دیامیر بھاشا ڈیم کی کہانی

ہم نے آخری بڑا ڈیم کب مکمل کیا تھا؟ یہ بات ہم ذہن پر زور ڈال کر مشکل ہی سے معلوم کرتے ہیں۔جب آخری ڈیم کی تکمیل کو مکمل ہوئے کئی دہائیاں گزر جائیں۔ماضی کا سفر کرتے کرتے ہم ان سالوں کے قریب جاتے ہیں جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹو اقتدار سنبھال چکے تھے۔کوشش کرکے ہم نے یہ معلوم کیا کہ یہ سال1974ء تھا۔تربیلا ڈیم آخری بڑا منصوبہ مکمل ہوگیا تھا۔اور پھر کالا باغ ڈیم جس کی قسمت ہی کالی تھی۔اور اب وہ الماریوں میں پڑا ہے۔کالا باغ ڈیم کی جگہ آئیڈیل تھی۔6سال میں 6۔ارب ڈالر سے اسکی تکمیل ہونی تھی۔لیکن برا ہوسیاست کا جو قومی مفاد کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ذرا بھی دردمحسوس نہیں کرتی۔لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی بھگتاجارہاتھا۔اور ساتھ ہی تینوں صوبوں کی اسمبلیاں کالاباغ ڈیم کے خلاف قرار دادیں بھی منظور کررہی تھیں۔منظوری کے وقت عین ممکن ہے کہ اسمبلیوں میں بجلی جنریٹرز سے مہیا کی جارہی ہو۔ایسے ممبران اسمبلی کے بارے اب کیاکہا جاسکتا ہے۔اس کے بعد دیا میر بھاشا ڈیم کے بارے مطالعات شروع ہوئے اور2009ء میں اکنامک کونسل نے اسکی منظوری دی۔منظوری کے فوراًبعد یوسف رضا گیلانی بھاگم بھاگ ڈیم کی جگہ گئے اور افتتاحی تختی گاڑ آئے۔تب ڈیم ابھی صرف اور صرف کاغذات پر تھا۔یہی کام اس سے پہلے جنرل مشرف بھی کرچکے تھے۔ویران جگہ پر دونوں کے ناموں کے تختے نظر آتے ہیں۔کیسے بھوکے ہوتے ہیں یہ حکمران کریڈٹ لینے کے لئے ۔ڈیم کے لئے زمین کی خرید کا کام تادم تحریر بھی مکمل نہیں ہوا۔اورافتتاحی تختیاں2007ء اور 2009ء میں ہی لگ چکی تھیں۔انسان شہرت کا بھوکا ہی نظر آتا ہے۔انسان نہیں بلکہ انسان نما حکمران۔دیامیر بھاشاڈیم کی تعمیر آسان نہیں ہے۔2009ء کے تخمینے کے مطابق اسکی تکمیل 11سال میں11۔ارب ڈالر سے ہونی تھی۔اور اب اگر2016ء میں اس کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ 15۔ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگا۔اس میں نصف وسائل تقریباً ملکی اور نصف وسائل زرمبادلہ کی شکل میں ہونگے۔یہ زرمبادلہ کا حصول کب اور کیسے ہوگا۔یہ سب کچھ ابھی طے ہونا باقی ہے۔ابھی ملکی وسائل سے72۔ارب روپے خرچ کرکے زمین کا نصف سے زیادہ حصہ خریدا جا چکا ہے۔باقی کا کام جاری ہے۔نئے سال کے نئے بجٹ میں بھی ضروری رقوم مختص کردی گئیں ہیں۔اندازہ ہے کہ مزید چار ماہ میں یہ کام مکمل ہوجائے گا۔اور یہ کام صرف اور صرف ڈیم کے لئے زمین کی خریداری کا ہے۔ابھی ڈیم کی تعمیر شروع ہونے کا کام دور دور بھی نظر نہیں آتا۔ایک رہائشی کالونی البتہ بنائی جاچکی ہے۔ڈیم کے لئے کل37419ایکٹر کی زمین کی ضرورت ہے۔جو جھیل بنے گی۔اس میں100کلومیٹر موجودہ قراقرم ہائی وے بھی آئیگی۔اس کی متبادل تعمیر پر بھی کام شروع ہے۔45۔کلومیٹر کی تعمیر کی تو فوری ضرورت ہے۔اب یہ خبر سننے میں آئی ہے کہ سٹرک کی اس متبادل تعمیر کو سی پیک کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ڈیم پر جتنے ذرائع وسائل خرچ ہونے ہیں۔ان کا انتظام تبھی ہوتا نظر آتا ہے۔اگر پورے ڈیم کو سی پیک کا حصہ بنا دیاجائے۔کام چینی کمپنیوں کے سپرد کردیا جائے۔کڑی نگرانی قومی ادارہ واپڈا کرے۔یہ اکثر سننے میں آتا ہے کہ چینی کمپنیاں پراجیکٹس میں بڑے مسائل پیداکرتی ہیں۔ڈیم پر جتنے وسائل خرچ ہونے ہیں اس کا انتظام کسی اور جگہ سے جلد ہوتا نظر نہیں آتا۔لہذامجبوراًچین ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔اس سے پہلے بھی چین گلگت،بلستان میں بہت سے ترقیاتی کام کرچکاہے ۔اور دیامیربھاشا ڈیم کا زیادہ ترحصہ اسی علاقے میں آتا ہے۔صرف معمولی سا حصہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں آتا ہے۔پاکستانی سیاست دانوں اور انجینرز کی ایک ذہنی کیفیت یہی سے معلوم ہوتی ہے۔ایک ہی پانی ایک ہی دریا۔کالا باغ ڈیم نہیں بننے دینا۔دیا میر بھاشا ڈیم پر اختلاف نہیں ہے۔وہ بہت سستا ،یہ بہت مہنگا۔عرصہ تکمیل میں بھی دگنا فرق۔یہ ہے پاکستانی قوم۔گزشتہ سال زرعی پیداوار منفی رہی تھی۔بہت سی فصلوں کی پیداوار پانی کی کمی اور وائرس کی وجہ سے کم ہوگئی تھی۔نہروں میں پانی کم ہوگیا ہے۔133۔ایم۔اے۔ایف کی بجائے 114۔ایم۔اے۔ایف رہ گیا ہے۔زراعت کی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔پانی کا ذخیرہ بڑھنے کی بجائے30۔فیصد پہلے سے کم ہوچکا ہے۔یہ سلٹنگ کی وجہ سے بھی ہورہا ہے۔اگر ہم دیامیر بھاشا ڈیم کو مکمل کرلیتے ہیں تو نیچے کی طرف واقع تربیلا اور داسو ڈیم کو فائدہ ہوگا۔پاور جنریشن کافی بڑھ جائیگی۔تربیلا کی سلٹنگ بھی کافی کم ہوجائے گی۔بھاشا ڈیم کی تکمیل سے storageکی گنجائش 6.4ایم۔اے۔ایف بڑھ جائیگی۔پاور جنریشن تکمیل کے بعد4500 M.Wحاصل ہوگی۔پانی کے ذخیروں کی پاکستان میں اشد ضرورت ہے۔اس سے پہلے سے موجود زراعت کو بھی فائدہ ہوگا۔اور بنجر پڑی ہوئی زمینوں کو بھی سیراب کیاجاسکے گا۔زمینوں کا بڑا حصہ ابھی تک بے آباد ہے۔یہ پنجاب ۔سندھ اور بلوچستان میں بہت زیادہ ہے۔حکومت کو اب پوری توجہ دیامیر بھاشا ڈیم کی طرف دینی چاہیئے۔موٹرویز اور اورنج ٹرینوں کی بجائے پانی کے ذخیروں کی تعمیر انتہائی بنیادی مسٔلہ ہے۔اس سال کے بجٹ میں تو بہت کم وسائل بھاشا ڈیم کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔کیونکہ صرف زمین ہی خریدنی تھی۔آنے والے بجٹ میں بھاشا ڈیم کو بہت زیادہ فوکس کرنا چاہیئے۔وہ کام تو ہم شروع کرسکتے ہیں جو پاکستانی روپیہ سے ہوسکتے ہیں۔ڈیم کی واقعی تعمیر شروع ہونا ضروری ہے۔اگر آنے والے سال2017-18میں تعمیر شروع بھی ہوجائے تو بھی 11۔سال لگیں گے۔2028ء میں اگر جھیل اور پاور جنریشن کاکام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔تو بھی ہم اسے کارنامہ ہی کہیں گے۔کسی حکومت کو تو آگے بڑھ کر یہ کریڈٹ لینا چاہیئے۔اگر زمینوں کی خرید اور رہائشی کالونیوں کی تعمیر میں ہی سالہا سال گزر گئے تو پانی کی کمی پاکستان میں قحط پیداکردے گی۔کالاباغ کے قصے کو چھیڑنا اب فضول ہے۔چئیرمین واپڈا کو بھی اب پوری توجہ دیامیر بھاشا ڈیم کو دینی چاہیئے۔جو کام ممکن ہے اس پر عمل ہونا چاہیئے۔اگر پی پی پی حکومت سنجیدہ ہوتی تو2009 ء سے ہی زمین کی خرید شروع کرکے آگے تعمیر شروع کروادیتی اور اب تک ڈیم تکمیل کے آخری مراحل میں ہوتا۔دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر ٹف حالات اور علاقے میں ہونی ہے۔لیکن انسان کی عقل اور تخلیق کردہ ٹیکنالوجی کے ذریعے اب حالات پر قابو پانا آسان ہوگیا ہے۔سمندروں کے نیچے اور خلاؤں میں تعمیرات کرنے والے انسان کے لئے اب کرۂ ارض پر ڈیم تعمیر کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔حکمرانوں کی توجہ کی ضرورت ہے۔پاکستان کو اپنے قومی وسائل کا رخ بھاشاڈیم کی طرف موڑنا چاہیئے۔باقی رہا زرمبادلہ کا مسٔلہ تو چین ہی ہمیں لمبے عرصے کے لئے وسائل فراہم کرسکتا ہے۔ضروری ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تکمیل کے لئے اسے بھی سی پیک کا حصہ بنادیا جائے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.