ہیں تلخ بہت بندیء مزدور کے اوقات
(Rana Tabassum Pasha(Daur), Dallas, USA)
ہمارے معاشرے میں جب کسی کی بیٹی کو شوہر
اچھا ملتا ہے تو جھولی پھیلا پھیلا کر اسے دعائیں دی جاتی ہیں کہ بڑا ہی
ہیرا داماد ملا ہے خدا سب کو ایسا ہی داماد دے لیکن جب خود اپنا بیٹا اپنی
بیوی کا خیال رکھتا ہے تو زن مرید اور جورو کا غلام وغیرہ وغیرہ کہلاتا ہے
اور جو چاند کا ٹکڑا خود اپنی جوتیاں گھسا کے لائے تھے اب وہی بھوسی ٹکڑا
دکھائی دیتا ہے ۔ بہو کوئی جادوگرنی معلوم ہوتی ہے جس نے آتے ہی انکے بیٹے
کو اُلو بنا دیا ۔ یعنی وہی بات کہ ایک عورت اپنے بیٹے کو عقلمند بنانے میں
بیس سال لگاتی ہے مگر دوسری عورت اسے صرف بیس منٹ میں بیوقوف بنا دیتی ہے ۔
اب جناب تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ داماد چاہے کتنا ہی گھٹیا کھڑوس ہو لوگ
اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور بہو چاہے کتنی ہی فرمانبردار اور خدمت
گذار کیوں نہ ہو مگر اس میں کیڑے نکالنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔
نندیں تو اسے اپنا بےدام غلام سمجھتی ہیں اور اسی وجہ سے اپنے شوہروں کے
گھر سے زیادہ اپنی اماں کے ہاں پائی جاتی ہیں ۔ اور یہی والی عورتیں ہوتی
ہیں جو چت بھی میری پٹ بھی میری کے مصداق خود اپنی سسرال والوں کے ساتھ
ایسے نہیں رہ رہی ہوتی ہیں جیسے انہوں نے اپنی بھابھی کو رکھا ہؤا ہوتا ہے
۔ پاکستان کے متوسط طبقے کے مشترکہ خاندانی نظام میں پائی جانے والی اس بہو
نامی مخلوق کی مہینے کے تیس دن ڈیوٹی ہوتی ہے بدلے میں تین وقت کی روٹی اور
چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ایکبار سستی ماری اور ہڈ حرامی کا طعنہ ۔ چھٹی
والے روز نندیں اپنی پول پٹی اور پتیوں کے ساتھ جب باوا کے ہاں دھاوا بولتی
ہیں تو اس نکمی کام چور عورت کے عقل کے اندھے خاوند کو نہ تو اپنی بیوی کی
بے چارگی نظر آتی ہے نہ ہی جھوٹے منہ بھی یہ خیال آتا ہے کہ میں بھی کسی کا
داماد ہوں اور بہنوں کے شوہروں کی طرح مجھے بھی اس وقت اپنی سسرال میں ہونا
چاہئیے ۔ مگر نا صاحب ان کی اماں بہنیں تو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ چھانٹ
کر ایسی بہو لائی ہیں جس کا کوئی آگے پیچھے پوچھنے والا نہ ہو جو سال کے
بارہ مہینے انہی کی سیوا کو سسرال ہی میں پائی جائے اور پھر بھی شوہر
نامدار یہ کہتا ہؤا پایا جاتا ہے تم سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہو؟
برصغیر کے متوسط طبقے کی ایک عام سی کہانی ہے کہ لڑکی اگر شریف الطبع اور
صلح جو ہے اچھی تربیت سے آراستہ ہے اور کسی ایسے کاٹھ کے اُلو کے پلے بندھ
جائے جو تعلیم یافتہ اور کماؤ ہونے کے باوجود غیر ضروری طور پر اپنی اماں
بہنوں کا پٹھو بنا ہؤا ہو تو پھر ایسے گھرانوں میں بہو کا ایسا ہی حشر کیا
جاتا ہے ۔ اور اگر اسکی بیک کمزور ہو کچھ مجبوریاں لاحق ہوں تو سسرال والے
اس صورتحال کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ کسی بھی عورت کے ساتھ جب سسرال میں
کوئی زیادتی ہوتی ہے تو اس میں اسکا شوہر برابر سے شریک ہوتا ہے مرد اگر نہ
چاہے تو کسی کی مجال نہیں ہے کہ اسکے نکاح میں آئی ہوئی عورت سے کسی زرخرید
کنیز کی طرح پورے خاندان کی خدمتیں کروائیں ۔ یہ مرد ہی ہوتا ہے جو اپنے
گھر والوں کو اتنا موقع دیتا ہے ۔ اور انکی بے جا محبت میں اتنا اندھا ہو
جاتا ہے کہ پھر اسے قدم قدم پر بہو اور بیٹی کے درمیان فرق اور امتیاز بھی
نظر نہیں آتا ۔ بھئی جواب نہیں ہے ہمارے برصغیری جوائنٹ فیملی سسٹم کا جس
میں واقعی ایک عورت ہی دوسری عورت کی دشمن ہوتی ہے ۔ اور مرد گھر کا مالک
اور کفیل ہونے کے باوجود ایک بےبس تماشائی بنا ہؤا ہوتا ہے ۔
بےشک پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں ہمیشہ ہی اور ہر جگہ ہی ایسا نہیں
ہوتا ۔ معاشرے میں مہذب اور سلجھے ہوئے گھرانوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ۔
لیکن یہاں بات صرف اس کہانی کے تناظر میں اس صورتحال کی ہو رہی ہے جو
برصغیر کے متوسط طبقے میں عام پائی جاتی ہے ۔ ایسے گھرانے ہوتے ہیں جن کی
اپنی بیٹیاں تو سسرال والوں کے ساتھ مل کر نہیں رہتیں لڑ جھگڑ کر الگ ہو
جاتی ہیں تاکہ انکی خدمت نہ کرنی پڑے اور شوہر کی کمائی میں سے ان پر کچھ
خرچ نہ ہو مگر بہو کے لئے چاہتے ہیں کہ ہمیشہ انکے ساتھ ملکر رہے کبھی الگ
ہونے کی بات نہ کرے اور ساری عمر ہماری خدمتوں میں گزار دے ۔ اور ایسے لوگ
ہوتے ہیں جو خود اپنی بہنوں کو تو کچھ نصیحت نہیں کرتے مگر اپنے گھرانے کی
کفالت میں ایک بہت بڑا کردار اور ذمہ داریوں میں حصہ دار ہونے کے باوجود
بیوی پر شرط رکھتے ہیں کہ اگر مجھے جیتنا ہے تو میرے گھر والوں کے دل جیتنے
کی کوشش کرو ۔ اب اگر کسی کے گھر والے ہر طرح کی قربانی اور غلامی کروانے
کے باوجود کسی طرح راضی نہ ہو رہے ہوں انکی شکایتیں ہی ختم نہ ہو رہی ہوں
تو ایسے خود غرض اور بےحس لوگوں کی خاطر کیا بہو اپنی جان دے دے؟ اور مزے
کی بات یہ ہے کہ ایسی فضول اور نامعقول بہو اگر الگ ہونے کی بات کرے تو گھر
میں صف ماتم بچھ جاتی ہے ۔ |
|