ضمیر کی عدالت
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ہم نے ا نسان پر
اسکی نیکی و بدی کو الہام کردیا ہے ‘‘ اور فرمایا کہ’’ ہم نے انسان کو دو
ابھرے ہوئے ٹیلوں کی راہ دکھائی‘‘(الشمس: پارہ۳۰) مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں
دو ابھرے ہوئے ٹیلوں سے مراد نیکی و بدی کے دو راستے ہیں۔
ان آیات کی روشنی میں ہر انسان قدرتی طور پر یہ علم رکھتا ہے کہ کونسی بات
حق اور سچ ہے اور کونسی غلط، انسان چاہے کسی بھی مذہب یا مکتبہ فکر سے
تعلّق رکھتا ہے، یہ خوب جانتا ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے؟ اسکی دلیل
یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے یہ پوچھا جائے کہ چوری کرنا، قتل و غارت گری اور
زناکاری کیسے فعل ہیں؟ تو وہ فوراً بلا تامل یہ جواب دے گا کہ یہ سب برے
کام ہیں ، اسی طرح اگر اس سے یہ سوال کیا جائے کہ عبادت کرنا، کسی کی مدد
کرنا اور کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا کیسا ہے؟ تو وہ فوراً کہے گا کہ یہ
سب اچھے کام ہیں اور کرنے چاہئیں۔
یہ سب باتیں انسان کو کیسے معلوم ہوئیں، اس فہم و فراست کی وجہ سے جو قدرت
نے اسکے دل میں الہام کر دی ہے۔ علماء کے نزدیک یہ فہم و فراست چار چیزوں
پر مشتمل ہے یعنی حق،باطل،کسوٹی اور اختیار!
یعنی حق کیا ہے، باطل کیا ہے، ان دونوں کو پرکھنے کی کسوٹی اور پھر دونوں
میں سے کسی ایک پر چلنے کا اختیار۔
یہ سب باتیں اسے کیسے معلوم ہوئیں؟ اسی خدا داد فہم و فراست کی وجہ سے!!
ّّآنحضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ گناہ کی نشانی کیا ہے تو آپ نے فرمایا
گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو اس بات سے ڈرے کہ لوگ تیری اس حرکت
پر مطلع ہو جائیں۔ آپ کا ارشاد گرامی کہ جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کی
وجہ سے اسکے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتاہے پھر اگر وہ توبہ کرتا ہے اور
اصلاح کی جانب مائل ہو تا ہے تو اس نقطہ کو رگڑ کر صاف کر دیا جاتا ہے اگر
انسان گناہ گاری میں بڑھتا ہی رہتا ہے تو وہ نقطہ بھی بڑہتا ہی رہتا ہے حتی
کہ اسکے تمام دل کو ڈھانپ لیتا ہے اور یہی وہ دلوں کو لگنے والا زنگ
ہے(بخاری و مسلم)
یہاں دل سے مراد گوشت کا لوتھڑا نہیں بلکہ انسان کا ضمیرConscience) )ہے۔
انسان کا ضمیر ہی وہ روشنی ہے جو اسے برے اور بھلے میں امتیاز کرنا سکھاتی
ہے اور اسکے نیک کرنے پر اطمینان کا اظہار کرتی ہے اور برائی کرنے سے روکتی
ہے اور ایک ایسی خلش پیدا کرتی ہے جو اسے کسی کروٹ چین سے نہیں بیٹھنے دیتی
گویا یہ ایک عدالت ہے جو انسان کا محا سبہ کرتی ہے جب تک یہ عدالت اپنا کام
کرتی رہتی ہے انسان نیکی و عرفان کی منازل طے کرتا رہتا ہے اور جب یہ اپنا
کام چھوڑ دیتی ہے تو وہ جرم وگناہ کی گہرائیوں میں ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے
اور کبھی کنارے پر نہیں آتا ۔
ضمیر کی اس عدالت کی باز پرس اور روکنے ٹوکنے اور اپنے فیصلہ کو نافذ کرنے
کی قوت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ جس مجرم سے اسکے جرم کا اعتراف دنیا کی بڑی
سے بڑی عدا لت بھی نہیں کروا سکتی یہ اس سے ’’اقبال جرم ‘‘ کروا کراسے خود
کو قانون کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اخبارات میں اکثر اس قسم کی خبری شائع ہوتی رہتی ہیں کہ کسی اجرتی قاتل،
ڈاکویا زناکار نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور اپنے بیان میںیہ کہا کہ
مجھے میرے ضمیر کی خلش چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، یا مجھے سکون نہیں ملتا
اور میں اندر سے ٹوٹ سا گیا ہوں اور اب مجھے خود کو قانون کے حوالے کر کے
خوشی محسو س ہو رہی ہے۔
یہ ہے ضمیر کی عدالت کا فیصلہ!!
یہ تو دنیا کی بات ہے آخرت میں بھی اسی ضمیر کی عدالت کا فیصلہ ہی نافذ ہو
گا وہ اس طرح کہ جب انسان کو اسکا نامہ اعمال دیا جائے گا اور اس سے کہا
جائے گا کہ’’ اپنی کتاب کو پڑھو آج تم اپنا حساب کرنے کیلئے خود ہی کافی
ہو‘‘(القرآن)۔
یعنی اپنے اعمال کا فیصلہ اس نیکی و بدی کی پہچان کرانے والی روشنی میں کرو
جو تمہیں قدرت کی طرف سے عطا کی گئی ہے کہ تم دنیا میں کیا کرتے رہے ؟ ظاہر
ہے کہ انسان اپنے اعمال کا حساب صر ف اسی صورت میں ہی کر سکتا ہے جب اسے
نیکی و بدی کی پہچان ہو اور یہ پہچان اسے اپنے ضمیر کے ذریعے ہی ہو سکتی
ہے۔
ضمیر کی یہ عدالت اپنا کام بند بھی کر دیتی ہے اور اسکا فیضان ختم ہو جاتا
ہے عرف عام میں اسے ضمیر کا مردہ ہونا کہتے ہیں۔ یہ مردہ کب ہوتا ہے، اس
بارہ میں حدیث شریف سے رہنمائی لی گئی ہے۔حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ ایمان کے
تین درجے ہیں پہلا درجہ یہ کہ اگرمومن شخص کسی برائی کو ہوتا ہوا دیکھے تو
اگر استطاعت ہو تو اسے ہا تھ سے روک دے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اسے زبا
ن سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم اسے دل میں برا سمجھے اور
یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے(المشکوٰۃ المصابیح)۔
یعنی اگر دل میں بھی اسے برا نہیں سمجھے گا تو پھر اپنے ایمان کی خیر
منائے۔
اس حدیث شریف کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان برائی کو برائی سمجھے گا تو ایک
نہ ایک روز اس سے باز آ جائے گا اور اسے توبہ کی توفیق مل جائے گی۔اور وہ
ایسا نہیں کرتا تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اسکا ضمیر مردہ ہو چکا ہے جو
گناہ کرنے پر اسکے دل میں کوئی خلش پیدا نہیں کرتا اور وہ عدالت جو اسکا
محا سبہ کرتی تھی اس نے اپنا کام بند کردیا ہے اور اب اس کو گمراہی میں
جانے سے کوئی روک نہیں سکتا |
|