تیرا گلشن کبھی ویران نہ ہونے دیں گے !

نوجوانوں کے عالمی دن 12 اگست کے موقع پر ایک خصوصی تحریر
دانشور کہتے ہیں کہ جس ملک کا نوجوان جتنا زیادہ تعلیم سے آراستہ ہو گا وہ ملک اتنی ترقی کرے گا ،تعلیم کا جو حال ہمارے ملک میں ہے۔ اس پر رویا جا سکتا ہے ،ماتم کرنا چاہیں تو وہ بھی ہو سکتا ہے ،بے حسی کی چادر اوڑھ لیں تو سب اچھا ہے ۔بہت سے تعلیمی نظام رائج ہیں ،اسی طرح بے شمار نصاب ہیں ،اس کے علاوہ ہمارے ہاں رٹے سے ڈگری (پیسے سے بھی ملتی ہے،نقل سے بھی)انگلش بولنے کو علم سمجھا جاتا ہے -

پانچویں پاس وزیر تعلیم بن سکتا ہے ،ایف اے پاس صدر ، ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک بچے کو مادری زبان ،قومی زبان ،مذہبی زبان ،اور حکومتی زبان(انگلش جو کہ اصل میں آقا کی زبان ہے جس نے نوجوانوں کا خون نچوڑ لیا ہے )سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ۔علم کا مطلب جاننا نہیں صرف کسی مخصوص زبان میں رٹنا ہے(وہ عصر حاضر کے علوم ہوں تو انگلش میں رٹنا اور اگر مذہبی ہوں تو عربی میں رٹنا کیونکہ قرآن پاک کو بھی ہمارے ہاں مادری یاقومی زبان میں سمجھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا)پاکستان میں 70 فیصد سے زیادہ ان پڑھ ہیں ایسے میں نوجوان تخلیقی ذہین کیسے پیدا ہوں گے ۔ان نوجوانوں کے دم پرملک کیسے ترقی کرے گا ۔ حالانکہ نئی نسل تعلیم کے بل بوتے پر ملک کے کلچر کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔
دانشور وں کو کیا کہیں وہ تو کہتے ہیں جس ملک کا نوجوان طبقہ جتنا زندہ دل ہوگا، زندہ ضمیر ہوگا۔ اس ملک کی قوم اس قدر خوددار ہوگی۔ ہمارے ملک کے نوجوان طبقے کے زندہ دل ہونے میں تو کوئی شک نہیں لاشوں پر بھنگڑے ڈالتے دیکھے جا سکتے ہیں (ضمیر کا زندہ ہونا ضروری نہیں) کسی ملک کی ترقی کے لیے اس ملک کے نوجوانوں میں دیگر جن خوبیاں کا ہونا ضروری ہے، ان میں مقصدیا نصب العین ، مسلسل محنت ،محنت میں سمت کا درست ہونا ، اور اخلاق وغیرہ پھر یہ کہ نوجوانوں کو بے کار نہ رہنے دینا (روزگار دینا) وغیرہ جیسی سہولیات کا ہونا کو تو ہم کتابی باتیں سمجھتے ہیں ۔

کسی ملک کی ترقی کے لیے اس ملک کے نوجوان کو سب سے پہلے بھوک و غربت سے نجات دینا ضروری ہے اس کے لیے اس کو روزگار دینا ہوگا ۔اس وقت نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہی ہے ۔ایسا نہ کیا گیا تو نوجوان اپنی سمت کھو دیں گے ۔پیسے کے حصول کے لیے وہ جائز اور ناجائز دھندوں کو بھول جائیں گے ۔کیونکہ زندہ رہنے کے لیے روزگار کا ہونا ،ایک معقول آمدن کا ہونا ضروری ہے ۔اگر ہمارے ہی ملک میں نوجوانوں کو کام پر نہ لگایا گیا تو ملک کا قیمتی سرمایہ ،لاجواب ذہانت بیرون ملک جائے گی بلکہ جا رہی ہے ۔اس سے ملک کی ترقی پر برا اثر پڑ رہا ہے ۔ملک بھر میں بے روزگاری نے نوجوان نسل کو اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھو کھلا کردیا ہے ۔

ہمارے ملک میں نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اس کے باوجود ہمارے ہاں آج تک کسی حکومت نے سنجیدگی سے نوجوانوں کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی نہ ہی ان مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کی ہے۔اس وجہ سے نوجوان جرائم مثلاََ لوٹ مار ،اتنہاپسندی ،منشیات ،رشوت ،ملاوٹ خودکشی جیسے اور دیگر سنگین برائیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔کیونکہ ہم نے اس ملک کو70سالہ تاریخ میں سوائے کرپشن۔ لوٹ مار، قتل و غارت اور غلامی کے سوا کچھ نہیں دیا۔

نوجوانوں کے پاس کوئی ایسا فورم نہیں جہاں وہ اپنی آواز بلند کر سکیں جو فورم ،پارٹیاں وغیرہ ہیں ان کے سربراہ نوجوان نہیں ہیں، اس لیے نوجوان قوم تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے آج کل سوشل نیٹ ورکنگ ،انٹرنیٹ وغیرہ کااستعمال کررہے ہیں ۔یہ استعمال بھی کسی مقصد کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ زیادہ تر فضول کاموں میں وقت صرف کر رہے ہیں ۔ہمارے ملک عزیز میں جب بھی کوئی انقلاب ،نیا پاکستان ،خوشحال پاکستان کا نعرہ لے کر اٹھتا ہے نوجوانوں کی کثیر تعداد اس کے قدم سے قدم ملا دیتی ہے ۔اپنا خون تک بہا دیتی ہے ۔

جس سے علم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کے اندرکیسی تڑپ ہے اس نظام کو درست کرنے کی ، ملک کی ترقی کی اور اپنے ملک سے محبت کی ۔نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا حقیقی سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں ملکوں کی ترقی میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

نوجوان سب سے پہلے مرحلے میں تعلیم، نوکری، روزگار اور مستقبل کی فکر میں رہتا ہے ۔اس کے بعد تعلیم دینا وہ بھی پورے ملک میں ایک جیسا نظام تعلیم ہو اور ایک جیسا نصاب ، جو کہ اس کی اپنی زبان میں ،عدل و انصاف کا حصول آسان ہو تو ملک ترقی کر سکتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں انسان کے پاس جوش ہوتا ہے ،ترقی کا ایک جذبہ ہوتا ہے وہ کچھ کرنا چاہتا ہے،اپنا آپ منوانا چاہتا ہے ۔نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے ،نوجوان اپنی ذات،خاندان،معاشرے بلکہ ملک کے لیے بھی فائدہ مند ،باعث فخر بن سکتا ہے ۔
تجھ سے اے پاک وطن ہے یہ ہمارا وعدہ
جہالت کی جیت کے سامان نہ ہونے دیں گے
کر کے چھوڑیں گے اسے خونِ جگر سے شاداب
تیرا گلشن کبھی ویران نہ ہونے دیں گے

پوری دنیا میں 12 اگست کو نوجوانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر نوجوانوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو غربت اور بے روزگاری کی دلدل میں پھنسنے سے بھی بچانا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد نوجوانوں کے مسائل جاننا ،ان کے حل پر بحث کرناوغیرہ ہے ۔اقوام متحدہ نے 1998ء میں پہلی بار عالمی یوم نوجوانان منانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سے اسے ہر سال دنیا بھر میں بھرپور جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے ۔

جی ہاں صرف منایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی اس دن کو بڑے اہتمام سے ( بلکہ بے شرمی سے ) منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے سے نہ ہی تو دنیا بھر کے نوجوانوں کے مسائل حل ہوئے اور پاکستان میں تو نوجوانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔آج بھی نوجوانوں کی وہی حالت ہے جو 1998 ء میں تھی ہاں اس دن نوجوانوں کے لیے بوڑھے سیاست داں،رہنما،لیڈر ،وزرا وغیرہ

تقریر یں ضرور کریں گے ،جن میں نوجوانوں کو ملک کا مستقبل ،قیمتی سرمایہ ،اور ملکی ترقی کا ضامن،قرار دیا جائے گا ۔اس کے علاوہ نوجوانوں کے دل بہلانے کو ان کے نام کے پروگرام کیے جائیں گے ،کالم لکھے جائیں گے ،اخبارات اسپیشل ایڈیشن شائع کریں گے لیکن پرنالا وہیں رہے گا جہاں اس دن کو منانے سے پہلے تھا ۔

رپورٹ ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا نوجوان غربت کا شکار ہے اور ہر پانچواں روزگار سے محروم ہے ۔یہ تو دنیا میں نوجوانوں کی حالت ہے پاکستان میں ملکی اداروں کے مطابق ہر دسواں پاکستانی نوجوان بے روزگار ہے جبکہ عالمی اداروں کے مطابق ہر چھٹا پاکستانی نوجوان روزگار سے محروم ہے ۔لیکن حقیقت اس سے کہیں مایوس کن ہو گی کیونکہ جھوٹے اعدادو شمار دینا ہمارے ملک میں حکومت کا گر سمجھا جاتا ہے ۔اگر مردم شماری ہوتی ہے جو کہ 2016 ء کو ہونے جارہی تھی اب پھر اس کو کینسل کر دیا گیا اور میرے خیال میں کسی نئی تاریخ کا اعلان بھی نہیں کیا گیا اگر ملک بھر سے درست اعدادو شمار جمع کیے جائیں تو ایک اندازے کے مطابق شائد پاکستان میں ہر تیسرا نوجوان غربت کا اور چوتھا بے روزگار ہوگا ۔اور آبادی کا60فیصد سے بھی زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔اس لیے اگر ہمارے ملک کے دانشور،رہنما،سیاست داں نوجوانوں پر بھروسہ کریں تو یہ ملکی ترقی کی ضمانت ہے ۔نوجوانوں کی تعداد کا زیادہ ہونا پاکستان پر اﷲ کی رحمت ہے ،اگر ان نوجوانوں کو روزگار دیا جائے ،ملکی ترقی میں ،پالیسی میں،ان سے کام لیا جائے ۔ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں پر مشتمل کونسلزتشکیل دی جائیں۔تو ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے بہت جلد دنیا میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو جائے گا ۔

ہمارے ہاں نوجوانوں کو سیاسی نعروں کی حد تک قوم کا مستقل قرار دیا جاتا ہے اس کی ایک مثال جب پاکستان تحریک انصاف کی ابتدا ہوئی تو عمران خان کہا کرتا تھا ابھی میرے ووٹر بچے ہیں ،دنیا نے دیکھا کہ وہ بچے جوان ہوئے ،تحریک انصاف ملک کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی ۔

عمران خان سے اس وقت غلطیاں ہونا شروع ہوئیں انہیں نوجوانوں پر بھروسہ کرنا چاہیے تھا ،جو انھوں نے نہیں کیا۔پھر بھی دیگر سب پارٹیز سے زیادہ نوجوان طبقہ اب بھی تحریک انصاف میں شامل ہے ۔اس کے بعد سب جماعتوں نے نوجوانوں کو اہمیت دینی شروع کر دی ۔عمران خان اس وقت تک اپنی پالیسی ،نعرے سے دور ہو رہے ہیں ۔لیکن ان کی وجہ سے نوجوان بیدار ہوئے ہیں ۔ان کو اپنی اہمیت کا احساس ہو چکا ہے ۔عمران خان تبدیلی لانے نکلے تھے لیکن جس نظام کو تبدیل کر نا تھا اس میں شامل ہو گئے ، اور اس نظام نے اب عمران کو تبدیل کر دیا ہے پاکستان تحریک انصاف دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح کی ایک پارٹی بن چکی ہے ۔پاکستان میں نوجوانوں کی کثیر تعداد جماعت اسلامی ،عوامی تحریک کے ساتھ بھی ہے ۔ اب مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نوجوانوں کی اہمیت کا اندازہ ہو رہا ہے ۔انہوں نے اپنی ترجیحات میں نوجوانوں کو شامل کرنا شروع کر دیا ہے ۔آنے والا دو ر میں انشا اﷲ ملک کی باگ دوڑ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو گی اور ملک تیزی سے ترقی کا سفر کرے گا ۔ماہرین اقتصادیات کی ایک پیش گوئی کے مطابق پاکستان 2050ء تک معیشت کے اعتبار سے دنیا کا اٹھارواں طاقت ور ملک بن جائے گا اور پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا ،ان شاء اﷲ
Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578863 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More