حضرت شیخ الہند تحریک آزادی کے عظیم قائد (قسط اول)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم اﷲم آتني بفضلک أفضل ما تؤتي عبادک الصالحین

از: محمد شرف عالم قاسمی
خادم حج وعمرہ وزیارت مکہ ومدینہ

خدا رسیدہ وکعبہ ددیدہ، پاکیزہ وبرگزیدہ، انگریز ظلم وستم سے لبریز کی طرف سے دی جانے والی شدید ترین تکلیف وضرب ِشدید سہ سہ کر خمیددہ وحالات چسیدہ، متین وسنجیدہ، برطانیہ حکومت وقیادت کے مسلم ممالک خصوصاً ہندستان جنت نشان پر ظالمانہ، جابرانہ اور غاصبانہ ناجائز قبضہ سے حد درجہ غمزدہ ورنجیدہ، اور تمام مسلم دنیا خصوصاً ہندستان ذی شان کی آزادی وبامرادی کے لئے کڑاکے کی ٹھنڈی اور سخت ترین سرد رات میں اپنے معبود ومسجود اور مطلوب ومقصود کے حضور گھنٹوں سجدہ ریز ونم دیدہ، خدائی قانون ومحمدی اصول کے علمبردار ودلدادہ اور پوری دنیا میں آزادی کے تعلق سے چلائی جانے والی تحریکوں وتنظیموں میں سب سے زیادہ منظم، منصوبہ بند اور طاقتور تحریک ریشمی رومال کے بانی ونمائندہ حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندی تحریک آزادی کے عظیم قائد اور جلیل القدر، عظیم المرتبت واولو العزم رہنما تھے۔

ہندستان عالی شان کی خوشحالی وآزادی کے لئے حضرت والا نے اپنا سب کچھ جھونک دیا، اپنا سب کچھ پھونک دیا، تب جا کر ہم ہندستانیوں اور بھارت باسیوں نے آزاد ہندستان لیا، اور حضرت شیخ الہندؒ کو اس پرمغز ومعنی خیز شعر کا مصداق قرار دیا:
پھونک کر اپنے آشیانے کو
روشنی بخش دی زمانے کو

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی تحریک قیام مدارس ومکاتب ومؤسس اسلامی، مثالی والہامی ادارہ دار العلوم دیوبند کے شاگرد رشید وفیض یافتہ حضرت شیخ الہند ہندستان کی آزادی کے پرجوش مگر باہوش داعی، مخلص شیدائی اور جانباز سپاہی تھے۔

پوری دنیا میں مذہب اسلام ودین ِ خیر الانام صلی اﷲ علیہ وسلم کے ترجمان وپاسبان اور ازہر ہند وام المدارس دار العلوم دیوبند کے ساری دنیا میں وکیل اور اس کی زبان حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی جن پر اﷲ تعالی کی زبردست اور عظیم ہے مہربانی، ان کے سدا بہار ومشکبار قلم کی زبانی، پیش ہے حضرت شیخ الہند کی تحریک آزادی میں مجاہدانہ وقائدانہ رول کی قابل صد رشک اور لائق صد شکر کہانی(مضمون میں ہلکی سی تبدیلی کی گئی ہے):
’’حضرت مولانا محمود الحسن دار العلوم دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم تھے، پھر مدرس، صدر مدرس شیخ الحدیث سبھی کچھ رہے، اور دارالعلوم کی چٹائیوں پر بیٹھ کر ہی انہوں نے آزادیٔ ہند کی وہ بین الاقوامی تحریک چلائی جو ریشمی رومال کی تحریک کے نام سے معروف ہے، دیکھنے میں بالکل ہی کمزور وناتواں، مگر باطل کے لئے ایک ناقابل تسخیر چٹان:
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں

ساری عمر جہاد اور اس کی تیاری میں گذری، جب وفات کا وقت آیا تو طبیعت پر آزردگی دیکھ کر بعض لوگ یہ سمجھے کہ شاید موت کی فکر ہے، لیکن پوچھا گیا تو یہ جواب دیا کہ: ’’ آرزو یہ تھی کہ کسی میدان کارزار میں موت آتی،سر کہیں ہوتا، دھڑ کہیں، غم اس کا ہے کہ آج بستر پر مر رہا ہوں‘‘، علم وفضل، تقوی وطہارت، جہد وعمل، تواضع وﷲیت اور ایثار وقربانی کا یہ پیکر جمیل دار العلوم کی فصل کا پہلا پھل تھا‘‘۔ (جہانِ دیدہ، ص: ۵۰۲)

جنگ آزادی کے عظیم ہیرو حضرت ٹیپو سلطان شہید جن کی دردناک وکربناک وافسوسناک شہادت نے جنگ آزادی کے مسئلہ کو بنادیا زیرو، کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الہند اپنے جوشِ عمل، اپنے سرفروشانہ ومجاہدانہ رول اور تحریک آزادی میں اپنے قائدانہ کردار کی وجہ سے یقیناً اور بجا طور پر ان اشعار آزادی شعار کے مصداق تھے:
عشق وآزادی بہار زیست کا سامان ہے
عشق مری زندگی، آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی
مگر آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے
بقیہ ان شاء اﷲ آئندہ، اﷲ رکھے تادیر زندہ وتابندہ۔
 
Hammad Karimi
About the Author: Hammad Karimi Read More Articles by Hammad Karimi: 5 Articles with 3902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.