حیران کن انکشاف
(Falah Uddin Falahi, India)
ملک آزاد ہو گیا ،سب کو آزادی مل گئی ،اپنی
حکومت اور اپنا قانون بن گیا ،ملک ترقی کی رفتار پکڑ چکا ،نئے نئے ایجادات
اور انکشافات ہونے لگے ،ہندوستان بھی دنیا کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرتا
رہا ،لیکن جو نہیں ہوا وہ بہت تلخ حقیقت پر مبنی رپورٹ ہے ۔بظاہر آزادی کے
وقت یا اس سے قبل انگریز وں کے ذریعے جو سہولیات سرکاری طور پر دی گئی تھی
اسے باقی رکھا گیا اور وہ آج بھی نافذ العمل ہے ،لیکن نئی دریافتیں ہوتی
گئیں اسے استعمال بھی کیا گیا لیکن اسے باضابطہ قانون کی شکل نہیں دی گئی ۔اس
کی ایک مثال اور ہے کہ 1980کے بعد ہندوستان میں وزیر اعظم راجیو گاندھی کے
دور میں کمپیوٹر نے ہندوستان میں قدم رکھا اور اب تو وہ تناور درخت کی طرح
ہر محکمہ کے لئے لازم و ملزوم ہے ۔ہندوستان میں اس نئی ٹکنالوجی کی آمد سے
نوجونوں کا کریز کافی بڑھا اور ہر پڑھا لکھا کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنے کے
لئے اپنے کو تیار کرنے لگا ۔لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ سرکاری طور پر
کمپیوٹر آپریٹر کی پوسٹ تخلیق نہیں کی گئی ہے ،کہیں کہیں پر کی گئی ہے جو
اچھی تنخواہ تو دے رہے ہیں لیکن اسے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کر رہے ہیں ،مثلا
تعلیمی مرکز این سی ای آر ٹی کو لے لیجئے وہاں ابھی تک کوئی کمپیوٹر آپریٹر
مستقل طور پربحال نہیں ہے ۔چند ہیں تو وہ بھی کسی دوسری پوسٹ کو ختم کرکے
اس کی جگہ فل کر دیا گیا ہے ۔ایڈہاک کے طور پر آپریٹروں کی بحالی ہوتی ہے
تنخواہ بھی اچھی ہے لیکن ان کی گردن پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہتی ہے ۔سال چھ
ماہ میں ان کا کانٹیکٹ ختم ہوجاتاہے ۔یہی حال بہت سی جگہوں پر ہے۔اسی سے
متعلق بی بی سی میں ایک انکشاف ہوا ہے جو واقعی حیران کن ہے ۔ڈیڑھ صدی سے
زیادہ کے انتظار کے بعد ملک میں ریل گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے لیے اچھی خبر
ہے، اب ان کا سفر کتنا بھی لمبا ہو، انھیں ٹائلٹ تلاش کرنے کے لیے انجن سے
اتر کر نہیں بھاگنا پڑے گا۔انڈیا میں ریل گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو ’لوکو
پائلٹ‘ کہا جاتا ہے، وہ پائلٹ بھلے ہی ہوں لیکن اب تک وہ ٹائلٹ کی بنیادی
سہولت سے محروم تھے۔منپریت سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہمیں آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں
صرف دس منٹ کی بریک ملتی تھی، اور ایسا نہیں کہ آپ کہیں بھی گاڑی روک کر
کھڑے ہوجائیں۔ ہمیں پہلے وائرلیس پر اگلے سٹیشن کے انچارج کو اطلاع دینی
پڑتی ہے، پھر جلدی سے بھاگ کر سٹیشن کا ٹائلٹ استعمال کرتے ہیں۔۔۔اب ہمارا
ایک دیرینہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ہمیں تو آسانی ہوگی ہی، ریل گاڑیاں
بھی وقت پر چل سکیں گی۔‘لوکو پائلٹ کس مشکل سے گزرتے ہوں گے، یہ اندازہ
لگانا تو مشکل نہیں اور وہ اس مشکل سے کیسے نمٹتے تھے، اس کے بارے میں بھی
بہت سی دلچسپ کہانیاں ہیں۔اب ریلوے کے انجنوں میں جو نئے ٹائلٹ بنائے جارہے
ہیں، وہ جدید ترین ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں، بالکل ویسے جیسے آپ کو ہوائی
جہاز میں نظر آئیں گے۔ ہر ٹائلٹ پر تقریباً اٹھارہ سے بیس لاکھ روپے خرچ
ہوں گے۔ڈرائیوروں کو تو 160 سال انتظار کرنا پڑا لیکن مسافروں کو ٹائلٹ کی
سہولت صرف نصف صدی میں ہی مل گئی تھی۔لیکن اس کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی
ہے۔ایک مسافر اوکھل چندر سین نے 1909 میں مغربی بنگال کے صاحب گنج ڈیوڑنل
آفس کو ایک غیرمعمولی خط لکھا تھا، جس میں انھوں نے اپنی تکلیف بیان کی تھی۔
یہ خط آج بھی دہلی کے ریل میوزیم میں موجود ہے’محترم’میں ٹرین سے احمدپور
سٹیشن پہنچا، کٹہل کھانے سے میرا پیٹ پھولا ہوا تھا، اس لیے میں رفع حاجت
کے لیے چلا گیا، میں فارغ ہو ہی رہا تھا کہ گارڈ نے سیٹی بجا دی، میں ایک
ہاتھ میں لوٹا اور دوسرے میں دھوتی تھام کر بھاگا۔ میں گر پڑا اور سٹیشن پر
موجود عورتوں اور مردوں نے وہ دیکھا۔۔۔۔’میں احمدپور سٹشین پر ہی چھوٹ گیا۔
یہ بہت غلط بات ہے، اگر مسافر رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں تب بھی گارڈ چند
منٹوں کے لیے ٹرین نہیں روکتے؟ اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ گارڈ
پر بھاری جرمانہ کیا جائے۔ ورنہ میں یہ خبر اخبارات کو دے دوں گا۔اس کے بعد
مسافر ٹرینوں میں ٹائلٹ کی سہولت فراہم کر دی گئی۔ اب مسافر ٹرینوں میں
پرانے گندے ٹائلٹس کی جگہ نئے ’بایو ٹائلٹ‘ نصب کیے جارہے ہیں۔ رواں مالی
سال میں ایسے سترہ ہزار ٹائلٹ بنائے جائیں گے۔لیکن انجنوں میں نئے ٹائلٹ
بنانا ٹیڑھی کھیر ہے، کیونکہ خرچ بھی بہت زیادہ ہے اور پرانے انجنوں میں
جگہ بھی نہیں، اس لیے ریلوے کے ساٹھ ہزار ڈرائیوروں کے لیے منزل ابھی دور
ہے۔ |
|