13اگست 1947ء کی رات 12بجے ریڈیو پاکستان
لاہور سے نشر ہونے والی ’طلوع صبح آزادی ‘کا اعلان پروگرام منیجر کا ایک
فرمائشی اعلان یا پروگرام نہیں تھا اس اعلان کے پیچھے ہندوتخریب کار زہنیت
اور مسلمانوں کے درمیان کھینچی گئی خون کی لکیر تھی اس اعلان کے پیچھے کار
فرما عوامل میں وہ ریل گاڑی تھی جو دہلی سے پاکستان منتقل ہونے والے
مسلمانوں کو لیکر روانہ ہوئی تھی اور لاہور سٹیشن پر جس میں صرف ایک ہی
غازی سلامت پہنچ گیا تھا باقی پوری ریل کے تمام مسافروں کے راستے میں
ہندوؤں اور سکھوں نے اپنی غارت کا نشانہ بنایا تھا جبکہ اکلوتا غازی ریل
چلانے والی کیبن میں محفوظ تھا ۔طلوع صبح آزادی کے اعلان کے پیچھے جموں کا
عبداﷲ اور وہ چھری بھی تھی جس نے اپنی دوبیٹیوں کو اس ڈر سے اپنے ہی ہاتھوں
سے سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوکر زبح کیا کہ کہیں پاکستان ہجرت کرتے وقت
ہندوؤں کے ہاتھوں نہ چلی جائے ۔14اگست 1947میں دنیا کے نقشے میں تبدیلی
لانے والے لوگوں کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ دنیا میں دیگر کئی
ممالک کی طرح ایک اور ملک آزاد بن گیا تو کوئی آفت نہیں آئے گی ان کے زہنوں
میں دوقومی نظریہ تھا جس کے مطابق مسلمانوں کو دیگر تمام اقوام عالم سے الگ
ایک شناخت حاصل ہے قربانیوں کی یہ طویل داستان یہی پر نہیں رکی بلکہ مظلوم
اور لاچار ،بے بس عوام کو بدنیت حکمرانوں نے پھر قربانیوں کے پیچھے لگایا
جو عوام قوم اور ملک کی طاقت تھی جس نے 1965 کی جنگ میں دنیا کو وہ تماشا
دکھایا جو وہ داستانوں میں بھی نہیں سن سکے تھے اس بہادر قوم نے سینہ سپر
کرکے ہندوستانی ٹینکوں کو نیست و نابود کیا مگر وہ سینے اپنے مقاصد ایک
ٹیبل پر گم ہوگئے 1971میں ایک بدمست حکمران سب اچھا کی رٹ لگاکر 90ہزار فوج
کو ہندوستان کے لئے تحفہ دے گئے فرقہ واریت کے بیچ بوکر اس ملک کی جڑیں
کھوکھلی کردی گئی ۔لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں میں یہ قوم انہی حکمرانوں کی
وجہ سے پہلے ہی صف پر قابض ہوگئی ایک کاغذ کے ٹکڑے کے مانند آئین پاکستان
کو جگہ جگہ سے نوچا گیا ۔الغرض مسائل بونے میں ہر ایک حاکم نے اپنے حصہ
کاکام کردکھا یا ۔
پاکستان میں موجودہ مسائل میں سرفہرست انتہا پسندی ہے اگر نیشنل ایکشن پلان
کے شروع ہونے اور کئی دہشتگردوں کو پھانسی کے تختے تک پہنچانے اور گینگ وار
کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے سمیت کئی سبق آموز اقدامات کی وجہ سے
’اسلحہ کے کاروبار‘میں بتدریج کمی آگئی ہے اس کے باوجود جب بھی سراخ نظر
آتا ہے انتہاپسندی اپنا سر باہر نکال لیتی ہے جس میں حکمران اور عوام دونوں
شامل ہیں آج بھی ملا اور مسٹر کی تفریق اور ایک دوسرے کے خلاف بغض سینوں
میں کوٹ کوٹ کر موجود ہے ایک مسلک دوسرے مسلک کے زعماء کو برداشت نہیں
کرپاتا جمہوری عمل کے آڑ میں چند لوگوں کو سڑکوں پر نکل کر لاء اینڈ آرڈر
کی صورتحال پیدا کی جاتی ہے انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے کوئی انجکشن دنیا
نے آج تک نہیں بنایا ہے انتہا پسندی کا خاتمہ شعوری مہم اور طویل المدتی
اقدامات کے زریعے ہی ممکن ہے جس کے لئے جگہ جگہ بین المسالک ہم آہنگی
کانفرنسز ، صلح فی سبیل اﷲ ، دوسرے مسالک کا احترام اور سب سے بڑھ کر قومی
میڈیا میں اپنے مخالفین کو ابھارنے کے پروگرامات کو رو ک کر درس امن دینا
وغیر ہ شامل ہے قومی میڈیا بدقسمتی سے پیمرا کے وجود میں آنے کے بعد اب تک
صحیح معنوں کام نہیں قومی میڈیا کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے بڑے بڑے
اینکر پرسنز بے نقاب ہونے کے باوجود میڈیا کا لبادہ اوڑھنے میں کامیاب
ہوچکے ہیں ہر چینل کے لئے الگ الگ قانون ہونے کی وجہ سے قومی میڈیا خود بھی
تذبذب کا شکار ہے اور آئے روز طرح طرح کے پروپیگنڈے پیش کئے جارہے ہیں قومی
میڈیا (خصوصی طور پر الیکٹرانک)کے لئے ٹھوس لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے
صحافتی ضابطہ اخلاق بھی ردی ٹوکری کی نذر ہے ریٹنگ کے چکروں میں وہ سب کچھ
دکھایا جاتا ہے جسے دنیا میں ضابطہ اخلاق کا مہر لگاکر بند کردیا جاتا ہے
بلکہ پابندی اور جرمانے بھی عائد کئے جاتے ہیں پیمرا کو اس معاملے پر سختی
سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان میں نظام تعلیم بھی اپنی سطح پر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے نظام تعلیم
کا زریعہ زبان قومی زبان نہیں ہے اور ہے تو بھی صرف کاغذکی حد تک ہے اب تک
آئین پاکستان کومدنظر رکھتے ہوئے مقامی زبانوں کو نظام تعلیم کا زریعہ نہیں
بنایا جاسکا ہے جبکہ دنیا میں ترقی کرنے والے تمام اقوام اپنی ہی مادری
زبان میں تعلیم دیکر ترقی حاصل کی ہے نظام تعلیم کے حوالے سے موجودہ حکومت
میں اصلاحات کا رجحان نظر آرہا ہے چند روز قبل گلگت بلتستان میں بین
الوزارتی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا عوامی رائے کو مدنظر رکھ کر
قرآن پاک کی تعلیم کو نصاب تعلیم میں شامل کیا گیا اور اسے لازمی قرار دیا
تاہم یہ کوششیں مثالی نہیں نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی
ضرورت ہے آج بھی مملکت پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹیاں موجود
ہیں جن میں جدید تعلیم کا فقدان موجود ہے ۔ کئی مدارس ایسے ہیں جو جدید
نظام کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں تمام مکاتب فکر کے نصاب کی نگرانی نہیں
ہورہی ہے اور بین الصوبائی تعلیم کا فقدان ہے جس کی وجہ سے صوبوں کا آپس
میں فاصلے بڑھ رہے ہیں انگریزوں نے جو اصلاحات 1947میں متعارف کرائے تھے
وہی اب تک جاری ہے حکومت نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے ، علاقائی
زبانوں کو زریعہ تعلیم بنانے اور پاکستانی تشخص پر مشتمل نصاب کے لئے
اقدامات اٹھائے ۔
پاکستان کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ موجودہ دور میں خارجہ پالیسی کا ہے
یہی خارجہ پالیسی تمام برائیوں کا جڑ بن گئی ہے پاکستان اپنے جغرافیائی
سرحدات کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے اگر ایک مضبوط
خارجہ پالیسی موجودہوتی تو پاکستان اس صورتحال کا مکمل فائدہ لے سکتا تھا
خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کبھی دوستوں کا دوست کبھی دشمنوں
کا دشمن تو کبھی دوستوں کا بھی دشمن بن کررہ گیا ۔مسئلہ کشمیر پاکستان کی
خارجہ پالیسی کا محور رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا تاہم سرحدی پٹی سے تعلق
رکھنے والے سیاستدان آج افغانستان کو خارجہ پالیسی کا محور قرار دے رہے ہیں
افغانستان کے ساتھ پاکستان کا بارڈر اس وقت سانپ کے سوراخ کی حیثیت رکھتا
ہے چند ماہ قبل گلگت بلتستان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق چائینہ
پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ جسے پاکستان کا معاشی مستقبل قرار دیا جاتا
ہے کو ناکام اور سبوتاز کرنے کے لئے ہندوستان نے 36لاکھ ڈالر روپے مختص کئے
ہیں یہ رقم انڈیا سے آف شور کمپنیوں کے زریعے افریقہ ،دبئی ، ترکی سے ہوکر
افغانستان اور وہاں سے اسی بارڈر کے زریعے پاکستان پہنچے گی مصدقہ خبر کے
مطابق گلگت بلتستان کو خصوصی طور پر انڈیا نے فوکس کیا ہے تاکہ یہاں پر امن
و امان کی صورتحال پیدا کرکے اقتصادی راہداری منصوبہ کو سبوتاز کیا جاسکے
اسی وجہ سے افغان شہریوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہے اگر وقت پر افغان
بارڈر پر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا گیا تو مستقبل میں یہ بارڈر پاکستان کے
لئے انتہائی خطرناک ہوگا ۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی
خارجہ پالیسی جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے اس پر آج تک سرے سے نظر دوڑائی ہی
نہیں گئی ہے قیام پاکستان کے دوران تحریک پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا
کرنا پڑا وہ اس کی جغرافیائی حدود کی وجہ سے تھا کیونکہ انگریز نے برصغیر
پر اس نیت کے ساتھ قبضہ کیا تھا کیونکہ اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے سرحدات
اور موجودہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سرحدات افغانستان اور روس کے ساتھ
جڑتے ہیں ااسی علاقے کی پٹی پر جنگ لڑ نے والے سپاہیوں کو انگریزوں نے 3
برطانوی اعلیٰ ترین ایوارڈ یعنی ریڈ کراس سے نوازا تھا یہ جنگ ہنزہ اور نگر
کے مقام پر لڑی گئی تھی آج یہ علاقہ چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ
کا گیٹ وے ہے جس کی نشاندہی چائینہ نے کی ہے اس غیر آئینی علاقے کے سرحدات
چائینہ ، ہندوستان ، کشمیر ، لداخ ، تاجکستان ، کرغزستان ، بدخشاں
،تاجکستان سمیت کئی اہم علاقوں سے ملتی ہے بدقسمتی سے یہ سرحدات قیام
پاکستان کے 69سال بعد بھی آئینی حدود میں شامل نہیں ہوسکے ہیں تاہم
جغرافیائی تعلق سے بھی پاکستان کے حکمرانوں لاعلم تو نہیں البتہ انجان ضرور
رہے ہیں اس علاقے میں موجود شاہراہ قراقرم کو آ ج دنیا میں دنیا کی بہترین
سڑک ماناجاتا ہے اگر چائینہ اپنی ضرورت کے لئے اور سی پیک کے لئے اس
راہداری کا انتخاب نہ کرتا ممکن ہے کہ اس پر مزید 50سالوں تک کوئی منصوبہ
نہیں بنتا ۔آج بھی ان علاقوں میں توانائی کے منصوبوں کی بڑی صلاحیت موجود
ہے اس کی زمینیں اور پہاڑیں معدنیات اور وسائل سے مالامال ہے ۔اس امر پر
حکمرانوں کو طویل المدتی اقدامات کے زریعے خارجہ پالیسی کا از سرنو جائزہ
لینا ہوگا۔
پاکستان اس وقت تمام مسلم ممالک کے لئے قائد کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ
اکلوتا اسلامی ایٹمی طاقت ہے ،پاکستان کا انٹرنیٹ کا نظام ترقی یافتہ ممالک
کے ساتھ ہی ترقی کررہا ہے ،پاکستان کی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے
۔پاکستان میں کئی ایسے نوجوان موجود ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں ملک کا نام
روشن کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا چاہے و ہ ٹیکنالوجی کے میدان
میں ہو یا کھیل کے میدان میں کئی پاکستانی طالبعلموں نے کیمبرج یونیورسٹی
میں نمایاں مقام حاصل کیا ،بغیر کسی سرپرستی کے کھیلوں کے میدان میں
اپناسکہ منوایا ،حال ہی میں دو پاکستانی سائنس دانوں نے سائنسی علوم میں
خاطر خواہ مدد کی اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام بلند کیا جن میں سے ایک
محمد اسماعیل کا تعلق اسی 69سالہ غیر آئینی علاقہ گلگت بلتستان سے ہے ۔دنیا
بھر کے لئے کھیلوں کا ساز و سامان پاکستان مہیا کرتا ہے ضرورت اس امر کی ہے
کہ ریاستی ادارے اور حکمران عوام کے آگاہی اور شعور کے لئے اور دنیا میں
پاکستان کی اہمیت کے حوالے سے باقاعدہ مہم چلائیں پاکستان کے عوام کو جدید
ریاستی اصولوں اور ریاستی نظام میں ان کی ضرورت و تعاون کی اہمیت سمجھائیں
۔قدرتی طور پر ضروری چیزوں میں سے کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو پاکستان میں
موجود نہیں تاہم انسانی اقدامات کا مکمل فقدان پایا جاتا ہے اب تک کی
صورتحا ل پر کہا جاسکتا ہے کہ
منیر اس ملک میں آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ |