جماعت کے معاملات پہلے جیسے ہی چلتے رہیں گے

سب سے پہلے’مائنس الطاف حسین ‘ رچنے والا ڈرامہ عامر لیاقت حسین نے سب کے سامنے عیاں کرتے ہوئے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔یہ ایم کیو ایم کے وہی رہنما ہیں جن کا دل پارٹی کی محبت سے کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اورتو اوریہ حضرت پارٹی کے خلاف بات کرنے والوں پر برس پڑتے تھے اور پھر اس کو یقین کی سیڑھی پر واسع جلیل نے چڑھایا۔ہوا یوں کہ جب ایم کیو ایم کے قائد کی پاکستان نفرت تقریر اور میڈیا پر حملوں اور کشیدگی بڑھنے پر دھڑا دھڑ گرفتاریوں کا عمل شروع ہوا تورہائی ملنے کے بعد ایم کیو ایم نے انتہائی قدم اْٹھانے کافیصلہ کرلیااور پریس کا نفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی رجسٹر سیاسی جماعت ہے اوروہ یہاں کے قانون اور آئین کا احترام کرتی ہے تو اس کا انتظام بھی پاکستان سے چلنا چاہیے اور اگر ذہنی تناؤ یا کسی بھی وجہ سے جماعت کے قائد الطاف حسین ’پاکستان مخالف‘ بیانات دے رہے ہیں تو پہلے یہ معاملہ حل ہونا چاہیے، پیر کو ایم کیو ایم کی تقریب میں ریاستِ پاکستان کے حوالے سے جو نعرے لگے اور باتیں ہوئیں وہ نہیں ہونی چاہیے تھیں لہذا اب ایم کیو ایم کے انتظامات پاکستان میں ہی سنبھالے جائیں گے اورہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے یہ بات دوہرائی نہ جائے،اگر قائد کو ذہنی تناؤ یا دباؤ کا کوئی مسئلہ ہے تو اسے پہلے حل ہونا چاہیے ،جب تک یہ مسئلہ ہے، فیصلے ہم کریں گے، فیصلے یہاں ہوں گے اور ایم کیو ایم یہاں سے آپریٹ کرے گی۔ ان کا یہ پیغام یہاں کے لیے بھی ہے اور وہاں (لندن) کے لیے بھی ہے۔اس پر عا مر لیا قت نے یہ کہہ کے پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا کہ پارٹی کا سسٹم پہلے جیسا ہی ہے کچھ بھی نہیں بدلا اسی لیے میں پارٹی سے الگ ہو رہا ہوں۔ اور پھر اس ڈرامے سے پردہ واسع جلیل کے بیان نے ہٹایا، واضح رہے کہ واسع جلیل پاکستان کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے لندن میں موجود رہنما ہیں انہوں نے تمام معاملے پر حتمی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جماعت کے فیصلوں کی توثیق پہلے بھی قائد الطاف حسین کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی وہ ہی کریں گے مزید یہ کہ فاروق ستار کے پریس کانفرنس کرنے کے فیصلے کے بارے میں لندن میں موجود قیادت کو پہلے سے علم تھا۔رابطہ کمیٹی پاکستان اور رابطہ کمیٹی لندن کے اراکین کسی بھی مسئلے پر تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں اور جب بھی کوئی فیصلہ لینا ہوتا ہے تو یقیناً اس پر الطاف بھائی کی توثیق لی جاتی ہے اور یہ توثیق پہلے بھی لی جاتی تھی اور لی جاتی رہے گی اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔‘فاروق ستار پیر کی رات حراست میں تھے اور ہو سکتا ہے کہ ان کو بہت ساری باتوں کا علم نہ ہو۔’فیصلے ہم کریں گے، فیصلے یہاں ہوں گے اور ایم کیو ایم لندن سے آپریٹ کرے گی‘ جماعت کے معاملات جیسے پہلے چلتے تھے ویسے ہی چلتے رہیں گے اور کل اگر دوبارہ اپنے کارکنوں سے خطاب کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔’اس میں کوئی ابہام نہیں ہے اور ایم کیو ایم کا پورا ڈھانچہ موجود ہے، الطاف بھائی یہاں موجود ہیں اور جہاں الطاف بھائی ہوں گے وہ سیکریٹریٹ کہلائے گا اور جب جب ہمیں ان سے رہنمائی اور توثیق لینی ہو گی ہم لیتے رہیں گے۔ لہذاتوثیق بھی الطاف حسین کریں گے اور، فیصلے بھی۔ اور فاروق ستار کچھ بھی نہیں ہیں۔‘عامر لیاقت نے مزید کہا ہے کہ واسع جلیل جو کہہ رہے ہیں وہ ہی حقیقت ہے۔ویسے کمان فاروق ستار کے سنبھالنے سے سسٹم اور چیزوں میں تبدیلی آنی چاییے مگرایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔جہاں فاروق ستار کی پریس کانفرنس کرنے کے بعد مائنس الطاف حسین کے خواب کو تعبیر ملتی دکھائی دینے لگی تھی وہیں واسع جلیل اورفاروق ستار کے بیانات نے سب پر عیاں کر دیا کہ دونوں کے بیانات میں کس قدر تضاد پایا جا رہا ہے۔

الطاف حسین جن کا شمار پاکستانی سیاست کی ایک متنازع شخصیت کے طور پر ہوتا ہے جن کے چاہنے والے اور مخالفین دونوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں لیکن وہ جمہوری حکومت میں فوج کے محدود کردار کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ وہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں لیکن پاکستان کے مخصوص سماجی ڈھانچے میں انکے ساتھ اتحاد کرکے حکومت میں بھی شمولیت اختیار کرنے پر مجبور ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ الطاف حسین نہایت کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں، جنہیں اپنی جماعت کے کارکنوں کی انتہائی جذباتی حمایت حاصل ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس نے جماعت کو ایک قیادت تلے مضبوطی سے باندھے رکھا۔1990 میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں الطاف حسین ملک سے باہر چلے گئے اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔ایم کیو ایم کی ایک بڑی پہچان اور حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کو اور اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے تشدد کا حربہ استعمال کرتی ہے۔ایک عرصہ سے انہیں ’’را‘‘ کا ایجنٹ بھی قرار دیا جا رہاہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ پاکستان مخالف پسندوں کے دوست ہیں اور اس کا ثبوت بھی انہوں نے 22اگست کی شام واشگاف الفاظ میں دے دیا ۔واضح رہے کہ وہ ایک عرصہ سے اسی کوشش میں سر کرداں تھے کہ ایم کیو ایم اداروں اور فوج کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اوروہ عالمی ایجنڈے پر عمل کر سکیں۔قصہ مختصر کہ کراچی آپریشن اور رینجرز کا ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیاں کرنے اور کارکنوں کو پکڑنے اورلاپتہ ہونے کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ کو6روز ہی ہوئے تھے، بھوک ہڑتالی کیمپ کی خبریں اندرون اور بیرون ملک بھی گردش کر رہی تھی اور یہ ایک ایسا بھوک ہڑتالی کیمپ تھا جہاں کراچی پریس کلب کے اندر تو ہڑتال ہو رہی تھی اور کیمپ سے پیچھے کھابے چل رہے تھے۔کھانے سے فارغ ہو کر ہڑتالی جئے مہاجر ،جئے الطاف حسین کے نعرے لگاتے گھروں کو رخصت ہو جاتے تھے ۔مگر الطاف حسین کا خطاب کسی کو بھی نشر کرنے پر پیمرا کی طرف سے پابندی تھی۔ تو پھر کیا !۔۔۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الطاف حسین نے پاکستان دشمنی کا ثبوت تقریر کے ذریعے دیا اور ان کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ہر کسی کو ہی اس بات کا یقین تھا کہ الطاف حسین کی یہ تقریر ایم کیو ایم کارکنان کے خلاف ریاستی ادارے کی کارروائیوں کے لیے ایک مضبوط جواز بن سکتی ہے۔شہر قائد کے جنوبی اضلاع میں پر تشدد واقعات اور جلاؤ گھیراؤ کے کچھ ہی دیر بعد الطاف حسین کی تقریر کے کچھ حصے سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگے، جن میں دیکھا گیا کہ پریس کلب کے باہر 'کارکنوں کی گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل' کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے ایم کیو ایم کارکنوں سے بذریعہ ٹیلی فون خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے نہ صرف پاکستان مخالف نعرے لگائے بلکہ ملک کو پوری دنیا کے لیے ایک’ناسور‘ بھی قرار دیا۔الطاف حسین کا کہنا تھا، ’پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک عذاب ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے دہشت گردی کا مرکز ہے، اس پاکستان کا خاتمہ عین عبادت ہے، کون کہتا ہے پاکستان زندہ باد، پاکستان مردہ باد'۔لندن میں جلاوطنی کاٹنے والے الطاف حسین نے بعد ازاں اپنے کارکنوں سے بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کرنے کے بعد ان کے اگلے اقدام کے بارے میں پوچھا، جن سے پر تشدد واقعات کی جانب اشارہ مل رہا تھا۔الطاف حسین نے پوچھا، 'تو کیا تم لوگ یہاں سے اے آر وائی اور سماء(کے دفاتر) جارہے ہو؟ جس پر حاضرین نے یک زبان ہوکر باآواز بلند اثبات میں جواب دیا۔ متحدہ قائد نے مزید کہا ، 'تو آج تم لوگ سماء اور اے آروائی جارہے ہو اور پھر کل اپنے آپ کو رینجرز ہیڈکوارٹرز جانے کے لیے تیار کرو، کل ہم سندھ سیکریٹریٹ کی عمارت کو تالا لگوا دیں گے'۔ان ہدایات نے کارکنوں خصوصاً خواتین کو اْکسایا، جن کی آوازیں واضح طور پر مائیکروفون پر سنی جاسکتی ہیں، جو نعرے لگارہی تھیں، ’’بھائی کا ہو ایک اشارہ، حاضر حاضر لہو ہمارا‘‘۔مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اے آر وائی کے دفتر پر حملے اور توڑ پھوڑ سے قبل کارکنوں نے الطاف حسین سے بذریعہ ٹیلی فون براہ راست بات چیت بھی کی۔ایک خاتون کو کہتے ہوئے سنا گیا، ’’بھائی ہمیں بس آپ کا اشارہ چاہیے اور کچھ نہیں‘‘، جس پر انھیں الطاف حسین کی جانب سے جواب ملا، ’’بسم اﷲ، بسم اﷲ، بسم اﷲ‘‘۔الطاف حسین کے اس جواب کے بعد سیکنڈوں میں مظاہرین کھڑے ہوئے اور اپنے قائد اور پارٹی کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے بھوک ہڑتالی کیمپ سے روانہ ہوگئے، اس موقع پر مختلف خواتین کی جانب سے الطاف حسین کو مائیکروفون پر اپنے اقدام کے حوالے سے بتایا جاتا رہا۔ایک خاتون نے کہا، 'بھائی ہم یہاں سے اے آر وائی اور سماء جارہے ہیں، آپ فکر نہ کریں ہم خود انصاف حاصل کرلیں گے اس کے نتیجے میں مشتعل کارکنان نے ریڈ زون کے قریب ہنگامہ آرائی کی اور نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے دفتر میں گھس کر نعرے بازی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی جبکہ فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔اس دوران مشتعل افراد کی بڑی تعداد زینب مارکیٹ کے اطراف موجود تھی جنہیں گورنر ہاؤس کی جانب جانے سے روکنے کیلئے پولیس نے شیلنگ کی ۔بعد ازاں اشتعال انگیز تقریر میں سہولتکاری اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ اس حملے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو حراست میں لینا شروع کردیا تھا اور سب سے پہلے رکن قومی اسمبلی فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو کراچی پریس کلب کے باہر سے حراست میں لیا گیا تھا۔دونوں رہنما پریس کانفرنس کے لیے وہاں پہنچے تھے تاہم رینجرز اہلکاروں نے انہیں پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں دی اور اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ رینجرز نے جن رہنماؤں کو حراست میں لیا تھا ان میں فاروق ستار، عامر لیاقت، خواجہ اظہار الحسن، عامر خان، خواجہ سہیل، اشرف وہرا، کنور نوید جمیل، شاہد پاشا، قمر منصور اور وسیم احمد شامل تھے۔اس سے اگلا ڈرامہ الطاف حسین نے یہ رچایا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بشمول آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور پاکستان کے خلاف الفاظ استعمال کرنے پر معافی مانگ لی اور معافی نامے میں الطاف حسین کا کہنا تھا کہ 'وہ اپنے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل، مسلسل گرفتاریوں اور ان کی مشکلات دیکھ کر شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے اور بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے ساتھیوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے ان کا ذہنی تناؤ مزید بڑھ گیااور ٹیلیفونک خطاب میں پاکستان کے خلاف جو الفاظ استعمال کیے، وہ انتہائی ذہنی دباؤ کے نتیجے میں کہے گئے تھے جو مجھے ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہیے تھے،پاکستان کے عوام، اسٹیبلشمنٹ، فوج، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، تمام ارباب اختیار اور حکمرانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ میری جانب سے ایسے الفاظ ہرگز استعمال نہیں ہوں گے،اب الطاف حسین عرف بھائی کو کون سمجھائے کہ ان کی ملک دشمن پالیسی سب کے سامنے آ چکی ہے معافی مانگنے سے ان الفاظ کو جو انہوں نے پاکستان کے خلاف ادا کئے کبھی فراموش نہیں کئے جا سکتے،اورویسے بھی انہوں نے ملک کے خلاف تقریرپہلی بار نہیں کی اور نہ ہی ایم کیو ایم کی طرف سے میڈیا پرحملے پہلی بار کئے گئے تو پھر اس سارے ڈرامے کا مقصد کیا تھا ۔تو واضح رہے کہ معافی مانگنے سے ملک کا دشمن ،دوست نہیں بن جاتا،اور نہ ہی الطاف حسین کی محبت میں پاکستان مخالف نعرے لگانے والے کارکنان ملک پاکستان کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ اس بابت سنجیدگی سے سوچا جائے،کیونکہ کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی اور ایسے لوگ سے خیر کی امید کرناسراسر بے وقوفی ہو گی۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.