MQMکے حالیہ کردار پر عوامی تاثرات۔۔۔۔۔
(Hafeez Khattak, Karachi)
متحدہ قومی موومنٹ ،ملک کی بڑی سیاسی جماعت
ہے ، جماعت کے آغاز سے اب تلک الطاف حسین اس کے قائد رہے ہیں چند روز قبل
انہوں نے برطانیہ سے کراچی پریس کلب پر ایم کیو ایم کی تادم مرگ بھوک ہڑتال
کیمپ کے شرکاء سے خطاب میں پاکستان کے خلاف باتیں کیں ، جس پر ان کے
کارکنان نے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے بعدازاں پریس کلب کے قریب واقع اک
نجی ٹی وی چینل پر حملہ کیا۔ جس سے صورتحال کشیدہ ہوئی ۔ قانون نافذ کرنے
والے اداروں کی کاروائی کے نتیجے میں بگڑتے حالات پر قابو پالیا گیا اس
دورا ن متعدد گرفتاریاں ہوئیں جن میں سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف خواجہ
اظہار الحسن اور ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینئیر اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر
فاروق ستار بھی شامل تھے۔ قائد تحریک کے اس خطاب اور ٹی وی چینل پر حملے کے
خلاف صحافی برادری، سیاسی و غیر سیاسی ،مذہبی جماعتوں سمیت حکومت نے بھی
بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا ۔ وزیراعظم و صدر نے واضح الفاظ میں کہا کہ
ملک کے خلاف کی گئی باتوں کا نوٹس لیا جائیگا اور اس حوالے سے کاروائی کی
جائے گی۔ ملک کے خلاف کی جانے والی کوئی بھی بات ناقابل قبول ہے۔ مذکورہ
واقعے کے بعد عوام کا اشتعال بھی قابل ذکر ہے ۔ ملک کی سبھی جاعتوں نے ایم
کیو ایم کے خلاف اور ملک کے لئے مظاہرے کئے ، معتدد جماعتوں نے ریلیاں
منعقد کیں جن میں عوام نے بڑے جذباتی انداز میں شرکت کی۔ ایم کیو ایم کے
قائد الطاف حسین کے اس اقدام پر پاکستان کی 18کڑور سے زائد عوام نے ایم
کیوایم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ملک کی خاطر باہم اتحاد و
اتفاق کا مظاہرہ کیا ۔
ایم کیو ایم کے قائد نے اپنی جانب سے ہونے والے اس اقدام پر معافی مانگی ۔جبکہ
23ستمبر کے دن ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستارنے ایم کیو ایم کی تاریخ سمیت
ملک کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انوکھا فیصلہ عوام کے سامنے کردیا ۔ جس پر
متحدہ کی اپنے کارکنان تک کو حیرت ہوئی ۔ انہوں نے ایم کیو ایم کی قیادت سے
الطاف حسین کو منفی کردیا اور یہ اعلان کی کہ جماعت اب پاکستان ہی سے ،
پاکستان کیلئے آگے کی جانب بڑھے گی۔ انہوں نے الطاف حسین کی جانب سے
پاکستان کے خلاف باتوں پر ، اپنے کارکنوں کے نعروں کے ساتھ نجی ٹی وی چینل
پر حملے کی پوری عوام نے معافی مانگی۔ اس کے ساتھ انہوں نے حکومت سے اپیل
کی انہیں ملک کی سیاست میں مثبت انداز میں کام کرنے کیلئے ان کے تمام سیل
شدہ دفاتر کھولنے کی بھی اجازت دی جائے۔ان کی اس پریس کانفرنس کے بھی عوام
میں کیا اثرت مرتب ہوئے اس کو جاننے کیلئے سیاسی ،سماجی ، مذہبی جماعتوں کے
رہنماؤں اور کارکنان سمیت مختلف شعبہ زندگی کے افراد نے اپنے خیالات کا
اظہار کیا جس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے ایک اپنے ہی کارکن نے کہا کہ انہیں اس جماعت میں کام
کرتے طویل مدت ہوگئی ہے تاہم قائد تحریک کا یہ کردار ان کیلئے نہایت ہی
تکلیف دہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اجداد نے اس ملک کو بنانے کیلئے
قربانیاں دیں اب یہ ممکن نہیں کہ جس دیس کیلئے انہوں نے قربانیاں دیں ہیں
اس دیس کے خلاف ہی ہم آواز اٹھائیں۔ محمد قیصر نے اپنی گفتگو کا اہتمام
پاکستان زندہ باد کے نعروں پر کیا۔
ایم کیو ایم کی ابتداء سے مخالفت کرنے والی جماعت کے کارکن عابد نے کہا کہ
ایم کیوایم کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا اور نہ اب ہونا چاہئے کیوں کہ
آپ اس بات کو دیکھیں کہ ملک کی کس جماعت میں اردو بولنے والے لوگ نہیں اور
اردو بولنے والے ہیں یا کوئی بھی زبان بولنے والے سبھی اس ملک کے حق میں
ہیں اور رہیں گے۔ لیکن ایم کیو ایم کے قائد کی تو بات ہی سے یہ واضح
ہوگیاہے کہ وہ بھارتی ایجنسی را کیلئے کام کرتا رہا ہے۔ لہذا ہمارا خیا ل
ہے کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگنی چاہئے۔ مذہبی جماعت کے ایک کارکن عزیز نے
کہا کہ ایم کیو ایم نے ماضی میں کچھ کام اچھے بھی رہے ہیں لیکن حالیہ واقعے
کے بعد ان کیلئے ہمارے دلوں میں جو مثبت جذبات تھے وہ اب نہیں رہے۔ ڈاکٹر
فاروق ستار کا حالیہ اقدام مثبت ہے۔ اس اقدام کے بعد ہمیں امید ہے کہ ایم
کیو ایم اب اپنی سیاست کی روش کو تبدیل کریگی۔ بزرگ سیاسی کارکن علی نے کہا
کہ میرا تجربہ رہا ہے کہ ملک کی سیاست میں ہر طر ح کی کاروائیاں ہوتی ہیں
ہم نے بنگال کو بنگلہ دیش بنتے دیکھا ہے اور اب جو پاکستان ہے اس میں ذرا
بھی تبدیلی نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ہی ہمیں وہ قبول ہوگی۔ پاکستان ،بزرگوں
نے اسلام کیلئے بنایاتھا لہذا اسلام کیلئے صرف مذہبی نہیں ہر سیاسی جماعت
کو کام کرنا چاہئے ۔ سیاسی جماعت کے رہنما نے اپنا نام نہ بتانے کی درخواست
پر کہا کہ انسان غلطیوں کا پتلہ ہے ۔ حکومت کو ، تمام سیاسی جماعتوں کو
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ جس طرح انہوں نے محمود خان اچکزئی
کو افغانستان میں پاکستان کے خلاف بات کرنے پر کچھ نہیں کہا اور ان کی
معذرت پر انہیں معاف کیا اسی انداز میں الطاف حسین کی باتوں پر بھی انہیں
معاف کردینا چاہئے۔ وہ برسوں سے ملک کو چھوڑ کر بیرون مک رہہ رہے ہیں وہ
وہاں جس انداز میں بھی رہیں ملک کے خلاف نہیں ہوسکتے ۔
شعبہ تدریس سے وابستہ علوی صاحب نے کہا کہ ہم ملک کی محبت کا درس دیتے ہیں
اور اس کے نتائج اچھے ہی سامنے آتے ہیں لیکن اگر اسی طرح دیگر مدرسین سمیت
سیاسی رہنما بھی کریں تو ملک کی محبت چہار سو ہوگی۔ ملک ترقی کرئے گا اور
کوئی بھی اس کے محالف نہیں ہوگا۔ سماجی کارکن فیصل نے کہا کہ ایم کیو ایم
تو ہر شعبہ زندگی میں کام کررہی ہے ان کی تنظیمیں قائم ہیں جوکہ عوام کیلئے
اپنی خدمات کو سامنے رکھتی ہیں ، خدمت خلق فاؤنڈیشن کا کام آپ کے سامنے ہے
۔ اسکے ساتھ ہی تعلیم کو عام کرنے کیلئے اور ان جانب سب کی توجہ بڑھانے
کیلئے قائد تحریک کے نام پر حیدرآباد میں اک یونیورسٹی تک زیر تعمیر ہے ۔
لہذا ملک کی محبت اپنی جگہ لیکن ملک کی محالفت پر کوئی بھی بات نہیں ہوسکتی
۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی باتیں اچھی ہیں وہ تو پہلے ہی اس تنظیم کو چلا رہے
تھے اب امید ہے کہ وہ زیادہ بہتر انداز میں اس تنظیم کو آگے لے کر بڑھیں گے۔
عبدالمجید نے کہا کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تخت
ہوا ہے ۔ یہ سب ایک ڈرامہ تھا جس پر ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے لیکر
کارکنان تک سب نے بھرپور عمل کیا ۔ ہونا کچھ بھی نہیں ہے ہوگا وہی جو پہلے
ہوتا رہا یعنی فیصلے اب بھی الطاف حسین کے ہی ہونگے۔ وقتی طور پر وہ ذرا
خاموش ہوگئے ہیں یا پھر انکو خاموشی کیلئے کہا گیا ہے۔ انہوں نے جذباتی
انداز میں مزید کہا کہ اسی الطاف حسین نے ماضی میں بھی پاکستان کے خلاف
باتیں کیں ہیں ۔ ان کے ساتھ کھڑے باسط نے کہا کہ اس نام نہاد قائد نے اپنی
زندگی میں ایک دورہ کیا وہ بھی بھارت کا جہاں جاکر اس نے جو گفتگو کی وہ
تاریخ میں اب بھی موجود ہے ۔ اس کے بعد اب جو چند دن پہلے انہوں نے ملک کے
خلاف باتیں کیں اور نعرے لگائے وہ بھی ان کے کارکنوں کے سامنے آنے کے بعد
بھی اگر وہ لوگ انہی کے رہنماؤں کو ووٹ دیتے اور اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں
تو انہیں اب شرم آجانی چاہئے اور آئندہ کیلئے ووٹ ان کو دینے چاہئیں جو اس
ملک کے وفادار ہوں۔
خاتون رہنما بشری کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ایک فرد کی جماعت ہے اس میں
کسی بھی طرح کی جمہوریت نہیں ۔ہوتا وہ ہے جو اس کا قائد چاہتا ہے ۔اس جماعت
میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہے اور اس کے رہنما و کارکنان اور انکے ساتھ ہمدردان
سبھی کی اتنی سی بھی ہمت نہیں کہ وہ ان کے سامنے اپنی بات رکھ سکیں یا ان
کی بات کو رد کرسکیں۔
صوبائی حکومت کے ملازم اشفاق منگی نے کہا کہ اس جماعت میں مصطفی کمال جیسا
ایک فرد تھا جس نے اس شہر میں کام کر کر کے چار چاند لگادیئے ۔ اس کے کامو
ں پر ایم کیو ایم تو کیا پوری قوم کو فخر تھا کیونکہ اس نے شہر کیلئے اس
ملک کیلئے کام کیا ۔ اس کی کارکردگی سے متاثر ہوکر الطاف حسین نے اسے گلے
لگایا لیکن آج وہی مصطفی کمال اس کے سامنے ایک اور جماعت بناکر کھڑا ہوگیا
ہے۔ اس نے جرائت کا مظاہرہ کیا اور اس کی جرائت کے بعد اس کے ساتھ شامل
ہونے والوں کی تعدادمیں دن رات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب جب کہ ڈاکٹر فاروق
ستار نے یہ فیصلہ کیا ہے تو امید ہے کہ اب ان کی یہ جماعت قدرے بہتر انداز
میں کام کرئے گی۔
یونیورسٹی کے طالبعلم زاہد نے کہا کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو
یونیورسٹی کے سبھی طلبہ الطاف حسین کے خلاف ہیں اس کے باعث وہ ایم کیو ایم
کے بھی خلاف ہیں۔ حالیہ جو الطاف حسین نے ملکی استحکام کے خلاف جو باتیں
کہیں ہیں اس سے پوری طلبہ برادری میں ان کے خلاف شدید غم اور غصے کی لہر
پیدا ہوگئی ہے۔ یہانتک اے پی ایم ایس او کے اپنے کارکنان بھی اپنے قائد کے
اس اقدام پر شرمندہ نظر آتے ہیں۔ طلبہ جس بھی جماعت کے ہوں جس کسی بھی پلیٹ
فارم سے متعلق ہوں وہ ملک کیلئے بے لوث خدمات سرانجام دینے کیلئے تیار ہیں
۔ اب یہ جو ایک طرح سے نئی ایم کیو ایم بن گئی ہے فاروق ستار صاحب کی قیادت
میں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے سابقہ تجربات سے سبق حاصل کریں۔ طالبہ ارم
نے کہا کہ میں ایک اردو بولنے والی فیملی سے تعلق رکھتی ہوں میرے گھر والے
کبھی کبھی ہمیں بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس ملک کو بنانے کیلئے کیا کچھ نہیں
کیا ان باتوں کو سن کر اس ملک کیلئے ہمارے جذبات اور بھی بڑھ جاتے ہیں لیکن
اب جو یہ ایم کیو ایم والوں کے قائد نے جو کہا اس پر تو ہمارے جذبات بہت
مجروح ہوئے ہیں ۔ ہم ان کی کسی بھی بات کو نہیں مانتے اور نہ ہی مانیں گے ۔
ہمارے بڑوں نے اگر پاکستان بنایاتھا تو ہم اس پاکستان کو بچائیں گے۔ ان ہی
کے ایک اور ساتھی راحیلہ نے کہا کہ پاکستان جس مقصد کیلئے بنایا تھا اس
مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہم آگے بڑھیں گے اور اپنا تن من دھن سب قربان
کردیں گے۔
عوامی رائے کا سلسلہ جاری تھا ، ہے اور ایم کیو ایم کے قائد کے اس رویئے پر
جاری رہے گا۔ مجموعی طور عوام رائے جو سامنے آئی وہ اس ملک کیلئے پرخلوص
جذبات پر مبنی اور اس ملک کیلئے کچھ کرگذرنے پر جاری ہیں اور یہی جذبات
جاری رہیں گے۔ ملک کی محبت و انسیت ایسے واقعات سے قطعی کم نہیں ہونگے بلکہ
وہ آگے بڑھیں گے ۔ چند روز قبل بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی بلوچستان کے
حوالے سے اپنے مذموم مقاصد کی بات کی تھی جس پر پوی ملک کی عوام خصوصا
بلوچستان کی عوام سڑکوں پر نکل آئی اور بھارتی وزیر اعظم کے پتلے اور جھنڈے
جلا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ جس سے نریندر مودی کو ہی نہیں پورے بھارت
کو یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ پاکستان کی عوام اپنے ملک کیلئے کس قدر جذباتی
ہے۔ اسی بناء پر رونما ہونے والی صورتحال اور اس کے بعد کے فیصلوں کو مثبت
انداز میں عوام دیکھ رہی ہے یہ امید بھی عوام رکھتے ہیں کہ اب کوئی بھی
سیاسی جماعت یا شخصیت ملک کے خلاف بات کرتے ہوئے ایک بار نہیں سو بار سوچے
گا۔ کیونکہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے اور اسکی عوام اپنا ہی نہیں
پوری امت کا اور پوری انسانیت کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرتی ہے۔ |
|