معصوم بچے دہشت گردوں کے نشانے پر

بچے ہمارے ملک کا آنے والامستقبل ہیں۔اوران بچوں سے ہمارے ملک کی بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن کچھ درندوں سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ ہمارا ملک بھی ترقی کرے اس ملک کو بھی عروج ملے۔اس لیے ان درندوں نے ہمارے مستقبل کو ہی نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ہمارے ملک کے بچوں کو اغوا کرنا شروع کر دیا اور ان کو آگے فروخت کر کے اُن کے جسم کے اعزا بیچ کر اپنے رزق کے لیے رقم لیتے ہیں کیا یہ حلال کمائی ہے؟؟نہیں یہ حرام کمائی جو وہ خود کھاتے ہیں وہ بھی اور جو اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں وہ بھی۔کیا فائدہ ایسی روزی کا انسان اپنی روزی حلال طریقے سے بھی حاصل کر سکتا ہے کوئی مزدوری کر سکتا ہے ایسے وہ حلال کمائی بھی کما سکتا ہے۔اور اس کے بچے بھی حلال روزی کھا سکتے ہیں ۔ان درندوں کی وجہ سے آج بچہ بچہ ڈر کر گھر بیٹھ گیا ہے اُن کے والدین کے دل میں ڈر بیٹھ گیا ہے کہ بچوں کو اگر باہر بھیجا تو انہیں کوئی بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔اور ان کا یہ کرنا جائز بھی ہے کیونکہ کوئی بھی والدین نہیں چاہیں گے کے اُن کے جگر کے ٹکروں کے ساتھ کچھ بھی ہو۔اسی ڈر کی وجہ سے وہی بچہ جس نے آگے بڑھ کر ملک کا نام روشن کرنا ہے۔وہی بچہ جس نے دہشت گردی کا خاتمہ اپنے علم سے کرنا ہے وہی بچہ جس نے ملک کے ہر خواب کوسچ کر دیکھانا ہے وہ آج گھر پر اسی ڈر کی وجہ سے بیٹھ گیا ہے کہ کہیں اُسے کوئی اغوا نہ کر لے اور اُسے کوئی نقصان نہ پُہنچائے ۔اسی ڈر کی وجہ سے بچے سکول اور کالجز جانے سے انکار کریں گے اور والدین بھی اُنکا ساتھ دے گے۔اور ایسا ہی ہو گا کیونکہ میں پہلے ہی ارض کر چکا ہوں کہ کوئی بھی والدین اپنی اولاد کو کچھ بھی نہیں ہونے دے سکتی۔اور اگر ان درندوں کا کچھ نہ کیا گیا تو آنے والے کچھ مہینوں میں سکول وکالجز میں طلبہ کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے گی۔پھر کہا جائے گا ملک کا مستقبل ۔اس ملک کو اُس وقت تک ترقی نہیں مل سکتی جب تک اس ملک کے نوجوان ترقی کی طرف گامزن نہیں ہوں گے تب تک اس ملک کا کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور یہ اُس وقت ہی ممکن ہو گا جب اس قوم کے دلوں سے انکا ڈر ختم ہو جائے گا۔اور ان کا ڈر ختم کرنے کے لیے غیر ملکی باشندوں اور ان بے عقلوں کو ختم کرنا ہوگا۔اور وہ بھی تب ہی ہو سکتا ہے جب اس ملک کے مستقبل کو بچانے والے کوئی اقدامات اُٹھائے گے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ بچوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے ان معصوم کے ساتھ کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے انہوں نے تو کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑا ۔کیا چاہتے ہیں یہ کیا ان میں ذرہ بھی انسانیت باقی نہیں رہ گئی کہ یہ ملک کے بچوں کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔کیا ان میں ذرہ بھی غیرت باقی نہیں ۔ہمارے پیارے نبی کریم ﷺبچوں سے نہایت ہی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔اور بچے تو باغ کے پھول ہوتے ہیں۔اور انہی پھول کو وہ مرجھانے کی کوشش میں لگے ہیں اور اگر اﷲ نے چاہا تو اُنکی اس کوشش کو رد کر دے گا۔اور ان کوہدایت دے گا ۔کہا گئی ان درندوں کی انسانیت ۔اور یہ بھی کہنا بجا ہو گا کہ انسان تو ہر گھرمیں پیداہوتا ہیں لیکن انسانیت کہیں کہیں جنم لیتی ہے۔کاش یہ انسانیت اور تھوری سی غیرت ان لوگوں میں بھی موجود ہوتی جو ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔مگر افسوس انکو کسی کا ڈر نہیں رہ گیا ہوا یہ لوگ دن بدن بے حس ہوتے چلے جا رہے ہیں۔جب تک ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی اس ملک کا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔اور میرا یہ سوال ہے کہ اُن بچوں کا کیا قصور تھا جن کے جسموں کو گولیوں سے چھلی چھلی کر دیا گیا تھا۔میں کسی اور کی نہیں بلکہ پشاور میں ہونے والے خادثے کی بات کر رہا ہوں ۔کہ کس طرح اُن معصوم بچوں کو دن دیہاڑے قتل کر دیا وہ بھی ایک دو نہیں انکی تعداد بھی بہت ذیادہ تھی۔ان بچوں کے بھی کتنے خواب ہو گے اُن ظالموں نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اُن بچوں کے خوابوں کو چھین لیا۔اُن کے ارمانوں کو مٹی میں دبا دیا۔نا جانے اُنکی کتنی خواہشات ہو گیں جنہیں وہ پورا کرنا چاہتے ہونگے۔مگر افسوس صد افسوس اُن ظالموں کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ نہ کر سکے۔
Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 38400 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More