۱۹۰۱ء میں سرحد کو پنجاب سے الگ کرکے شمال
مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔اور قبائلی علاقہ جات
کیلئے چیف کمشنر کو انتظامی سربراہ مقرر کرکے ان کو براہِ راست مرکز کے
ماتحت کر دیا گیا۔ان قبائلی علاقہ جات میں لارڈ کرزن نےFCR (فرنٹئیر کرائمز
ریگولیشنز)کے نام سے جابرانہ اور معاشرتی استحصالی کے وہ ضوابط نافذ کیے۔
جو تاریخ کے آئینی اوراق میں کالے قوانین کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ان
قوانین کے چند اہم دفعات قارئین کے ساتھ شئیر کرتا چلو۔
قوانین کی دفعہ ۲۱ کے تحت اگر کوئی فرقہ یا قبیلہ یا اس کا کوئی فرد حکومت
کے کسی اہلکار کی مخالفت کرے یا عداوت رکھے تو پولیٹیکل ایجنٹ کو یہ اختیار
حاصل ہے۔کہ وہ اس قبیلے کا فرد یا افراد جہاں کہیں ملے فوری طور پر گرفتار
کرکے ان کی جائیداد ضبط کر لی جائے۔دفعہ ۳۴ شق نمبر ۱ کے تحت پولیٹیکل
انتظامیہ کو ہر وہ مکان یا عمارت مسمار کرنے کا اختیار حاصل ہے۔جو چور یا
اغوا کنندگان ملاقات یا اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اور شق نمبر۲ کے
تحت اس قسم کے مسمار شدہ مکانات کے مالکان کسی معاوضے یا تلافی کے حقدار
نہیں ہوتے۔ دفعہ ۴۰ کے تحت ایسا فرد یا افراد جن سے قتل یا اقدامِ قتل یا
لوگوں کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے جرم کے ارتکاب کا اندیشہ ہو۔تو
پولیٹیکل ایجنٹ کو یہ اختیار ہے۔کہ حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے کے امکانات
کو ختم کرنے کیلئے جن اشخاص سے چاہے نیک چلنی کی ضمانت حاصل کرے۔اور کوئی
بھی شخص ارتکاب جرم سے قبل ہی شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔اس
دفعہ کے تحت بہت سے بیگناہ لوگوں کو پکڑا جاتا ہے۔اسلئے عام زبان میں اس
دفعہ کو ۴۰ ایف سی آر بھی کہا جاتا ہے۔دفعہ ۵۶ کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ کو یہ
اختیار حاصل ہے کہ وہ جرگہ کی سفارشات اور خود اپنی تسلی کے بعد ڈگری یا
سزا کے فیصلے میں کسی شخص پر جو جرمانہ عائد کرے وہ جرمانہ اس شخص کے دیگر
رشتہ داروں یا متعلقہ خیل کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد سے وصول
کرے۔دفعہ ۶۰ کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ کے کسی فیصلے (ڈگری) کے خلاف نہ کسی
دیوانی یا فوجداری عدالت میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے ا ور نہ ہی کوئی
اعتراض کر سکتا ہے۔
ایف سی آر کی بدولت پولیٹیکل ایجنٹ کو متعلقہ ایجنسی کا بادشاہ کہا جاتا
ہے۔حکومتی نمائندے کی حیثیت سے وہ ایجنسی کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے۔ایجنسی
میں تمام ترترقیاتی سرگرمیوں اور دیگر شعبہ جات کی کارکردگی میں اس کا
بنیادی کردار ہوتا ہے۔روزمرہ کے معاملات میں منظورِ نظرافراد کو پرمٹ اور
آزاد علاقہ میں ضرورت کی اشیاء لے جانے کیلئے پرچیاں جاری کرتا ہے۔انتظامات
کے سلسلے میں اس کی ذاتی شخصیت اور قبیلوں کے ملک حضرات کے ساتھ تعلقات کو
بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
قبائلی ملکان بھی اس نظام کے تخلیق کردہ مہرے ہیں ۔یہ لوگ قبیلوں اور حکومت
کے درمیا ن ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔انتظامیہ ان کی خدمات کے صلے
میں مالی فائدہ دیتی ہے۔انگریزوں کے دور میں جو ملک زیادہ موثر طریقے سے
خدمات سرانجام دیتے تھے ، زیر انتظام علاقوں میں زرعی زمین یا تجارتی پلاٹس
بطورِ تحفہ حاصل کرتے تھے۔ پولیٹیکل ایجنٹ اور ملک اِزم ایف سی آر کے کالے
قانون کی پیداواری کڑیاں ہیں۔
۱۹۷۳ء کے آئین کے آرٹیکل ۲۴۷ قبائلی علاقوں کے انتظامات کی یوں وضاحت کرتا
ہے۔
٭ دستور کے تابع وفاق کا عاملانہ اختیارمرکز کے زیرانتظام قبائلی علاقوں پر
وسعت پذیر ہوگا۔
٭ پارلیمنٹ کا کوئی ایکٹ کسی قبائلی علاقے یا اس کے کسی حصہ پر لاگو نہیں
ہوگا جب تک اس صوبے کا گورنر صدر کی منظوری سے اس طرح ہدایت نہ دے۔
٭ صدر کسی بھی وقت فرمان کے ذریعے ہدایت دے سکے گا۔کہ قبائلی علاقے یا کوئی
انفرادی علاقہ قبائلی علاقہ نہ رہے ۔لیکن اس سے قبل اس طریقے سے جو وہ
مناسب سمجھے متعلقہ عوام کی رائے معلوم کرے گا۔
٭ کسی قبائلی علاقے سے متعلق دستور کے تحت نہ عدالتِ عظمیٰ اور نہ عدالتِ
عالیہ اپنا اختیار استعمال کر سکے گی تاوقتیکہ پارلیمنٹ بذریعہ قانون یا
بصورتِ دیگر حکم نہ دے۔
۱۹۷۳ء آئین کے تحت پاکستان چار صوبوں اور قبائلی علاقہ جات پر مشتمل ریاست
ہے۔ لیکن اس کے باوجود قبائلی علاقوں پر پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین لاگو
نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ علاقے کسی عدالت کے دائرہِ اختیار میں آتے
ہیں۔۱۹۹۷ء کے عام انتخابات میں فاٹا کو پہلی بار بالغ حقِ رائے دہی سے
نوازا گیا۔
فاٹا کو موجودہ چیلننجز اورغیور قبائلی عوام کے اُمنگوں کے تناظر میں دیکھا
جائے ۔ تو ایف سی آر کا خاتمہ سب سے پہلے ہونا چاہیے۔کیونکہ یہ ایک
استحصالی قانون ہے۔اور اس جابرانہ قانون کی اب موجودہ قبائلی معاشرے میں
گنجائش نہیں۔ویسے بھی ان لوگوں نے ملک و ملت کی خاطر نقل مکانیاں کی۔ ڈرون
میزائلوں کا نشانہ بنے۔اب ان لوگوں کو ایک نئی معاشرتی سیٹ اپ کی سہولت دی
جائے۔اس خطے کو ملک کی آئینی ڈھانچے سے ماورا ہونے کی بجائے باقی صوبوں کی
طرح ان کو بھی ۱۹۷۳ء کی آئین کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔حکومتِ وقت کو اخلاص
کے ساتھ سرحدوں کے رکھوالے قبائلی عوام سے مل کر استصوابِ رائے کے ذریعے
اُن کے اسٹیٹس کا مسئلہ حل کیا جائے۔جس میں فاٹا کے عوام کے سامنے انتخاب
ہوکہ آیا وہ علیحدہ صوبہ چاہتے ہیں۔یا پھر اُن کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں
ضم کر دیا جائے۔ ملک اِزم اور پُرانے انگریز دور کے مراعات یافتہ لوگ اس
تبدیلی کے حق میں نہیں بولیں گے۔لیکن موجودہ تعلیم یافتہ نسل اس کی حمایت
کررہے ہیں۔ وہ پرانے نظام سے جان چھڑانے اور باقی پاکستان کے عوام کی طرح
ایک قانونی اور آئینی حیثیت چاہتے ہیں۔تاکہ دیگر پاکستانیوں کی طرح اُن کی
بھی عدالتِ عظمیٰ اورعدالتِ عالیہ میں سُنوائی ہو سکے۔صوبائی اسمبلی میں
بھی نمائندگی کا حق ملے۔اور دیگرشہروں کی طرح فاٹا میں بھی صنعتوں کے جال
بچھائے جانے لگے۔ جدید تعلیمی ادارے کھولیں جائیں۔تعلیم یافتہ نوجوانوں کو
ملکی تعمیر اور ترقی میں برابر کے حصہ دار بنائے۔
فاٹاکے لوگوں میں کافی ٹیلنٹ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کوبہترین مواقع
میسر ہو۔اور اس کیلئے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے۔یہ سب ممکن ہے اگر
حکمران طبقہ سنجیدگی سے کام کریں۔
|