ماسٹر احمد خان
(Ghulam Ibn-e- Sultan, Jhang)
سال دو ہزار چھے اپنے اختتام کی جانب
بڑھ رہا تھا ۔دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں خون منجمد کر رہی تھیں ۔درختوں کی
شاخیں بے برگ و بار تھیں اور ہر طرف خزاں رسیدگی اور سمے کے سم کے ثمر نے
یاس و ہراس کی مسموم فضا پیدا کر دی تھی۔ رات کا پچھلا پہر تھا ، کسی نا
معلوم خوف کے باعث نیند آنکھوں سے اُڑ چُکی تھی اور پُورا جسم پسینے سے
شرابور تھا۔ا چانک فون کی گھنٹی بجی،میں نے اضطراب سے کہا:
’’جی !السلام علیکم‘‘
دوسری طرف سے آواز آئی’’میں دلاور خان بول رہا ہوں ،ہمارے دیرینہ ساتھی
رانا عزیز احمد خان اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔‘‘
دلاور خان کی زبانی رانا عزیز احمد خان کے نہ ہونے کی ہونی کے بارے میں سُن
کر میرا دِل دہل گیا اس سانحے نے مضطرب روح کو زخم زخم اور دِلِ حزیں کو
کِرچی کِرچی کر دیا۔یاس و ہراس اور رنج و الم کے عالم میں فون میرے ہاتھ سے
گِر گیا۔آنکھوں کے سامنے اندھیر ا چھا گیا اور کچھ ہوش نہ رہا۔رانا عزیز
احمد تو جاتے جاتے سب سلسلے ہی توڑ گیا اور دائمی مفارقت میرا مقدر بن
گیا۔آہ! عزیز احمد تم نے چُپ چاپ جس عجلت سے عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر
باندھ لیا اسے دیکھ کر میرے دِل میں ایک ہُوک سی اُٹھی اور آنکھوں سے جوئے
خوں رواں ہو گئی۔میرا خیال تھا کہ میرا دِلِ حزیں تمھاری اس بے وفائی پر
تجھے بُھول جائے گا مگر تیرے حسین خیال نے اس تجویز کو لائقِ استرداد
ٹھہرایا۔اب میں اپنے دل کے سب ارمان اپنے ساتھ لے کر تم سے آ ملوں گا۔
رانا عزیز احمد خان کی آنکھیں مُند گئیں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے عدم کی بے
کراں وادیوں کی جانب چل دیا اور ہماری پتھرائی ہوئی آنکھیں دیکھتی کی
دیکھتی ہی رہ گئیں۔ میں اپنی پُرنم آنکھوں سے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق
گردانی کرنے لگا۔ماضی کے جھروکوں سے دیکھا تو دھندلی سی سب تصویریں آنکھوں
کے سامنے گھومنے لگیں۔ رانا عزیز احمد خان استادالاساتذہ ماسٹر احمد خان کا
بھتیجا تھا۔گزشتہ چھے عشروں کے اہم واقعات،تلخ و شیریں یادوں اور کرداروں
پر ابلقِ ایام کے سُموں کی جو گرد پڑ چکی تھی اسے دیدۂ گِریاں کی نہر بہا
لے گئی۔ دل و جگر میں حسرت و یاس نے ڈیرے ڈال دئیے اور میں ہجوم ِیاس کی
ظلمتوں میں گِھرا محشر بدایونی کا یہ شعر دہرانے لگا:
سوچتا ہوں ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رُخصت ہوئے جاتے ہیں اور لوگ بھی کیسے کیسے
شخصیت کا حسن کیا ہے ؟اس کے با رے میں عر صہ دراز تک ناطقہ سر بہ گریباں
رہاہے کہ کیاکہا جائے اور خامہ انگشت بدنداں ہے کہ اس کی حقیقی نوعیت کو کس
طرح زیبِ قرطاس کیا جائے۔جس طرح خیر ، شر، محبت، نفرت ، وفا، جفا، ہوس،
کامرانی ،ناکامی ،لاگ ،لگاؤ،سرفروشی اور ایثار سب مجرد کیفیات ہیں، اسی طرح
حسن کوبھی ایک مجرد کیفیت کا درجہ حاصل ہے۔ ایسی منفرد کیفیت جسے قلب اور
روح کے ذریعے محسوس تو کیا جاسکتا ہے مگراسے دیکھنا اور کوئی نام دینا ممکن
نہیں ۔ رنگ ، خوشبواور حسن وخوبی کے تمام استعاروں کو بھلاکوئی نام کیسے
دیا جاسکتا ہے۔ــحسن ایک احساس کا نام ہے جس کا خواب اور خیال میں معاملہ
چلتا ہے۔ستاروں کی چمک ، پائل کی دھمک ، گیت کی لے، بانسری کی نے، نسیم سحر
کے جھونکے، گل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزی ، ثمر نورس کی مہک ، بلبل کی چہک ،
چشم غزال، عارض ولب کی سرخی ، کڑی کمان جیسی چال ، صبیح چہرہ ،سیاہ
زلفیں،چاہِ زنخداں اور مُکھڑے کاتِل دیکھ کر لوگ کیوں دل تھام لیتے ہیں؟اس
کا جواب نہایت واضح ہے کہ حسن تو روشنی ٔچشم کے عکس کا نام ہے۔ وسعت ِ نظر
اوردِل بینا سے متمتع انسان کے دِل و جگر میں حسن کی لگن نمو پاتی ہے اس کی
کشش فکر و خیال کی وادی میں مستانہ وار گھومنے پر مائل کرتی ہے اور اس کا
جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بعض لوگوں کی شخصیت اس قدر جاذب ِ نظر اور پر کشش
ہوتی ہے کہ ان سے مِل کر واقعی زندگی سے والہانہ محبت ہو جاتی ہے ۔عزیز
احمد خان نے اپنی دنیا آ پ پیدا کی او ر فرہاد کے مانند سعیٔ پیہم سے اپنے
گھروندے کو سدا شررِ تیشہ سے ضو فشاں رکھا۔ہجوم یاس میں بھی اس نے دل کو
سنبھالے رکھا اور اپنے نالے کو پابند نے کر کے صبر و استقامت کی عمدہ مثال
پیش کی۔عظیم شخصیت کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی
عظمت کو چارچاند لگ جاتے ہیں اور لوح جہاں پر اس کا دوام ثبت ہو جاتا ہے۔اس
کی مقبولیت کا چاند کبھی گہنا نہیں سکتابل کہ اس کی تابانیوں میں مسلسل
اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
ماضی کاتمام منظر نامہ میری پُرنم آنکھوں کے سامنے تھاکہ اچانک میں نے چشمِ
تصور سے دیکھا کہ ایک ضعیف شخص نمودار ہوا جس کادراز قد، ضعفِ پیری کے باعث
کمر میں معمولی سا خم تھا اس کے باوجود اس کا چلنا عزت و توقیر کی صورتِ
مجسم تھا، کشادہ پیشانی پر اطمینان اور صبر و تحمل کے نقوش نمایاں تھے ،ناک
پر نظر کی سفید عینک رکھے، آنکھوں میں ذہانت ،تجربے اور مشاہدے کی چمک ،سفید
شلوار قمیص پر مشتمل نہایت اُجلے لباس میں ملبوس، سر کے سفید بالوں کو عمرِ
رواں کی تند و تیز ہوا اُڑا لے گئی اور اب سر پر بہت کم بال موجود تھے ،رنگ
سفید،جسم مضبوط اور متناسب نہایت وقار اور اعتماد سے چھوٹے چھوٹے قدم
اُٹھاتا آگے بڑھااور بڑے خلوص ،اپنائیت اور دردمندی سے مجھے دلاسا دیتے
ہوئے حسب معمول اپنے دبنگ لہجے میں مجید امجد کا یہ شعر پڑھا:
سلام اُن پہ تہہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تُو چاہے
بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ اس عالم ِ آب و گِل کے جُملہ مظاہر میں
جہاں حسنِ فطرت کی بھرپور جلوہ گری ہے وہاں زندگی کی رعنائیاں بھی روز
افزوں ہیں۔علم بشریات کے حوالے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسانی ہمدری ،خلوص
،دردمندی ،بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور اقدار عالیہ کے سوتے بھی حسن فطرت
کی ضیاپاشیوں ہی سے پُھوٹتے ہیں۔اس لحاظ سے زندگی کایہ اہم ترین پہلو سامنے
آتا ہے کہ حسنِ فطرت سدا بہار ہے اور یہ کبھی گہنا نہیں سکتا۔حسنِ فطرت کو
لطافت کے ایک ایسے گنج گراں مایہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس میں اہلِ ہوس کے
بچھائے ہوئے دام بھی کثافت پیدا نہیں کر سکتے۔یہ ضعیف شخص بھی اسی مزاج کا
حامل دکھائی دیتا تھا۔زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کا امین اور
ارفع اخلاقیات کا عملی نمونہ یہ بزرگ سر چشمۂ علم و عرفان، نادر ونایاب
شخصیت،نابغۂ روزگار معلم،استاد الاساتذہ اور اقلیم معرفت کا دانائے راز
ماسٹر احمد خان تھاجس کی پر کشش مقناطیسی شخصیت اور مسحور کُن طلسمی انداز
تخاطب کے معجز نما اثر سے لاکھوں تشنگانِ علم کی اُمنگیں ،آرزوئیں،عزائم،توقعات
اور ترجیحات کو صیقل کرنے میں مدد ملی اور سعیٔ پیہم کے جذبات کو مہمیز
کرکے روشن مستقبل کے عزائم کو سینوں میں بیدار کرنے کی راہ ہموار ہو گئی۔اس
عظیم انسان نے پیہم ایک سو برس تک نئی نسل میں تحصیلِ علم کی لگن پیدا کر
کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا جس کے معجز نما اثر سے فکر و خیال کی
دنیا میں ایک ہلچل پیدا ہو گئی اور نوجوان نسل نے ستاروں پر کمند ڈالنے کا
مصمم ارادہ کر لیا۔سال 1990میں علم و ادب کا یہ آفتاب عدم کی بے کراں
وادیوں میں غروب ہو گیا۔ دیدۂ بینا کے مُند جانے کے بعد لب خوابیدہ اور
ہاتھ کیاساکت ہوئے کہ ہر شخص احساس زیاں سے نڈھال ناقابل اندمال صدمات سے
دوچار ہو گیا۔روشن مستقبل کے خواب اور ان کی تعبیر بتانے والا کیا گیا کہ
طلوع صبح ِ بہاراں کے سب امکانات ہی خیال و خواب ہو گئے۔لالہ و گُل چنبیلی
اور موتیا کی عطر بیزی جو ہر ملاقاتی کے قریۂ جاں کو معطر کر دیتی تھی
دیکھتے ہی دیکھتے وسعت آفاق میں بکھر کر نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ۔علم و ادب
کا وہ دائرۃ المعارف جو دامانِ طلب کو دیکھ کر اسے علم کے موتیوں سے لبالب
بھرنے کی خدادا صلاحیتوں سے متمتع تھا ردائے خاک میں ہمیشہ کے لیے مستور ہو
گیا۔ اس عظیم انسان کی وفات کی خبر سن کر ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دِل
سوگوار تھا ۔صوت و بیاں کے تمام مراحل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بعد یہ
بے خوف صدا جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں میں دب گئی۔ہوائے دشتِ فنا کے
تُند و تیز اور مسموم بگولوں نے ایک ایسے مسافر نواز بُور لدے چھتنار کو جڑ
سے اکھاڑ پھینکا جو گزشتہ صدی کے پُر آشوب حالات میں وادیٔ علم و عرفان کے
رہ نوردان ِ شوق کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھ کر ان کے دِلوں کو
ایک ولولۂ تازہ عطا کر رہا تھا ۔ عملی زندگی میں شاہین کے مانند بُلند
پروازی کی باوجود انھوں نے سدا عجز و انکسار کو شیوہ بنایا۔وہ گردن فرازنِ
جہاں کو ہمیشہ یہی تلقین کرتے کہ عاجزی کردار کی عظمت کی دلیل ہے۔خوش
اخلاقی اور قناعت کو وہ ایسی سدا بہار فصلِ گُل سے تعبیر کرتے جو خزاں کی
مسموم فضا کے اندیشے سے نا آشنا ہے ۔ان کا خیال تھا کہ خیالِ خاطر احباب کو
ملحوظ رکھنے سے کردار کو ایسا نکھار ملتا ہے جس کے اعجاز سے کسی کو کھونا
قطعی ممکن نہیں اور اس کے وسیلے سے ہر کسی کا ہونا یقینی ہے ۔با ت سے بات
پیدا کرنے میں ماسٹر احمد خان اپنی مثال آپ تھے۔ان کا ایک پڑوسی شطرنج کا
بہت مشاق کھلاڑی تھا۔وہ اکثر شطرنج کے کھیل کے حوالے سے باتیں کرتا اور
زندگی کو بھی شطرنج کے ایک ایسے کھیل کی ایک صورت قرار دیتا تھاجس کی بساط
اجل کے ہاتھوں کسی بھی لمحے اُلٹ سکتی ہے ۔ایک دِن شطرنج کے اس کھلاڑی نے
آہ بھر کر کہا :
’’ شطرنج ایک ایسا کھیل ہے کہ جس میں وزیر کے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے کے
بعد یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اب باقی کچھ نہیں رہااور سارا کھیل ختم ہو چکا
ہے۔‘‘
یہ سُن کر ماسٹر احمد خان کی آنکھیں پُر نم ہو گئیں اور اُنھوں نے زندگی کے
کھیل کے بارے میں بر ملا کہا :
’’ انسانی زندگی بھی ایک ایسا ہی سنسنی خیز کھیل ہے جس میں ضمیر کی ہلاکت
زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیتی ہے او رسب کچھ تہس نہس ہو جاتا
ہے،شخصیت نیست و نابود ہو جاتی ہے اور قحط الرجال کے باعث ہر طرف خاک اُڑنے
لگتی ہے ۔‘‘
جھنگ سے سرگودھا جانے والی شاہراہ پر پچاس کلو میٹر کے فاصلے پرایک پُر
اسرار گاؤں ہے جو اکڑیاں والا کے نام سے مشہور ہے ۔اس گاؤں کے اطراف و
جوانب میں حدِ نگاہ تک کھیتوں میں صرف اکڑا ہی اکڑا اُگا ہوا ہے ۔ اکڑا ایک
ایسی خود رو جھاڑی ہے جس کے تنے اور پتوں سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے
اُٹھتے ہیں۔اس کی شاخوں سے ایک دُدھیا سا محلول خا رج ہوتا ہے جس کے بارے
میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دانت کے درد اور جووڑوں کے درد کے لیے اکسیر ہے ۔
سالہا سال سے اس دُورافتادہ علاقے کے کاشت کاراپنے کھیتوں میں زرعی اجناس
کاشت کرتے ہیں مگر ان کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح و شام کی محنت اکارت
چلی جاتی ہے اور ہمیشہ کی طرح یہاں اکڑا اور دھتورا ہی اُگتا ہے۔یہاں کے
دہقانوں کا کہنا ہے کہ وہ نسل در نسل یہی سنتے آئے ہیں کہ ایک ہزار سال قبل
ایک روحانی بزرگ کی بد دعا کے باعث ان کھیتوں میں کوئی فصل نہیں ہوتی ۔ اس
کے بارے میں آثار قدیمہ کے ماہر غلام علی خان چین نے بتایا :
تیرہ سو سال قبل یہ زرخیز زرعی زمین ایک ہندو ٹھاکردُر لبھ کی ملکیت تھی۔یہ
خاندان صدیوں سے اس علاقے میں رہتا تھا اوراپنے کھیتوں کی زرعی اجناس لاہور
،جالندھر،امرتسر اور دہلی تک روانہ کرتا تھا اور خوب زرو مال کماتا
تھا۔یہاں سرسوں،گندم،چاول،گنا ،جو ،جوار ،باجرہ ،مکئی،شکر قندی،مونگ پھلی
کی کاشت ہوتی تھی۔محمد بن قاسم کی آمد سے جب سال 712میں شورکوٹ کے علاقے تک
آفتاب اِسلام کی ضیا پاشیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو کچھ مسلمان تاجر یہاں بھی
آئے۔ مسلمان تاجروں کی ایک انجمن نے شورکوٹ میں یتیم بچوں ،معذور عورتوں
اور ضعیفوں کے قیام اور طعام کا انتظام کرنے کی خاطر ایک’’ امان گھر
‘‘تعمیر کیا جس کے تمام اخراجات مخیر لوگوں کے عطیات سے پُورے کیے جاتے
تھے۔رنگ ،نسل اور مذہب کے امتیازات سے بالا تر رہتے ہوئے اس گھر میں ہر
طبقے کے حاجت مند لوگوں کے قیام ،طعام ،لباس اور دوا علاج کا معقول بندو
بست کیا گیا ۔اتفاق سے دُر لبھ بھی کاروبار کے سلسلے میں شوکوٹ پہنچا تو
یہاں اس کی ملاقات ایک درویش خوشنود اﷲ سے ہوئی جس نے اس مغرور ٹھاکر سے
کہا:
’’تمھارے پاس وسیع زرعی رقبہ ہے اس کی آمدنی میں سے کچھ رقم معذوروں
،محتاجوں ،یتیموں ،بیواؤں اور ضعیفوں کی امداد پر بھی خرچ کرو۔کچھ درد آشنا
لوگوں نے مِل کر یہاں ایک’’امان گھر ‘‘بنایا ہے ،جس میں دکھی انسانیت کی بے
لوث خدمت کی جاتی ہے ۔‘‘
’’مجھ سے زیادہ دُکھی کون ہو گا ؟‘‘دُر لبھ کے منھ سے باؤلے کتے کی طرح
جھاگ بہہ رہاتھااس نے غراتے ہوئے کہا’’میری وسیع و عریض زرعی زمین میں ہر
طرف اکڑا اور دھتورا اُگتا ہے ،زرعی اجنا س کہیں نہیں اُگتیں۔‘‘
’’ کیا تم سچ کہہ رہے ہو ؟‘‘خوشنود اﷲ نے حیر ت سے کہا’’سوچ لو فطرت کی
تعزیریں بہت سخت ہوتی ہیں کہیں تمھارا جُھوٹ پچھتاوا نہ بن جائے۔‘‘
’’میں اپنے علاقے کا سب سے بڑا تاجر اور متمول ٹھاکر ہوں میں جُھوٹ کیوں
بولوں گا ؟‘‘دُر لبھ نے اپنا خنجر نکال لیااور لہراتے ہوئے گستاخانہ انداز
میں کہا’’ پُورے ہند اور سندھ کے تاجر میری بات تسلیم کرتے ہیں تم میری بات
کا اعتبار کیوں نہیں کرتے؟میری زمین میں صرف اور صرف اکڑا اور دھتورا اُگتا
ہے۔تم نے دُکھی انسانیت کے لیے جو ’’امان گھر ‘‘بنایا ہے اس کے لیے میں
کریر،اکڑا ،دھتورا ،لانی اور پوہلی بھیج سکتا ہوں ۔ایک بات کان کھول کر سُن
لو اگر تم نے مزید کوئی بات کی تو پھر تمھاری جان چلی جائے گی۔لکشمی دیوی
کی قسم میں بہت دُکھی ہوں ۔‘‘
خوشنود اﷲ نے آہ بھر کر کہا’’ جُھوٹی قسمیں مت کھاؤ چلوتمھاری بات پر
اعتبار کیا ۔‘‘یہ کہہ کر خوشنود اﷲ چُپکے سے وہاں سے چلا گیا ۔
وہاں موجود کئی بر ہمن ،ٹھاکر اور تاجر دُر لبھ کی بد تمیزی اور گستاخی پر
رنجیدہ تھے۔خوشنود اﷲ کے کشف و کرامات کی اس علاقے میں چرچے تھے ۔اس مردِ
خود آگاہ کی نگاہ سے مقدر کے ستارے بدل جاتے تھے۔وہاں موجود دُر لبھ کے بہی
خواہوں نے اسے سمجھایا کہ وہ اپنی غلطی پر خوشنود اﷲ سے معافی مانگے مگر اب
تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔وقت کی مثال بھی سیل رواں کی سی ہے ،کوئی شخص
اپنی تمام مساعی ،قوت ،ثروت اور ہیبت کے با وجود بیتے لمحات کی نشاط اور
پُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں
فیض یاب نہیں ہو سکتا۔
کاروباری معاملات نمٹانے کے بعد دُر لبھ گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کے
پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ کھیتوں میں ہر طرف اکڑا اور دھتورا ہی موجود
تھا ۔وہ دِن اور آج کا دِن یہاں کچھ اور نہیں ہوتا ۔یہ زمین اب ہندو اوقاف
کے پاس ہے اب بھی یہاں ہر طرف یہ خود رو جھاڑیا ں ہیں ۔ صدیاں بیت گئیں مگر
یہ معما کسی کی سمجھ میں نہیں آتاکہ اس بے آب و گیاہ خطے کی ویرانی کب
اختتام کو پہنچے گی۔ماسٹر احمد خان نے علاقے کے مکینوں کو یہ نصیحت کی کہ
اپنے خالق کے حضور سر بہ سجود ہو کر گڑ گڑ ا کر دعا مانگیں اور کثرت سے
صدقہ و خیرات دیں تا کہ بُرا وقت جلد ٹل جائے ۔ماسٹر احمد خان نے خود اس
ویران مقام پر جا کر اذان دی اور سر بہ سجود ہو کر خالق کا ئنات کے حضور اس
علاقے کے باشندوں کے لیے رحمت کی استدعا کی ۔ جلد ہی یہ حقیقت معلوم ہوئی
کہ مقامی باشندوں نے صدقہ اور خیرات کے ذریعے اس جگہ سے ہندو ٹھاکر کی
نحوست ،بے توفیقی اور کبر و نخوت کی بے برکتی کے مسموم اثرات زائل کرنے کی
کوشش کی ہے جوقادر مطلق کی بارگاہ میں قبول ہوئی اور اب اس مقام پر اجناس
خوردنی کی روئیدگی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔سیم زدہ علاقے میں شوریلی زمین
کو قبل کاشت بنانے والی گھاس اُگ رہی ہے اور گمان ہے کہ وہ دِ ن دُور نہیں
جب اس خطے میں پھر سے طلوع صبح بہاراں کے امکانات پیدا ہوں گے ۔دُر لبھ کی
کو ر مغزی اور بے بصری نے صدیوں تک اس علاقے کو لق و دق صحر ا میں بدل دیا
۔ علاقے کے اہلِ درد کا کہنا ہے کاش دُر لبھ نے جُھوٹ بول کر ایک درویش کا
دِل نہ دکھایا ہوتا ۔ماسٹر احمد خان کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ
اپنے خالق کی معرفت سے متمتع تھے اسی لیے ان کی ہر دعا قبول ہوتی تھی۔
ماسٹر احمد خان کا گاؤں اسی جگہ سے سات کلو میٹر مغرب کی جانب واقع ہے
۔دریائے جہلم اورچناب کے دوآبے میں واقع یہ گاؤں حسن فطرت سے مالا مال ہے
۔اس کے چاروں طرف وسیع نخلستان ہے جس میں کھجوروں کے جھنڈ ہیں۔گاؤں میں ایک
قدیم مکان ہے جو طوفان نوح ؑ کی باقیات خیال کیا جاتا ہے۔قیام پاکستان کے
بعد ماسٹر احمد خان کے خاندان نے اسی مکان میں مستقل ڈیرے ڈال دئیے۔اس
کھنڈر نمامکان کے سامنے ایک وسیع میدان ہے جس میں کئی گھنے سایہ دار درخت
اور بہت سے بُور لدے چھتنار ہیں ان کے سائے میں ستمبر 19 47کے وسط میں
’’احمد خان مرکز تدریس ‘‘کا آغاز ہوا۔گاؤں میں طلبا و طالبات کے سرکاری
وسطانی مدارس موجود تھے۔اس نئے تدریسی مرکز کے اوقات سرکاری وسطانی مدارس
کی چھٹی کے بعد شروع ہوتے تھے اور شام تک یہاں تدریس کا سلسلہ جاری رہتا
تھا ۔نرسری سے لے کر ایم ۔اے اور مقابلے کے امتحانات کی تیاری کے لیے طلبا
و طالبات سے ماہانہ ایک روپیہ فیس وصول کی جاتی تھی ۔غریب ،نادار ،یتیم اور
بے سہار ا بچوں سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی تھی۔جن طلبا و طالبات کے
مالی حالات بہت خراب ہوتے ان کی مالی اعانت بھی کی جاتی تھی۔ایک سال کے بعد
اس جگہ گارے کے ستونوں پرکھجور کے چھے شہتیروں کا ایک بڑا چھپر تعمیر کیا
گیا جس کی چھت سر کنڈوں ،کھجور کے پتوں اور جنتر سے تیار کر کے اس پر
بُھوسے والے گارے کی لپائی کر دی گئی ۔اس طرح ہوائے بے اماں میں غریب طلبا
و طالبات کے لیے سر چھپانے کے لیے ایک محفوظ جگہ میسر آگئی۔ ماسٹر احمد خان
کے فیضان نظر کے اعجاز سے یہ شاہین بچے اپنے مشاہیر سے بہت محبت کرتے
تھے۔طلبا وطالبات نے اپنے اس تدریسی مرکز کی دیواروں پر قومی تاریخ کے جن
مشاہیر کی تصاویر کے چارٹ آویزاں کیے ان میں قائد اعظم محمد علی جناح،
علامہ محمد اقبال،ٹیپو سلطان،سر سید احمد خان،سردارعبدالرب نشتر، مولوی فضل
الحق،مولانا الطاف حسین حالی،شبلی نعمانی،مرزا غالب اور ذوق شامل
ہیں۔تدریسی مرکز میں طلبا و طالبات کے بیٹھنے کے لیے کھجور کے پتوں سے تیار
کی گئی چٹائیاں موجودتھیں۔ یہ چٹائیاں مقامی دست کار خواتین کے فن کا عمدہ
نمونہ تھیں۔اکثر طلبا اپنے بیٹھنے کے لیے چٹائیاں اپنے گھروں سے لاتے اور
یہیں رکھ کر چلے جاتے اور اگلے روز اپنی چٹائی کی شناخت کر کے اس پر بستہ
کھول کر پڑھنے میں مصروف ہو جاتے ۔اس طرح نشست گاہ کا انتظام اپنی مدد ا ٓپ
کے تحت ہو گیا ۔مقامی کمہار سے کورے گھڑے حاصل کیے گئے اور ان میں تازہ
پانی نزدیکی کنویں سے بھر کر گھڑونچی پر رکھ دیا جاتا ساتھ ہی مٹی کے پیالے
بھی رکھ دئیے جاتے تا کہ بچے تازہ اور ٹھنڈا ا پانی پی کر اپنی پیاس بجھا
سکیں۔ماسٹر احمد خان کی کوششوں سے طلبا و طالبات کی حوائج ضروریہ اور طہارت
کے لیے درکار سہولتیں بھی اس تدریسی مرکزکے نزدیک دستیاب تھیں۔تدریسی مرکز
میں ماسٹر احمد خان کے بیٹھنے کے لیے ایک ہی شکستہ سی پُرانی چوبی کرسی
موجود تھی جس کی نشست کا بیدبرسوں پہلے ٹُوٹ چکا تھا اور اب اس کی جگہ لکڑی
کا ایک تختہ رکھ کر اس پر چند کیل ٹھو نک دئیے گئے تھے اس کرسی کی پشت
موجود نہ تھی ۔سرکاری مدارس میں چھٹی کی گھنٹی بجتی تو تمام طلبا وطالبات
اپنے بستے اُٹھائے بڑے جوش و خروش کے ساتھ جوق در جوق احمد خان تدریسی مرکز
کا رخ کرتے ۔یہاں پہنچ کرمختلف جماعتوں کے طلبا و طالبات اپنی اپنی جماعت
کے مطابق خاموشی سے قطار وں میں بیٹھ جاتے ۔ماسٹر احمد خان کے آتے ہی سب
طلبا و طالبات کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی اور وہ با ادب کھڑے ہو کر
اپنے بزرگ استاد کا استقبال کرتے ۔ماسٹر احمد خان نے مقامی مسجد کے معمر
خطیب حافظ قاری اﷲ دتہ کو درس قرآن کی ذمہ داری تفویض کر رکھی تھی ۔یہ ضعیف
معلم اﷲ کی رضا کی خاطر ان شاہین بچوں کو روزانہ درس قرآن دیتے ۔اس تدریسی
مرکز میں درس قرآن سے کام کا آغاز ہوتا تھا اور جب شام کو تدریسی مرکز بند
ہوتا تو ماسٹر احمد خان بلاناغہ یہ دعا کرتے:
پھلا پُھولا رہے یا رب چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خُون دے دے کر یہ بُوٹے میں نے پالے ہیں
بے سروسامانی کے باوجودماسٹر احمد خان نے مصمم ارادے اور یقین کے ساتھ ایک
نیک کام کی بنیاد رکھی تھی ۔اگلے روز سہ پہر جب تدریس کا آغاز ہوتا تو
ماسٹر احمد خان طلبا و طالبات میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے علامہ اقبال
کا یہ شعر پڑھتے:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اس تدریسی مرکز میں طالبات کے لیے الگ نشستوں کا انتظام کیا گیا تھا۔مختلف
کلاسز کی تیس کے قریب طالبات ماسٹر احمدخان کے گھرمیں بیٹھ جاتیں جہاں عزیز
احمد کی والدہ اور ماسٹر احمدخان کی بھابی ان طالبات کا ہوم ورک مکمل
کراتیں ۔اس کے بعد ماسٹر احمد خان خود یہاں پہنچ کر ان طالبات کو انگریزی
کا سبق پڑھاتے ۔عزیزاحمد کی والدہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سوشیالوجی
کے مضمون کے ساتھ گریجویشن کی۔ تاریخ ِاسلام اورعالمی کلاسیک میں وہ گہری
دلچسپی لیتی تھیں۔ وہ خودپردے کی پابند تھیں اور نوجوان طالبات کو پردے کا
پابند بنانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔جن غریب طالبات کے والدین اپنی
نوجوان بیٹیوں کے لیے برقع خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ،انھیں اس
تدریسی مرکز کی طرف سے بلاقیمت برقع فراہم کردیاجاتا تھا۔علاقے کی خواتین
میں پردے کی پابندی کے سلسلے میں ماسٹر احمد خان اور ان کی بھابی نے صرف
طالبات ہی کو اس کا پابند بنانے پر اکتفا نہ کیا بل کہ گھریلو خواتین اور
ناخواندہ دوشیزاؤں کو بھی حجاب کرنے پر مائل کیا۔آئینِ نو سے ہراساں ہونا
اور فرسودہ طرزِکہن پر اڑے رہنا معاشرتی زندگی کا بہت بڑا روگ سمجھا جاتا
ہے ۔ ابتدا میں تو کچھ خواتین اور ان کے اہلِ خانہ کی طر ف سے شدید مزاحمت
ہوئی مگر رفتہ رفتہ سب معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ اس مقصد کے لیے خواتین
میں پردے کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے کی خاطرایک باقاعدہ
مہم چلائی گئی اور نادار و ضرورت مند خواتین کو چادریں اور برقعے اورحجاب
مفت فراہم کیے گئے۔علاقے کے مخیر لوگو ں نے اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیا ۔اشرف بزاز اور شفیع بزاز نے برقعوں کی سلائی کے لیے دس تھان کپڑا عطیہ
دیا،برکت خیاط ،ماسی سکینہ اور اﷲ وسائی نے رات دِن ایک کر کے ایک ماہ کے
مختصر عرصے میں دو سو برقعے تیار کیے ۔ ان میں حجاب والی چادریں، ٹوپی والے
برقعے اور گاؤن والے بر قعے شامل تھے ۔ادھیڑ عمر کی خوتین بالعموم ٹوپی
والا برقع پسند کرتی تھیں جب کہ نو عمر دوشیزائیں حجاب والی چادر یا گاؤن
والا برقع زیب تن کرتی تھیں۔ اس مہم کے نہایت حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے
اور بہت سی خواتین نے اپنے ذاتی وسائل سے بھی برقعے تیا کرائے اور پردے کی
پابندی کو شعار بنایا اس طرح بے پردہ خواتین بہت کم دکھائی دیتی تھیں۔ اس
علاقے میں تعلیم نسواں کے فروغ کے لیے احمد خان تدریسی مرکز کی خدمات کو
ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس مرکز میں کام کرنے والی اس زیرک،با صلاحیت اور
معاملہ فہم خاتون نے نہ صرف طالبات کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بل کہ
انھیں آداب ِمعاشرت، خانہ داری اور دست کاری کی تربیت دے کر ان کی صلاحیتوں
کو نکھارا۔ مؤثر تدریس اور پر لطف ماحول کی بدولت اس تدریسی مرکز میں رفتہ
رفتہ طالبات کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور یہ تعداد ایک سو سے بڑھ
گئی۔اس کے بعدساتھ والے مکان کا دالان اور برآمدہ روزانہ دو گھنٹے کے لیے
مستعار لیاگیا۔طالبات کو باقاعدگی سے درس قرآن دیا جاتا اور عبادت کی تلقین
بھی کی جاتی تھی۔یہاں ہر لڑکی کی تربیت اس انداز سے کی جاتی تھی کہ وہ ایک
خاندان کو صحیح انداز میں پروان چڑھا سکے اور نئی نسل کے مستقبل کو سنوارا
جا سکے۔اس گنجینۂ گوہر سے فیض یاب ہونے والی طالبات نے عملی زندگی میں ملک
و قوم کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔
احمد خان تدریسی مرکز اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفر دتھا یہاں طلبا و
طالبات کو دستیاب وسائل کے مطابق ممکنہ حد تک تمام ضروری سہولیات میسرتھیں۔
ابتدائی طبی امدادکے لیے ا س کے ساتھ ہی حکیم عبدالواحد کاشفاخانہ تھا۔
حکیم عبدالواحد ایک کہنہ مشق طبیب اور ماہر نباض تھے جنھوں نے دہلی میں
حکیم اجمل خان سے اکتساب فیض کیا۔اب اس علاقے میں دُکھی انسانیت کی بے لوث
خدمت کو شعار بنا رکھا تھا۔ حکیم عبدالواحدنے ماسٹر احمد خان کی تحریک پر
’’الخدمت شفاخانہ ‘‘قائم کیا ۔ دکھی انسانیت کے علاج کے لیے اس شفاخانے کے
دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے ۔دُوردراز علاقوں سے مریض اس شفاخانے میں آتے
اورصحت یاب ہو کر ہنسی خوشی اپنے گھروں کو جاتے تھے۔ جب کسی طالب علم کی
طبیعت ناساز ہوتی تو اسے فی الفور حکیم عبدالواحدکے شفاخانہ میں
پہنچایاجاتا۔حکیم عبدالواحد نے مختلف مجربات اور جڑی بوٹیوں سے ایک شربت
تیار کیا تھا جسے ’’شربت شفا‘‘کے نام سے بہت شہرت ملی۔کئی بار ایسا بھی ہوا
کہ کچھ شریر طالب علم کام سے جان چھڑانے اورشربت شفا پینے کی غرض سے جُھوٹ
موٹ بیما ربن جاتے اورکراہتے ہوئے ’’الخدمت شفاخانہ ‘‘میں چلے جاتے۔ ایسے
طالب علموں کی نبض کو محسوس کرکے حکیم عبدالواحدمعاملے کی تہہ تک پہنچ جاتے
مگر دِل بُرا نہ کرتے اور طالب علم کو جی بھر کر شربت شفا پلاتے ،اسے پیار
کرتے اور خمیرہ گاؤزبان کھلا کر سچ بولنے،دِل لگا کر کام کرنے کی نصیحت کر
کے دعا کے ساتھ الوداع کہتے۔ حکیم عبدالواحدکا معمول تھا کہ وہ باوضو ہو کر
مریض کی نبض دیکھتے ،اس کے بعد جائے نماز پر قبلہ رخ ہو کردو رکعت نماز نفل
ادا کرتے اور نہایت عجز و انکسار اور خشوع و خضوع سے مریض کی صحت یابی کے
لیے اپنے خالق کے حضور التجاکرتے ۔اس کے بعدمٹی کے ایک پیالے میں شربت شفا
اورعرق گلاب ملاتے اور مریض کو پِلا دیتے۔اﷲ کریم کی رحمت جوش میں آتی
اورمریض صحت یاب ہو نے کے بعدمسکراتا ہوا اور حکیم عبدالواحد کو دعا دیتا
ہوا اپنے گھر کو روانہ ہو جاتا۔ حکیم عبدالواحد نے زندگی بھر کسی مریض سے
علاج کا کوئی معاوضہ قبول نہ کیا ۔حکیم عبدالواحد اور ماسٹر احمد خان کے
قریبی تعلقات تھے ۔لوگ یہ بات بر ملا کہتے تھے کہ مریضوں کی شفایابی’’ شربت
شفا‘‘ کے بجائے حکیم عبدالواحد کی دعا کی مرہون منت ہے ۔ایسے یادگارِ زمانہ
لوگ اہلِ درد کو خلوص ،انسانی ہمدردی اور ایثار کے انداز سِکھا دیتے ہیں
اور اس دنیا کے آئینہ خانے میں ہوس کے مارے لوگوں کوآئینہ دکھا کر تماشا
بنا دیتے ہیں اور یہ سب حریص اپنا سا منھ لے کر رہ جاتے ہیں۔
تدریس میں ماسٹر احمد خان نے ہمیشہ جدید انداز فکر اپنایا اور زیادہ تر
ڈائریکٹ میتھڈ کو پیش نظر رکھا۔وہ اصول تعلیم،تعلیمی نفسیات اور طلبا و
طالبات کی مقیاس ذہانت کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے اور اپنی تدریس کو اس قدر
دلچسپ اور مؤثر بنا دیتے کہ ان کے دِل سے نکلنے والی ہر علمی بات سامعین کے
دِل میں اُتر جاتی۔ وہ تختہ ٔ تحریر پر حل طلب نکات چاک سے لکھتے اور طلبا
ان نکات کو اپنی کاپیوں پر درج کر لیتے ۔طلبا و طالبات کی انفرادی نصابی
مشکلات پر وہ خصوصی توجہ دیتے تھے۔ہر کلاس کے طلبا و طالبات کو ہوم ورک میں
رہنمائی فراہم کرنے کے بعد انھیں آموختہ ازبر کرانے پر توجہ دیتے ۔ قیام
پاکستان کے وقت سرکاری مدارس میں وسطانی سطح پر ایک طالب علم سے تین روپے
ماہانہ فیس وصول کی جاتی تھی ۔اس علاقے کے بہت سے غریب محنت کش لوگ یہ رقم
ادا کرنے سے قاصر تھے ۔ماسٹر احمد خان اکثر غریب اور مستحق طلبا و طالبات
کی فیس سرکاری مدرسہ کے صدر معلم ملک رجب الدین مسافر کو بر وقت ادا کرنے
کی ایسی سبیل پیدا کرتے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔کئی طلبا و طالبات
ایسے بھی ہوتے تھے جن کے والدین غربت و افلاس کے باعث اپنے بچوں کے لیے
وردی ،نصابی کتب اور سٹیشنری فراہم نہیں کر سکتے تھے۔ایسے طالب علموں کی
ضروریات کو پُورا کرنے کی ذمہ داری بھی ماسٹر احمد خان نے سنبھال رکھی
تھی۔گاؤں میں احمد خان تدریسی مرکز سے چند قدم کے فاصلے پر محرم ملک نے
کتابوں کی دُکا ن سجا رکھی تھی۔اس دکان میں ہر قسم کی نصابی کتب اور کاپیاں
دستیاب تھیں ۔ماسٹر احمدخان کا معمول تھا کہ ہر طالب علم کی ضروریات کا
خیال رکھتے اور ان کے بستے میں جس چیز کی کمی دیکھتے فوری طور پر وہ چیز
محرم ملک کو نقد ادائیگی کر کے ضرورت مند طالب علم کو فراہم کر دیتے ۔ اس
خلوص اور دردمندی کو دیکھ کر ممنونیت کے جذبات سے غریب طالب علم کی آنکھیں
بھیگ بھیگ جاتیں اور وہ اپنے محسن استادکے حسن سلوک کا گرویدہ ہو
جاتا۔ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے نئی نسل کی تعلیم و تربیت
میں اس قدر انہماک اور ایثار کا مظاہرہ کرنے والے لوگ اب کہاں ملیں گے۔اپنے
شاگردوں کے دلوں کو مسخر کرنے کی غرض سے ماسٹر احمد خان اپنی صحت ،وقت،ثروت
اور آرام و سکون اورسب کچھ داؤ پر لگا دیتے تھے۔
تعلیم و تدریس ہی ماسٹر احمد خان کی زندگی کا نصب العین رہا ۔ ماسٹر احمد
خان کا ذاتی کتب خانہ دراصل ایک عجائب گھر تھا جس میں بیس ہزار کے قریب
نادر و نایاب کتب موجود تھیں۔ان میں تفسیر،حدیث ،سیرت النبیﷺ، تاریخ
،طب،سائنسی علوم،عالمی کلاسیک،ادیانِ عالم،فلسفہ،نفسیات، جغرافیہ،معاشیات
،سماجی علوم،علم نجوم،علم بشریات،سوانح نگاری،خود نوشت،سفر نامے ، لغت،
دائرۃ المعارف ، نقشے ،اٹلس ،گلوب،تنقید و تحقیق کے موضوع پر اہم کتب شامل
تھیں۔ان کے پاس مشاہیر کے کئی مکاتیب اور مخطوطات بھی محفوظ تھے۔ ملک بھر
کے محققین اپنے تحقیقی کام کی تکمیل کی غرض سے کشاں کشاں اُ ن کے ہاں آتے
اور اس سر چشمۂ فیض سے سیراب ہوتے ۔ دُور دراز علاقوں سے آنے والے طلبا و
طالبات کے قیام و طعام کی ذمہ داری ماسٹر احمد خان نے از خود سنبھال رکھی
تھی۔بے تکلفانہ ماحول ،سادہ غذا اور درویشانہ زندگی ان کی رہائش کا نمایاں
وصف تھا۔کھجوروں کے جھنڈ میں واقع ماسٹر احمد خان کی رہائش گاہ دیہی قدرتی
ماحول کا عمدہ نمونہ تھی ۔یہاں حسنِ فطرت کی رعنائیاں عروج پر تھیں ۔
مہمانوں کی تواضع کے لیے تاندلے سے بھرے ہوئے تنوری پراٹھوں پر مکھن لگایا
جاتااور ساتھ مختلف خود رو سبزیوں کی ڈش تیار کی جاتی جن میں الونک ،اکروڑی
،باتھو،میتھی،پیلکاں،سنجاونا،ڈیہلے،لسوڑیاں ،مقامی طور پر تیار کیا گیا
اچار(جس میں آم ،لیموں ، پسی ہوئی سُرخ مرچ،گاجر ،ہری مرچ،ڈیہلے اورلسوڑے
شامل ہوتے تھے) اور سرسوں کا ساگ شامل تھا۔ مہمانوں کے پینے کے لیے لسی کی
چاٹی ہر وقت بھری رہتی ۔ ماسٹر احمد خان کے کھانے میں خشک سبزیاں جن میں
کریلے ،شلجم،میتھی،ساگ اور پودینہ شامل تھے کا کثرت سے استعمال کیا جاتا
تھا ۔ ماسٹر احمد خان کے رہائشی علاقے میں پِیلوں ،بیری،کھجوروں،شہتوت اور
کریروں کی فراوانی ہے جن کے پھل بلا قیمت دستیاب ہیں،شہروں سے آنے والے
مہمان ان خوش ذائقہ پھلوں کو کھا کر بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ نہانے کے لیے
دریائے جہلم کے کنارے ایک محفوظ مقام پر پنگھٹ تھا جہاں اطمینان سے نہا دھو
کر اور تازہ دم ہو کر دِن کا آغاز کیا جاتا تھا ۔منھ اندھیرے گھروں سے نکل
کر اس مقام پر پہنچنے والے کُنڈیاں لگا کر بیٹھ جاتے اور مچھلیاں پکڑ کر
ساتھ لاتے اور مچھلی کو بُھون کر چٹخارے دار کباب بناتے تھے۔ ایام ِ گزشتہ
کے تلخ و شیریں واقعات ،آئینۂ ایام میں اپنی اور قریبی احباب کی
ادائیں،ماضی کی متعدد یادیں اور مصنوعات اس عجائب گھر میں موجود تھیں
۔گھریلو دست کاریوں سے ماسٹر احمد خان کو بہت دلچسپی تھی ۔اپنے گھر کے ایک
کمرے میں انھوں نے قدیم ا ہل حرفہ کے بنائے ہوئے وہ شاہ کار جمع کر رکھے
تھے جن کے بنانے والے اب موجود نہیں اور ان کی دست کاری کے نمونے بھی اب
نایا ب ہیں ۔ماسٹر احمد خان کی ذاتی دلچسپیوں سے مزین اس عجائب گھر میں
چرخہ ،بیلنا،اٹیرن،تکلا،نلیاں،تَندی،گھڑونچی،شیشوں والی پنکھی،کھیس
،لُنگی،دُھسہ،کُھسہ، لُنگی، صراحی ،گھڑا، کُوزہ ،کُنالی،توری کی سُبی،
مشکیزہ ،جھانواں،کھجور کے پتوں سے تیار کی گئی چٹائیاں اور جائے نماز شامل
تھے۔ان کے محبوب اہلِ حرفہ جو ماضی کا حصہ بن چکے ہیں ان میں دُھنیا
،کنجڑا،گھسیارا،چرواہا ،رتھ بان ،گھڑ سوار،فیل بان،ماشکی ،مہاوت ، سقہ
،بازی گر،ڈگڈگی بجا کربندر نچانے والا ،پتلی کا تماشا دکھانے
والا،پہلوان،تن ساز،صراف،خیاط،کشیدہ کاری کرنے والا ،لکڑ
ہارا،موہانہ،کہار،پنہاریاں،نہارا،ریچھ کا تماشہ دکھانے والا،سرکس کا مسخرہ
، سپیرا،کُوزہ گر،بازی گر،فسد کرنے والا،جونکیں لگانے والی ،دوشیزاؤں کی
ناک اور کان چھیدنے والی عورتیں، حاذق (سُرمہ،مِسی،کاجل ،منجن ،چُورن
،عرقیات اور عطریات بنانے والے )نباض ،پنچایتی،گوالا،تھیٹر کا رقاص اورچڑی
مار کی تصاویر موجود تھیں جن میں وہ اپنے کام میں انہماک سے مصروف دکھائی
دیتے تھے ۔ وہ فن مصوری میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اورماضی کے اہم واقعات
کی یاد گار تصاویر جمع کرنا ان کا مشغلہ تھا۔ان کے ذاتی البم میں تاریخ کے
مختلف ادوار کے ڈاک کے کئی ناد ر و نایاب ٹکٹ،سکے او ر تصاویر موجود
تھیں۔بر صغیر کے حکمرانوں کی تصاویر کے علاوہ ان کے پاس تحریک پاکستان کے
ممتاز رہنماؤں کی تصاویر موجود تھیں۔ان مشہور شخصیات میں علامہ محمد اقبال،
قائد اعظم محمد علی جناح ، محترمہ فاطمہ جناح ،حسرت موہانی،مولانا ظفر علی
خان،عبدالرب نشتر،ٹیپو سلطان،سر سید احمد خان،مولوی نذیر احمد،شبلی
نعمانی،محسن الملک ،وقار الملک،سراج الدولہ،مرزا اسداﷲ خان غالب، گاما
پہلوان،بھولوپہلوان،شیکسپئیر،ملٹن،کیٹس، ورڈ س ورتھ ، او ہنری
،موپساں،کالرج،شیلے،فرید الدین عطار،شیخ سعدی،مولانا روم اور نشان حید ر
حاصل کرنے والے شہدائے وطن کی تصاویر شامل تھیں۔
ماسٹر احمد خان کے آبا و اجداد کا تعلق راجپوتانہ کے ایک ممتاز راجپوت
خاندان سے تھا۔ان کے بزرگ بیکانیر کے مضافات میں کھیتی باڑی کرتے تھے۔محمد
بن قاسم کی سندھ آمد کے بعداس خاندان نے 712عیسوی میں اسلام قبول کیااور
پُورے علاقے میں تبلیغ ِ اسلام کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔بیکانیر
اورجیسلمیر میں مساجد کی تعمیر میں اس معزز راجپوت خاندان نے جس ولولے اور
لگن کا مظاہرہ کیاوہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ ان
کے خاندان نے قطب الدین ایبک کے ساتھ بھر پور تعاون کیا اور اس کی فوج میں
شامل ہو کر بر عظیم میں اسلامی حکومت کے قیام میں اہم کر دار ادا کیا ۔سال
1194میں جب قطب الدین ایبک نے کول(علی گڑھ ) پر دھاوا بولا تو بیکانیر سے
تعلق رکھنے والے شمشیر زن ،نیزہ باز،تیرانداز اور شہ سوار مسلمان راجپوت
سپاہیوں کا ایک ہراول دستہ بھی اس کی فوج میں شامل تھا۔ ماسٹر احمد خان کے
خاندان کے متعدد سرفروش بھی قطب الدین ایبک کے اس لشکر کے ہراول دستے میں
میں شامل تھے ۔ نہتے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا کول کے شغال ہندوؤ ں
کا شغل تھا۔قطب الدین ایبک کی فوج جب کول کے نواح میں خیمہ زن ہوئی تو ہندو
سورماؤں نے نصف شب کے بعد مسلم فوج کے ہراول دستے پر شب خون مارا۔ اس
خونریز لڑائی میں ماسٹر احمد خان کے خاندان کے دس مردانِ حق پرست نے دست بہ
دست لڑائی میں جام شہادت نوش کیا۔دفاعی لڑائی میں قطب الدین ایبک کی فوج
میں شامل بیکانیر کے شیر دِل مسلمان راجپوتوں پر مشتمل اس ہراول دستے نے
اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور بُزدل ہندوؤں کے کُشتو ں کے پُشتے لگا دئیے
۔چوروں کے مانندچھپ کر وارداتیں کرنے کے عادی کول کے ہندو سورما بھاری جانی
اور مالی نقصان اُٹھا کر میدانِ جنگ سے سر پر پاؤں رکھ کراس طرح بھاگے کہ
تعاقب کرنے والے اسپان ترکی و تازی پر سوار شہ سوار وں سے بھی بہت آگے نکل
گئے اور گھنے جنگل کی خار دار جھاڑیوں میں رُو پوش گئے اور میدان مسلمانوں
کے ہاتھ رہا ۔اس عظیم الشان فتح کے بعد قطب الدین ایبک نے کول میں پہلے
مسلمان گورنر حسام الدین البک کا تقرر کیا گیا۔حسام الدین البک نے
ماسٹراحمد خان کے خاندان کے ممتازافراد کو ان کی شجاعت،جانثاری اور وفاداری
کی بنا پر اہم عہدوں پر فائز کیا۔ماسٹر احمد خان کے دادانے مقامی ماحول کی
تبدیلی کی خاطر اتر پردیش میں راجپوتوں کے آباد کیے ہوئے قدیم اور تاریخی
شہر علی گڑھ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں ان کے خاندان کے افراد بڑی تعداد
میں پہلے سے آباد تھے۔ماسٹر احمد خان نے سال 1870میں علی گڑھ میں جنم
لیا۔ماسٹر احمد خان کو اس بات پر ناز تھا کہ اس کے خاندان نے بر عظیم میں
خاندان غلاماں کی حکو مت میں اہم خدما ت انجام دیں ۔ان کی خاندانی
یادداشتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے آباو اجداد نے اپنی آنکھوں سے
اینٹوں سے تعمیر ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے مینار قطب مینار اور مسجد قوت
الاسلام کی تعمیر کو دیکھا ۔
علی گڑھ میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ماسٹر احمدخان نے یونیورسٹی آف
مدراس سے انگریزی ادبیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ علم دوستی اور ادب
پروری ماسٹر احمد خان کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد
ماسٹر احمد خان نے اپنی زندگی درس و تدریس کے لیے وقف کر دی۔اگرچہ انگریزی
ان کی اکتسابی زبان تھی مگر انگریزی زبان پر ان کی خلاقانہ دسترس کو اہلِ
زبان انگریز بھی تسلیم کرتے تھے۔ماسٹر احمد خان نے جن ممتاز تعلیم اداروں
میں تدریسی خدمات انجام دیں ،ان میں مدراس یو نیورسٹی، سیرم پور کالج،ممبئی
یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی،الہ آباد یونیورسٹی،انڈین انسٹی ٹیوٹ آف
ٹیکنالوجی روڑکی، جامعہ ملیہ اورعلی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے نام قابل ذکر
ہیں۔ماسٹر احمد خان نے ان اداروں میں جز وقتی حیثیت سے وزٹنگ استاد کے طور
پر کام کیا اور مستقل طور پر کہیں بھی ملازمت نہ کی۔ تشنگانِ علم کے لیے ان
کے گھر کے دروازے ہمہ وقت کُھلے رہتے۔وہ ہر ملاقاتی کے ساتھ محبت ،شفقت
،خلوص اور دردمندی سے لبریز سلوک کرتے اور اس کا دِل موہ لیتے۔ماسٹر احمد
خان سے ملنے کے بعد زندگی سے والہانہ محبت کے جذبات کو نمو ملتی اور بے
اختیارذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا :
بہت جی خوش ہوا ہے ان سے مِل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
قیام پاکستان کے بعد ماسٹر احمد خان کا خاندان علی گڑھ سے لاہور کے لیے
روانہ ہوا۔آزادی کے حسین خواب کی تعبیر بہت عجیب تھی،یہ حالات کی ستم ظریفی
نہیں تو اور کیا ہے کہ منزلوں پر ان ابن الوقت عناصر نے غاصبانہ طور پر
قبضہ کر لیا جو شریکِ سفر ہی نہ تھے۔ لُٹے پُٹے ،نہتے مہاجرین کا قافلہ ارض
ِ پاکستان کی جانب رواں دواں تھاراستے میں مشتعل مسلح ہندو بلوائیوں نے ان
کے قافلے پر دھاوا بول دیا اور سب زادِ راہ بھی لُوٹ لیا ۔ سب سے بڑھ کر
المیہ یہ ہوا کہ تمام اہم دستاویزات جن میں زمین،مکانات اور جائداد کی
ملکیت کے دستاویزی ثبو ت شامل تھے وہ بھی چھین لیے گئے اور انھیں نذر ِ آتش
کر دیا گیا ۔ قافلے کے سات افراد کو بے جرم و خطا ابدی نیند سلا دیا گیا ان
میں ماسٹر احمد خان کے خاندان کے دو افرادبھی شامل تھے ۔ماسٹر احمد خان نے
شہیدوں کے اس لہو کو آزادی کے افسانے کی سرخی سے تعبیر کرتے ہوئے ارض
پاکستان کی طرف سفر جاری ر کھا ۔یہ قافلہ جب واہگہ کی سرحد عبور کر کے ارض
پاکستان میں داخل ہوا تو ماسٹر احمد خان نے سجدۂ شکر ادا کیا۔بے سروسامانی
کے عالم میں آنے والے قافلے کا کوئی کلیم بھی داخل نہ ہو سکا ۔پنا ہ گزینوں
کے کیمپ میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ماسٹر احمد خان نے ضلع جھنگ کے ایک ایک
دُو ر دراز گاؤں میں ڈیرے ڈال دئیے اور گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر کے
باقی زندگی وہیں درس وتدریس میں گزار دی۔اس قدر با صلاحیت شخص کا گوشہ نشین
ہو جانا اور پیمانۂ عمر بھر کر چپکے سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت
سفر باندھ لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا ہو
چکا ہے ۔جس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگے اس کی بے حسی
کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں ۔یہ وقت کا ایسا سانحہ ہے جسے کوئی نام
دینا ممکن ہی نہیں ۔ماسٹر احمد خان نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز
رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی۔انھوں نے ہزاروں طلبا و طالبات کو نرسری سے
لے کر ایم۔اے ،ایم ۔فل اور مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرائی اور ان سب سے
یکساں فیس وصول کی جو محض ایک روپیہ ماہانہ تھی۔دو سو کے قریب طلبا و
طالبات سے فیس کی صورت میں ملنے والی محض ایک سو روپے کی رقم بھی
دردمندوں،ضعیفوں،یتیموں،ناداروں،بیماروں،بیواؤں اور مساکین کی امداد پرخرچ
کی۔ایثار ،انسانی ہمدردی اور علم دوستی کی ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں جب
کوئی شخص اپنی زندگی شمع کے مانند گزارے اور خود جلے مگر دوسروں کے گھروں
میں اُجالا کر دے۔مادی دور کی لعنتوں نے معاشرتی زندگی کو اخوت ،بے لوث
محبت اور بے باک صداقت سے محروم کر دیا ہے ۔زرو مال کی اندھی ہوس نے نوع ِ
انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے مگر ماسٹر احمد خان نے دولت کمانے کے
بجائے ہمیشہ دولت کو ٹھکرانے کی روش اپنائی۔تھل کے ایک نو دولتیے کے پاس
کالے دھن کی فراوانی تھی۔منشیات کے عادی اس مغرور اور عیاش سرمایہ دار نے
ماسٹر احمد خا ن سے رابطہ کیا کہ اگر وہ ان کے ڈیرے پر آکر ان کے دو بچوں
کو پڑھائے تو وہ ایک ہزار روپے نقد فیس ادا کرنے پر تیا ر ہے ۔اس فرعون کو
یہ زعم تھا کہ اس قدر بڑی رقم کے لالچ میں ماسٹر احمد خان اس کے ڈیرے پر
چلا آئے گا اور اس طرح احمد خان تدریسی مرکز کا نظام ٹھپ ہو کر رہ جائے
گا۔ماسٹر احمد خان نے اس پیش کش کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ غریبوں کے
بچوں کی تدریس کو ان کی اولین ترجیح ہے۔محنت کشوں کے بچوں کا ایک روپیہ بھی
میرے لیے متاعِ بے بہا ہے ۔اگر میں حرص و ہوس کا شکار ہو کر کہیں اور چلا
جاؤں تو غریبوں کے بچوں کی رہنمائی کون کرے گا۔ جس طرح ہر باغبان اپنے
گلستان کی بڑی احتیاط سے دیکھ بھال کرتا ہے اسی طرح ماسٹر احمد خان بھی نو
نہالانِ وطن کی تعلیم و تربیت میں خونِ جگر کی آمیزش کرتے اور اُمیدوں کے
اس چمن کے ثمر بار ہونے اور ان کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی زندگی وقف کر
دی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے :
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
واقفِ حال لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماسٹر احمد خان اور ان کے اہلِ
خانہ نے نیکی کر دریا میں ڈال کا اصول ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔احمد خان تدریسی
مرکز سے لاکھوں طالب علموں نے اکتساب فیض کیاان میں سے ہزاروں طالب علم
عملی زندگی میں سرکاری اور نجی شعبوں میں اہم اور کلیدی مناصب پر فائز رہے
مگر ماسٹراحمدخان نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے کبھی انھیں آزمائش میں نہ
ڈالا۔وہ سفارش کے سخت خلاف تھے اور چاہتے تھے کہ جوہرِ قابل کو اپنی
صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہیے۔جس طرح فطرت ہمہ وقت لالے کی حنابندی میں
مصروف ہے اسی طرح خانۂ فرہاد کی روشنی بھی شررِتیشہ کی مرہونِ مِنت ہے۔
ماسٹراحمدخان کے با روزگار شاگرد اکثر ان سے ملنے اوران کی خیریت دریافت
کرنے کے لیے ان کے پاس چلے آتے۔کئی بار ایسا ہوا کہ کچھ سعادت مند شاگرد ان
کے لیے تحفے تحائف اور انعام و اکرام پیش کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے ۔یہ
ناگوار صورتِ حال دیکھ کر ماسٹر احمد خان کے چہرے کا رنگ بدل جاتااور وہ
اپنے وفادار شاگردوں سے معذرت کر لیتے اورکسی صورت میں کوئی تحفہ یا رقم
قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتے ۔وہ اس بات پر اصرار کرتے کہ نئی نسل کی تربیت
کر کے انھوں نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور فرض کی ادائیگی کا انعام اﷲ کریم
کی بارگاہ سے ملتا ہے۔ساتھ ہی ان شاگردوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ
قسمت سے محروم فاقہ کش انسانوں کی خدمت کو شعار بناؤ۔ ہوائے جور و ستم میں
رُخ وفا کو بُجھنے نہ دو تا کہ ظُلم کا پھریرا سر نگوں ہو اور حق و صداقت
کا بول بالاہو۔ترغیب و تحریص اور فسطائی جبر کے باوجود تمھاری زبان تمھارے
ضمیر کی ترجمان رہے تو تم کردار کی رفعتوں کو چُھو سکتے ہو۔علم انسان کو بے
لوث محبت ،بے باک صداقت اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ دکھاتا ہے۔اگر تم نے
کسی مجبور اور بے بس انسان کے زخموں پر مر ہم رکھ دیا تو میں یہ سمجھوں گا
کہ میری محنت ٹھکانے لگ گئی۔
ماسٹر احمد خان کی کشف و کرامات کا ایک عالم معترف تھا۔ ایسے طالب علم جن
کا مقیاس ذہا نت قدرے کم ہوتااور ان کاعام ہم جماعتوں کے ساتھ چلنا دشوار
ہوتا ماسٹر احمد خان کی دعا سے وہ ذہنی پسماندہ طالب علم نہ صرف اپنے ہم
جماعتوں کا مقابلہ کرتے بلکہ کئی بار ان سے واضح برتری اور سبقت لے جاتے۔
بچوں کو بعض اوقات کئی نفسیاتی مسائل یا احساس کمتری کے باعث رُک رُک کر
بولنے یعنی لکنت کا عارضہ لاحق ہوجاتا تھا۔ ماسٹر احمد خان آیات قرآنی کی
تلاوت کر کے آب شیریں کے ایک پیالے پر دم کرتے۔اس کے بعد یہ پانی لُکنت کے
شکارطالب علم کو پلاتے تو وہ طالب علم روانی سے بولنے لگتا۔اس کی گفتار میں
اس قدر روانی آجاتی کہ سننے والے حیرانی سے سب کچھ دیکھتے رہ جاتے۔ ایسے
کئی طالب علم کل پاکستان تقریری مقابلوں میں شریک ہوئے اور اول انعام حاصل
کیا۔ ماسٹر احمد خان کے مشفقانہ اندازِ تدریس کے اعجاز سے ذرے کو آفتاب
بننے کے فراواں مواقع میسر تھے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ اگر صدقِ دل ،خلوصِ
نیت اور محنتِ شاقہ سے سنگ خارا کی بھی تراش خراش کی جائے تو اس کی
تابانیاں ہیرے ،جواہرات اور لعل ویاقوت سے بھی بڑھ جاتی ہیں ۔ ماسٹر احمد
خان ایسے ہی پارکھ اور جوہری تھے جنھوں نے بے شمار گدڑی کے لعل تلاش کیے جن
کی علمی کامرانیوں اور افکار کی ضیا پاشیوں سے ارضِ وطن کا گوشہ گوشہ منور
ہو گیا۔
ماسٹر احمد خان کے بھتیجے رانا عزیز احمد خان نے بتایا کہ اہلِ حرفہ کے
ساتھ ماسٹر احمد خان نے خلوص اور دردمندی کی اساس پر ایک قلبی تعلق استوار
کررکھا تھا۔مراعات یافتہ استحصا لی طبقے ،کالا دھن کمانے والوں اور نو
دولتیے فراعنہ سے وہ ناخوش و بیزار تھے ۔وہ خود بھی ایک غریب خاندان سے
تعلق رکھتے تھے اور فقر و استغنا اور جذب و مستی کے عالم میں زندگی بسر
کرتے تھے ۔وہ فقرا،مساکین اور غربا کے ساتھ اس درد کے رشتے کو دل و جاں سے
عزیز رکھتے تھے اور ان محنت کشوں کے حالات بدلنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے
تھے۔ موسمِ گرما کی چلچلاتی دھوپ اور سرما کی خون منجمد کر دینے والے موسم
میں رزق حلال کمانے والے یہ جفاکش لوگ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے پر قادر تھے۔
ماسٹر احمد خان انھیں سمجھاتے کہ وہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی اولاد کو پڑھائیں
کیوں کہ زمانے کے انداز بدل رہے ہیں اس کے ساتھ ہی فکر و خیال کے زاویے بھی
منقلب ہو چُکے ہیں، ساری دنیا میں فکر و نظر کا انقلاب آ چکا ہے اب الم
نصیبوں او رغم زدوں کا حال بھی بدلنے والا ہے ۔سنگلاخ چٹانوں اور سنگِ خارا
کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے لیکن اس کے لیے کڑی شرط یہ ہے کہ ان کی تراش خراش
میں خون پسینہ ایک کر دیا جائے اور جگر کے خون سے انھیں صیقل کیا جائے۔
انھیں یقین تھا کہ اﷲ کریم کی رحمت اور والدین واساتذہ کے فیضانِ نظر سے
نئی نسل ستاروں پر کمند ڈال سکتی ہے۔ماسٹر احمد خان نے جن محنت کشوں،صناعوں
اور دست کاروں کے کام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ان میں زیادہ تر فاقہ
کش مزدور شامل تھے۔ ان میں غلام احمد (بکھو)،دلاور خان ،محمد اسلم ،مُرلی
جھکھیار،پھتو چھیڑو،پرویز اقبال،شیر محمد ، نُورا ماچھی ،دِتو بڑھئی ،نتھو
لوہار،عطامحمد ،قاسم خان،رجب الدین، محمد موسیٰ ،گھامی جوگی،شاہو شعبدہ
باز،سلطان حامد،عبدالواحد،محرم پنساری، نتھاپاولی ، تُلا ماندری،سوہارا
کھوجی،مُتلی چم رنگ، گھماں پاولی، کر موں موچی،یارو حجام ،مانُو سنارا،خانو
بنجارا،بخشو چُوڑی گر ،فیکا کمان گر ،راجا پاولی، نور محمد کریانہ فروش،علی
محمد پنساری، عاشقو بھانڈ،نعمت گلوکار،مُرلی قصاب،فجا رنگ ریز،ممی
دُھنیا،فضلو تیلی ،گاموں بھٹیارا ، گھارو خاکروب ، کالو موہانہ ،پھتلا
کنجڑا،خیرو غسال اور شیدا گور کن شامل تھے۔یہ سب لوگ مختلف اوقات میں ماسٹر
احمد خان سے ملتے رہے اور اس پر اسرار شخص کی زندگی کے نشیب و فراز کو قریب
سے دیکھا۔ماسٹر احمد خان کی تربیت سے نسل در نسل ستم کش سفر رہنے والے ان
سب مزدوروں کی اولاد کی قسمت بدل گئی اور ان محنت کشوں کے بچے تعلیمی مدارج
کی تکمیل کے بعد مختلف سرکاری اور نجی شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے
۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب اہل حرفہ اپنا قدیم آبائی پیشہ چھوڑ کر بڑے
شہروں میں منتقل ہو گئے اور وہاں کی پر ہجوم فضا میں ایسے گُھل مِل گئے کہ
اب انھیں گاؤں کے پتھر کے زمانے کا ماحول یاد بھی نہیں ۔
آزادی سے پہلے پنجاب کے دُور اُفتادہ اور پس ماندہ دیہی علاقوں میں ہندو
مہاجن ، ساہوکار اور بنیے مسلمان کسانوں سے ان کے کھیتوں کی زرعی اجناس
اونے پونے داموں ہتھیالیتے اور زرعی معیشت پر اپنا قبضہ برقرار رکھتے ۔ان
ظالم و سفاک ،موذی و مکار ساہوکاروں نے غریب مسلمان دہقانوں کو سود در سود
کے چنگل میں جکڑ رکھا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب ہندو بھارت منتقل ہوگئے
تو حالات نے عجیب رخ اختیار کیا ۔ وہ کنجڑے ، پانڈی ، جاروب کش ، ماشکی اور
منادی کرنے والے جوہند وساہوکاروں کی دکانوں میں معمولی مشاہر ے پر ملازم
تھے ۔ انھوں نے متعلقہ محکموں کی ملی بھگت سے الاٹمنٹ،کلیم اور ملکیت کے
جعلی کاغذات تیار کرائے اور تمام کاروبار پر ان لوگوں نے غاصبانہ قبضہ
کرلیا ۔ اب ان بے ضمیروں کے وارے نیارے تھے مگر کسانوں کے حالات جوں کے توں
رہے اور ان کے دِن پھرنے کی توقع پوری نہ ہو سکی ۔ ماسڑاحمد خان نے علاقے
کے دہقانوں کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنی زرعی اجناس مقامی آڑھتی کو نہ
دیں بلکہ بڑے شہروں کی منڈی میں پہنچائیں ۔ جہاں انھیں اپنی زرعی اجناس کا
مناسب نرخ اورمنافع ملے گا اور دام بھی نقد ملیں گے۔ اس کے مثبت نتائج
برآمد ہوئے محنت کش مزاروں اور دہقانوں کی زندگی میں خوشحالی آگئی۔یہ سب
لوگ ماسٹر احمد خان کی دل سے قد ر کرتے تھے اور انھیں اپنا حقیقی خیرخواہ
تصور کرتے تھے ۔ اپنی اولاد کی تعلیم وتر بیت کے لیے ان کے مشوروں پر عمل
کرتے تھے۔
ماسٹر احمد خان کی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے والوں نے یہ بات
زور دے کر کہی کہ یہ بات ان سب کے لیے حیران کُن تھی کہ انھوں نے کئی بار
ماسٹر احمد خان کے کمرے میں ماضی کی متعدد پُر اسرار اور نامانوس ہستیوں کو
دیکھا جو نہ جانے کہاں سے آتیں اور پلک جھپکتے میں آنکھوں سے اوجھل ہو
جاتیں اور دیکھنے والے حیران رہ جاتے ۔اقلیم معرفت کے رمز آشناگامن سچیار
کی رائے تھی کہ یہ سب روحانی کیفیات تھیں اور ماسٹر احمد خان فقر و مستی کے
قلزم کا زیرک ،فعال ،جری اور مستعد شناور تھا ۔راتوں کے پچھلے پہر میں جب
مادی دنیا کے غافل لوگ خواب استراحت کے مزے لیتے تھے ماسٹر احمد خان اﷲ ہُو
کی محفوظ پناہ گاہ میں فغانِ صبح گاہی میں مصروف ہوتاتھا ۔ایسے میں اس کی
تنہائیوں کا مداوا کرنے کی خاطرعالم ارواح سے اس کے کئی محرم راز اور درد
آشنا اکثر اس کے پاس چلے آتے ۔اس کے واقف حال لوگوں کے مشاہدات ،کئی قابلِ
اعتبار روایات اور راست گوعینی شاہدوں کے قول سے معلوم ہوا کہ جب کوئی
دوسرا نہ ہوتا تو ماسٹر احمد خان کے پاس ماضی کی جو ممتاز شخصیات موجود
ہوتی تھیں ان میں امیر خسرو،شیخ سعدی ٹیپو سلطان، سر سید احمد خان، شبلی
نعمانی، اسداﷲ خان غالب ، مومن خان مومن ،ولی دکنی ،حسرت موہانی، جعفر
زٹلی،ظفر علی خان، محمد حسین آزاد،میر تقی میر ، ماہ لقا بائی چندا،ممتاز
شیریں،امتیاز علی تاج ،خواجہ میر درد ،آتش،بخت خان، رضیہ سلطانہ ،ناسخ،یوسف
کمبل پوش،میر انیس ،مولوی نذیر احمد،ہادی رسوا،عبدالحلیم شرر، میر امن ،
رجب علی بیگ سرور،سرشار ،وجہی ،سعادت حسن منٹو،چراغ حسن حسرت ، پطرس بخاری
،غلام عباس ، عبدالحق ،مجید امجد،شورش کاشمیری ،سجاد حیدر یلدرم ،مرزا دبیر
اور ابراہیم ذوق شامل ہیں۔عالمی کلاسیک سے ماسٹر احمد خان کو گہری دلچسپی
تھی۔اس کی نجی محفلوں میں شامل ہونے والے بزمِ وفا کے متوالوں نے دیکھا کہ
ماسٹر احمد خان جن مشاہیر کا ذکر کرتا وہ کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے۔اس کی
محفل میں عالمی کلاسیک کے جن ممتاز افراد کو دیکھا گیا ان میں مولانا
روم،طبری ،افلاطون،ہیلن کیلر ، سقراط ،جابر بن حیان ،ارسطو،ابن خلدون
،شیکسپئیر،موپساں،گورکی،ملٹن،کیٹس، پابلو نرودا،شیلے،فریدالدین عطار،ورڈس
ورتھ،بائرن،ٹینسن ،براو ننگ ،میتھیو آرنلڈ،لان جائنس،تھامس ہارڈی،ولیم بلیک
اورچیخوف شامل ہیں۔
چور محل میں جنم لینے والا اور اپنے اہلِ خانہ کی خرچی کی کمائی سے بے دریغ
خرچ کر کے دادِعیش دینے والا ناصف کھبال ایک بڑبولا اور اپنے منھ میاں مٹھو
بننے کے خبط میں مبتلا فاتر العقل اور مخبوط الحواس شخص تھا۔ اس کی یاوہ
گوئی اور ہذیان بکنے کی قبیح عادت سے سب لوگ عاجز آ گئے تھے۔اس متفنی نے
متعدد ساتا روہن،گُرگ ،سانپ تلے کے بچھو،بھڑوے اور مسخرے اپنے ہم نوا بنا
لیے ۔ سادیت پسندی کے مر ض میں مبتلا یہ عقرب ہمیشہ اہلِ درد کے درپئے آزار
رہتے۔ اس بُزِ اخفش کے ذہنی قلاش ساتھیوں میں مشکوک نسب کے جو اجلاف و
ارذال ہمہ وقت ہنہناتے رہتے تھے ان میں زادو لُدھیک،اکرو بھٹیارا،رنگو
رذیل،تارو موہانا،عارو کھسیانہ،گھونسہ بیابانی، اور چغد ویرانی شامل تھے۔
کئی رسوائے زمانہ طوائفوں سے بھی ان مُوذیوں کے تعلقات تھے ۔قحبہ خانوں میں
جنس ،فحاشی اور رقص کی گرم بازاری کے قبیح دھندے میں ملوث جو بد نام
طوائفیں اس گروہ کی شریکِ جرم تھیں ان میں ظِلو،روبی،صبوحی
،پُونم،شعاع،فوذی اور گائتری شامل تھیں۔ جنس و جنون ،منشیات ،جرائم ،ظلم و
ستم اور شقاوت آمیز استحصال کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن جرائم کی سر پرستی
کرنے والے ان روسیاہ عناصر نے انڈر ورلڈ (Under world) کی پشت پناہی سے
اندھیر مچا رکھا تھا ۔ یہ ننگ ،انسانیت درندے زمین کا بوجھ بن گئے تھے اور
ان کو ایسی بلائے بے درماں سمجھا جاتا تھا جس کے باعث دُکھی انسانیت سانس
گِن گِن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور تھی۔ آسمان پر تھوکنا اور شرفا
کی پگڑی اُچھالنا ان سب کا وتیرہ تھا۔جب بھی بند آنکھیں طلوعِ صبح بہاراں
کی نوید سُن کر کھلنے لگتیں، گلزار ہست و بُود میں ان بد طینت افراد کی
مسلط کردہ خزاں کے سیکڑوں مناظر کے تصور سے کلیجہ منھ کو آنے لگتا۔ ایک دِن
ان کینہ پرور ،عادی دروغ گو،حاسد اور سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا جنسی
جنونیوں نے ماسٹر احمد خان پر بے سر و پا الزامات کی بو چھاڑ کر دی اور یہ
کہا کہ یہ شخص نگریزی پڑھا کر نئی نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت سے بیگانہ
بنانے پر تُل گیا ہے ۔ انھوں نے یہ بے پر کی اُڑائی کہ ماسٹر احمد خان
انگریزوں کا ایجنٹ ہے ،اسی لیے یہاں مفت انگریزی کی تعلیم دینے میں جی کا
زیاں کر تا ہے ۔ ان کینہ پرور حاسدوں کی یہ لاف زنی سب سننے والوں کو پانی
پانی کر گئی۔جامہ ٔ ابوجہل میں ملبوس ان خبطیوں کی ہذیان گوئی کا احوال
بیان کرتے ہوئے ایک واقف حال نے بتایا :
’’ حسد اور کینہ کی آگ میں مسلسل سلگنے والے یہ جو فروش گندم نما ،تھالی کے
بینگن ،چکنے گھڑے، بد طینت اور بد بخت جہلا نہایت ڈھٹائی سے اس بات پر
اصرار کرتے کہ ماسٹر احمد خان میں کون سا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے، اگر
ماسٹر احمد خان کی بزمِ وفا میں ماضی کے مشہورِ زمانہ لوگ آتے ہیں تو ہماری
بزمِ جفا میں بھی زمانہ قدیم کے بہت سے مقہور زمانہ لوگ اپنے رنج و غم کا
فسانہ ہمیں سنانے چلے آتے ہیں،کل جب شام طرب ڈھلی تو کرب کی ہوا چلنے لگی
جس کے باعث ہر دِل کی کلی جلنے لگی اور انسانیت ہاتھ ملنے لگی،ایسے میں
بادِ صر صر کے جھونکوں نے اوپن ہیمر، نادر شاہ درانی،شیخ چلی ، خوجی ، جہاں
دار شاہ ،ٹُلا سو پیازہ ،ملا نصر الدین ، فرعون ،نعمت خان کلانونت
،نمرود،ٹوٹ بٹوٹ ،ہٹلر ،رابن ہُڈ ، آسُو بِلا،ہلاکو خان ، زاہدُو
لُدھیک،چنگیز خان، لال کنور ،زہرہ کنجڑن ،میر جعفر ،میر صادق،نظام سقہ،غلام
قدر روہیلہ، اور شِمر کے سبز قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس بوجھ کے باعث زمین
پر بھونچال سا آ گیا دِل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور طلوعِ صبح خزاں کا
یقین ہو گیا اور ہر طرف ذلت ،تخریب ،نحوست ،بے برکتی ،بے توفیقی ،بے حسی
،بے غیرتی،بے شرمی،بے حیائی اور بے ضمیری کے کتبے کھنڈرات پر آویزاں دکھائی
دینے لگے۔ ہر شاخ پر بُوم و شپر،کرگس اور زاغ و زغن نے بسیراکر لیا اور
طیورِآوارہ کی اڑان سے اس قدر شور محشر اُٹھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ
دیتی تھی۔اپنے اپنے دور میں ان لوگوں نے من مانی کر کے ہر شخص کا پِتا پانی
کر دیا۔ ان تمام سفہا کا کہنا تھا کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ماضی کے
یہ سب کردار ہمیں اپنی اولاد کے مانند عزیز رکھتے ہیں مگر یہ ہماری ریشہ
دوانیوں ،بد اعمالیوں،بد معاشیوں اور سیاہ کاریوں کو دیکھ کر مطمئن نہیں
ہوتے اور ہمیں بے حسی،شقاوت،اخلاقیات اورتہذیب و شائستگی کا سفینہ غرقاب
کرنے اور درندگی کو عام کرنے میں اناڑی خیال کرتے ہیں۔یہ سب ہمارے آبا
واجداد ہیں جوہماری نا اہلی کی وجہ سے ہم سے نالاں ہیں لیکن ہم نے اِن کی
پیروی کرتے ہوئے انسانیت پر کو ہِ ستم توڑنے کی ہمیشہ مقدور بھر کوشش کی ہے
اور مجبوروں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ۔ ہم سب
کو دیکھ کر شِمر اور اس کے ساتھیوں نے مِل کر کہا:
لوگو ہم سے تو لا ولد بہتر
ہماری اولاد اس قدر ابتر ‘‘
ماسٹر احمد خان کی کم گوئی کا ایک عالم معترف تھا ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق
اور اخلاص سے پیش آنا زندگی بھران کا شیوہ رہا۔اپنے پاس آنے والے ہر شخص کی
باتیں صبر و تحمل سے سن کر وہ ایک مختصر سے جملے یا ایک شعر میں اس کا جواب
دیتے اور اس کو لا جواب کر دیتے۔ماسٹر احمد خان کی کم گوئی ان کی اعلیٰ
ظرفی ،وسعت نظر اور صبر و تحمل کی مظہر ہوتی تھی۔وہ جانتے تھے کہ ہر کُوزہ
سے ہمیشہ وہی محلول اُچھل کر باہر بہہ نکلتا ہے جو اس کے اندر بھرا ہوتا
ہے۔دریاؤں ،جھیلوں اور ندی نالوں کے آبِ رواں کے بھنور ،گرداب اور شور کو
دیکھ کر سمندر کی اتھاہ گہرائی ، لا محدود وسعت اور ہمہ گیر سناٹا زبان ِ
حال سے خبردار کرتے ہوئے یہی کہتا ہے کہ جس شخصکا ظرف جتنا وسیع ہوتا ہے
اُسی قدر وہ اپنے رازہائے نہاں اور حالات اپنے سینے میں تھام کر لب ِ اظہار
پر تالے لگا ئے رکھتا ہے اور دِل کی بات لبوں پر لانے سے ہمیشہ گریز کرتا
ہے ۔ سُبک نکتہ چینی کے عادی اپنے کور مغز حاسدوں ، کینہ پرور مفسدوں ،ننگِ
انسانیت درندوں،ابن الوقت بے ضمیروں ، مجہول الاحوال مُوذیوں اور رواقیت کے
داعی خبطیوں اوران کی محفل میں وارد ہونے والے ماضی کے لوگوں کے بارے میں
سب تفصیل اور ان سے منسوب بے سرو پا باتیں سن کر ماسٹر احمد خان نے کہا:
کُند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
یہ سُن کر محفل کشتِ زعفران بن گئی اور ماسٹر احمد خان کے کینہ پرور حاسد
اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔ناصف کھبال بُڑ بُڑاتا ہو،مغلظات بکتا ہواا اور
سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا ہوا اپنے شریکِ جُرم ساتھیوں سمیت وہاں سے رفو
چکر ہو گیا۔سب لوگ اس بات پر حیران تھے کہ مظلوم لوگ ا ن نا ہنجار مُوذیوں
کی ہلاکت کی دعا کرتے تھے مگر نا معلوم کیوں فطرت کی انتہائی سخت تعزیروں
سے یہ سب چو ر اُچکے بچ نکلتے اور ان کے عرصۂ حیات اور ظلم کی معیاد میں
کمی نہیں ہو رہی تھی۔
سال1950کا ستمبر کا مہینہ تھا ، ناصف کھبال کے گینگ میں شامل اہلِ جو ر ،
سفاک لُٹیروں ،اُٹھائی گیروں ،چوروں ،اُچکوں اور رہزنوں نے ظلم و ستم کی
انتہا کر دی ۔گردو نواح کی بستیوں میں کئی یتیموں ،بیواؤں ،غریبوں اور بے
نواؤں کو لُوٹ لیا ۔قتل وخون ریزی کا سلسلہ شرع کر دیا اور کئی گھر بے چراغ
کر دئیے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں آگ لگا دی اور کھڑی فصلوں کو تہس نہس
کردیا۔بہت سی یتیم بچیوں کا جہیز اور سر زمین حجاز کے لیے عزم سفر باندھنے
والے معمر مسافروں کا زاد راہ بھی انھوں نے لُوٹ لیا ۔یہ صورت حال دیکھ کر
ہر شخص کا دِل خون کے آنسو روتا تھا۔ایک دن حکیم خادم نے ماسٹر احمد خان سے
کہا:
’’اس سال تو ستمبر کا مہینا ہمارے لیے ستم بر بنا دیا گیا ہے ۔ناصف کھبال
کا وبال ہرغریب کے گھر کو بے حال کر گیا ہے ۔آپ دعا کریں کہ جور و جفا اور
ایذا کا یہ ہولناک منظر جلد از جلد بدل جائے اورجس قدر جلد ممکن ہو بُرا
وقت ٹل جائے۔قدر کاملہ کی بے آواز لاٹھی کب ان سادیت پسندآدم خوروں کے سر
پر برسے گی۔‘‘
ماسٹر احمد خان نے آہ بھر کر کہا ’’خالقِ کائنات کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے
مگر وہاں اندھیر کا تصور ہی نہیں جا سکتا۔فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی
ہیں او ر کسی ظالم و سفاک ،موذی و خونخواربھیڑئیے کاان سے بچ نکلنا ممکن ہی
نہیں۔ باطنِ ایام پر نظر ڈالنے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ناصف کھبال کا
گینگ اب حالات کی زد میں آ چُکا ہے ۔ ان کی بداعمالیوں اور بدقسمتی نے
انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا ،حالات کی زد میں آنے کے بعد ان درندوں کو اپنی
اوقات معلوم ہو جائے گی اور جرائم پیشہ بھیڑیوں کا یہ گروہ عبرت کی مثال بن
جائے گا ۔ چند دن اور صبر کر لو فریاد اور بے داد کے ایام ختم ہونے والے
ہیں او ر اسی سال ستمبر کے آخری ہفتے میں اونٹ پہاڑ کے نیچے آنے والا ہے۔‘‘
دریائے جہلم کے جنگل بیلے کے وسیع علاقے میں گھنے جنگلوں کے درمیان واقع
ٹیلوں اور گہرے کھڈوں میں ناصف کھبال کے گینگ نے ا پنی محفوظ پناہ گاہیں
بنا رکھی تھیں جہاں ان جرائم پیشہ افراد نے منشیات کا دھندہ شروع کر رکھا
تھا ۔ خاردار جھاڑیوں سے اٹے ان دشوار گزار جنگلوں میں جنگل کا قانون نافذ
تھا اور کسی کو اس میں مداخلت کی تاب نہ تھی۔ستمبر کے آخری ہفتے کے آغازکے
ساتھ ہی مون سون کی بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔موسلا دھار بارشو ں کا
یہ سلسلہ کئی روز جاری رہا ۔اس کے ساتھ ہی دریائے جہلم اور دریائے چناب میں
قیامت خیز سیلاب نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ان دونوں دریاؤں کا پانی مِل گیا
اور سیلابی پانی کے ریلے کی سطح بیس فٹ بلند ہو گئی۔نشیبی علاقوں کے باشندے
محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو گئے۔دس دن کے بعد جب سیلاب کا پانی اُترا تو
جہلم اور چناب کے درمیانی علاقے کے جنگل بیلے کا نام و نشان بھی مٹ چکا تھا
۔ ماہرین آب پاشی کا کہنا ہے کہ یہ مقام جہاں تریموں ہیڈ ورکس تعمیر کیا
گیا ہے صدیوں سے دریائے جہلم اور چنا ب کا سنگم چلا آ رہا ہے۔اس مقام
پرزیریں علاقے سے بہہ کر آنے والے دریائے جہلم کی آہستہ خرام لہروں کو
دریائے چناب کی بپھری ہوئی تُند و تیز موجیں دبوچ لیتی ہیں اور یوں دریائے
جہلم پر اس طرح حاوی ہو جاتی ہیں کہ دریا ئے جہلم کا نام و نشاں بھی باقی
نہیں رہتا۔ سوہنی اور مہینوال کی بے قرار روحیں اہلِ درد اور دشت محبت کے
ہر راہ نورد کو دریائے چناب کی بلا خیز طوفانی لہروں کی طغیانیوں سے خبردار
کرتے ہوئے یہ فریا دکرتی ہیں کہ دریائے چناب کے عتاب سے بچنا کہ اس دریا کی
بے رحم اور ہیبت ناک لہریں سب کچھ بہا لے جاتی ہیں ،جو بھی اس دریا کی
لہروں میں پھنسا اس کی نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اس کے زندہ بچ
نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے ۔ باطنِ ایام کی گتھیاں سلجھانے والے پُر نم
آنکھوں سے اپنی قلبی واردات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج بھی دریائے چناب
کی طوفانی لہریں سوہنی اور مہینوال کے دریا میں ڈُوب مرنے کے صدمے سے نڈھال
ہو کر کناروں سے سر پٹختی ہوئی گزرتی ہیں تو یہ صدا سنائی دیتی ہے:
اوکھے پینڈے لمیاں راہوں عشق دیاں
ترجمہ:طویل مسافت کٹھن سی راہیں عشق کی ہیں
درد جگر تے سخت سزاواں عشق دیاں
ترجمہ:دردِ جگر اور سخت سزائیں عش کی ہیں
پھُلاں ورگی جندڑی عشق رُلا چھڈ دا
ترجمہ:برگ گل سی زیست کو عشق مسلتاہے
سر بازار جو چاہوے عشق نچا چھڈدا
ترجمہ:سر بازار نچا کے عشق انا کو کچلتا ہے
ککھ نہ چھڈ ے دیکھ عطاواں عشق دیاں
ترجمہ:کچھ نہ چھوڑے یہی عطا ئیں عشق کی ہیں
سجناں باجھوں ذات صفاتاں عشق دیاں
ترجمہ:بنا سا جن کے صفت اور ادا ئیں عشق کی ہیں
وکھری کُلی دن تے راتاں عشق دیاں
ترجمہ:جُدا ٹھکا نہ دن اور راتیں عشق کی ہیں
چوداں طبقاں اندر تھانواں عشق دیاں
ترجمہ:چودہ طبق میں محل سرا ئیں عشق کی ہیں
اوکھے پینڈے لمیاں راہوں عشق دیاں
ترجمہ:طویل مسافت کٹھن سی راہیں عشق کی ہیں
عشق دی شکتی،مستی یار مُکا دیوے
ترجمہ:پریم کی شکتی ،سر مستی سے ٹکراتی ہے
اگ عشق دی دِل تے روح جلا دیوے
ترجمہ:عشق کی آگ دل اور روح کو جلا تی ہے
ہُلے وانگ نچاون تاراں عشق دیاں
ترجمہ:مہکاریں جو تگنی کا ناچ نچا ئیں عشق کی ہیں
ا وکھے پینڈے لمیاں راہواں عشق دیاں
ترجمہ:طویل مسافت کٹھن سی راہیں عشق کی ہیں
ہر ہر دِل ہرتھانہہ تے عشق سمایا اے
ترجمہ:ہر دل اورہر جگہ پر عشق سما یا ہے
عرش فرش تے عشق نے قدم ٹکایا اے
ترجمہ:عر ش اور فرش پر عشق نے قد م جما یا ہے
چوداں طبقاں اندر تھانواں عشق دیاں
ترجمہ:چودہ طبق میں محل سرا ئیں عشق کی ہیں
اوکھے پینڈے لمیاں راہواں عشق دیاں
ترجمہ: طویل مسافت کٹھن سی راہیں عشق کی ہیں
تریموں ہیڈ ورکس کے جنوبی کناروں سے ملتان کی جانب جودریابہتا ہے وہ صر ف
دریائے چناب ہی ہے دریائے جہلم کا قلیل پانی دریائے چناب میں شامل ہو جاتا
ہے ۔اسی ہیڈ ورکس سے رنگ پور نہر نکلتی ہے جو ہیر کے سسرالی قصبے رنگ پور
کھیڑے کے وسیع زرعی علاقے کو سیراب کرتی ہے۔چناب اور جہلم کے سنگم کے مقام
پر بے شمار خون آشام نہنگوں کے نشیمن ہیں۔دریا کے تیز پانی میں کشتی رانی
،تیراکی اور غوطہ خوری میں اپنی دھاک بٹھانے والامولو موہانا بتایا کرتا
تھا کہ سال 1950کے سیلاب کے بعد اس مقام پر لوگوں نے انسانی ہڈیوں کے کئی
ڈھانچے دیکھے جو ملخ و مُور کے جبڑوں کی زد میں تھے اور جن پر بے شمار کرگس
اور زاغ و زغن جھپٹ رہے تھے۔چشمِ بینا رکھنے والے لوگوں نے ایک بُری طرح
مسخ شدہ کاسۂ سر کو شناخت کر لیا اور بتایا کہ یہ استخوانِ شکستہ ناصف کھبا
ل کا تھا ۔ اس کے گینگ میں شامل بیس درندوں کے ڈھانچے اور کاسۂ سر بھی
نہنگوں کے نشیمن کے گردو نواح میں بکھرے پڑے تھے۔ قیامت خیزسیلاب کا پانی
خشک ہو چکا تھا مگر ان مسخ شدہ انسانی ڈھانچوں سے عفونت اور سڑاند کے اس
قدر بھبھوکے اُٹھ رہے تھے کہ اس راہ سے گزرنا محال تھا۔اس صورتِ حال سے
پریشان ہو کرگِرد و نواح کے مکین ایک کہنہ مشق او رآزمودہ کار خاکروب جس کا
نام گھارو تھا اُسے گھیر گھار کر لائے،اس کی خوب خاطر تواضع کی اور منھ
مانگے معاوضے کی ادائیگی کا وعدہ کر کے اس متعفن جگہ کی صفائی پراُسے بہ
مشکل قائل کیا ۔جو ں ہی گھارو اپنی اہلیہ اور نو ساتھیوں کے ساتھ اس مقام
پر پہنچا توانسانی ڈھانچوں کے گِرد حلقۂ صد کام نہنگ دیکھ کر ان سب پیشہ ور
خاکروبوں کی گھگھی بندھ گئی اوروہ اپنی جان بچانے کے لیے سر پر پاؤ ں رکھ
کر بھاگے اور وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔تین ہفتے تک یہ ڈھانچے عبرت کا
نمونہ بنے دریا کے کنارے پڑے گلتے سڑتے رہے ۔حیران کُن بات یہ تھی کہ ان
عفونت زدہ ڈھانچوں کے گر د سیکڑوں خون آشام نہنگوں کا رقص بھی جاری رہا۔اس
کے بعد اس شاہراہ پر عین اس مقام سے گزرنے والا ایک تیز رفتار بڑاآئل ٹینکر
جو پٹرول سے لبالب بھرا ہوا تھا سڑک کے کنارے ایک سو برس سے کھڑے ایک قدیم
اور بلند نخل تناور سے ٹکرا گیا ۔ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں
ٹینکر پھٹ گیا اور پٹرول سڑک سے بہتا ہوا چاروں طرف پھیل گیا ۔ بدنام
ڈاکوؤں کے شکستہ اور بد بُو دار استخواں تیزی سے بہتے ہوئے پٹرول میں ڈوب
گئے۔ آتش گیر مادے کے ہر طرف پھیل جانے کے باعث اچانک آگ بھڑک اُٹھی جس کے
شعلے بہت بلند تھے ۔ انسانی ڈھانچوں کے گرد گھومنے والے مگر مچھ تو فی
الفور دریا کے گہرے پانیوں میں اُتر گئے مگر ہڈیوں کے ڈھانچے آگ کی نذر ہو
گئے ۔رات بھر آگ کے شعلے بھڑکتے رہے ، سارے پُر غرور سر راکھ کا انبار بن
چُکے تھے ۔اگلی صبح ہر طرف بکھری ہوئی راکھ اور کوئلوں کے ڈھیر دیکھنے
والوں کے لیے عبرت کا نمونہ تھے ۔قاتلوں اور رہزنوں کا خمار خاک میں مِل
گیا اور اب مشتِ غبار کے سوا کچھ بھی باقی نہ بچا تھا جسے حیرت ،حسرت اور
عبرت کا مقام سمجھ کر سب لوگ توبہ استغفار پڑھ رہے تھے۔
قحط الرجال کے موجودہ دور میں انا،خود داری اور عزت نفس کی متاعِ بے بہا کو
ٹکے ٹوکری کے عوض نیلام کرنے والے ،کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے جا ہ و
منصب کے استخواں نو چنے والے اور اپنے اہلِ خانہ کو سیڑھی بنا کر بلند
ایوانوں تک رسائی کے سفلہ تمنائیوں نے اپنے لیے رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں
کی راہ ہموار کر دی ہے ۔اپنے مکر کی چالوں سے عقابوں کے نشیمن میں زاغ و
زغن گُھس چُکے ہیں اورمجبوروں کے چام کے دام چلا رہے ہیں۔ماسٹر احمد خان نے
اس الم ناک صورت حال پر دلی رنج و کرب کا اظہارکیا اور اسے معاشرتی بے حسی
پر محمول کیا۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ قصرِ فریدوں کی بلند و بالا منڈیر پر
جا بیٹھنے سے کرگس کبھی عقاب نہیں بن سکتا،اسی طرح گل ہائے صد رنگ سے مہکنے
والے گلشن میں گُھس جانے سے بُوم کسی طرح بھی سُرخاب نہیں ہو سکتا،رات کی
تاریکی میں فضائے بسیط میں نیچی اُڑان بھرنے سے شِپر کی شاہین بننے کی
تمناپُوری نہیں ہو سکتی،بُور لدے چھتناروں پر اپنے گھونسلے بنا لینے والے
زاغ و زغن کو عنادل نہیں کہا جا سکتا،گوسفند کی فربہی بھی اسے اسفند بنانے
سے قاصر ہے اورمرغی خانوں سے مرغ اُڑانے والے شغال میں شیرانہ خو پیدا ہونے
کی توقع عبث ہے۔وہ انڈر ورلڈ کے قبیح ہتھکنڈوں ،نو دولتیوں کے مکر کی چالوں
اور استحصالی عناصر کی لُوٹ ماراور سفاکی سے شدید نفرت کرتے تھے ۔انھیں اس
بات کا قلق تھا کہ تاریخ کے ہر دور میں بے کمال لوگوں نے اہلِ کمال پر عرصۂ
حیات تنگ کیے رکھا ہے ۔کور مغز اور بے صلاحیت لوگ اپنی کوتاہ اندیشی کے
باعث ہر مصلح کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔بد اندیش لوگ جب ان کی طرف سنگِ
ملامت لیے بڑھے تو ماسٹر احمد خان نے نہایت تحمل سے کام لیا اور خاموشی سے
اپنا کام جاری رکھا۔اہلِ محبت کے اِس پُر عزم کارواں نے اپنے بزرگ قائد کی
قیادت میں روشنی کا سفر جاری رکھا ۔اس دوران کئی سخت مقام بھی آئے مگر یہ
اولوالعزم لوگ موجِ حوادث سے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اوریہ طے
کر لیا کہ اب منزل پر جاکے دم لیں گے۔بے جا حرف گیری اور سُبک نکتہ چینیاں
ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکیں بل کہ بے کمال لوگوں کی دشنام طرازی اور سنگ
ِ ملامت انھوں نے اپنے پائے استقامت سے ٹھوکر مار کر ہٹا دئیے ۔مادرِ وطن
سے ٹو ٹ کر محبت کرنے والے اس شخص نے وطن اور اہل وطن سے جو پیمانِ وفا
باندھا اسے علاج گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس پر عمل کیا۔
ماسٹر احمد خان کے بھتیجے رانا عزیز احمد خان نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اس کے
بعد1970 میں اُسے لاہور میں پانی اور بجلی کے ترقیاتی ادارے میں ملازمت مل
گئی۔اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ اس نے لاہور کے مضافاتی علاقہ شاہدرہ میں
کرائے کے ایک مکان میں رہائش اختیار کی ۔ چند سال بعد وہ اپنے بھتیجے کے
اصرار پر ماسٹر احمد خان اس سے ملنے کے لیے لاہور پہنچے اور لاہور کے اہم
تاریخی مقامات کی سیر بھی کی ۔ ۔اس سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے رانا عزیز
احمد نے بتایا:
’’پہلے ہی دِن تایا جی نے لاہور میں بادشاہی مسجد میں نماز فجر ادا کی ۔اس
کے بعد علامہ اقبال کے مزار پر پہنچے اور وہاں قرآن حکیم کی تلاوت کی اور
شاعر مشرق کے حضور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا ۔ آزادی چوک سے کچھ فاصلے پر
حفیظ جالندھری اقبال پارک میں آسودۂ خاک ہیں ،یہاں فاتحہ پڑھنے کے بعد تایا
جی نے یہ شعر پڑھا :
اس خامشی پہ ختم ِ سفر کا گُماں نہ کر
آسودگانِ خاک نئی منزلوں میں ہیں
تھوڑی دیر بعد وہ قلعہ لاہور میں داخل ہوئے ۔جب شیش محل میں پہنچے تو
جھروکے کی جانب غور سے دیکھنے لگے اور گلو گیر لہجے میں کہا :
’’آہ! جلال الدین اکبر تمھارا سب جاہ و جلال ختم ہو گیا ،تمھارے نو رتن سب
کے سب نیست و نابود ہو گئے،جودھا بائی ،مان سنگھ اور باقی لوگ کہیں دکھائی
نہیں دیتے۔قلعہ لاہور کے سب کواڑ تو کُھلے ہیں لیکن ان میں داخل ہو کر
کورنش بجا لانے والے اب کہیں موجود نہیں ۔اس قلعہ کے ایوانوں میں شہزادہ
سلیم،انار کلی اور دلارام کہاں ہیں ؟حیف صد حیف سب کچھ اُجڑ گیا اب تو جس
طرف دیکھیں حالات کی قبروں کے کتبے نصب دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
دوپہر کے وقت ہم نور جہاں کی قبر پر پہنچے تو عجیب سماں تھا ۔شکستہ قبر پر
موجود کمرے کی منڈیروں پر گدھ،بُوم اور زاغ و زغن موجود تھے اور اندر تاریک
کمرے کی چھت سے بڑے بڑے شپر اُلٹے لٹکے تھے۔تایا جی نے کہاتلوک چند محروم
نے سچ کہا تھا :
دِن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گاہِ نو ر جہاں ہے
دریائے راوی کے دوسرے کنارے واقع کامران کی بارہ دری دیکھ کر تایا جی نے بر
ملا کہا :
راوی کا کنارہ ہے
ہر راوی کے ہونٹوں پر
افسانہ تمھارا ہے
سہ پہر کو ہم لوگ مقبرہ جہانگیر پر پہنچے جہاں کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں
پکنک منانے کے لیے آئے تھے ۔یہ سب نوجوان اٹکھیلیاں کرتے اور جو پھل کھاتے
اس کے چھلکے نہایت حقارت سے سونے کی زنجیر عدل لٹکانے والے بادشا ہ کی قبر
پر پھینک کر قہقہے لگاتے ۔مرحوم بادشاہ کے مرقد کی تو ہین ،تضحیک اور تمسخر
اُڑانے کا یہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن منظر دیکھ کر تایا جی بہت دِل گرفتہ
ہو گئے ۔اس موقع پر انھوں نے مجید امجد کی نظم ’’ مقبرہ جہاں گیر‘‘ کے یہ
شعر پڑھے تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے:
آج بھی قہقہے جشن مناتے ہوئے نادانوں کے
جب کسی ٹُو ٹتی محراب سے ٹکراتے ہیں
مرقدِ شاہ کے مینار لر ز جاتے ہیں
اگلے روز لاہور میں اسپان و مویشیاں کے سالانہ میلے کے سلسلے میں سرکاری
تعطیل تھی ،ہم لاہور میں مغل شہنشاہ شاہ جہان کے عہد میں مکمل ہونے والے
خوب صورت اور تاریخی شالا مار باغ پہنچے توسایہ دار اشجار کے نیچے کم سِن
بچے جھولا جھولنے میں مصروف تھے۔یہ منظر دیکھ کر تایا جی نے اُردودو زبان
کے ممتاز شاعر،مزاح نگاراور جری صحافی چراغ حسن حسرت کو یاد کیا اور کہا:
باغوں میں پڑے جُھولے
تم بُھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بُھولے
’’ چراغ حسن حسرت سال 1929میں مولانا ظفر علی خان کی دعوت پر
لاہورپہنچے۔اسلامیہ کالج کے نزدیک واقع ’’عرب ہوٹل‘‘میں سرِ شام وہ اور ان
کے عقیدت مند اکٹھے ہوتے اور یہاں حالاتِ حاضرہ ، ادب اور صحافت کے موضوع
پر گفتگو کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا تھا۔کچھ عرصہ مولانا ظفر علی خان
کے رجحان ساز مجلہ ’’زمیندار‘‘میں کالم لکھتے رہے اس کے بعد سال1936میں
اپنا مجلہ ’’شیرازہ‘‘جاری کیا جسے بہت پذیرائی ملی۔چراغ حسن حسرت سے میری
ملاقات کلکتہ میں ہوئی جہاں وہ مجلہ ’’نئی دنیا ‘‘میں کو لمبس کے قلمی نام
سے کالم ’’کلکتے کی باتیں ‘‘لکھتے تھے۔اس قلمی نام کے علاوہ وہ ’’کوچہ
گرد‘‘اور ’’سند باد جہازی‘‘ کے قلمی نام سے بھی اپنے اشہب قلم کی جولانیوں
سے قارئین کو مسحور کر دیتے تھے ۔وہ بلاشبہ نابغۂ روزگار صحافی تھے جن کی
صلاحیتوں کے اعتراف کرنے والوں میں مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی
،مولانا ابولکلام آزاداور مولانا ظفر علی خان شامل تھے۔میرا یہ دیرینہ رفیق
جو سال 1904میں کشمیر میں پیدا ہواسال1955میں لاہور میں انتقال کر گیا۔میرے
نہاں خانۂ دِل میں آج بھی اس کی یادوں کی روشنی موجود ہے۔ ‘‘
تین دِن سے تایا جان کی طبیعت بہت بے چین تھی اور وہ مسلسل گاؤں واپسی پر
اصرار کر ر ہے تھے ۔میں نے ان کے لیے کچھ ملبوسات خریدنے کے لیے انار کلی
بازار جانے کا قصد کیا اور اُنھیں اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور ان سے اس
کی با ضابطہ منظوری کی استدعا کی تو وہ زار و قطار رونے لگے اور مجھ سے
مخاطب ہو کر بولے ـ:
’’ ہوائے دشتِ فنا کیسے کیسے گُل ہائے رنگ رنگ کو اُڑا لے گئی ۔ تقدیر کی
پہچان ہی یہ ہے کہ یہ ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے
۔انارکلی بازار مجھے عہدِ اکبری کی بد نصیب کنیز نادرہ کی یاد دلاتا ہے جسے
عادی دروغ اور تاریخی حقائق کی تمسیخ کے لیے بدنام ولیم فنچ کے مطابق مغل
بادشاہ اکبر نے زندہ دیوار میں چنو ا دیاتھا ۔اسی بازار کے ایک گم نام سے
گوشے میں شہنشاہ ہندقطب الدین ایبک کی آخری آرام گا ہ ہے جس نے بر صغیر میں
خاندان غلاماں کی حکومت کی بنیا د رکھی اور دہلی میں قطب مینار تعمیر کرایا
جو اینٹوں سے بنایا گیا دنیا کا سب سے بلند مینار ہے ۔‘‘
تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر گہری نظر رکھنے والے اس عظیم دانش ور کے بارے
میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ جہاں بھی جاتے وہاں کا تمام منظر اور پس منظر
چشمِ تصور سے دیکھ لیتے اور اس کے بارے چشم کشا
حقائق سے آگاہ کرتے۔ انار کلی بازار سے گزرتے ہوئے جب ہم قطب الدین ایبک کے
مقبرے پر پہنچے تو تایا جان نے کہا :
’’ زندگی بھر ہمارا شوقِ آوارہ ہمیں سیر و سیاحت کے لیے مختلف مقامات پر
کشاں کشاں لے جاتا ہے لیکن جب ہم مطلق العنان بادشاہوں کی آخری آرام گاہ کو
دیکھتے ہیں توپلک جھپکتے میں آرزوئے نظارہ دم توڑ دیتی ہے ۔ اس وقت محمود
ایاز کے یہ اشعارمیرے ماتم گرِ رفتگاں دِل میں موجودجذبات ِ حزیں کی
ترجمانی کرتے ہیں:
بس ایک ایک کفِ پا کا نقش دیکھتا ہوں
ہزاروں حسرتیں مُشتِ غبار میں ڈھل کر
کچھ ایسی سوئی ہیں خاموشیوں کے مر قد میں
کہ تا ابد کوئی آوازِ پا جگا نہ سکے
اگست 2016کی بیس تاریخ تھی سورج طلوع ہونے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے ،میں
ایک ہزار سال قدیم شہرخموشاں’’عدم آباد‘‘میں اس مقام پر کھڑا تھا جہاں
ماسٹر احمد خان آسودۂ خاک ہے ۔اس عظیم انسان کے قدموں میں رانا عزیز احمد
کوسپر د خاک کیا گیاہے۔ صوت و بیاں کے تمام مراحل کی تکمیل کے بعد یہ دبنگ
آوازیں دائمی سکوت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔پیلوں اور کریروں کی گھنی شاخوں پر
سیکڑوں طیور زورزور سے چہچہا رہے تھے۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ دکھی
انسانیت کے ان خدمت گاروں کی دائمی مفارقت پر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کر
رہے ہیں۔استاد الاساتذہ ماسٹر احمد خان اورعزیز احمد کی آخری آرام گاہ پر
گلاب ،چنبیلی ،موتیا ،کرنا،سنبل،نیلوفر اورکئی دوسرے پھولوں کی پتیاں بکھری
پڑی تھیں۔یہ پتیاں شبنم کے قطروں سے بھیگ چُکی تھیں ۔مجھے یقین ہو گیاکہ
احساسِ زیاں سے پُورا ماحول سوگوار ہے اور آسمان بھی اس سانحہ پر اشک بار
ہے ۔ اچانک مجھے اپنے دیرینہ رفیق عزیز احمد کی مانوس آواز سنائی دی :
یاد رکھو تو دِل کے پاس ہیں ہم
بُھول جاؤ تو فاصلے ہیں بہت
میری آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح مسلسل برس رہی تھیں۔دعائے مغفرت کرنے کے
بعد میں بوجھل قدموں سے اس قدیم اور تاریخی عمارت کے قریب پہنچا جس پر
’’احمد خان میموریل سکول ‘‘کا بہت بڑا پُر شکوہ بورڈ آویزاں تھا۔سورج طلوع
ہو چکا تھا،اس بورڈ کے جلی حروف سورج کی کرنوں سے چمک رہے تھے۔دیوار پر لگے
نوٹس بورڈ پر یہ لکھا تھا:
’’تعطیلات گرما کے باعث احمد خان میموریل سکول بند ہے ۔اب ادارہ یکم
ستمبر2016کو کُھلے گا۔‘‘
یہ بات میرے علم میں تھی کہ عزیز احمد کی اہلیہ محترمہ اپنے بچوں سمیت اپنے
آبائی شہر لاہور میں اقامت پذیر تھیں لیکن میں یہ معلوم نہ کر سکا کہ ان
دنوں اس ادارے کاانتظام و انصرام کس کے ذمے ہے۔ابھی میں اس بارے میں شش و
پنج میں مبتلا تھا کہ ایک کم سِن بچہ جو نرسری کلاس کا طالب علم معلوم ہوتا
تھااپنا قاعدہ لیے وہاں آ پہنچا۔اس نے اپنا سبق پڑھنا شروع کر دیا :
الف سے اﷲ،ب سے بستہ ،پ سے پاکستان۔۔۔۔
میں بچے کا یہ روح پرور سبق سُن کر بہت خوش ہوا ۔یہی انداز ماسٹر احمد خان
کا تھاوطن ،اہلِ وطن اور انسانیت سے ٹُوٹ کر محبت کرنے والے اس لافانی معلم
نے اپنی مؤثر تدریس اور اسلامی تعلیمات پر مبنی ابد آشنا اصلاحی پیغام کے
ذریعے دورانِ تدریس ہمیشہ اپنے شاگردوں کے دلوں کو مرکزِ مِہر و وفا کرنے
کی سعی کی۔وطن کو وہ بلند و بالا بے ستون عمارات ، سر بہ فلک محلات اور
اثمار واشجار سے بھرے باغات کے بجائے اہلِ وطن کے اجسام ،قلوب اور روحوں کے
مجموعے کا نام دیتے تھے ارضِ وطن کی خاک کا ہر ذرہ انھیں اپنی جان سے بھی
پیارا تھا ۔میں نے پروردگارِ عالم کا شکر ادا کیا کہ روشنی کے جس عظیم
الشان سفر کا آغاز ماسٹر احمد خان نے نصف صدی قبل کیا تھا وہ ابھی تک جاری
ہے ۔ نصابی قاعدوں کے الف بائی حروف کی پہچان کے سلسلے میں تو کچھ اور درج
تھامگرہم نے بھی اپنے بچپن میں ماسٹر احمدخان سے یہی سبق پڑھا اور یہ سبق
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ازبر ہو تا چلاگیا۔
میں نے بچے سے پُوچھا’’یہ سکول کون چلاتا ہے ؟‘‘
بچہ حیرت سے میرا منھ تکنے لگا اور بولا ’’ کیاآپ کو یہ سکول چلتا ہوانظر
آتا ہے؟یہ توگزشتہ پچاس سال سے یہیں کھڑا ہے ۔ہمارے استاد ِمحترم کا فرمان
ہے کہ جب تک یہ دنیا باقی ہے ’’احمد خان میموریل سکول ‘‘سوہنی دھرتی پر سر
اونچا کر کے سینہ تان کر کھڑا رہے گا۔‘‘
اس کم سِن بچے نے تو مجھے لا جواب کر دیا ۔میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس
سکول کی انتظامیہ میں کوئی بھی شامل ہو ’’احمد خان میموریل سکول‘‘اس مقام
پر تا ابد کھڑا رہے گا اور بہار کی عطر بیزی کے مانند اپنے وجو دکا اثبات
کرتا رہے گااور ربِ کائنات کے فضل و کرم سے یہ سوہنی دھرتی قدم قدم آباد و
شاد رہے گی ۔تاریخ ہر دورمیں اس یگانۂ روزگار فاضل کے نام کی تعظیم کرے گی
اور ماسٹر احمد خان کا دوام جریدۂ عالم پر ثبت رہے گا۔
|
|