راضی رہے شیطان بھی
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
آئے روز یہاں بم پھٹا کرتے مسجدیں ،امام
بارگاہیں ،مزار، خانقاہیں ،چرچ ،مندر ،گورودوارے،بازار، کھیل کے میدان کچھ
بھی تومحفوظ نہ تھا۔دہشت گرد کبھی کسی ائیر پورٹ پہ چڑھ دوڑتے تو کبھی کسی
ایئر بیس پہ ،کبھی پولیس کے کسی ٹریننگ سینٹر پہ حملہ ہوتا تو کبھی کسی
خفیہ ایجنسی کا دفتر اڑا دیا جاتا۔اور تو اور دہشت گرد فوج کے ہیڈ کوارٹر
تک جا پہنچے تھے۔متعلقہ ادارے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے تھے اور حکمران
دہشت گردوں کی طرف۔ملک کی دو بڑی پارٹیاں ایجنسیوں اور حساس اداروں کی
مخالفت کے باوجود ان درندوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں تھے جو دشمن کے ہاتھ
میں کٹھ پتلی تھے۔اس کے اشاروں پہ ناچتے تھے۔مذاکرات کا ڈول ڈل گیا۔دہشت
گردوں نے جانا کہ یہی وقت ہے جب مسئلے کو وہاں پہنچا دیا جائے کہ جہاں
سیاست دانوں کی کمر تو ٹوٹے ہی فوج کے حوصلے بھی جواب دے جائیں۔آرمی پبلک
سکول پر حملہ کر کے وزیرستان میں بر سر پیکار جوانوں کیدل پہ ہاتھ ڈالا
گیا۔ادھ کھلی کلیاں خاک وخون میں نہلا دی گئیں۔قوم کا مورال تباہ ہو کے رہ
گیا۔سب کچھ راکھ ہو گیا۔اﷲ کریم نے اسی راکھ سے غیرت اور حمیت کی چنگاری کو
روشن کیا۔
قوم یکسو تھی لیکن سیاسی قیادت ابھی تک گو مگو کی کیفیت سے دو چار
تھی۔انہیں لوگ کہتے ہیں خاص دوائیاں دے کے ہوش میں لایا گیا۔ان سے نئے
قوانین بنوائے گئے۔پھر صفائی کا آغاز ہوا۔دہشت گردوں کو چن چن کے ٹھکانے
لگایا جانے لگا۔کراچی جو کبھی لندن سے آنی والی ایک گیدڑ بھبھکی سے بند ہو
جایا کرتا تھا سانس لینے لگا۔بھتہ خوری گینگ وار کا خاتمہ ہونے لگا۔بڑے
مجرم پکڑے جانے لگے۔منہ زوروں کو لگام دی جانے لگی تو پنجابی فلموں کے کچھ
ولنز نے بھڑکیں مارنے کی کوشش کی۔ان بھڑکوں کا بھی جب دندان شکن جواب دیا
گیا توبڑے مجرم جہاں سینگ سمائے بھاگ نکلے اور چھوٹے یا تو تائب ہو گئے یا
زیر زمین چلے گئے۔تفتیش ہوئی تو پتہ چلا کہ یہاں ہر سکے کے دو رخ ہیں۔سامنے
جو حکمران ہیں جو امن و امان کے ذمہ دار ہیں ۔جنہوں نے عوام کی جان و مال
کی حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہیاند خانے انہوں نے ہی دہشت کا بھی جال پھیلا
رکھا ہے۔ وہی لوگوں کو اغوا کرواتے ہیں وہی بھتے وصولتے ہیں اور وہی دہشت
گردوں کو چھتر چھایہ مہیا کرتے ہیں۔ ان پہ ہاتھ ڈالنے کی دیر تھی کہ واویلا
مچ گیا۔سول بالادستی کی دہائی دی جانے لگی۔جب تک حریف اس شکنجے میں تھا تب
تک سب ٹھیک تھا لیکن جونہی آگ کی تپش اپنے گریبان تک پہنچی تووہی سارے
اقدامات جو پہلے جائز تھے اب ماورائے آئین نظر آنے لگے۔
یہ ایم کیو ایم ہی تھی جس نے کراچی میں طالبان کے ہاتھوں بازی پلٹتے دیکھی
تو فوجی آپریشن کی سب سے پہلے دھائی دی۔جب فوج آ گئی اور طالبان کے بعد ایم
کیو ایم کے ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور پکڑے جانے لگے تو آپریشن یک طرفہ ہو
گیا۔پیپلز پارٹی کا اس وقت دعویٰ تھا کہ سب کچھ آئین اور قانون کے دائرے
میں ہو رہا ہے۔ایم کیو ایم کے بعد لیاری میں جب پیپلز پارٹی کے گینگسٹر پہ
ہاتھ ڈلا تو دھیمے سروں میں پارٹی نے بھی صدائے احتجاج بلند کی۔جب لیاری سے
نکل کے یہ معاملہ شرجیل میمن کی تہہ خانوں اور ڈاکٹر عاصم کے شفاخانوں تک
پہنچاتو بابائے منافقت نے اینٹیں ہاتھ میں اٹھا لیں۔آج کل انہی اینٹ کے
روڑوں سے وہ کہیں دبئی میں استنجا فرما رہے ہیں تو ان کے نومولود وزیر
اعلیٰ رینجرز کو نوے روز تک حراست میں رکھنے اور رینجرز کو کراچی تک رکھنے
پہ مصر ہیں جیسے اندروں سندھ میں اولیاٗ کے مزار ہیں اور بس۔باقی سب فرشتے
بستے ہیں۔پنجاب جو دراصل وفاق کا دوسرانام ہے رینجرز کا نام سن کے ہی ان کے
اوسان ہی نہیں اور بہت کچھ بھی خطا ہو جاتا ہے۔بکرے کی ماں لیکن کب تک خیر
منائے گی۔اب بکرے کا نمبر بھی لگ چکا۔کوئٹہ دھماکے کے بعد وفاق کے طنبوروں
نے جس طرح قومی سلامتی کے اداروں کو مطعون کرنے کی کوشش کی ہے یہ دراصل حق
نمک ہے جو اس چادر والے مسخرے نے بلوچستان میں شراکت اقتدار کے بدلے میں
ادا کیا ہے۔رہ گئے بڑھے پیٹ اور خالی دماغ والے مولوی تو وہ وعدہ فردا پہ
بھی ہذیان بکنے پہ تیار رہتے ہیں۔ابھی روئیت ہلال کمیٹی کی تشکیل نو ہونی
ہے اور ابھی تو اسلامی نظریاتی کونسل کی ممبر شب کا راتب بھی قطار میں ہے۔
قوم گواہ ہے کہ آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد کس نے کیا کیا۔سیاستدان
کتنے مخلص تھے اور ایجنسیاں اور فوج کتنی کمٹٹڈ تھی۔لوگ جانتے ہیں کہ بم
دھماکے کم ہوئے یا نہیں۔انہیں یہ بھی خبر ہے کہ ملک میں آنے والا امن کس کی
کوششوں سے آیا اور اب کس کا مرہونِ منت ہے۔پبلک یہ بھی جانتی ہے کہ ہر چھ
ماہ بعد کہیں کوئی بڑا حادثہ کیسے ممکن ہو جاتا ہے اور اس کے پیچھے کس کا
اور کتنا ہاتھ ہوتا ہے۔اس طرح کے حادثات کیوں نہیں روکے جا سکتے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ چھ ماہ بعد کسی سانحے پہ دشمن کی زبان بولنے والے یہ
نابغے کبھی کسی بہتری کی کوشش کی تحسین کیوں نہیں کرتے۔جو امن سکون عوام کو
نظر آتا ہے وہ ان واویلا کرنے والوں کو کیوں نظر نہیں آتا۔اس لئے کہ یہ
جانتے ہیں جس دن پکڑنے والوں کو پورا اختیار مل گیا جس دن قوم یکسو ہو کے
ان کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔اس دن سب سے پہلے یہی پکڑے جائیں گے۔انہی کا کچا
چٹھہ بیان کیا جائے گا۔اس دن اشاروں سے بھی کام نہ چلے گا۔وہ اشارے جو ایک
طرف ان راتب خوروں کو کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف اپنے وزیر داخلہ کو کہ خفا
نہ ہو رحمن بھی اور راضی رہے شیطان بھی۔ |
|