سانحہ کوئٹہ ۔۔۔۔ پاکستان پر حملہ

ہمارا المیہ یہ ہے کہ اداروں کی کوتاہیوں اور حکمرانوں کی مفاد پرستیوں کی وجہ سے ملکی معاملات حوادث اورسانحات میں بدل چکے ہیں۔اگر معاملات کو معمولی سمجھا جائے تو حادثات رونما ہوتے ہیں اور اگر یہ سمجھا جائے کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے تو سانحات جنم لیتے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ ہمیں مسلسل سانحات کا سامنا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سانحات کو مذمتی بیانات اور قراردادوں کی نذر کر کے بھلا دیتے ہیں ،جبکہ دوسری اقوم ایسی حکمت عملیاں وضع کرتی ہیں کہ جن سے دوبارہ ایسے سانحات کی گونج سنائی نہ دے مگر ہم وہ قوم ہیں جو نہ اپنی غلطیو ں سے سیکھتے ہیں ،نہ خدا کے اشارے ہمیں دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی ہم ایسے ٹھوس انتظامات کرتے ہیں جو کہ متوقع سانحات سے بچاؤ کے لیے کارگر ثابت ہو سکیں یہی وجہ ہے کہ سالہا سال گزر گئے مگر دہشت گردی کے عفریت سے ہم چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے آج یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حکام بالا نے جس ’’امن ‘‘ کو دینے کا وعدہ کیا تھا ‘ وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا بلکہ سانحات ،جرائم اور سیاسی کرپشن کچھ اور ہی بڑھ گئی ہے اور اس کے ساتھ ستم یہ ہوا ہے کہ حوصلے بھی بہت بڑھ گئے ہیں کیونکہ درباری ریاستی اداروں اور عوام کی مدہوشی دیکھ کر حکمرانوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ’’یہ وقت آپ کا ہے ‘‘ مگر شاید نوشتہ دیوار بھول گئے کہ ’’یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا ‘‘!

صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پیر کی صبح خوفناک خود کش بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ میں قر یباً 71سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے اور سو سے زیادہ زخمی ہیں پاکستانی میڈیا رپوٹرز کے مطابق بلوچستان بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی کی میت سول اسپتال لائی گئی جو کہ نا معلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے تھے جہاں وکلا کی ایک بڑی تعداد اور صحافی بھی موجود تھے اسی دوران شعبہ حادثات کے گیٹ پر خود کش دھماکہ ہوا اور ساتھ فائرنگ کی بھی آوازیں سنی گئیں۔ جس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں وکلا موقع پر ہی زندگی کی بازی ہار گئے اور دو صحافی بھی اس کاروائی میں جانبر نہ ہوسکے جبکہ متعدد زخمی ہیں تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جنگ کے دوران تودشمن بھی ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بناتے جبکہ اس سفاکی کا بیان کیسے ہو کہ لوگ جہاں جان بچنے کی امید لیکر جاتے ہیں اسی جگہ کو قبرستان بنا دیا گیا یہ قیامت کس نے ڈھائی اور کیوں ڈھائی؟ کہاں تھے انتظامات ؟کہاں تھے ادارے؟ کہاں تھے وعدے ؟کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور کتنے گھروں کے چراغ بجھ گئے ا بھی فضاؤں میں گونجتی سسکیوں میں ڈوبے ماتم کناں لوگ اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جناب نواب ثنا اﷲ زہری کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ میرے پاس شواہد موجود ہیں کہ بلوچستان میں امن و امان کو تباہ کرنے میں بھارتی ایجینسی ’’را‘‘ کا ہاتھ ہے اور یہ سانحہ بھی اسی دشمنی کی ایک کڑی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت پاکستان کا پیدائشی اور کھلادشمن ہے اور اس کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ یقیناً ہوگامگر تفتیشی کاروائیوں سے قبل ازوقت یہ کہنا کسی طور بھی دانشمندی نہیں ہے اس میں تو کچھ شک نہیں کہ کچھ لوگ ،ادارے اور غیر ملکی ہاتھ پاکستان میں مذموم مقاصد کے ساتھ کا روائیوں میں مصروف ہیں توایسے میں مناسب منصوبہ بندی یا انتظامات کیوں نہیں کئے گئے تھے اس انکشاف سے حکومتی اداروں ، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پراٹھنے والا سوالیہ نشان اٹھ نہیں جائے گا کیونکہ گذشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں ایسے اندوہناک سانحات بارہا دیکھے گئے ہیں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک و قوم کی حفاظت کے لیے کئے گئے انتظامات کی تکنیکی خرابیوں اور کوتاہیوں کو ترجیحی بنیادوں پر ختم کیا جائے اور اگر صفر کار کردگی ہی دکھانی ہے تو انھیں ختم کر دیا جائے وگرنہ وسیع پیمانے پر غفلت برتنے والوں کا احتساب کر کے ملک و قوم سے مخلص افراد کو بھرتی کیا جائے اور مجرمان کو فل الفور گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ،راہداریوں پر ناکہ بندیاں قائم کی جائیں اور کڑی نگرانی کی جائے کیونکہ مصلحتاً کھولے گئے دروازے بھی اکثر گھروں کے لٹنے کا سبب بن جاتے ہیں -

لکھ لکھ کر کاغذ سیاہ کر دئیے گئے یہاں تک کے مذمتی الفاظ ختم ہوگئے کہ اب مزید قوم میں ظلم و بر بریت سہنے کی سکت نہیں ہے ‘ یہ حکومتی ادارے ، پو لیس اور سیکیورٹی ادارے جو کہ سب بیٹھے ہی صرف عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہیں ان پر ہمیشہ ہی سوال کیوں اٹھتا ہے کیا وجہ ہے کہ دشمن جب چاہتا ہے اپنا مطلوبہ ٹارگٹ حاصل کر کے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اندھے ‘ بہرے ایوانوں تک نہ میڈیا کی چیخ و پکار گئی اور نہ اخبارات میں لکھے ہوئے نوحے ان کی نظر وں سے گزرے چونکہ وہ ’’عام آدمی‘‘ سے منسوب تھے اور عام آدمی کی ضرورت بس ووٹ پڑنے تک ہوتی ہے۔سوال تو یہ ہے کہ اس حوالہ سے کیا ان سب کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ؟ مگر عوام اب اس سوال کا جواب جاننا چاہتی ہے کہ عوام نے سڑکوں پر نکل کر انہیں اعتماد کا ووٹ دیکر پارلیمنٹ تک پہنچایا وہی عوام آج تہی دست ان کے ایوانوں کے سامنے کٹی پھٹی لاشوں یا بنیادی سہولیات کی عدم دعتیابی کیوجہ سے سراپا احتجاج کیوں ہیں ؟ اپوزیشن جو حکومت کی غلطیوں کو نمایا ں کر کے درست راہ دکھایا کرتی ہے وہ اقتدار کے حصول کے لیے سڑکوں پر کیوں ہے ؟ جماعتیں آپس میں بر سرپیکار کیوں ہیں جبکہ ہم اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف سے خطرات میں گھر ے ہوئے ہیں اور اگر عوام اس بارے آواز بلند کرتے ہیں تو انھیں الٹا مجرم گردانا جا تا ہے جو کہ اس امر کو تقویت دیتا ہے کہ جمہوریت میں جمہور کا تصور ختم ہو چکا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگلے انتخابات تک سب ٹھیک ہوجائے گا جو اتنے ادوارحکومت میں نہ ہوسکا وہ آئندہ سالوں میں کیسے ہوگا کیونکہ نظام اجاڑنے میں جتنے سال لگے ہیں اسے سنوارنے کے لیے پتہ نہیں کتنے سال درکار ہونگے اور ویسے بھی ’’ آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک ۔۔کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ‘‘بلاشبہ رات وحشی ہے اور چار سو مایوسی اور دہشت کا راج ہے مگر میں ہمیشہ سے کہتی ہوں اور آج بھی کہونگی کہ ہمیں پھر بھی گمان ہے کہ گمان امیدپیدا کرتاہے اور مسلمان کبھی نا امید نہیں ہوتا کہ
ہوا کا زور کسی شب تو جا کر ٹوٹے گا
بچائے رکھنا ہے کوئی دیا مکان کے لیے
رات ہر چند سازش کی طرح ہے گہری
صبح ہونے کا مگر یقین رکھنا ہے

مگراس کے لیے کوشش شرط ہے اس لیے بر سر اقتدار افراد اور حکومتی اداروں کے اعلیٰ افسران کو دیانت داری ،ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ عوام کو اعتماد میں لیکر پھر سے تعمیر وطن کے لیے سرگرم ہو جانا چاہیئے اﷲ تعالیٰ غفور الرحیم ہے اس کا اعلان ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہو ں یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ ہمارے بڑے بد اعمالیاں تو چھوڑتے نہیں مگر تحریر و تقریر اور سوشل میڈیا پر قدغنیں لگانے کے ارادے اور منصوبے بنا بنا کر عوام کے دلوں پر راج کرنا چاہتے ہیں اور یہ نا امید اور مایوس لوگوں کا وطیرہ ہے چاہیئے تو یہ تھا کہ عوام کے فہم و ذہن اور خیالات کے اظہار پر سزائیں تجویز کرنے کی بجائے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکا جاتا اور ہر کوئی آئین پاکستان اور اپنے حلف ناموں کو بار بار پڑھ لیتا کہ شاید آج پاکستان اور پاکستانی لوگوں کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے قیام پاکستان کے یادگار موقع پر ہم سب کو اس بات کا عہد کرنا ہے کہ ہم تعمیر وطن کے لیے اپنے اپنے حصے کا دیا جلائیں گے اور کسی کا دیا نہیں بجھائیں گے ۔اگر میرے ان الفاظ پر غور کیاجائے توبلاشبہ اسی میں ہماری بقا ،وقار ،خوشحالی اور مستقبل کی ترقی پنہا ہے ۔۔اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90663 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.