جشن آزادی اور ہم

عرصہ دراز کے بعد امسال جشن آزاد ی کو بڑے دوھوم دھام اور شان و شوکت سے منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آزادی کا سبق ہمیں ورثے میں ملا ہے اور حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان کی صورت میں ملنے والی آزادی کے حروف ابجد سے بھی ہم آشنانہیں ہیں۔14 اگست کی خوشی میں ہم جھنڈیاں، پرچم اور خوب چراغاں کرتے ہیں۔ گھروں اور عمارات کو سجاتے ہیں۔ ہماری خوشی دیدنی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے ۔ہم یقنیا آزاد فضاء میں سانس لے رہے ہیں الحمد ﷲ! لیکن بد قسمتی سے 69 سال گرزے کے بعد بھی ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاسی و سماجی تصور کے مطابق جمہوری نظام بحال نہیں کر سکے۔اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ فوج کے طویل اقتدار نے ہماری سیاست، معاشرت اور معیشت کو ڈبویا ہے ۔مستزاد یہ کہ ہمارے سیاسی بگوڑوں نے بھی فوجی لیڈرشپ کیساتھ اپنے تعلقات کو کبھی ترجیح نہیں دی۔ قائد نے قانون وآئین کی بالادستی ، امن و امان اور کرپشن جیسی لعنت سے بچنے کے لیے جو پیمانے اور راز بتائے تھے انہیں ہمارے دل ودماغ کے بند دریچے ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ 54 ء میں آئین سا ز اسمبلی تحلیل ہوتے ہی ریشہ دوانیوں ، سازشوں اور خطرناک تانے بانے بننے کا خطرناک سلسلہ شروع ہو گیا۔ حرص ، اقتدار کی رسہ کشی اورکرسی کی حوس نے جگہ بنا لی۔عام انتخابات کے بجائے صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے انتخابات کو ترجیح دی گئی اور غر ض مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے تقسیم کی بنیادرکھ دی گئی۔ 1970 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ جو کہ اکثریتی پارٹی تھی ، چاہیے تویہ تھا کہ اقتدار کا منصب انہیں سونپ دیا جاتا لیکن اسے حکومت سازی سے محروم کر دیا گیا اور قائد کی روح تڑپ گئی ہو گی کہ جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا ۔عدم برداشت اور سیاسی کشمکش نے بار بار فوجی آمریت کو موقع دیااور فوجی آمروں جنر ل ضیاء الحق، ایوب خان ، جنرل یحی او رجنرل مشرف وغیرہ نے پاکستان کی آزادی کے نام پر کالک ملی۔ سیاستدانوں کی ناسمجھی،ذاتی چپقلش ، اقتدارکی بھوک اور پھر سیاسی و عسکری کھینچا تانی نے خاندانی ، لسانی، برادری اور مذہبی عصبیت کو فروغ دیا ۔ دیکھا جائے تو جنرل اشفاق پرویز کیانی نسبتامعتدل جنرنیل تھے اور پھر جرنل راحیل شریف ملکی معاملات سلجھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
 
شاید ہی ہم نے کبھی اپنے دماغی ذخیرہ لغت پر چھائے برسوں کے جالوں کو ہٹا کر انسانیت ،پاکستانیت اور مسلمانیت جیسے ضخیم الفاط کے مفاہیم و مطالیب کو سمجھنے کی کوشش کی ہو۔ انسانی زندگی پر گہرے نقو ش چھوڑتے یہ الفاط قطہ ارض میں ہمیں منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔تھر پارکر کی نام نہاد پانچ تحصیلوں میں غذائی قلت، تعلیم ، صحت اور دیگر عدم سہولیات کی بنا پر انسان ،پاکستانی اور مسلمان لگنے کا ذائقہ کہاں سے سمجھ آئیگا۔تھرکے کسی چونرا گھر کی نکڑ یا مریل اونٹ کے پاس بیٹھے بانسری بجانے والے نوجوان کو انسانیت ، پاکستانیت یا مسلمانیت کے کس درجے پر پرکھا جائیگا ؟جنرل مشرف کی طرف سے بلوچستانی عوام کے بنیادی حقوق غصب کر کے لہراتے مکوں کیساتھ بگٹی کو قتل کرنا انسانیت ، مسلمانیت یا پاکستانیت میں سے کیا ہے؟ ایک طرف ایک بہن کی پکار پر محمد بن قاسم کا رد عمل اور دوسری طرف ہزارہا قتل، ریپ اور ظلم و زیادنی کا ساتھ دیکر حکمرانوں کا چپ سادھ لینا کس زمرے میں آئیگا؟تینوں شاہوں کے بیٹوں کا بازیاب ہو جانا مگر مانسہرہ میں جلائے جانی والی لڑکی ، سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے قتل اور شاہ زیب کے خون پر کبوتر کیطرح آنکھین موند لینا کیا ہے؟ایک طرف اربوں کھربوں کی شاہ خرچیاں اور اللے تللے اور دوسری طرف عشروں سے سڑکوں ، پلو ں اور جھونپڑیوں میں سڑتے مرتے اور مدد کو تکتے لوگوں کو دیکھ کر انسانیت ، مسلمانیت یا پاکستانیت کے کس درجے کا احساس ہوتا ہے؟ انسان ، پاکستانی اور مسلمان کہلانے کے لیے ہمیں اپنے لاڈلے انگریز کی گھٹیا عادات کو دل و دماغ سے اتارنا ہو گا اور انکے ہبہ کیے گئے اسباق چوری، ڈکیتی، راہ زنی، قتل وغارت، دھوکہ دہی ، حقوق غصب کرنے ، عدل وانصاف کوصرف امراء کے لیے روارکھنے اور کرپشن وغیرہ کو بھی ترک کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایک پرامن، خوشحال، کرپشن فری پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں دہشت گردی اور کرپشن جیسے ناسور پر قابو پانے کے لئے آئین کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی۔ پاکستانیت انسانیت اور مسلمانیت کا ناز اور فخر عدل انصاف کا بول بال ہے۔

پچھلے دن الخدمت فاؤنڈیشن کے ذیلی ادارے آغوش ہوم راولپنڈی کے ایڈمنسٹریٹر بلال سعید کی درخواست پر یتیم بچوں کے ہمراہ جشن آزادی منانے کی سعادت نصیب ہوئی کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ جس طریقے سے باپ کی شفقت سے محروم بچوں نے استقبال کیا اور پھر ملی نغمے، ترانے اورتقاریر کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر داد کا موقع دیا ، اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے بتایاکہ الخدمت فاؤنڈیشن یتیم بچوں کے لیے دو قسم کے پروگرام آرفن فیملی سپورٹ پروگرام اورآغوش ہوم چلا رہی ہے اور اس وقت تقریبا8,000 یتیم بچوں کی کفالت کر رہی ہے۔ الخدمت ان بچوں کا قیام و طعام، تعلیم و صحت اور ذہنی و جسمانی نشوو نما کے لئے ساز گار ماحول بھی فراہم کرتی ہے اور نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں اور چائلڈ کئیر ڈویلپمنٹ کے لیے صحت مند ماحول کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے اٹک ،راولپنڈی ،راولاکوٹ ، باغ ،پشاور اور مانسہرہ میں آغوش ہوم بھی بنائے ہیں ۔زیر تعمیر آغوش سینٹرز میں مری ایکسپریس وے پر 400بچوں کے لئے ، آغوش کراچی 200 بچوں کے لئے ، آغوش شیخوپورہ 200 بچوں کے لئے ، گجرانوالہ میں120 بچوں کے لئے جبکہ 120 بچوں کے لیے دیر کے منصوبے شامل ہیں۔پروگرام کے دوران خیال گزرا کہ جس طریقے سے الخدمت والے یتیم بچوں کو پھولوں کی مانند رکھتے ہیں اﷲ انکی کاوش کو قبول فرمائے ۔جشن آزادی کا حقیقی سرور لینے کے لیے ہمیں معاشرے کے مختلف پسے ہوئے طبقوں کے شانہ بشانہ بھی چلنا ہے اور یتیم بچوں کا بھی خیا ل رکھنا جو شاید ہمارے معاشرے کا تابناک مستقبل ہیں۔
Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 112712 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.