کرسٹیل کھدروُش چھتیس کی ہیں اور
پیرس کے نواح میں رہتی ہیں۔ وہ پچھلے بارہ سال سے باہر آتے جاتے برقعہ پہن
رہی ہیں۔ وہ فرانس میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی ایک الجیریائی سے ہوئی۔ وہ
پانچ بچوں کی ماں ہیں اور ایک نو مسلم ہیں۔ برقعے پر مجوزہ پابندی کے بارے
ان کا کہنا ہے کہ ’میں اس پر دکھی ہوں، لیکن حیران نہیں ہوں، یہ فرانسیسی
ذہنیت کا حصہ ہے، دکھ اس بات کا ہے کہ ہم اس حد تک پہنچ جائیں گے۔ ہم برسوں
سے یہاں اسی طرح رہ رہے ہیں اور سب کچھ بالکل ٹھیک تھا۔ لیکن حیرت اس لیے
نہیں ہے کہ فرانسیسیوں کو یہ تصور اچھا لگتا ہے کہ سب ایک ہی سانچے میں
ڈھلے ہوئے ہوں اور یہ سانچہ مثالی ہونا چاہیے۔ جو بھی چیز ان کے مثالی
ڈھانچے سے لگا نہیں کھاتی انہیں مناسب نہیں لگتی‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس بارے میں کیے جانے والے جائزے میں فرانسیسیوں کی
اکثریت نے پابندی کی حمایت کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ: ’یہ سیاسی حکمتِ عملی
ہے۔ مسلمانوں کو جھٹکا دینا ہمیشہ آسان رہا ہے، اس پر سارے فرانسیسی ایک
ہیں‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا انسان ایک دوسرے کو اس کے چہروں سے نہیں
پہچانتے ہیں؟ چہرے ہی ایک دوسرے کو سمجھنے اور تعلق کا بنیادی ذریعہ نہیں
ہوتے؟ کھدروُش کہتی ہیں کہ ’تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں ہمارا لوگوں سے کوئی
تعلق نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ اس ساری بحث کے
دوران ہم نے بہت سے بہانے سُنے ہیں۔ میں ان سے متفق نہیں ہوں۔ میں نے ابلاغ
عامہ کی تعلیم حاصل کی ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کے اگر میں ٹیلیفون پر
بھی مسکراؤں گی تو میری مسکراہٹ سنی جائے گی۔ میرے خیال میں تو ہمارے
انسانی رابطے برقرار ہیں اور کپڑے کا ایک ٹکڑا ان رابطوں میں رکاوٹ نہیں بن
سکتا۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کہ انسانی رابطے چہرے سے قائم ہوتے
ہیں۔ میرے بھی انسانی رابطے ہیں اور اس (برقعے) نے کسی چیز کو تبدیل نہیں
کیا‘۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ بہت سے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں تو ایسی
کوئی بات نہیں ہے جو عورتوں سے پورے چہرے کو نقاب سے ڈھانپنے کا تقاضا کرتی
ہو۔
تو کرسٹیل کھدروُش کا جواب تھا کہ: ’مجھے اس پر بھی افسوس ہے کہ ہماری
برادری میں ایکا نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو مجھ میں اور ان دوسری مسلمان
عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے جو نقاب نہیں ڈالتیں، جو اپنے بال اور پورا سر
کھلا رکھتی ہیں۔ ہم میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ ہمارا مذہب
نہیں ہے میرے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی
ازدواج ایسا ہی لباس پہنتی تھیں اور خود کو پوری طرح ڈھانپ کر رکھتی تھیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب خدا نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا تو ہمیں پتہ ہے کہ
وہ پردہ شروع کر چکی تھیں۔ آپ حضرت عیسٰی کی والدہ حضرت مریم کو دیکھیں وہ
نقاب ڈالتی تھیں اور میں نے ان کی کوئی تصویر ایسی نہیں دیکھی جس میں وہ
نقاب سے نہ ہوں اور اگر اللہ نے پردے کا حکم اس وقت دیا جب عورتیں پہلے ہی
پردہ کرتی تھیں تو اس کا مطلب ہوا کہ اس سے اور کچھ زیادہ جو پہلے ہی ہو
رہا تھا‘۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر نقاب پر پابندی فرانسیسی قانون کا حصہ بن گئی
تو وہ کیا کریں گی؟ انہوں نے کہا ’کیا میں قانون توڑوں گی؟ مجھے تو بارہ
سال ہوگئے ہیں پردہ کرتے ہوئے۔ میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ فرانسیسی جو
عورتوں کی آزادی کی جنگ لڑتے ہیں اسے قبول کریں گے۔ میں اس بات پر یقین
رکھتی ہوں کہ ہر عورت کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کا لباس
پہنے، اس لیے مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ مجھے میری پسند کا لباس
پہننے سے کیوں روکنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ لباس پہننا منتخب کیا ہے، میں نے
بے نقاب نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور اگر مجھے بے نقاب ہونے پر مجبور کیا
جاتا ہے – تو یہ آزادی تو نہ ہوئی۔
’یہ تو انتہائی ہولناک ہوگا اگر کسی کو اس کی پسند کا لباس پہننے سے روکا
جائے یہ تو یورپی قانون کے بھی خلاف ہے‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر قانون کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں جرمانہ کیا
گیا تو وہ کیا کریں گی؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں روکا گیا تو یقیناً
ہمارا ارادہ جرمانہ ادا کرنے کا نہیں ہے، میں تو جرمانہ نہیں بھروں گی اور
میرا خیال ہے کہ مجھ جیسی بہت سی اور عورتیں بھی ہوں گی جو جرمانے نہیں
بھریں گی۔ یہ تو انتہائی ہولناک ہوگا اگر کسی کو اس کی پسند کا لباس پہننے
سے روکا جائے یہ تو یورپی قانون کے بھی خلاف ہے۔ دیکھیں، پہلے انہوں نے کہا
کہ وہ اس بارے قانون بنائیں گے اور اب اس کا حکم جاری کیا جا رہا ہے۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ انہیں بھی پتہ ہے کہ یہ یورپی آئین کے خلاف ہے۔ مجھے نہیں پتہ
کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا لیکن وہ ہمیں ہمارے بچوں کے سامنے گرفتار
نہیں کر سکتے، ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا جو غلط ہو‘۔ |