تعجیلِ حساب اور خروج دوزخ کی حدیثِ شفاعت پر آئیمہ ومحدثین کی قابلِ دید ابحاث

تعجیلِ حساب اور خروج دوزخ کی حدیثِ شفاعت پر آئیمہ ومحدثین کی قابلِ دید ابحاث

علامہ دائودی نے کہا گویا حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ کی حدیثوں کے راوی نے ان حدیثوں کی اصل کو محلوظ نہیں رکھا ، کیونکہ ان حدیثوں کا ابتدائی حصہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ شفاعت میدان محشر میں پریشان لوگوں کو محشر سے رہائی دلانے اور ان کے حساب میں تعجیل کے لئے ہے ، اور یہ شفاعت بالو جاہت ہے اور ان حدیثوں کا آخری حصہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ شفاعت گنہگاروں کو دوزخ سے نکالنے کے لئے ہے اور یہ شفاعت اس وقت ہوگی جب لوگ میدان محشر سے صراط کی طرف منتقلہ و جائیں گے اور گناہ گار صراط سے گزرتے ہئے دوزخ میں گر جائیں گے ، شفاعت بالو جاہت موقف (محشر) میں ہوگی اور دوزخ سے نکالنے کے لئے شفاعت صراط پر ہوگی اور اس حدیث میں ان دونوں شفاعتوں کا ملا دیا ہے ، حافظ ابن حجر نے کہا یہ بہت قوی اشکال ہے ۔ (التوشیح ج ٥ ص 139-140، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، 1420 ھ)

تعجیل حساب اور دوزخ سے نکالنے کی شفاعت کو خلط ملط کرنے کے اشکال کا جواب

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی 544 ھ اس اشکال کے جواب میں لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اپنے رب سے اذن طلب کروں گا تو مجھے اذن دیا جائے گا ، اس کا معنی یہ ہے کہ میں اس شفاعت کا اذن طلب کروں گا جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا اور وہی مقام حمود ہے جس کا آپ کے لئے ذخیرہ کیا ہے اور آپ کو بتایا ہے کہ آپ کو اس پر فائز کیا جائے گا ، اور حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے کہ آپ کے سجدہ کرنے اور آپ کے حمد کرنے کے بعد آپ کو شفاعت کا اذن دیا جائے گا اور آپ فرمائیں گے میری امت ، میری امت ، اور اس کے بعد حضرت حذیفہ کی حدیث میں ہے پھر لوگ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے پھر آپ کھڑے ہوں گے اور آپ کو اذن دیا جائے گا اور امانت اور رحم کو بھیجا جائے گا اور وہ صراط کی دائیں بائیں جانب کھڑے ہو جائیں ، پھر پہلا شخص صراط پر سے بجلی کی طرح سے گزرے گا پھر آندھی کی طرح گزرے گا ، پھر پرندوں یک طرح ، پھر دوڑنے والے لوگوں کی طرح ، لوگ اپنے اعمال کے اعتابر سے گزریں گے اور تمہارے نبی صراط پر کھڑے ہوں گے اور وہ کہہ رہے ہوں گے رب سلم رب سلم اے رب ! سلامتی سے گزارا اے رب ! سلامتی سے گزار ، حتیٰ کہ بندوں کے اعمال کم ہو جائیں گے ، حتیٰ ایک شخص گھسٹتا ہوا گزرے گا ، اور صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے کنڈے (ہک) لٹکے ہوئے ہوں گے اور جس کے متعلق حکم ہوگا اس کو پکڑ لیں گے ، پس بعض چھلے ہوئے نجات پائیں گے اور بعض دوزخ میں گر جائیں گے (صحیح مسلم رقم الحدیث :195) اس توجیہ سے حدیث متصل ہو جاتی ہے (گویا حضرت انس کی حدیث کے راوی نے دوزخیوں کو دوزخ سے نکالنے سے پہلے والا حدیث کا حصہ ساقط کردیا جس میں تعجیل حساب کی شفاعت اور اس کے قبول ہونے کا ذکر تھا ۔ )

کیونکہ یہی وہ شفاعت ہے جس کی خاطر لوگ آپ کے پاس آئے تھے اور یہ محشر سے راحت پہنچانے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کے لئے تھی ، پھر اس شفاعت کے بعد آپ کی امت اور گنہگاروں کے لئے شفاعت شروع ہوگی اور انبیائعلہیم السلام وغیر ہم اور فرشوتں کی شفاعت ہوگی ، جیسا کہ دوسری احادیث میں ہے اور رویت باری اور لوگوں کے حشر کی حدیث میں یہ آیا ہے کہ ہر امت اس چیز کی اتباع کرے گی جس کی وہ پرستش کرتی تھی ، پھر مومنوں کو منفاقوں سے ممتاز اور متمیز کیا جائے گا ۔ پھر شفاعت شروع ہوگی اور صراط کو رکھا جائے گا پس یہ بھی ہو سات ہے کہ پہلے مومنوں کو منفاقوں سے متمیز کیا جائے اور محشر کے خوف سے رہائی دلائی جائے اور یہی مقام محمود ہے اور جس شفاعت کا احادیث میں ذکر ہے یہ صراط پر گہنگاروں کی شفاعت ہے اور یہی احادیث کا ظاہر معنی ہے اور یہ شفاعت کا احادیث میں ذکر ہے یہ صراط پر گہنگاروں کی شفاعت ان لوگوں کے لئے شفاعت ہوگی جو دوزخ میں داخل ہو گئے اور اس طریقہ سے احادیث کے متون مجمتع ہو گیئ اور ان کے معانی مترتب ہو گئے اور مختلف نہیں ہوئے ۔ (اکمال المعلم وفوائد مسلم ج ١ 578 مطبوعہ دارالفوئا بیروت 1419 ھ)

علامہ یحییٰ بن شرف نواوی شافعی متوفی 676 ھ نے بھی اس جواب کو نقل کیا ہے ۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی ج ٢ ص 1058، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفی مکتبہ نزار مصطفیٰ مکتبہ المکرمہ 1417 ھ)

حافظ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ اس شکال کے جواب میں لکھتے ہیں :
گویا بعض راویوں نے اس چیز کو محفوظ رکھا جس کو دوسروں نے محفوظ نہیں رکھا ، اس سے متصل باب میں یہ حدیث آئے گی کہ بعض لوگ صراط سے گھسٹتے ہوئے گزریں گے اور صراط کی دونوں جانب لوہے کے کنڈے ہوں گے جن سے بعض لوگ چھل جائیں گے اور بعض لوگ آگ میں گر جائیں گے ، اس سے معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے پہلے اس لئے شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے اس کے بعد ان لوگوں کو دوزخ سے نکالنے کے لئے شفاعت کی جائے گی جو صراط سے دوزخ میں گر جائیں گے ایک حدیث میں اس کی تصریح ہے :
حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ قیامت یک دن سورج قریب ہوگا حتیٰ کہ نصف کانوں تک پسینہ پہنچ جائے گا وہ اسی حال میں ہوں گے ، پھر حضرت آدم سے فریاد کریں گے ، پھر حضرت موسیٰ سے ، پھر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر آپ شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے ، پس آپ جائیں گے حتیٰ کہ جنت کے دروازہ کی کنڈی پکڑ لیں گے ، اس دن اللہ آپ ک ومقام محمود پر فائز فرمائے گا جس کی تمام اہل محشر مدح کریں گے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1475، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث :6949)
اور امام ابویعلی نے حضرت ابی بن کعب سے رویات کیا ہے پھر میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مدح کروں گا جس سے اللہ مجھ سے رضای ہو جائے گا پھر مجھے کلام کرنے کی اجازت دی جائے گی پھر میری امت صراط سے گزرے گی ، جو جہنم کی پشتون پر نصب کیا ہوا ہوگا سو وہ گزریں گے اور مسند احمد میں ہے اے محمد آپ کیا چاہتے ہیں میں آپ کی امت کے معاملے میں کیا کروں ؟ میں عرض کروں گا ، اے رب ان کا حساب جلد لے لے ۔ (فتح الباری ج ٣ۃ ص 263، مطبوعہ دارالفکر بیروت ، 1420 ھ)

اشکال مذکور کا جواب علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کی جانب سے

حضرت انس (رض) سے جو شفاعت کی حدیث مروی ہے اس کی ابتداء میں تعجیل حساب کی شفاعت طلب کرنے کا ذکر ہے لیکن پھر اس کے بعد تعجیل حساب کی شفاعت کے بجائے دوزخ سے نکالنے اور جنت میں داخل کرنے کی شفاعت کا ذکر ہے (صحیح مسلم رقم الحدیث :193) حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث بھی اسیر حط ہے (صحیح مسلم رقم الحدیث :194) گویا کہ ان دونوں حدیثوں کے راویوں نے حدیث کے اس حصہ کو ترک کردیا جس میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعجیل حساب کے لئے شفاعت کی ہے اور اس کے بعد والا حصہ ذکر کردیا اور حضرت حذیفہ (رض) کی حدیث میں صرف اوپر والے حصہ کا ذکر ہے جب مومنین سب نبیوں کے بعد آپ سے دخول جنت کی شفاعت طلب کریں گے اور آپ ان کے لئے وہ شفاعت فرمائیں گے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :195) لیکن میرا گمان ہے کہ اس حدیث میں بھی راوی سے کچھ سہو ہو گیا ہے کیونکہ دخول جنت کی شفاعت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مختص نہیں ہے یہ شفاعت دور سے انبیاء علیہم السلام بلکہ ملائکہ اور مومنین صالحین بھی کریں گے جیسا کہ ہم شفاعت کی احادیث میں بیان کر چکے ہیں ۔

درحقیقت اس باب میں مکمل اور جامع حدیث حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ میدان محشر میں تمام لوگ تمام نبیوں سے تعجیل حساب کی شفاعت طلب کریں گے اور ان کی معذرت کے بعد سینا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شفاعت کو طلب کریں گے ، پھر میدان محشر میں اس شفاعت کو کرنے کے بعد آپ صراط پر جائیں گے اور لوگوں کو دوزخ سے نکالنے اور جنت میں داخل کرنے کی شفاعت کریں گے اور اس حدیث پر کوئی اشکال نہیں ہے ۔ ( تبیان القرآن س طہ، پ16، آیت110)
فنقول و باللہ التوفیق وبہ الاستغانۃ بلیق
سید عمادالدین مشہدی
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.