شوق کاسفر

میرے خانۂ دل میں بھی ایک شورسابرپاہے۔کتنی ہی دیواریں ہیں کہ ایک ایک کرکے گررہی ہیں۔ ہزارکوتاہیوں اورکمزوریوں کے باوجود مجھے اس بات کاکامل یقین ہے کہ پاکستان ایک معجزاتی ریاست ہے جس کومیرے رب نے ایک عظیم مقصد کیلئے تخلیق کیاہے۔

قارئین کی ایک بڑی تعداد ابھی تک کالم''یہ ہے پاکستان''اور ''سالگرہ''پر اپنی قیمتی آراء ارسال کررہے ہیں لیکن ایک تحریر ایسی بھی موصول ہوئی جس نے میرے جسم وروح تک کو جھنجھوڑکررکھ دیااورمیں کافی دیر تک گم سم اپنی گم گشتہ یادوں کو جمع کرتا رہا۔باباجی کوجب تحریر پڑھ کرسنائی تووہ بھی بے اختیارآبدیدہ ہوگئے ،یقیناً تخلیقِ پاکستان کے کئی شہدا آنکھوں کے سامنے اپنے لہولہان لوتھڑوں کے ساتھ حاضر ہوگئے ہوں گے!

’’میں پچھلے کئی برسوں سے آپ کے کالم پڑھ رہی ہوں لیکن آپ کے اس کالم کوپڑھ کردل کے کئی پھپھولے پھوٹ گئے جومیں نے پچھلے سات دہائیوں سے اپنے دل کے نہاں خانے میں سب سے چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔تخلیقِ پاکستان کے وقت میری عمر بارہ برس تھی اورمیراساراخاندان صدیوں سے مشرقی پنجاب کے ایک مشہورشہربٹالہ میں مقیم تھا۔والدِمحترم اپنے علاقے کے ایک مشہوربڑے زمیندار تھے اوراپنے فلاحی کاموں کے سلسلے میں پٹھانکوٹ اور امرتسرمیں بھی کافی مشہور تھے۔زمینوں کے حساب کتاب کیلئے لالہ شرما جی بطورمنیم پشت درپشت ہمارے ساتھ ہی مقیم تھے اوران کی بیٹی پشپا اور میں اکٹھے پلے بڑے تھے۔کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم اس طرح الگ ہوں گے کہ زندگی میں کبھی ایک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھ سکیں گے۔

میرے والدگھر سے کئی کئی دن جب دور ہوتے تو پتہ چلتا کہ ملک کا بٹوارہ ہونے جارہا ہے اور مسلم لیگ کی تحریک زور پکڑ رہی ہے اوروالدمحترم مسلم لیگ کی حمائت میں گاؤں گاؤں قریہ قریہ نئے ملک کی افادیت کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ۔انہی دنوں ملک کی تقسیم کی افواہوں نے جب زورپکڑا تو ہمارے گھر کے بیرونی دالان میں گاؤں کے افرادجمع ہوئے،سب اس بات پرخوش تھے کہ ہماراعلاقہ پاکستان میں شامل ہوجائے گا اورہم ایک آزاد مسلمان مملکت کے شہری قرار دیئے جائیں گے جہاں اللہ اور اس کے نبیۖ کے بتائے ہوئے قوانین کے تحت خلافتِ راشدہ جیسی حکومت ہوگی۔گویا سارے گاؤں میں ایک ایسی عید کاانتظارہونے لگا جوصدیوں کے بعدنصیب ہونے والی تھی۔

آدھی رات کواپناچہرہ چھپائے میری سہیلی ''پشپا''نجانے کس طرح دیوارپھاند کر گھرمیں داخل ہوئی، میرے کمرے سے وہ خوب واقف تھی،میرے ساتھ اس نے زندگی کے کئی شب روزگزارے تھے ۔اس کاساراجسم کانپ رہاتھا،اس نے رونا شروع کردیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ میں نے بغلی کمرے میں اپنی ماں کوفوراًاٹھایا ۔پشپانے بتایا کہ تم جس طرح ہوسکے اپنی حفاظت کا بندوبست کرلو کہ گاؤں پر حملہ ہونے والاہے اورمیراباپ اس سازش میں شریک ہے ۔میری ماں نے مجھے یہ پیغام دیکربھیجاہے کہ آپ کومطلع کردوں،اب مجھے جانے دیجئے وگرنہ وہ میرے ٹکڑے کردیں گے۔

ابھی اس خبر سے گھر والے سنبھل نہ پائے تھے کہ حویلی کے پچھواڑے سے بلوائیوں کا ایک ریلا داخل ہوا،ہاتھوں میں تلواریں،بھالے اورکرپانیں لہراتے ہوئے اپنے خوں آشام ارادوں کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔میری آنکھوں کے سامنے میرے ماں باپ،میرے پانچ بہن بھائیوںسمیت گھر کے تین ملازمین کے ٹکڑے کردیئے گئے ۔میں خوف کے مارے بھوسے کے اس کمرے میں چھپ گئی جس کے اندرداخل ہونے کی مجھے ساری عمر جرأت نہیں ہوئی تھی۔حویلی کو آگ لگا دی گئی اور اس بھوسے کے کمرے کو بھی آگ دکھا دی گئی جہاں میں چھپی ہوئی تھی۔مجھے پورا یقین ہوگیا کہ کہ میں اس آگ میں بھسم ہوجاؤں گی لیکن میں نے وہاں سے نکلنے کی اس لئے کوشش نہ کی کہ اس طرح عزت کی موت کو گلے لگا نا کہیں بہترہے،کم ازکم عزت و عصمت تو محفوظ رہے گی۔ لیکن اللہ کو مجھے بچانا شائد اس لئے مقصود تھاکہ میں اس شوق کے سفر کی روداد اپنی اس نسل کوسناسکوں جوپاکستان کی قیمت سےواقف نہیں اوران افراد کوبھی شرم دلاسکوں جوآج اس پاکستان اوراس کے بنانے والوں کے خلاف زبان درازی کررہے ہیں۔

اس بھوسے والے کمرے میں دھوئیں کی شدت اورآگ کی حدت نے مجھے مجبورکردیا کہ میں فوری طورپر پچھلے دروازے سے جانوروں کے باڑے کی طرف نکل جاؤں۔میں بھاگ کراس باڑے میں داخل ہوئی تھی کہ کسی نے میرے اوپر چادر پھینک کر ایک کونے کی طرف دھکہ دے دیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھاتووہ ہماراملازم چچا جسونت سنگھ تھاجس نے ہم سب بہن بھائیوں کواپنے ہاتھوں میں کھلایاتھا۔ چندمنٹوں کے بعدوہ مجھے اپنے گھرمیں لے گیاجہاں میں مکمل طورپراس کے رحم وکرم پرتھی۔ پانچ دن اس کے گھر میں اس کے خاندان نے میری حفاظت کی اوربالآخرایک دن مجھے وہ مسلمانوں کے ایک کیمپ میں چھوڑ گئے اورآج بھی جس'' کیسری رنگ کی چادر''میں مجھے وہ چھپاکرلائے تھے وہ میرے پاس محفوظ ہے۔دودن کیمپ میں رہنے کے بعدہمیں ٹرین میں بٹھادیاگیااورجب ٹرین نے اپنی منزل کی طرف رینگناشروع کیاتومیرے گھرکے تمام شہداءخون میں لت پت میری آنکھوں کے سامنے آگئے اور مجھے نہیں پتہ کہ وہ بوڑھی عورت کون تھی جومجھے دلاسہ دیتے وقت خود بھی اسی طرح پھوٹ پھوٹ کررورہی تھی اورساتھ ساتھ یہ کہہ رہی تھی کہ کوئی بات نہیں اب ہم اپنے ایسے گھرمیں جا رہے ہیں جہاں ہمیں کوئی خوف نہ ہوگااورہماری طرف کوئی میلی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکے گا۔

ٹرین پہلے ہی آہستہ آہستہ چل رہی تھی کہ اچانک پھرویساہی منحوس شوراٹھا جیسامیں نے اپنی حویلی کے درودیوارمیں سنااوردیکھاتھا۔ بلوائیوں نے گاڑی پرحملہ کردیااورآن کی آن میں بلوائی ٹرین میں داخل ہو گئے اوراس کے بعد کا منظربیان کے لائق نہیں۔ہر سامنے آنے والی چیز کوکاٹ کے رکھ دیاگیا اور ان لاشوں کے ڈھیر کے نیچے میں کس طرح بے سدھ گر گئی ،مجھے اس کاکوئی علم نہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ ٹرین کس طرح اس ارضِ پاکستان پہنچی ۔ مجھے تواس وقت پتہ چلا کہ جب ایک خاکی وردی والازورسے چلایا کہ''صاب! یہ لڑکی زندہ ہے''۔ مجھے خون کے اس دریاسے نکال کرفوری طورپرایک خیمے میں لایاگیاجہاں کچھ فوجی مجھے طبی امداددینے میں مصروف ہوگئے ۔ میں نے اپنے آپ کومکمل طورپرحالات کے رحم وکرم پرچھوڑدیا۔بعدمیں مجھے ایک ہسپتال میں منتقل کردیاگیا جہاں ایک رحم دل خاتون خالہ شفیقہ نے مجھے پہچان لیااورمیرے گھرکے تمام افرادکانام لیکرمجھ سے ان کااحوال پوچھتی رہیں۔

مجھے اپنے ساتھ گھر میں لے آئیں اورمیری دلداری میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ زندگی کے معاملات دوبارہ شروع ہوگئے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعدان فرشتہ سیرت افرادنے مجھے بیٹی سے بہوبنالیا۔میں اپنے شوہرکے ساتھ امریکامنتقل ہو گئی جہاں ان کی مددسے میں نے بھی پی ایچ ڈی کرلی۔واپس پاکستان آکرچندسال گزارے لیکن یہ پاکستان انہی لوگوں کے ہتھے چڑھ گیااب جن کی اولادیں اس پاکستان اوراس کے مشاہیرکے خلاف تشکیک پھیلارہے ہیں۔ہم دونوں میاں بیوی توحالات سے مجبورہو کرامریکا واپس آگئے اوردرس وتدریس میں مصروف ہو گئے۔ہمارے شاگردوں میں اس وقت بھی پاکستان کے بہت سے بیورو کریٹ اور اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ممبران موجود ہیں بلکہ چندامریکی شاگرد تو امریکاکے اعلیٰ عہدوں پربھی براجمان ہیں۔ہم دونوں میاں بیوی نے ساری عمربالخصوص پاکستانی شاگردوں کوتعلیمی میدان میں ہر طرح سے سپورٹ کیاکہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوکرواپس وطن لوٹیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے اس'' شوق کے سفر''سے بھی ضرورآگاہ کیاکہ ان کوپاکستان کی قدرومنزلت کاپتہ چل سکے۔

ہم دونوں میاں بیوی بڑی خوشحال ریٹائرزندگی گزاررہے ہیں ۔پاکستان کے حالات کے بارے میں ہم بھی اسی طرح پریشان ہیں جس طرح میرے وطن کے دوسرے کروڑوں بیکس اورمجبورانسان لیکن اس کے باوجودمجھے اس بات کاہمیشہ سے یقین رہا کہ ایک ایسادن ضرورآئے گا کہ اسی ملک سے اقبالؒ اورمحمدعلی جناؒح کے بیٹے اٹھیں گے اوراس ملک کی قسمت سنواردیں گے لیکن آپ کے کالم پڑھ کراورالیکٹرانک میڈیا کی وساطت سے پاکستان کے جوحالات دیکھ رہی ہوں دل خون کے آنسورورہاہے اورخصوصاًآپ نے جو''یوٹیوب''کے لنکس ارسال کئے ہیں اس کو دیکھ کرپاؤں تلے سے زمین نکلنے لگی ہے۔خداراآپ اپنے اس کالم میں ان افراد کی آراءکوضرورجگہ دیں جومیری طرح اس شوق کے سفر کے مسافررہے ہیں۔آپ کی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قائداعظمؒ اورپاکستان دونوں اقبالؒ کی دریافت ہیں،جوہمارے ان مشاہیر کی تضحیک کرتے ہیں توغیرت کاتقاضہ تویہ ہے کہ وہ اس دریافت شدہ جنت سے واپس ان بلوائیوں کی جہنم میں چلاجائے لیکن ایسے لوگ غیرت جیسی انمول نعمت سے واقف نہیں۔اللہ میرے اس پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔ پروفیسرڈاکٹر کشور منصور واشنگٹن
قارئین!مجھ میں تواتنی ہمت نہیں کہ اس کے بعد کچھ اورتحریر کرسکوں!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349925 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.