کشمیر خون کی بہتی ندیاں اور ہم

 وادی کشمیر کے حسین و خوبصورت چہرے پیلیٹ کے قہر نے بے نور کردئے آنکھیں خراب ہوگئیں صورتیں مسخ شدہ ہیں جسم زخموں سے چور چور ہے دل دہلانے والی تصاویر نگاہوں کو نمناک اور قلوب کو غمگین کررہی ہیں 45دن سے جاری وحشت و دہشت کا یہ کھیل رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ہر صبح آبدیدہ کرنے والا دھواں فضا میں رقص کرتا ہوا نظر آتا ہے جوں جوں سورج بلندی کا سفر طے کرتا ہے مظالم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے چارو جانب آہ بکا چیخ و پکار کی آوازیں گشت کرتی ہیں اور ظلم جور کی کہانی کو تاریخ کا سیاہ ترین باب ثابت کرتی ہیں 80سے زیادہ افراد کا خون نا حق اس حقیقت کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے یہ تعداد تو فوجیوں کی ہوس کا شکار ہوگئ باقی 45دن سے پابندیاں جھیل رہی کشمیری عوام ہر دن موت کو قریب سے دیکھ رہی ہے اور تکالیف کو محسوس کررہی ہے اشیاے خوردنی کی قلت بھوک سے بلکتے شیر خوار بچے جنکی ماوں کے پیٹ میں کھانے کے نام پر کچھ نہیں پہونچ پارہا ہے کیا وہ اپنے بچوں کو دودھ پلا پائینگی ظلم سے جھوجھتے کشمیری نوجوان اپنی لاٹھیوں کے ٹوٹنے کا ماتم کرتے بوڑھے جنکیمر جہاں غم و اندوہ مین جھک رہی ہے وہی فوجیوں کی زد میں آکر ٹوٹ بھی رہی ہے تعلیمی نظام کا معطل ہونا جو کشمیر کے مستقبل کو بھی نقصان پہونچائیگا جو بچے اس وحشتناک ماحول میں پروان چڑھ رہے ہیں انکی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہر ذی شعور فرد لگا سکتا ہے جس علاقے میں چند دن کرفیو نافذ ہوتا ہے سالوں تک اسکے نقصانات کی بھرپائ نہیں ہوپاتی عوام چیخ اٹھتی ہے حشر بپا ہوجاتا ہے تاجر روپڑتے ہیں مزدور طبقہ بھوک سے بیچین ہوجاتاہے کسان فصلوں کے دیدار میں بیچین رہتے ہیں تاریخ شاہد ہے ایمرجنسی کے نقوش و اثرات ملک پر عرصہ دراز تک محسوس کئے جاتے رہے ملک معاشی اعتبار سے کمزور ہوا سیاسی اور سماجی اعتبار سے برے اثرار رونما ہوئے اسی طرح مظفرنگر فساد میں چند ایام کے کرفیو کے اثرات ابھی تک موجود ہیں کوڑیوں کے دام بکنے والی اشیاء بھی آسمان چھو گئ تھیں سہارنپور بھاگلپور ممبئ وغیرہ جو علاقہ اس عتاب کو جھیل چکے ہیں وہ اس المناک صورت حال سے بخوبی واقف ہیں اور کشمیری اس صورت حال سے 70سالوں سے نبرد آزما ہیں انکا حوصلہ جواں مردی پامردی اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ یہ قوم کتنی حوصلہ مند ہے دنیا کی کوئ بھی قوم ٹوٹ جاتی بکھر جاتی مگر کشمیری آج بھی آہنی چٹان کی طرح جمے ہوئے ہیں اور مسلسل ان تکلیف دہ مراحل سے گذر رہے ہیں انکی پریشانی کا اختتام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اسمبلی میں تقریریں ہوچکی سیاسی جماعتیں اور ہمارے وزیر آعظم ابھی تک اس گتھی کو سلجھا نہیں سکے اور نا کوئ ایسی تدبیر پیش کرسکے عملی میدان میں جسکا کوئ اثر دکھائ دے ایک عظیم ملک کے لئے یہ صورت حال باعث شرمندگی ہے صرف یہ کہدینا کہ پاکستانی کشمیریوں کو ورغلا رہے ہیں یہ مسلہ کا حل نہیں ہے یہ جملہ کشمیریوں میں اشتعال پیدا کریگا بلکہ ایسے پختہ اور ٹھوس اقدامات کئے جائیں جن سے امن بحال ہو سکے کشمیریوں کے دلوں کو جیتا جائے انہیں اپنائیت کا احساس کرایا جائے جس طرح وزیر آعظم انتخابی ریلیوں میں کشمیریوں سے خطاب کرتے تھے آج بھی اس سلسلے کی ابتدا کریں تاکہ صورت حال کو معمول پر لایا جسکے ورنہ پوری دنیا کشمیری صورت حال کو دیکھ رہی ہے جو ایک عظیم جمہوری ملک کی انا کے لئے بڑا مسلہ ہے اگر ہم اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں تو ذرا غور کرین اگر ہم انسانیت سے محبت کرتے ہیں تو تنہائ میں دو گھڑی سوچیں کشمیری بھی انسان ہیں ان کے سینہ میں بھی ہماری طرح دھڑکتا ہوا دل ہے جس مین جذبات و احساسات کا سمندر موجزن ہےاس مین طغیانی بھی ہوتی اور سکون بھی ہم ان احساسات کی قدر کریں عزت کریں اور انکی ضروریات کو سمجھیں انکے مزاج و مزاق کو سمجھیں اسی اعتبار سے انکے ساتھ معاملہ کریں دنیا میں کس کا دل ایسا ہوگا جس کو کشت و خون کی ندیاں بہتی ہوئیں اچھی لگیں جسے معصموں کی کفن میں لپٹی ہوئ لاش دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جسے بھوک سے تڑپتے معصوم بچے اور حسرت بھرا اسکی ماں کا چہرا دیکھ کر سکون حاصل ہو میرے خیال سے دنیا کا کوئ شخص ایسا نہیں ہوگا مگر سوال تو یہاں پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری ظلم و ستم جھیل رہے ہیں اور ہماری زبانوں پر تالے پڑے ہیں انسانیت کے رشتہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملک کے ہر باعزت شہری کو حکومت سے سوال کرتاور کشمیریوں کی پریشانیون کے حل کے لئے سراپا احتجاج ہوجاتا افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا شاید ہمارے انسانیت کے دعوے صرف زبانی اور دکھاوٹی ہیں جہاں مفاد کی بات ہوتی وہاں ہم انسانیت کے پجاری بن جاتے ہیں ورنہ ہمارا رویہ انسانیت کے معیار پر کھرا اترنا تو دور کی بات ہے انسانیت کے قریب بھی نہیں پہونچتا فائدہ ہی شاید ہمارے لئے سب سے بڑا معیار ہے فائدہ کے پیچھے ہی ہم دوڑتے ہیں اسی کے لئے ہمارے سارے رشتے اور قرابتیں ہیں موجودہ صورت حال کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے اور یہ ایسی سچائی ہے جسکا انکار کرنے کی جسارت کسی انصاف پسند شخص کی نہیں ہوسکتی اور ہر عقلمند فرد اس حقیقت کا اعتراف کریگا ورنہ عام شہری نا صحیح ملی تنظیمیں جو ملک میں عوام کے جذبات و احساسات کی نمائیندگی کرتی ہیں وہ تو اس فریضہ کو انجام دے سکتی تھیں جبکہ انکی حالت ایسی ہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو یا کہیں خلاف معمول کوئ واقعہ پیش ہی نہیں آیا ہو فرانس میں دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو پورے ملک میں ہماری ملی تنظیمیں اسکی قباحت کو ظاہر کرنے کے لئے احتجاج کرتی ہیں بیشک یہ ایک اچھا قدم تھا انسانیت کا یہی تقاضہ تھا کہ ہمیں ان لوگون کے غم میں شریک ہونا چاہئے اور انکے درد میں ہمارے آنسو بھی بہنے چاھئے جو کہ بہے مگر اب جبکہ کشمیری پریشانی میں مبتلا ہیں کہاں ہیں ہماری ملی تمظیمں کیا ہے انکا رد عمل کیا ہے انکی سوچ اس سانحہ کے بارے میں کیا کشمیری انسان نہیں کیا انکا درد دردنہیں کیا انکی تکلیف کا ازالہ نہیں ہونا چاہئے اگر جواب ہاں ہیں تو پھر ملک کا ہر شہر مجرم ہیں ملی تنظیمین کٹہرے میں کھڑی ہیں سیاسی رہنما سوالات کے گھیرے میں ہیں آخر کیوں کشمیریوں کے مسائل کے حل وتدارک کے لئے اب تک کوئ تدبیر کیوں نہیں اور ہماری خاموشی آخر کیوں یہ تو وقت ہی بتائیگا کہ کشمیریوں کے لئے موسم بہار کب آئیگا مگر ہماری مطلب پرستی جگ ظاہر ہوگئی
rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 85154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.