کسی جنگل میں ایک عمر ر سیدہ و یران اور
خشک درخت تھا جس پر صرف ایک ہی پر ندے کا سا لوں سے بسیرا تھا ۔ ایک دن نا
جا نے پر ند ے کے دل میں کیا آئی وہ بیٹھے بیٹھے درخت سے مخاطب ہوا ۔
’’دیکھو سب پر ند ے تم کو چھوڑ کر جا چکے مگر میر ے دل نے کبھی یہ منظور
نہیں کیا کہ تم کو چھوڑ کر چلا جا ؤں اور تیر ے ساتھ بے و فا ئی کر و ں ۔
نہ جا نے خُدا نے میر ے دل میں کیا بھر د یا ہے کہ میں چا ہوں بھی تو تجھ
سے بے و فا ئی نہیں کر سکتا ۔ ‘‘ پر ند ے کی با ت سن کر درخت کے اندر سے تڑ
تڑا ہٹ کی سی آواز آئی اور پورا درخت جھول گیا ۔ درخت کے لرزتے ہی پر ندہ
بے سا ختہ اُڑگیا مگر جب در خت سا قط ہوا تو پر ند ہ دو با ر ہ شا خ پر آن
بیٹھا ۔ درخت نے گہر ی سا نس لی اور فضا میں کئی لٹر آکسیجن خارج کر د ی ۔
پر ند ے نے اس ٹھنڈی آکسیجن میں سانس لیا اور اپنے اندر کا زہر (کاربن
ڈائی آکسا ئیڈ کی شکل میں ) با ہر اُنڈیل د یا ۔
کچھ لمحے دونوں طرف گہر ی خا مو شی چھا ئی ر ہی ۔ آخر درخت نے یہ سکوت
توڑا اور بولا’’ میں بھی کتنا نادان ہوں ، میر ے دل میں بہت بار یہ خیال
آیا کہ کب تک یہ زندگی کا بو سیدہ بوجھ اُٹھائے ر کھوں گا۔ کب تک فضا سے
زہر چوس کر اسے زندگی (آکسیجن) میں تبد یل کر تا ر ہوں گا ۔ کب تک اُس
بوڑھے آدمی کا چولہا ا پنی خشک شا خوں سے گر م ر کھوں گا اور کب تک میں ان
پر ندوں کا بوجھ ا پنے کند ھوں پر اُٹھا ئے ر کھوں گا ، کب تک یہ میر ے
پھول اور پھل نوچ نوچ کر کھا تے ر ہیں گےاور کب تک میں ا نہیں بادو باراں
سے بچاتا ر ہوں گا ۔ میں کیوں نہ اب تھک کر لیٹ جا ؤں اور کیوں نہ بیج بن
کر نیا رُوپ لے لوں ۔ مگر پھر میں خود سے یہ کہہ کر اپنے اندر زندگی کی
تھمتی ہو ئی رمک کو تیز کر لیتا ہوں کہ اُس بوڑھے کو خشک لکڑی نہ ملی تو
اُس کا چو لہا ٹھنڈا ہو جا ئے گا ۔ میں گروں گا تو کتنے گھونسلے میں پڑے
معصوم بچے گر یں گے۔ جس سے بے چا ر ے پر ند ے کا دل غم سے پھٹ جا ئے گا ۔
ان جواں ہو تے بچوں کو سرخ خون کی ضرورت ہے اور یہ خون آکسیجن سے سُرخ ہو
گا ۔ میں گرا تو یہ پر ندہ بے سہارا ہو جا ئے گا شا ید پھر کو ئی اور میر ی
طرح اس کا خیال نہ ر کھ پا ئے ۔
تم پر ند ے ہو ہاں شا ید تم اُڑ کر کہیں اور بھی بسیرا کر سکتے ہو میر ی
ایک جنبش پر ہی د یکھو تم کیسے فوراً سے اُڑ پڑے ،تم نے پہلے ا پنے با ر ے
میں سو چا تم نے یہ نہیں سو چا کہ مد توں میں جس درخت پر بسیرا کیے ہو ئے
ہوں آخر اُس کو کیا ہوا کہ وہ لرز گیا۔ اگر تم سو چتے بھی تو شا ید ا تنا
ہی سوچتے کہ یہ درخت بوڑھا اور بوُ سیدہ ہو گیا تھا اس نے تو گر نا ہی تھا۔
مگر ہم درخت اور پودے ایسا نہیں کر تے ہمیں جو بُوتا ہے اور جو سینچتا ہے ،
جب وہ ا پنا ہا تھ ہم پر پھیرتا ہے تو ہم خوش ہو تے ہیں وہ ہمیں سیراب کر
تا ہے تو ہم جھوم جا تے ہیں ،مگر جب ہمارا ما لی ہی ہمیں چھوڑ جا ئے تو ہم
اُس کی یاد میں رفتہ رفتہ مر جھا نا شروع ہو جا تے ہیں ۔
یہ کہہ کر درخت خا موش ہو گیا اور پر ند ہ گہر ی سوچ میں ڈوب گیا ،اُس کے
لیے یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو گیا کہ وفادار کون ہے ؟ میں یا درخت؟
دوستو! ما نا کہ جس پر ہمارا آشیانہ ہے اُس کی جڑیں کھو کھلی ہیں مانا کہ
بہت سے لوگ اُس کو چھوڑ کر جا چکے ہیں اور جا ر ہے ہیں ما نا کہ ہمیں وہ سب
نہ مل سکا جو دوسروں کو اُن کے وطن نے د یا ۔ ما نا آج ارضِ وطن پہ خزاں
کا دور ہے مگر کیا یہ کم ہے کہ یہ ا پنا گھر ہے ؟ کیا پوری دُنیا کا چکر
لگانے کے بعد جب اپنے وطن(گھر) کو لوٹتے ہیں تو ایک سکون اور تحفظ کا احساس
نہیں ہو تا ۔ ہم کیا تھے ؟ مصریوں کے لیے مصر، افغانی کے لیے افغانستان ،
عربی کے لیے عرب ۔ ہم مسلمان ہو کر بھی ہندوستانی تھے ۔ کیا یہ کم ہے کہ ہم
گائے ذبح کر نے پر ذبح نہیں ہو تے ؟کیا آج ہمارا ایمان اور آبرو اس کی
چار دیواری میں محفوظ نہیں ؟ کیا اس کے کھیتوں نے ہمیں پیٹ بھر نے کو روٹی
اور تن ڈھانپنے کو لباس نہیں د یا ؟
کون کتنا وفادار ہے ؟ یہ ہم نے سوچنا ہے یا وطن نے ؟
آو پھر اپنے حصے کا کام کر یں اپنے اجداد کا ادھورا خواب پورا کر یں ۔
دہشت کے سمندر سے امن کا مو تی نکا لیں گے
اےدنیا تو نے ابھی یہ معجزہ بھی د یکھنا ہے
میں ننھا سا پھول مہمان ہوں چند سا عتوں کا
مگر اے گلشن تجھے قیامت کی سحر کو د یکھنا ہے |