بھارت اور برما(میانمار)

بھارت اوراسکے پڑوسی ممالک(5)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم

برماکا نیانام میانمار رکھا گیاہے۔آج کل بھارت اور برما میں دوستی کی پینگیں بہت بڑھائی جا رہی ہیں۔بھارت کی مہربانیوں کی وجہ برما کی محبت قطعاََبھی نہیں ہے۔برہمن کی تاریخی ذہنیت گواہ ہے کہ اسے بغیر مفاد کے دوستی یادشمنی یاسادہ سے تعلقات بھی گوارانہیں ہیں۔بھارت پریشان ہے کہ چین کے ساتھ برما کے تعلقات کہیں ہندوستان کے لیے برا وقت پیدا نہ کردیں۔چین کو برما سے دور کرنے کے لیے بھارت نے برما کو اپنے قریب کرنا چاہ رہا ہے۔چین چونکہ برماکاہمسایہ ملک ہے اور چین نے برماکے ساتھ متعدد نوعیت کے معاہدات کررکھے ہیں ،جن میں دفاعی معاہدے،خفیہ معلومات کے تبادلے کے معاہدے،صنعتی ترقی کے معاہدے اوربندرگاہوں کی تعمیروترقی کے معاہدے اہم ہیں۔بھارت کے لیے چین کا جو برماکے ساتھ ہونے والا معاہدہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے وہ ’’ویتوی‘‘کے بحری اڈے کی توسیع و ترقی مزید ہے۔برما کی یہ بندرگاہ جو بیک وقت تجارتی اور دفاعی ہردونوں مقاصد کے لیے کثیرالاستعمال ہے ،مشرقی ہندوستان کے مشہور شہر کلکتہ کی بندرگاہ سے بہت قریب ہے۔’’ویتوی‘‘کی بندرگاہ کی ترقی کلکتہ کی بندرگاہ کے لیے تجارتی نقصان کا باعث ہوسکتی ہے اور ’’ویتوی‘‘کے بحری اڈے کی ترقی ہندوستان کے لیے دفاعی دھمکی ہوسکتی ہے خاص طورپر جب کہ چین کے مفادات بھی اس میں شامل ہو جائیں۔پس ہندوستان نے برما کے قریب ہونے کی پالیسی اپنائی کہ برما چین پر کم سے کم انحصارکرے اور بھارت کو برما میں داخل ہونے کا موقع مل سکے۔

داخلی طورپر بھارت کی مانی پور کی ریاست برما کے پڑوس میں واقع ہے اور بھارت اور برماکی سرحد کاایک حصہ مانی پور میں سے ہو کر گزرتاہے۔2004ء میں جب مانی پور میں برما کی سرحد پر کام جاری تھا تو ’’کوکی‘‘،’’ناگا‘‘اور’’لوشی‘‘قبائل کے لوگوں نے بہت بڑااحتجاج کیاتھا۔ یہ احتجاج اس قدر شدت پکڑگیاکہ وہاں کام کو روک دینا پڑا۔’’کوکی‘‘قبائل کو’’چن‘‘کے نام سے بھی یاد کیاجاتاہے،یہ پہاڑی قبائل ہیں اور برمااوربھارت کے سرحدی علاقوں میں آبادہیں۔’’چن‘‘نام کی ایک ریاست بھی برما میں موجود ہے جو انہیں قبائل کے نام سے موسوم ہے۔ہندوستان میں اس نسل کے لوگ ’’میزورام‘‘نامی شمال مشرقی ریاست میں بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ان قبائل کے کچھ خاندان بنگلہ دیش میں چٹاگانگ کی پہاڑیوں میں بھی سکونت پزیر ہیں۔ان قبائلیوں کواس طرح کئی ریاستوں میں تقسیم کرنے کاسہرہ برطانوی حکمرانوں کے سرہے۔بھارت اور برماکی سرحدپراحتجاج کرنے والے دوسرے لوگ’’ناگا‘‘قبائل سے تھے۔’’ناگا‘‘قبائل بہت سے خاندانوں اور قبیلے کے لوگوں کا ایک وسیع و عریض گروہ ہے جو ایک ہی تہذیب و تمدن اور تاریخ و ثقافت کے حامل لوگ ہیں۔یہ مختلف بڑے بڑے خاندانوں کاایک مشترکہ نام ہے،یہ شمال مشرقی ہندوستان اورشمال مغربی برما میں مقیم ہیں۔اس کے علاوہ ان کی کثیرنمائندگی بھارتی ریاست ’’ناگالینڈ‘‘،مانی پور،اروناچل پردیش اور کچھ قلیل تعداد آسام میں بھی نظرآتی ہے۔’’لوشی‘‘قبائل بھی اسی علاقے کے باسی ہیں ،یہ تعدادمیں کم ہیں اور مذہب عیسیات کے پیروکارہیں۔ان کی گرجاگھر ’’میزورام‘‘نامی ریاست میں ہیں اور یہ رومن کیتھولک چرچ کے ہم عقیدہ لوگ ہیں۔اتنے بڑئے بڑے قبائل کے اتنے وسیع پیمانے پراحتجاج کی وجہ دونوں ملکوں کے سرحدی اختلافات کے باعث ان قبائل کی خانگی ومعاشرتی زندگیوں میں آنے والی بے سکونی تھی۔اس احتجاج کی زیادہ تر شدت خاص طور پر تین علاقوں،’’مورح‘‘،’’چوروخونو‘‘اور’’مولچان‘‘میں تھی۔ان احتجاجی مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ان کی اتنی بڑی آبادی کو سرحدی فوجیوں کے رحم و کرم پرکیوں چھوڑ دیاگیاہے ،یہ مظاہرین چاہتے تھے کہ مرکزی حکومت کے ذمہ داران خود بیٹھ کر یہاں کے سرحدی تنازعات کا حل نکالیں،جب کہ اس وقت تک یہ معاملہ مانی پور کی کابینہ میں زیربحث تھا۔2004کے بعد 2007میں ایک بار پھر بھی بھارت اور برما کے درمیان سرحد پر تعمیر کیے گئے نوبڑے بڑے ستونوں کی ملکیت کا دعوی اختلاف کی وجہ بن گیاتھا۔لیکن یہ علاقے چونکہ معروف دنیاؤں سے بہت دورہیں اس لیے یہاں کے حالات برہمن چنگل سے بہت کم ہی نکل پاتے ہیں۔

2013میں ایک بار پھر یہ مسئلہ تازہ ہو گیاجب برما بھارت سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے خلاف خود بھارتی ریاست مانی کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور مانی پور کی سیاسی جماعتوں نے بھی ان مظاہرین کا ساتھ دیا۔مظاہرین کا کہنا تھا سرحدی ستون نمبر79سے سرحدی ستون نمبر81کے درمیان دس کلومیٹر کا علاقہ ان کی زمینوں سے گزرتاہے جس سے علاقے کی آبادی کے درمیان بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ دیوار کی تعمیر کے دوران درختوں کی کٹائی پر بھی مظاہرین کو شدید تحفظات تھے۔مرکزی حکومت کے عمائدین تک یہ امور پہنچائے گئے لیکن بھارت کے مرکز دہلی نے یہ فیصلہ دیا کہ سرحدی دیوارکی تعمیر بہرطورجاری رہے گی،اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی سرحدوں پر سرحدی دیوار کی تعمیر سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں،اور ان مثبت نتائج کی بناپر یہ فیصلہ کیاگیاکہ برمابھارت سرحد پر بھی سرحدی دیوار ضرور تعمیر کی جائے۔حقیقت یہ ہے خاص طورپر برمااوربھارت کی سرحدوں کے آرپارپرایک ہی قبیلے اور ایک ہی خاندان کے لوگ آبادہیں۔خاص طور پر اس علاقے میں 250قصبے ہیں جن میں تین لاکھ سے زائد انسانی نفوس قیام پزیر ہیں جوباہم رشتہ داری کے مضبوط فطری بندھن میں بندھے ہیں۔یہاں حقوق انسانی کا مسئلہ جنم لے سکتاہے کوسوں دور بیٹھے دہلی سرکار کے نمائندے زمینی حقائق کے علی الرغم ایسے فیصلے کریں کہ جن خاندان اور قبیلوں کے درمیان پکی دیواریں حائل ہو جائیں اور انسانی قربتیں دوریوں میں بدل جائیں اور ایک مختصرسے طبقے کے مفادات کے لیے علاقے کی بہت بڑی آبادی ایک انسانی المیے سے دوچار ہو جائے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کی بھارتی سرحدوں پر آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے جب کہ بھارت نے برما کی سرحد پر آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔بھارت اور برما کے درمیان ’’معاہدہ آزادانہ نقل و حرکت‘‘(Free Movement Regime (FMR))طے پاچکاہے،جس کے مطابق دونوں طرف کے قبائلی سولہ کلومیٹر کے علاقے تک بغیر سفری دستاویزات کے دوسری ریاست میں داخل ہو سکتے ہیں۔اس اجازت کے باوجود اس طرح کی دیوار تعمیر کردینادوعملی اوردورخے کردارکی حاضر تصویر ہے۔سرحدی قبائل کے بار بار کے مظاہرے اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ کاغذپر لگی ہوئی لکیریں حقیقت کاروپ دھارنے کی صلاحیتیں نہیں رکھتیں اور انسانی تاریخ میں سیاست سے زیادہ معاشرت کو اہمیت حاصل ہے چنانچہ وہاں کے قبائل باربار اس امر کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ اس طرح کی کوئی دیوار ان کے درمیان حائل نہیں کی جاسکتی۔

برما اپنی غریب عوام کے باوجود قدرت کی طرف سے بے پناہ وسائل کامالک ہے۔خاص طورپربرما کے زیرزمین قدرتی گیس کے ذخائربے پناہ کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔بھارت کی ان ذخائرپر بہت گہری اورللچائی نظر ہے۔لیکن جس راستے سے گیس پائپ لائن بھارت لائی جاسکتی ہے،بدقسمتی سے،وہ راستہ بنگلہ دیش سے ہو کر گزرتاہے۔بھارت بنگلہ دیش اور برما کے درمیان بہت طویل گفت و شنید چلتی رہی لیکن اس بار بنگلہ دیش نے بھارت کے سامنے نہ جھکنے کا فیصلہ کیا۔بنگلہ دیش کے وفاقی وزیر برائے توانائی و قدرتی وسائل مشرف حسین نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بنگلہ دیش اپنی سرزمین سے بھارت کوگیس پائپ لائین گزارنے کی ہرگزاجازت نہ دے گاجب تک کہ بنگلہ دیش کی تین شرائط نہ مان لی جائیں۔ان تین شرائط میں بنگلہ دیش کو نیپال اور بھوٹان سے پن بجلی کی درآمدکی اجازت،دو ہمالییانی ممالک سے آزادانہ تجارت کی اجازت اوربنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم بڑھانا شامل ہیں۔برماکے حکومت نے بھی ان شرائط کی حمایت کی ہے اور کہاہے کہ دہلی کی حکومت کوبنگلہ دیش کے ان مطالبات پرگفتگوکرنی چاہیے۔لیکن جب بنگلہ دیشی وزیر کو بتایاگیاکہ بھارت نے ان شرائط کو ماننے سے انکار کردیاہے تووزیرموصوف نے کہا اس پائپ لائن کی تنصیب کے لیے بھارت کویہ تینوں شرائط ماننا ہوں گی۔

ان حقائق سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ بھارت نے اپنے ہمساؤں کو کس حد تک زچ کررکھاہے۔وہ ممالک جن کی آبادی کی اکثریت ہندو مت سے تعلق رکھتی ہے،جو کہ بھارت کے ہم مذہب ہیں لیکن پھر بھی بھارت نے انہیں ہر طرف سے گھیرکرصرف اپنا دست نگر رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور ان کے ساتھ اس اشتراک مذہب پر بھی ان کے لیے کوئی رعایت موجود نہیں ہے۔بھارت کا یہ چہرہ صرف اس کی برہمن ذہنیت کا ہی عکاس نہیں ہے بلکہ بھارتی آئین میں سیکولرازم کا سبق بھی اسے اسی رویے کی طرف راہنمائی کرتاہے۔اس وقت دنیا میں سیکولرازم کابول بالا ہے اور پوری مغربی دنیااپنی سیکولر تہذیب کو باقی دنیاؤں پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش میں لگی ہے،پس جس طرح سیکولرازم نے زبردستی پوری دنیاکو اپنا ذہنی،تعلیمی،معاشی،تہذیبی اور دفاعی غلام بنارکھاہے اسی طرح سیکولربھارت بھی اپنے ہمساؤں کواسی طرح کی زبردستیوں میں جکڑناچاہتاہے۔لیکن اب حالات بہت تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہیں اور بہت جلد برہمن کا سحرٹوٹنے والا ہے،انشاء اﷲ تعالی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 573922 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.