تروینی تیرے نام
(Dr B.A Khurram, Karachi)
سم پورن سنگھ جب پاکستان سے ہجرت کرکے
ہمسایہ ملک بھارت گئے توکار مکینک کے طور پہ گھر کا چولہا جلانے لگے امریکی
شاعر، رابرٹ فراسٹ کہتے ہیں’’جب ایک جذبے کو خیال مل جائے اور خیال کو
الفاظ تبھی شاعری وجود میں آتی ہے۔‘‘ پھر اوائل عمری ہی میں سمپورن سنگھ کے
خیالات وجذبات بھی شاعری کی جانب مبذول ہوئے تو انہوں نے فلم کے لئے اردو
گیت لکھنے شروع کر دیئے اور سم پورن سنگھ سے ’’گلزار‘‘ بنے اور اسی نام سے
عالم گیر شہرت پائی یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ سکھ ہونے کے باوجود پنجابی یا
گرومکھی سے زیادہ انہیں اردو سے خاص لگاؤ تھا اردو ہی کو ذریعہ اظہار جذبات
بنایااور انہوں نے بھارتی فلموں کے لئے اردو گیت نگاری کرتے ہوئے بے پناہ
شہرت سمیٹی سم پورن سنگھ ماضی کے دریچوں میں کھو گئے اور ’’گلزار‘‘ بن کے
مہک اٹھے ان کی محبتوں کی خوشبو ملکی سرحدوں کو پارکرتے ہوئے پھیلنے لگی
’’تروینی‘‘کا اگر کہیں ذکر ہوگا تو پھر ’’گلزار‘‘ کو نظر انداز کرنا
انتہائی مشکل ہوگا لفظ ’’تروینی‘‘ معروف شاعر گلزار کی دین ہے۔’تروینی‘‘
یعنی تین اشعار والی تخلیق جسے دور جدید کی آزاد نظم کہہ سکتے ہیں
گلزار کہتے ہیں
’’تروینی نہ تو مثلث ہے، نہ ہائیکو، نہ تین مصرعوں میں کہی ایک نظم۔ ان
تینوں ' فارمز' میں ایک خیال اور ایک امیج کا تسلسل ملتا ہے۔ لیکن 'تروینی'
کا فرق اس کے مزاج کا فرق ہے۔ تیسرا مصرعہ پہلے دو مصرعوں کے مفہوم کو کبھی
نکھار دیتا ہے، کبھی اضافہ کرتا ہے، یا کبھی ان پر کمینٹ کرتا ہے۔ ' تروینی'
نام اس لیے دیا گیا تھا کہ سنگم پر تین ندیاں ملتی ہیں۔ گنگا، جمنا اور
سرسوتی۔گنگا اور جمنا کے دھارے سطح پر نظر آتے ہیں ، لیکن سرسوتی جو
ٹیکسیلا سے بہہ کر آتی تھی، وہ زمین دور ہو چکی ہے۔ تروینی کے تیسرے مصرعے
کا کام سرسوتی دکھانا ہے جو پہلے دو مصرعوں سے چھپی ہوئی ہے‘‘۔
ہمسایہ ملک بھارت میں گلزار کے بعد وطن عزیز پاکستان کے ضلع وہاڑی کی تحصیل
بورے والا کے نوجوان شاعر زعیم رشید کے ساتھ ساتھ قلم قبیلہ سے تعلق رکھنے
والے ہر شخص کو یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ ’’ تروینی تیرے نام‘‘تین تین
مصرعوں کی نظموں پر مشتمل ہے تروینی کی صنف میں پاکستان سے چھپنے والی یہ
پہلی کتاب ہے تروینی تیرے نام معروف نوجوان شاعر زعیم رشید کا تیسرا ادبی
پڑاؤ ہے جو لاجواب اور باکمال ہے اس سے قبل ‘‘ایک صدا کی دوری’’ اور
‘‘غزلیاتِ میر حسن شخص و شاعر’’ادبی حلقوں میں دادِ محبت وصول کر چکی ہیں۔
تازہ شعری مجموعہ128 صفحات پر مشتمل ہے جو نظمینہ پبلیکشنز لاہور نے شائع
کیا۔ شعری مجموعہ کی تازہ کتاب کی طباعت عمدہ ہے اور کاغذ بہترین! مجموعی
طور پر پیش کش معیاری ہے جسے دیکھتے ہوئے قیمت طبع نازک پر گراں نہیں
گزرتیکتاب کے بیک فلیپ پر ہندوستان کے معروف شاعر گلزارجو تروینی لفظ کے
خالق بھی ہیں لکھتے ہیں
’’تروینی کا یہ پودا لگا کر اب بڑی تسلی ہوتی ہے۔ یہ پھل پھول رہی ہے اور
مجھ سے بھی اچھے باغبان ملے ہیں اسے۔ زعیم رشید کی خوبصورت تروینیاں پڑھ کر
بڑی خوشی ہوئی ہے۔ زعیم نے یہ بیل اوپر کی منڈیر تک پہنچا دی‘‘ کہنے کو تو
یہ چند الفاظ ہیں لیکن یہ چند الفاظ نوجوان شاعر زعیم رشید کے لئے سرمایہ
حیات سے کم نہیں زعیم رشید بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں ان کی نظموں کا
انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر انگلستان سے چھپ چکا ہے جسے ادبی حلقہ میں
خاص پذیرائی ملی انگریزی کے سارتھ ساتھ اردو زبان میں بھی لکھتے ہیں لندن
سے تعلیم یافتہ نوجوان زعیم رشید بنیادی طور پر صحافی ہیں ان کی زیر ادارت
ماہوار ’’ سٹی سرکل‘‘ اخبار بورے والا سے باقاعدگی سے پبلش ہوتا ہے۔
نوجوان شاعر زعیم رشید کی کی کہی گئی تروینیوں میں وہ گہری باتیں پوشیدہ
ہیں جنہیں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ ایسی کچھ تروینیاں پیش ہیں، پڑھیں،
سمجھیں اور لطف اٹھائیں
پہلے پہل تو شہر کی جانب دوڑ کے جایا کرتی تھی
جانے کیسا چندرا ظلم کمایا رنڈوے شہروں نے
گاؤں کی بیوہ پگڈنڈی بھی شہر کے نام سے ڈرتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے پیڑ کے پتوں میں صدیوں سے روایت ہے
کوئی وعدہ نہیں کرتا کسی کے ساتھ رہنے کا
نہ جانے یہ ہوا ان کو اڑا لے جائے کس جانب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونا کمرہ آخری شب اور اک مہمان کی دستک
ہونٹ اس کے لال گلابی اور صورت بھینی بھینی
سرحد پار سے ملنے آئی مجھ کو اک تروینی
۔۔۔۔۔۔۔
کس قدر جھوٹ بولتے ہیں لوگ
یہ نصیحت ہے میری بچوں کو
پیٹ بھرتا نہیں محبت سے
۔۔۔۔۔
زعیم رشید کی ’’ تروینی تیرے نام ‘‘ میں ردھم اور سلیقہ نمایاں ہے۔ انہیں
اپنے من کی بات کہنے کا فن خوب آتا ہے نوجوان شاعر نے اپنے آپ کو کسی ایک
موضوع تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ انہوں نے ہر موضوع کو اپنی تروینیوں کا حصہ
بنا کر کمال کیا ہے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے لے کر حسن و جمال تک کا احاطہ
کیا ہے محبوب کے حسن کی تعریف ،انتظار ،پیاراور جدائی کو بڑے منظم طریقے سے
شاعرانہ سخن پہنایا گیاشاعر کو شاعری سے لگاؤ والی لڑکی سے بھی گلا ہے جو
شاعر کی شاعری سے محبت توکرتی ہے لیکن شاعر کی بیوی بننا پسند نہیں کرتی
عجب انداز سے وہ کہہ رہی تھی
میں شعروں کی بہت رسیا ہوں لیکن
کسی شاعر کی بیوی کیوں بنوں میں!
نوجوان شاعر نے کم عمری میں بہت سے موضوعات کو ایک کتاب میں پرو کرقابل
تعریف کام کیا ہے۔ |
|