جادو جنات اور علاج قسط نمبرA6

(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA6) *کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار* *مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*' *ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*-              *مکتبہ اسلامیہ* *یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA6)

*کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار*
*مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*'
*ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*-
*مکتبہ اسلامیہ*
*یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان*

۔ جادو کے وجود پر دلائل قرآنی دلائل 1۔

فرمانِ الٰہی ہے: وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (البقرۃ:١٠٢)
“اور سلیمانؑ کی بادشاہت میں شیطان جو پڑھا کرتے تھے، وہ لوگ اس کی پیروی کرنے لگے حالانکہ سلیمان کافر نہ تھے، البتہ یہ شیطان کافر تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے، اور وہ باتیں جو شہر بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھیں، اور وہ دونوں (ہاروت و ماروت) کسی کو جادو نہیں سکھلاتے تھے جب تک یہ نہیں کہہ لیتے کہ ہم آزمائش ہیں پس تو کافر نہ ہو۔ اس پر بھی وہ ان سے ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ خاوند بیوی کے درمیان جدائی کرا دیں حالانکہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کا جادو سے کچھ بگاڑ نہیں سکتے، اور ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن میں فائدہ کچھ نہیں، نقصان ہی نقصان ہے۔ اور یہودیوں کو یہ معلوم ہے کہ جو کوئی (ایمان دے کر) جادو خریدے وہ آخرت میں بد نصیب ہے، اگر وہ سمجھتے ہوتے تو جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، اس کا بدلا برابر ہے۔” 2۔ قَالَ مُوسَى أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ أَسِحْرٌ هَذَا وَلا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ (سورۃ یونس: ٧٧)
“موسیٰؑ نے کہا: تم لوگ سچ بات کو جب وہ تمہارے پاس آئی (جادو کہتے ہو) بھلا یہ کوئی جادو ہے؟ اور جادوگر تو کبھی کامیاب نہیں ہوتے” 3۔ فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (٨١)وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ (٨٢)(سورۃ یونس) “جب انہوں نے (اپنی لاٹھیاں اور رسیاں) ڈالیں تو موسیٰؑ نے کہا: یہ جو تم لے کر آئے ہو وہ تو جادو ہے، بے شک اللہ تعالیٰ اس کو باطل کر دے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ شریر لوگوں کا کام بننے نہیں دیتا، اور اپنی باتوں سے اللہ حق کو حق کر دکھائے گا اگرچہ نافرمان لوگ برا مانیں۔” 4۔ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسٰی (٦٧)قُلْنَا لا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الأعْلَى (٦٨)وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى (٦٩)(سورۃ طہٰ) “موسٰیؑ اپنے دل ہی دل میں سہم گئے، ہم نے کہا : مت ڈرو، بے شک آپ ہی غالب رہیں گے، اور جو عصا آپ کے داہنے ہاتھ میں ہے، اس کو (میدان میں) ڈال دو، انہوں نے جو ڈھونگ رچایا ہے اس کو ہڑپ کر جائے گا، انہوں نے جو کیا ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں، صرف جادو کا تماشا ہے، اور جادوگر جہاں جائے کامیاب نہیں ہوتا۔” 5۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (١١٧)فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (١١٨)فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوا صَاغِرِينَ (١١٩)وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (١٢٠)قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (١٢١)رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ (١٢٢) (سورۃ الاعراف)
“اور ہم نے موسٰی ؑ کو وحی بھیجی کہ تو بھی اپنا عصا ڈال دے، سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کر دیا، پس حق ظاہر ہو گیا اورانہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب جاتا رہا، پھر وہ لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہو کر پھرے، اور وہ جو جادوگر تھے سجدے میں گر گئے، کہنے لگے: ہم ایمان لائے رب العالمین پر جو موسٰی و ہارون کا بھی رب ہے” 6۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (١)مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (٢)وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (٣)وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (٤)وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (٥) (سورۃ الفلق)
“آپ کہ دیجئے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کے شر سےجو اس نے پیدہ کیا ہے، اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرہ پھیل جائے، اور گرہ (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے بھی، اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔” امام قرطبی وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ۙ کی تفسیر میں کہتے ہیں: “وہ جادوگر عورتیں جو دھاگوں کی گرہیں بنا کر ان پر دم کرتی اور پھونکتی ہیں” (تفسیر القرطبی:ج20،ص257) اور حافظ ابنِ کثیر اسی کی تفسیر میں کہتے ہیں:“مجاہد، عکرمہ، حسن، قتادہ اور ضحاک نے النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ سے جادوگر عورتیں مراد لی ہے” (تفسیرابنِ کثیر:ج4،ص573) اور یہی بات ابن جریر طبری نے بھی کہی ہے، اور قاسمی کہتے ہیں کہ مفسرین نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (تفسیر القاسمی: ج10، ص302) جادو اور جادوگروں کے متعلق دیگر بہت سی موجود و مشہور ہیں اور اسلام کی تھوڑی بہت معلومات رکھنے والا شخص بھی ان سے واقف ہے۔

*حدیثِ نبوی سے چند دلائل 1*۔
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ قبیلہ بنو زریق سےتعلق رکھنے والے ایک شخص نے (جسے لبید بن اعصم کہا جاتا تھا) رسول اکرمﷺ پر جادو کر دیا، جس سے آپﷺ متاثر ہوئے۔ چنانچہ آپﷺ کا خیال ہوتا کہ آپﷺ نے فلاں کام کر لیا ہے حالانکہ آپﷺ نے وہ نہیں کیا ہوتا تھا۔ یہ معاملہ ایسے چلتا رہا یہاں تک کہ آپﷺ ایک دن (یا ایک رات) میرے پاس تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے تھے، اس کے بعد مجھ سے فرمانے لگے: “اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی ہے، میرے پاس دو آدمی آئے تھے، ان میں سے ایک میرے سر اور دوسرا میرے پاؤں کےپاس بیٹھ گیا اور ایک نے دوسرے سے پوچھا: اس شخص کوکیا ہوا ہے؟ اس پر جادو کیا گیا ہے۔ کس نے کیا ہے؟ لبید بن الاعصم نے۔۔۔۔ کس چیز میں کیا ہے؟ کنگھی، بالوں اور کھجور کے خوشے کے غلاف میں۔ جس چیز میں اس نے جادو کیا ہے، وہ کہاں ہے؟ بئر ذَروان میں۔۔۔۔ چنانچہ رسول اللہﷺ اپنے کچھ صحابہ کرامؓ کے ساتھ اس کنویں کو آئے (اسے نکالا اور پھر) واپس آ گئے اور فرمانے لگے: “اے عائشہ! اس کا پانی انتہائی سرخ رنگ کا ہو چکا تھا اور اس کی کھجوروں کے سر ایسے تھے جیسے شیطان کے سے ہوں” (یعنی وہ انتہائی بد شکل تھیں) میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے جادو کنویں سے نکالا نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:“اللہ تعالیٰ نے مجھے عافیت دی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگ کسی شر اور فتنہ میں مبتلا ہو جائیں” اس کے بعد آپﷺ نے اسے نکالنے کا حکم دیا اور اور پھر اسے زمین میں دبا دیا گیا۔ (البخاری:ج10ص222، مسلم:ج14ص174، کتاب السلام، باب السحر) شرحِ حدیث: یہودیوں نے لبید بن عاصم (جو ان میں سب سےبڑا جادوگر تھا) کے ساتھ یہ بات طے کر لی تھی کہ وہ رسول اکرمﷺ پر جادو کرے گااور وہ اسے بدلے میں تین دینار دیں گے، چنانچہ اس بد بخت نے یہ کام اس طرح کر ڈالا کہ ایک چھوٹی سی لڑکی کے ذریعےجو آپﷺ کے گھر میں آتی جاتی تھی، آپ کے چند بال منگوا لئے اور ان پر جادو کر کے انہیں بئر ذروان میں رکھوا دیا۔ اس حدیث کی مختلف روایات کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جادو آپﷺ کو اپنی بیویوں کو قریب جانے سے روکنے کے لئے تھا، چنانچہ آپﷺ کو خیال ہوتا کہ آپﷺ اپنی کسی بیوی سے جماع کر سکتے ہیں، پھر جب قریب ہوتے تو نہ کر پاتے، بس اس کا آپﷺ پر یہی اثر تھا، اس کے علاوہ آپ کی عقل اور آپ کے تصرفات جادو کو اثر سے محفوظ تھے۔ اس جادو کی مدت میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، بعض نے چالیس دن اور بعض نے کوئی اور مدت بیان کی ہے۔ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس کی مدت کتنی تھی، پھر نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ سے بار بار دعا کی، اللہ نے آپﷺ کی دعا قبول کر لی اور دو فرشتوں کو آپﷺ کی طرف اتار دیا۔ ان کے درمیان ایک مکالمہ ہوا (جو گزشتہ سطور میں بیان کیا گیا ہے) اس سے آپﷺ کو معلوم ہو گیا کہ جادو کس نے کیا ہے، کس چیز میں کیا ہے اور وہ اس وقت کہاں ہے۔ آپﷺ پر کیا گیا یہ جادو انتہائی شدید تھا، اور اس سے یہودیوں کا مقصد آپﷺ کو قتل کرنا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بچا لیا اور اس کا اثر صرف اتنا ہی ہو سکا جو ذکر کر دیا گیا ہے۔
جاری ہے.....
imran shahzad tarar
About the Author: imran shahzad tarar Read More Articles by imran shahzad tarar: 43 Articles with 38271 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.