روائیت شکن بیٹا
(Shahzad Hussain Bhatti, Attock)
پاکستان کے مختلف علاقوں کے جہاں رَسم و
رواج مختلف ہیں وہیں انکی سیاست کا انداز بھی مختلف ہے۔ لاہور جسے پاکستانی
سیاست کا کعبہ کہا جاتا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ ہر بڑی اور کامیاب سیاسی
تحریک کا خمیر لاہور سے اُٹھا۔ تحریک انصاف اورپاکستان عوامی تحریک نے
وفاقی دارلحکومت کو یرغمال بنا کراور شاہراہ دستور پر طویل ترین دھرنے دے
کرشایداس سیا سی تاریخ کو بدلنا چاہا لیکن نتیجہ یہی نکلا۔دھات کے تین پات۔
طویل ترین خواری تجربات کے بعد اب دونوں سیاسی کزنز نے بھی اس حقیقت کو
تسلیم کر لیا ہے کہ سیاسی تحریک کی کامیابی کا راز لاہور کی گلیوں میں دفن
ہے۔ اورشاید یہی وجہ ہے کہ کل تک قومی اسمبلی اور وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھ
دوڑنے کے بیانات دینے والوں نے اب اپنی تحریکوں کو رُخ داتا کی نگری کی طرف
موڑ دیا ہے۔
لاہور کی سیاست کے اپنے رنگ ہیں اور ان رنگوں کی خوشنمائی عوامی خدمت میں
پوشیدہ ہے۔ یوں تو لاہور کے کئی قابل قدر سیاسی کردار ہیں جنکی عظمت مُورخ
کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔ تاہم ان ناموں میں ایک بہت قدآور نام خواجہ
رفیق شہید کا ہے جنکو لاہور کے لوگ انکی اسلام پسندی،دَرد مندی اور عوامی
خدمت کی بنا پربُتوں کی طرح پوجھتے ہیں۔ انکے حوالے سے جب بھی لاہور جانا
ہو، کسی عوامی محفل میں بیٹھیں، صحافی دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگائیں یا حلقہ
ادب میں گفت و شنید ہو، ایسے واقعات سُننے کو ملتے ہیں کہ بسا اوقات وہ
مافوق الفطرت کردار دیکھائی دیتے ہیں۔یار دوست کہتے ہیں کہ خواجہ رفیق
سیاسی درویش تھے۔ حَرس اُن کو چُھوکے بھی نہ گذری تھی۔ ہر وقت دوسروں کی
خدمت کے لیے کوشاں رہتے بلخصوص جب کوئی بے روزگار نوجوان ان تک پُہنچتاتو
وہ اُس کو روزگار دلانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا کرتے ۔ سیاست کو
کاروبار سمجھنے والے عناصر ہر دور میں موجود ہوتے ہیں جو اپنی چکنی چُپڑی
باتوں سے سیاسی قائدین کو اپنے جال میں اُتارتے ہیں اور کرپشن کی ایک ایسی
دلدل میں گھسیٹ دیتے ہیں جہان سے شاید وہ پوری کوشش کر کے بھی عمر بھر
خلاسی حاصل نہیں کر پاتے۔خواجہ رفیق کو ایسے عناصر سے سخت نفرت تھی اور یہی
وجہ تھی کہ انہوں نے انتہائی مفلوک الحالی میں وقت گُزارہ لیکن کرپشن کی
سُنڈیوں اور سیاسی جی حضوروں کو کبھی اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔ یہ سیاسی
درویش اپنی آخری سانسوں تک اس پاک دھرتی پر اسلامی نظام کے حصول کے لیے جنگ
لڑتا رہا۔
وقت بدلا، اقدار بدلیں، سیاست دولت کی لونڈی بن گئی۔ پھر چشم فلک نے ایک
عجیب منظر دیکھا۔ عظمت کے اس عظیم مینار کا سپوت خواجہ سعد رفیق اس روش پر
چل نکلا جس کو پاش پاش کرنے کے لیے خواجہ رفیق نے ساری عمر جدوجہد کی تھی ۔
یہ تبدیلی کیوں آئی؟ اسکے پس منظر کہانی کیا ہے ؟ اسکے درپردہ کون سے عناصر
کار فرما ہیں اور اس بارے میں میں وثوق سے کچھ نہیں کہ سکتا لیکن قیاس کیا
جاتا ہے کہ شاید حَرس، ہوس اور تمہ کی تند وتیز آندھیوں نے اس نوجوان کو
ڈگمگا دیا ہو۔پاکستانی سیاست میں 1988کی دہائی کے بعد جس طرح پیسے کی
شمولیت آئی شاید وہ بھی اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ رہی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے
کہ جس شخص کا باپ لوگوں کے باعزت روزگار کے لیے دَردَر دھکے کھاتا تھا اس
کے بیٹے نے وفاقی وزیر ریلوے کا قلمدان سنبھالتے ہی سینکڑوں ملازمین کو
مختلف حیلے بہانوں سے ملازمت سے برخاست کروایا۔ ریلوئے کے سب سے منافع بخش
یونٹ پاکستان ریلوئے ایڈوائیزی اینڈ کنسلٹینسی سروس میں ایک سازش کے تحت
بدنام زمانہ افسرآفتاب اکبر کوبطور ایم ڈی تعینات کیا۔ زمینی حقائق یہ عیاں
کرتے ہیں کہ وزیر موصوف اس منافع بخش یونٹ کو تالے لگانے کاپورا پورا
پروگرام بنا چکے تھے۔ اس ادارے کے بے پناہ وسائل کو بے دری سے لوٹنے کا
آغاز ہوا تا ہم خوش قسمتی سے ادارے کے ہی ایک ملازم نے آفتاب اکبر کے خلاف
ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت کے حکم پر اُسے چار
ج چھوڑنا پڑا ۔ بعد میں آنے والے ایم ڈی صاحبان نے بھی اس کار خیر میں پورا
پوراا حصہ ڈالا لیکن شاید اُنکی کارکردگی آفتاب اکبر کے عشرِعشیر بھی نہ
تھی۔ چنانچہ ایک بار پھر پاکستان ریلوے ایڈوائیزی اینڈ کنسلٹینسی سروس کے
تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے دوبارہ آفتاب اکبر کو ایم ڈی تعینات کر
دیا گیا۔
آفتاب اکبر نے ایک مخصوص ٹولے کی بھرپور سرپرستی اور ادارے کے مفاد میں کام
کرنے والے ملازمین کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ ادارے میں کام کرنے والی
باپردہ خواتین کی زندگی بھی اجیرن بنا دی اوریہ سارے واقعات اسکے پہلے دور
تعیناتی میں خبروں کا حصہ رہے۔ریلوئے میرج گارڈن کی تنزین وآرائش میں لوٹ
مار، گارگو کے ٹھیکیدارکو سوا کروڑ کی غیر قانونی معافی، تین سو سے زائد
دکانوں کی تعمیر کا مارکیٹ پرائس سے بھی بھی انتہائی مہنگے داموں دئیے جانے
والا ٹھیکہ اور ایسی ہی بے شمار کرپشن کی کہانیاں زبان زد وعام ہیں۔
پاکستان ریلوئے ایڈوائیزی اینڈ کنسلٹینسی سروس کے ملازمین کو مختلف حیلے
بہانوں سے جس طرح ملازمت سے برخاست کیا جا رہا ہے اور من پسند ریلوئے
افسران کو جس طرح یہاں تعینات کرکے ادارے کا بُھرکس نکالا جا رہا ہے اسکو
دیکھتے ہوئے کوئی سطحی سوچ کا حامل شخص بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ پس پردہ
عزائم کیا ہیں۔
میں سوچ رہا ہوں کہ کل جب اقتدار کا سورج ڈھل جائے گا اور یہ واقعات تاریخ
کا حصہ بن جائیں گے تو مورخ کو اس روائیت شکن بیٹے کی داستاں لکھتے ہوئے کس
قدر تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ باپ جسے دنیاوی لالچ چھو کر بھی نہیں
گُزرا اور بیٹا جس کا یہ اولین منشور بن گیا ہے کہ اس نے گھروں کے چولہے
سرد کر نے کا ٹھیکہ لے لیاہو۔ باپ جسکی ساری عمر اسلام کی سربلندی کے لیے
لڑتے ہوئے گزر گئی اور بیٹا جسکی وزارت میں باپردہ خواتین کے لیے روزگار کے
مواقع بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔ باپ جو کرپٹ عناصر کو اپنے قریب نہیں بھٹکنے
دیتا تھا اور بیٹا جسکے تمام بدنام افسران ناک کا بال ہیں۔ مورخ کو اس وزیر
موصوف کا نام خواجہ رفیق کے ساتھ جوڑتے ہوئے سخت دقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شاید تاریخ اسے خواجہ سعد رفیق نہیں صرف سعد کے نام سے ہی جانے کیونکہ
خواجہ رفیق کا نام اتنا معتبر ہے کہ وہ کسی ایسے نام کے ساتھ جوڑنا مورخ کے
لیے ممکن نہیں ہو گا۔اپنے والدین اور خاندان کی روائیات کو زندہ کھنے والے
بیٹے تو تاریخ نے بہت دیکھے ہونگے لیکن اپنے باپ کی اچھی روایات توڑنے والا
یہ روائیت شکن لاڈلا بیٹا شاید ایک ہی ہو۔ |
|