چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے روح رواں
و وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے ترقی کے لئے چار اقدامات پر
مشتمل فارمولہ بتایا ان کے مطابق سب سے پہلا قدم Dream یعنی خواب اور عزم
ہے دوسرا قدم درست فیصلہ ، تیسرا معمولات میں معمول اور چوتھا اخروی سوچ ہے
یہ فارمولہ انہوںنے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں انجینئرنگ فیکلٹی
کے سنگ بنیاد رکھنے کے بعدطلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے بتایا وفاقی
وزیر ترقی و منصوبہ بندی نے یہ بھی بتایا کہ 1983میں ایک نوجوان کو امریکہ
میں یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا نوجوان سے انٹرویو کرنے کے بعد اس کی
سلیکشن ہوگئی اس کے انٹرویو میں آخری سوال تھا کہ یونیورسٹی کی ڈگری مکمل
کرنے کے بعد آ پ کیا کرینگے ؟ نوجوان نے امریکی یونیورسٹی کے ان عہدیداروں
کو جواب دیا کہ میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس جاکر پاکستان
کے اداروں کی مدد کرونگا اور پرائیویٹ سطح پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار
لاکر خدمت کرونگا یہ اس کا عزم اور ڈریم تھا انہیں دنوں پاکستان میں میں
ضیاءالحق کا عروج تھا اور صرف 3بندوں کو اس بات کا علم تھا کہ ضیاءالحق
1985میں عام انتخابات کرائیںگے ان تین میں سے ایک بندے نے مذکورہ نوجوان سے
ملاقات کرکے بتایا کہ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور سیاست سے شغف اور
شوق بھی ہے لہٰذا آپ ایم پی اے (ممبر صوبائی اسمبلی ) کے لئے انتخابات لڑیں
ہم آپ کا نام فائنل کرنے کے بعد ضیاءالحق تک پہنچائیںگے نوجوان کے لئے یہ
انتہائی سخت مرحلہ تھا اس مرحلے میں انہوںنے فیصلہ کرنا تھا ان کا شوق
سیاست تھا اداروں کی ترقی تھی اور اپنی خدمات پیش کرنا چاہتے تھے جو کہ
انہیں طشتری میں مل رہا تھا اوردوسری جانب امریکی یونیورسٹی میں داخلہ تھا
جو بڑی مشکل سے ملی تھی نوجوان کا بیک گراﺅنڈ معاشی لحاظ سے مضبوط بھی نہیں
تھا لیکن انہوںنے ضیاءالحق کے ساتھ دینے کی اس آفر کو ٹھکرادی اور امریکہ
چلے گئے اپنے روز کے معمولات میں انہوںنے شیڈول بنایا محنت کرکے 1986میں وہ
ڈگری لیکر بذریعہ جہازپاکستان پہنچے سات سالوں میں انہوںنے کئی مضامین لکھے
مسائل کی نشاندہی کی اور ان کے حل کے لئے نئے راستے بتائیں 1993میں وہ
نوجوان قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا اور حلف اٹھایا اور 2013کے عام
انتخابات میں انہوںنے وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی کا حلف اٹھایا
احسن اقبال نے خود اپنا واقعہ سنایا۔
وفاقی وزیر احسن اقبال کے فارمولے کے انہی چاروں اقدامات میں ہم گلگت
بلتستان کو رکھ کر دیکھتے ہیں گلگت بلتستان کے حوالے سے پہلا اور دوسرا قدم
انٹرلنکڈ ہے اگر عزم اور درست فیصلے کو آگے پیچھے رکھے تو بھی ایک معمول ہی
بنے گا گلگت بلتستان کے عوام کاعزم ایک فلاحی اسلامی ریاست تھی جس کے لئے
یکم نومبر 1947کو ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرکے قریب ترین اسلامی ملک
پاکستان سے ’اسلام ‘ کی بنیاد پر الحاق کردیا یہ درست فیصلہ تھا جس پر آج
69سال بعد بھی کوئی پشیمانی اور افسوس نہیں بلکہ خوشی ہی ہے 1947سے ہی عوام
گلگت بلتستان نے اپنے عزم کااظہار کیا کہ وہ دیگر عوام کی طرح پاکستان کے
شہری اور دیگر صوبوں کی طرح پاکستان کا صوبہ بننا چاہتے ہیں باقاعدہ معمول
کے ساتھ اس پر کام کیا ۔اور اس انتظار میں رہے کہ اقوام متحدہ کی زنجیروں
میں جکڑنے والی قرارداد سے جلد چھٹکارا مل کر اپنی منزل کے ساتھ منسلک
ہوجائیںگے مگر قرارداد تو گئی سردخانے میں اور گلگت بلتستان کے عوام کی
مایوسیاں روز بروز بڑھتی گئی عالمی طاقتوں کی جانب سے نشاندہی بھی کی گئی
لیکن وفاق پاکستان کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں مل سکا جو وہ گلگت بلتستان
کے عوام کو دے سکیں زیادہ دور کی بات نہیں صرف 3Gاور 4G کوہی دیکھ لیں حافظ
حفیظ الرحمن نے وزیراعلیٰ منتخب ہونے سے قبل عوام گلگت بلتستان کے مطالبے
پر 3Gاور 4Gکومتعارف کرانے کے لئے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرنے کا اعلان کیا
اور وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان سے ملاقات پر بات
بھی کی اور 3,3ماہ کا ٹائم ملتا گیا 8جون 2015سے اب تک گلگت بلتستان کے
عوام کو انٹرنیٹ کی یہ تیز سہولت فراہم نہیں کرپائے ۔ماضی کی باتیں دہراکر
وقت ضائع کرنے کی بجائے صرف مسلم لیگ ن کے تیسرے دور حکومت کی بات کرونگا
مسلم لیگ ن کو تیسری بات حکومت اگرچہ 2013میں مل گئی تاہم باقاعدہ طور پر
گلگت بلتستان کے عوام سے تعلق 8جون 2015کو ہوا جب مسلم لیگ ن کو ہی گلگت
بلتستان کے عوام نے بھاری مینڈیٹ دیا ۔وزیراعظم پاکستان نے مسلم لیگ ن کی
انتخابی مہم کے دوران لالک جان سٹیڈیم گلگت میں آئینی حیثیت کے تعین کے لئے
سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا اور اس کمیٹی کو
بھی 90روز کا وقت دیا گیا کہ 90دنوں میں کمیٹی اپنی سفارشات کو مکمل کرکے
(وزیراعظم کو )پیش کرے پہلے 90دن چلے گئے دوسرے 90دن بھی چلے گئے چند ایک
بار رسمی طور پر ملاقاتیں اور اجلاسیں بھی ہوئی دسمبر 2015میں عوام گلگت
بلتستان میں مختلف زرائع سے یہ بات عام کی گئی کہ آئینی حیثیت کا تعین کرنے
کے لئے سفارشات آخری مراحل میں ہیں خود وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ
الرحمن ، سپیکر فدا محمد ناشاد ، اور ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان کے بیانات اب
بھی موجود ہیں جہاں پر 25دنوں سے لیکر 60دنوں تک بڑی خوشخبری کی نوید سنائی
گئی سپیکر فدا محمد ناشاد تو یہاں تک کہتے رہے کہ پاکستان میں اب تک
27سربراہان مملکت گزرچکے ہیں کسی سربراہ کو گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے
تعین اور اس کے حل کے حوالے سے کوئی فکر نہیں ہوئی اگر کسی سربراہ مملکت کو
فکر ہوئی ہے تو وہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف ہیں اس بات پر زرہ
برابر بھی شک نہیں کہ میاں محمد نوازشریف کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی جس کی
سربراہی سرتاج عزیز کررہے ہیں گلگت بلتستان کو ایک صوبہ بنائے گی ۔دسمبر کے
بعد جنوری اور فروری گزرگیا ۔اس دوران گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے تعین
کے لئے بنائے گئے سفارشات عجیب رخ اختیار کرگئے کہ استور اور سکردو کے
علاوہ تمام علاقے پاکستان کے آئینی ہیں استور اور سکردو ماضی میں کشمیر کے
ساتھ جڑے رہے ہیں اس لئے ان دونوں کو مائنس کرکے آئینی حیثیت کا تعین کیا
جارہا ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔ لاحول ولاقوة۔۔۔۔ لیکن گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی
منزل تک پہنچنے کے عزم میں پھر بھی کوئی غیر معمولی قدم نہیں اٹھایا ۔وہی
پاکستان زندہ باد کے نعرے ،پاک فوج زندہ باد کے نعرے ۔گھروں میں پاک فوج کے
شہیدوں کے تصویریں ۔لالک جان (نشان حیدر )پر فخر۔اس بات پر کوئی اعتراض
نہیں کہ گلگت بلتستان کا آئینی حیثیت کا تعین کیسے کیا گیا ہے اورکیسے کیا
جارہا ہے اور یہ کمیٹی کہاں تک پہنچی ہے کمیٹی اپنا کام کریں ۔صاف واضح ہے
کہ مسئلہ کشمیر کے پر امن حل تک گلگت بلتستان کو جو بھی حیثیت ملے گی وہ
عارضی ملے گی جیسے پیپلزپارٹی کے دور میں گورننس آرڈرننس 2009دیا گیا جس کے
زیر اہتمام اب بھی حکومت اور انتظامی امور چل رہے ہیں ۔۔۔لیکن جناب احسن
اقبال صاحب ۔۔۔اعتراض ہے تو اس بات پر ہے کہ کم از کم جھوٹ تو نہ بولا جائے
پیش رفت کا زکر کیا جائے انقلاب کے دعوے نہ کئے جائیں عوام کو سچائی بتائی
جائے آپ یہاں آکر پاکستان کا حصہ ہونے کی بات ہی نہیں کرتے ہیں کیونکہ آپ
جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان نے اگر قربانی دی ہے تو پاکستان کے لئے دی ہے
کوئی منزل ہے تو پاکستان ہے آپ نے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا لیکن برجیس
طاہر ، پرویز رشید ، اعتزاز احسن اور دیگر کو کیوں نہیں سمجھاتے جو قومی
اسمبلی میں جاکر یہ بیان دیتے ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ۔۔۔
جیو نیوز سے کیوں نہیں پوچھتے جو صرف اپنے آپ کو ایک عدالتی کیس سے بچنے کے
لئے گلگت بلتستان کو پاکستان سے دور کرتا گیا ۔آپ عوام کو قوم بنانے کے
دعویدار ہیں تو قوم کو سچ تو بتائیں ۔۔۔۔ گلگت بلتستان کے عوام تو علامہ
اقبال کی اس شعر پرپورا اترتے ہیں کہ
ہے لازوال عہدخزاں اس کے واسطے
کچھ واسطے نہیں ہیں اس کے برگ و بار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
داستان زندگی چھیڑتے ہوئے دور نکل جائیںگے ائیرپورٹ گلگت کے زمینوں کے
معاوضوں اور متبادل زمین ،سکردوروڈ کی تعمیر ، دیامر بھاشا ڈیم کے مسائل ،
شندور و تھور زمین تنازعہ ، یاسین گوپس ضلع ، داریل تانگیر ضلع ، ملازمتوں
پر پابندیاں ، غیر مقامی آفیسران سمیت درجنوں مزید اہم مسائل جو کہ نوشتہ
دیوار بن کررہ گئے ہیں ان پر بحث کی جائے تو بہت ہی دور جائیںگے ۔گلگت
بلتستان کے عوام ہر طرح کے جھوٹے بیانات کے طفل تسلیوں کے بعد اس بات کا
انتظار کررہے ہیں کہ چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ جس میں گلگت
بلتستان گیٹ وے ہے میں واضح طور پر گلگت بلتستان کو حصہ دیا جائے ۔آ پ کے
مطابق یہ منصوبہ اصل میں سنکیانگ اور گلگت بلتستان کی ترقی کا منصوبہ ہے
لیکن آپ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ گلگت بلتستان کو کیا سہولیات اور کیا
مراعات مل رہے ہیں گلگت بلتستان میں زون کہاں بن رہا ہے ۔کون سا پروجیکٹ ہے
جس کا بلاواسطہ تعلق گلگت بلتستان سے ہے ۔صوبوں کے لئے مختص رقم میں سے
گلگت بلتستان کے لئے کتنی رقم مختص کی گئی ہے خدارا عوام سے جھوٹ نہ بولا
جائے کڑوا سچ ہی بولا جائے ۔یہ عوام آپ کے فارمولے کے چوتھے قدم ’اخروی سوچ
‘ پر بھی عمل پیرا ہے یہ عوام فیصلہ کرچکی ہے کہ پاکستان کی مثال دھرتی ماں
کی ہے جس سے غداری کسی صورت نہیں کرنی مگر حکمران طبقہ کس دنیا میں جناب
احسن اقبال صاحب گلگت بلتستان کے عوام تو آپ کے ہی فارمولے پر عمل پیرا ہیں
مگر جھوٹے حکمرانوں کو آپ نے یہ فارمولہ نہیں بتایا جو معمولات اورشیڈول
میں ہی مکر جاتے ہیں اخروی سوچ تو دور کی بات ۔۔۔کالم طویل ہوتا جارہا ہے
،موضوع پھیلتا جارہا ہے ،اور مسائل نکلتے جارہے ہیں ۔اگر آپ کا پھر کبھی
تفصیلی دورہ ہو گلگت بلتستان کا تو زکر ضرور کرینگے
ابھی سے کیوں چھلک آئے تمہاری آنکھ میں آنسو
ابھی چھیڑی کہاں ہے داستان زندگی ۔ |