یونیورسٹی کے ہر شعبے کی عمارت سے منسلک
ایک پارکنگ ایریا ہے جہاں اس شعبے کے اساتذہ اور طلباء و طالبات اپنی
گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں کھڑی کرتے ہیں۔ نوجوان لیکچرر کی صبح صبح کلاس
تھی۔ پارکنگ ایریا میں اس نے گاڑٰ ی پارک کی اور تیزی سے کلاس لینے اپنے
شعبے میں چلی گئی۔ اس نے دو ڈھائی سال پہلے اسی شعبے سے ایم ایس سی کی تھی
اور آج کل اسی شعبے میں ریسرچ کرنے کے ساتھ ساتھ پڑھا بھی رہی ہے۔ ایک
پرانی اور چھوٹی سوزوکی گاڑی اس کے پاس ہے جس پر وہ گھر سے یونیورسٹی آتی
اور جاتی ہے۔ ہر روز کی طرح آج بھی وہ یونیورسٹی موجود تھی اور کلاس پڑھا
رہی تھی۔ اس کے یونیورسٹی آنے کے آدھ گھنٹہ بعد ایک شخص چار پانچ اینٹیں
اٹھائے آیا اردگرد نگاہ ڈالی اور اینٹیں اس کی گاڑی کے پاس رکھ کر چلا گیا۔
کوئی پندرہ منٹ بعد وہ پھر آیا۔ اب اس کے پاس گاڑی کا پہیہ کھولنے کا مکمل
سامان تھا۔ اس نے جیک لگا کر گاڑی کو اونچا کیا۔ گاڑی کے نیچے اینٹیں
لگائیں، جیک واپس نکالا، پہیہ کھولا اور پھر پہیہ اور پہیہ کھولنے والا
سامان اٹھا کر غائب ہو گیا۔
دو گھنٹے پڑھانے کے بعد نوجوان لیکچرار کلاس روم سے باہر نکلی۔ برآمدے میں
گزرتے ہوئے ایک ساتھی نے پوچھا کیا گاڑیٰ کا پہیہ پنکچر ہو گیا ہے؟ اس نے
جواب دیا کہ نہیں۔۔۔۔ تو پھر گاڑی اینٹوں پر کیوں کھڑی ہے؟ میری گاڑی؟ وہ
تو ٹھیک ہے۔ اینٹوں پر کیوں ہو گی۔ میں خود دیکھ کر آ رہی ہوں۔ نوجوان
لیکچرار پریشان ہو کر پارکنگ ایریا میں پہنچی۔ واقعی گاڑی اینٹوں پر کھڑی
تھی اور پہیہ غائب تھا۔ بہت سے دیگر شاگرد بھی اکٹھے ہو گئے۔ فالتو پہیہ
نکالا گیا مگر چور نٹ بھی ساتھ لے گیا تھا۔ شاگردوں نے فوراً بھاگ دوڑ شروع
کی اور بازار سے نئے نٹ خرید کر لے آئے۔ اب فالتو پہیہ چوری ہونے والے پہیے
کی جگہ فٹ کیا گیا اور ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت کے بعد گاڑی چلنے کے قابل
ہوئی۔
بازار سے نٹ بولٹ خرید کر لانے پر جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ خرچ ہوا اگر کوئی
پاگل مشورہ دینے آ جاتا تو بچایا جا سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک نہر کے
کنارے کھڑی گاڑی پنکچر ہو گئی۔ گاڑی کے مالک نے پہیہ کھولا، ڈگی میں سے
فالتو پہیہ نکالا، خراب پہیہ ڈگی میں رکھا اور اس کی جگہ فالتو پہیہ لگانے
لگا تو پتہ چلا کہ اس دوران نٹ کھسک کر نہر میں گر چکے ہیں۔ اب گاڑی کا
مالک مزید پریشان ہوا کہ نٹ نہ ہونے کی وجہ سے پہیہ کیسے لگے گا۔ سامنے ہی
پل پر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک پاگل آدمی ساری صورتحال دیکھ رہا تھا۔ وہ
چلتا ہوا آیا اور گاڑی کے مالک کو کہا چاروں نٹ گر گئے ہیں تو بھی فکر نہ
کرو۔ ہر پہیے کا ایک نٹ کھول کر تین نٹ لگا کر یہ پہیہ فٹ کر لو۔ تین نٹ
بھی لگے ہوں تو پہیے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاگل کی بات سن کر گاڑی کا
مالک حیران رہ گیا اور بولا تم ۔۔۔ تم تو پاگل ہو۔ پاگل نے جواب دیا۔ پاگل
ہوں بیوقوف نہیں ہوں۔ سو وہاں بھی اس مشقت سے بچاؤ کے لئے ایک پاگل کی شدید
ضرورت تھی۔
میری وہ ساتھی لیکچرار مجھے بتا رہی تھی کہ میری پرانی گاڑی کا وہ پہیہ بہت
پرانا تھا اور اس کا ٹائر انتہائی گھسا ہوا تھا جس کی مالیت چھ سات سو روپے
سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اتنی معمولی قیمت کی چیز کو اتنے سارے لوگوں کی
موجودگی میں لے کر جانا تو بہت بڑا رسک ہے۔ مگر کسی نے یہ رسک کیوں لیا۔
سمجھ نہیں آتی۔ پھر یونیورسٹی ایریا میں ایسی چوری بڑی زیادتی ہے۔ میں
سمجھتا ہوں کہ ایسی چوری تو کسی کی انتہائی غربت اور بے بسی کا اظہار ہے۔
یقینا کسی کے پاس اس لیکچرار سے بھی پرانی گاڑی ہو گی جس کا ٹائر اور بھی
زیادہ گھسا ہو گا بلکہ جواب دے گیا ہو گا۔ غربت اور بے بسی نے اسے مجبور
کیا کہ یہ کام کرے۔ چند سال پہلے تک مسجدوں میں جوتے چوری کی وارداتیں عام
تھیں۔ وہ غریب لوگ جن کے پیروں میں جوتے اور جیب میں جوتے خریدنے کی رقم
نہیں ہوتی تھی مجبور ہو کر مسجد چلے جاتے۔ جب نمازی حضرات نماز میں مشغول
ہوتے وہ اپنے پیر کے سائز کی جوتی پہنتے اور یہ جا وہ جا۔ نمازی حضرات نماز
سے فارغ ہوتے اور گھر لوٹنے لگتے تو پتہ چلتا کسی کی جوتی غائب ہے۔ فوری
طور پر گھر سے دوسری جوتی منگوائی جاتی اور لوگ ہنستے ہوئے جوتی چور کو
بھلا برا کہتے گھروں کو لوٹ جاتے۔
آج جوتی چوروں کا دور ختم ہو چکا ہے مگر یہ پہیے کی چوری کی واردات جو جوتی
چوری ہی کے مترادف ہے واقعی عجیب ہے۔ جوتی چور پرانے دور کا آرٹ ہے وہ
چوہدریوں کا دور تھا اب بٹ صاحبان کا دور ہے۔ اب جوتی نہیں مسجد نما پوری
عمارتیں ہی چوری ہو جاتی ہیں اور اس بڑی چوری کو کوئی چوری مانتا بھی نہیں۔
ایک سابق گورنر کی صاحبزادی سے ملاقات ہوئی۔ بتانے لگیں کہ آج سے پچیس تیس
سال پہلے جب والد صاحب گورنر تھے تو میں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے باہر
داخلہ لے دیں تو ابا جان ناراض ہو گئے کہ میری انکم دیکھ رہی ہو اور پھر
بھی ایسی بے جا خواہش کر رہی ہو۔ تمہاری عمر کی بچیوں کو ماں اور باپ کے
وسائل اور حالات سے باخبر ہونا چاہئے۔ مگر آج کے سیاستدان اپنے بچوں کو
پاکستان میں تعیلم دلوانا اپنی توہین خیال کرتے ہیں اور بیرون ملک تعلیم پر
بہت زیادہ سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ اتنا زیادہ سرمایہ جو ان کے لئے معمولی
رقم ہوتی ہے جائز ذرائع سے ممکن ہی نہیں یہ چور ہیں ڈاکو ہیں۔ دن دھاڑے
چوری کرتے ہیں ڈاکے ڈالتے ہیں اور کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔پڑھنے جانے
والے بچے کبھی واپس نہیں آتے۔ ماں باپ اپنی حرام کی کمائی بھی بیٹوں کو
منتقل کر دیتے ہیں اور فراغت ملنے پر خود بھی وہیں چلے جاتے ہیں
سیاستدانوں کی مالی کرپشن بھی چوری ہی کی ایک سنگین قسم ہے۔ یہ چوری
پاکستان میں اب بہت عام ہے۔ ۲۰۰۹ء میں پاکستان ۱۸۰ ملکوں میں کرپشن کے لحاظ
سے ۱۳۹ ویں نمبر پر، ۲۰۱۰ء میں ۱۷۸ ملکوں میں ۱۴۳ نمبر پر، ۲۰۱۱ء میں ۱۸۲
ملکوں میں ۱۳۴ نمبر، ۲۰۱۲ء میں ۱۷۳ ملکوں میں ۱۳۹ نمبر پر اور ۲۰۱۳ء میں
۱۷۵ ملکوں میں ۱۲۷ ویں نمبر پر تھا۔اب بھی تقریباً ایسی ہی صورتحال ہے۔ اس
کرپشن میں ملک کا ہر طبقہ اور ہر ادارہ کسی نہ کسی حد تک ملوث ہے۔ پاکستان
پیپلز پارٹی کے پچھلے عہد کو کرپشن کے لحاظ سے بدترین عہد سمجھا جاتا ہے
مگر موجودہ حکومت بھی کچھ کم نہیں بلکہ کافی زیادہ ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ
پیپلز پارٹی کی کرپشن اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اپنے ورکرز کو بھی اس میں ملوث
کر دیتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی کرپشن کو اس سے زیادہ ہوتی ہے مگر یہ کام
صرف کچھ خواہی ہی کرتے ہیں۔ پی پی دور میں صرف چوری ہوتی تھی اب بدلتے وقت
کے ساتھ موجودہ حکومت کے دور میں چوری بھی ہوتی ہے اور سینہ زوری بھی۔ |