میدان محشر میں امت کا غم
(syed imaad ul deen, samandri)
ابو نضرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس
(رض) نے بصرہ میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کہا ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کے پاس ایک دعا تھی جس کو اس نے دنیا میں
خرچ کرلیا اور میں نے اپنی دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لئے چھپا کر رکھا
ہے اور میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں اور فخر نہیں اور میں سب سے
پہلے (قبر کی) زمین سےاٹھوں گا اور فخر نہیں ، قیامت کا دن لوگوں پر بہت
طویل ہوگا ۔ پس بعض بعض سے کہیں گے ، چلو آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس
جو ہر بشر کے باپ ہیں ، وہ ہمارے رب عزوجل کے پاس ہماری شفاعت کریں تاکہ
اللہ تعالیٰ ہمارا فیصلہ کرے ، پس وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں ، میں
اپنی (اجتہادی) خطا کی وجہ سے جنت سے نکال دیا گیا تھا اور آج کے دن مجھے
صرف اپنے نفس کی فکر ہے، لیکن تم نوح علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس جائو جو
تمام انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے سردار ہیں پھر لوگ حضرت نوح علیہ
الصلاۃ والسلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے اے نوح علیہ الصلاۃ
والسلام! آپ ہمارے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہمارا فیصلہ کرے ،
وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں ، میں نے یہ دعا کی تھی کہ تمام روئے
زمین کے لوگوں کو غرق کردیا جائے اور آج مجھے صرف اپنی ذات کی فکر ہے ،
لیکن تم ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس جائو ، پھر لوگ حضرت
ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے ابراہیم اپنے
علیہ الصلاۃ والسلام رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہمارا فیصلہ کرے
، سو وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں ، میں نے اسلام میں تین (ظاہری)
جھوٹ بولے تھے اور اللہ پاک کی قسم میں نے ان سے اللہ پاک کے دین کی مدافعت
اور حفاظت کی تھی وہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کا قول ہے انی سقیم
(الصفت :89) میں بمیار ہوں اور ان کا یہ قول ہے : بل کبیرھم ھذا فاسئلوھم
ان کانوا ینطقون (الانبیاء :63) بلکہ ان میں سب سے بڑا یہ ہے سو اس سے پوچھ
لو اگر یہ بات کرسکتے ہوں اور جب وہ بادشاہ کے پاس گئے تو انہوں نے اپنی
بیوی کے متعلق کہا یہ میری (یدین) بہن ہے ، اور آج کے دن مجھے صرف اپنی ذات
کی فکر ہے لیکن تم موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس جائو جن کو اللہ
تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کالم سے فضیلت دی ہے ، سو وہ ان کے پاس
جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے
اپنی رسالت اور اپنے کلام کی فضیلت دی ہے آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت
کیجیے کہ وہ ہمارا فیصلہ کر دے ، پس وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں ،
میں نیایک شخص کو بغیر قصاص کے قتل کردیا تھا اور آج مجھے صرف اپنی ذات کی
فکر ہے ، لیکن تم عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کے
پاس جائو ، تو وہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس جائیں گے اور کہیں
گے اے عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام! آپ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں تو آپ
اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہمارا فیصلہ کر دے ، وہ کہیں گے
میں اس کا اہل نہیں ہوں ، مجھے اللہ پاک کے سوا معبود بنا لیا گیا تھا ،
اور مجھے صرف اپنی ذات کی فکر ہے ، لیکن تم یہ بتائو کہ اگر کسی برتن کے
اندر کوئی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہو اور اس پر مہرلگی ہوئی ہو تو تو کیا کوئی
شخص اس برتن کی مہر توڑے بغیر اس قیمتی چیز کو حصال کرسکتا ہیڈ لوگوں نے
کہا نہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے کہا (سیدنا) محمد (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبین علیہ الصلاۃ والسلام ہیں اور آج وہ موجود ہیں
، اللہ پاک نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اولیٰ کا موں کی
مغفرت کر دی ہے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر لوگ
میرے پاس آ کر کہیں گے یا محمد علیہ الصلاۃ والسلام! اپنے رب کے پاس ہماری
شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہمارا فیصہل کردے ۔ پس میں کہوں گا کہ میں ہی اس شفاعت
کے لئے ہوں حتیٰ کہ اللہ عزوجل اجازت دے ، جس کے لئے وہ چاہے اور جس سے وہ
راضی ہو ۔ پس جب اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق میں اعلان کرنے کا ارادہ فرمائے
گا تو ایک منادی ندا کرے گا ، احمد علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کی امت کہاں
ہے۔ پس ہم ہی آخر اور اول ہیں ، ہم آخری امت ہیں اور ہم ہی پہلے وہ ہیں جن
کا حساب لیا جائے گا ۔ پھر ہمارے راستے سے تمام امتوں کو ایک طرف کردیا
جائے گا اور ہم اس کیفیت کے ساتھ گزریں گے کہ ہمارے چہرے اور ہمارے ہاتھ
اور پیر و ضو کے آثار سے سفید اور چمکدار ہیں گے ، اور ہمیں دیکھ کر تمام
امتیں یہ کہیں گی لگتا ہے اس ساری امت میں نبی ہیں ، (یہاں تک یہ ذکر ہے کہ
ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعجیل حساب کی شفاعت کی اور سب سے
پہلے آپ کی امت کا حساب لیا گیا اور اس کے بعد دوسری شفاعت کا ذکر ہے جو آپ
گناہگاروں کو دوزخ سے نکالنے کے لئے کریں گے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر میں جنت کے دروازہ پر آئوں گا اور دروازہ کی کنڈی
کو پکڑوں گا ، پس دروازہ کھٹکھٹائوں گا ۔ سو پوچھا جائے گا آپ کون ہیں ؟
میں کہوں گا محمد ۔ سو میرے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا ۔ پھرمیں اپنے رب
عزوجل کو دیکھوں گا وہ کرسی یا عرش پر ہوگا،میں اس کے سامنے سجدہ میں گر
جائوں گا اور ایسے کلمات حمد کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جن کلمات حمد سے
مجھ سے پہلے کسی نے حمد کی تھی اور نہ میرے بعد کرے گا، پھر مجھ سے کہا
جائے گا اپنا سر اٹھایئے اور کہئے آپ کی بات سنی جائے گی ، سوال کیجیے آپ
کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ میں کہں
گا اے میرے رب میری امت ، میری امت ! پس کہا جائے گا ان تمام کو دوزخ سے
نکال لیجیے ، جن کے دل میں اتنا ایمان ہو ، سو میں ان کو نکالوں گا ۔ آپ نے
فرمایا پھر تیسری بار بھی اسی طرح ہوگا ۔ (مسند احمد ج ١ ص 295، طبع قدیم ،
مسند احمد رقم الحدیث :2692، 2546، طبع جدید عالم الکتب بیروت ، حافظ احمد
شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث :2546،
دارالحدیث قاہرہ ، مسند الطیالسی رقم الحدیث :2711، مصنفا بن ابی شیبہ ج ١٤
ص 135، مسند ابویعلی رقم الحدیث :2388، مجمع الزوائد ج 10 ص 372-373)
سید عمادالدین مشہدی |
|