑپ رہی ہیں۔ہمیں اس باپ کے غم کا کیا علم جس کے سامنے اس کے بچوں کو اغواء کیا گیا اور وہ کچھ نہ کر سکا وہ ساری زندگی کیسے جی سکے گا۔آہ ان عورتوں کو کون پوچھے گا جن کو اغواء کر کے بھی زندہ رکھا گیا آہ یہ بے حس معاشرہ۔ہمیں کسی کے غم کا کیا اندازا کسی اپنے بلکہ جگر کے ٹکڑے کے چھن جانے کا کیا غم ہے۔کیا یہ وہی پاکستان ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا جہاں لوگ اپنی آزادانہ زندگی بسر کر سکتے کبھی بھی نہیں میں اسے اسلام سے کیسے منصوب کر دوں جہاں کوئی کسی کا درد بھانٹنے والا نہیں جہاں اخوت نہیں انصاف نہیں قانون نہیں۔جہاں ہر کوئی دولت کے لالچ میں ڈوبا ہوا ہے کیسے وہ اسلامی ملک ہو سکتا ہے۔خدارا خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔آج کسی کا بیٹا اغواء کرو گے تو کل کوئی تمہارا اغواء کرے گا۔آج تمہیں کسی کے غم کی کوئی پروا نہیں تو کل کو اﷲ نہ کرے تمہارے ساتھ ایسا ہوجائے تو کسی کو تمہارے غم کی بھی کوئی پروا نہیں ہوگی۔یاد رکھو جو بیج بویا جائے گا اسی کو کاشت کرو گے۔حکمرانوں اور اداروں سے امیدیں وابستہ کرنا چھوڑ دیں یہ آپ کے زخموں پر نمک ہی چھڑک سکتے ہیں۔خود ایک اچھا معاشرہ بن جاؤ ایک دوسرے کے ہاتھ بن جاؤ اتنے مضبوط ہاتھ کے کوئی تمہاری طرف میلی آنکھ سے دیکھ نہ سکے۔دوسروں کی مدد کر کے ان کو بچائیں اور اﷲ کے حضور خود بھی بچیں یعنی بخشش پائیں۔
Ch Zulqarnain Hundal
About the Author: Ch Zulqarnain Hundal Read More Articles by Ch Zulqarnain Hundal: 129 Articles with 117090 views A Young Pakistani Columnist, Blogger, Poet, And Engineer
Member Pakistan Engineering Council
C. E. O Voice Of Society
Contact Number 03424652269
.. View More