|
ہر دوسرے تو نہیں مگر بہت سے پاکستانیوں کی یہ کہانی ہے کہ ماں کا زیور بہنوں کا جہیز اور باپ کی زمین یا دوکان بکوا کر بیرون ملک پہنچتے ہیں ۔ پھر جو غیر قانونی طور سے مقیم ہوتے ہیں ان کی زندگی کسی دھوبی کے کتے والی ہوتی ہے ۔ انہیں کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی کم تنخواہ پر گھٹیا سے گھٹیا کام بھی چوروں کی طرح چُھپ کر کرتے ہیں گاڑی نہیں چلا سکتے ۔ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہوتی وہاں سواری لینے کے لئے انہیں کسی مقامی یا قانونی ہموطن کی خوشامدیں کرنی پڑتی ہیں ۔ اسکی بے اعتنائی یا سردمہری کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ اور پھر ان کٹھنائیوں سے دلبرداشتہ ہو کر نجات کا واحد راستہ وطن واپسی نہیں بلکہ کسی مقامی خاتون سے شادی ہی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ مگر امتحان ختم نہیں ہوتا ۔ اب اپنا مطلب پورا ہونے تک اس گوری سے ہر ناگوار ترین ماحول میں بھی اس سے بنا کر رکھنا ہوتا ہے بلکہ کسی کتے ہی کی طرح اس کے آگے پیچھے دُم ہلانا پڑتا ہے ۔ پھر جناب ایسی بھی کوئی شام ہے کہ جس کی سحر نہیں ۔ اس گوری آقا کے طفیل جب دیار غیر کی شہریت حاصل ہو جاتی ہے تو اسے لات مار کرکھسکنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے ۔ مگر کچھ لوگ اس رشتے کو تا دیر نبھاتے ہیں ۔ زندگی بھر ساتھ نبھنے کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں ۔ |
|
By:
Rana Tabassum Pasha(Daur),
Dallas, USA
on
Aug, 17 2016
|
|
1
|
|
|
|
آپ نے تو ایک اور سچی کہانی لکھ دی بہترین کمنٹ اور بلاگ پڑھنے کا شکریہ |
|
By:
aina syeda,
Karachi
on
Sep, 01 2016
|
0
|
|
|
|
|
|
|
Please Wait Submitting Comments...