مہذب معاشرے اور اپنے حال اور مستقبل کو
بہتر سے بہتر دیکھنے اور بنانے کی آرزومند اقوام اپنے درمیان ہونے والے کسی
فساد، انتشار یا تصادم کو معمول کے واقعات سمجھ کر برداشت نہیں کرتیں۔
انھیں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ ایسی کوئی بھی صورت حال وقت کے ساتھ ساتھ
کس قدر سنگین ہوسکتی ہے، چناں چہ وہ ان عوامل کی کھوج لگاتی ہیں اور ان کے
خاتمے کی کوشش کرتی ہیں جو کسی فساد، تصادم یا پُرتشدد واقعے یا اس نوعیت
کی کسی بھی سرگرمی کا سبب بنے ہوں۔ مگر ہمارے یہاں ایسا کوئی رجحان نہیں
پایا جاتا۔ بڑے سے بڑے سانحے اور المیے کے بعد ہمارے یہاں بڑے بڑے دعوے تو
سامنے آتے ہیں لیکن اس المیے کے پس منظر میں موجود اسباب کی تحقیق کرنا اور
ان کا خاتمہ کرنا تو کجا ان کے بارے میں سوچا تک نہیں جاتا۔
زلزلہ تباہی مچادے، سیلاب زندگیاں بہا لے جائے، آگ کتنے ہی جیون راکھ بنادے،
کوئی قیامت آجائے، جیسی تیسی امدادی سرگرمیوں انجام دے کر اور ان آفات سے
متاثر ہونے والے بیشتر افراد کو اپنے حال پر چھوڑ کر ہم اپنی مصروفیات میں
کھوجاتے ہیں، یہ سوچنے اور اس سوچ پر عمل کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ہوتی کہ
ایسی قدرتی آفات کی صورت میں تباہی کا حجم کم سے کم کیسے کیا جاسکتا ہے اور
وہ کون سے عوامل ہیں جو ان سانحات سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان کو کئی
گنا بڑھا دیتے ہیں؟ ہمارا ہر معاملے میں یہی رویہ ہے۔
کراچی کئی عشروں سے تشدد کی آماج گاہ بنا رہا ہے۔ فسادات، ہنگاموں، ہڑتالوں
اور مختلف نوعیت کے جرائم نے نہ صرف اس شہر کے باسیوں کی زندگی اجیرن کیے
رکھی بل کہ ملک کے اس سب سے بڑے صنعتی وتجارتی شہر کی خراب صورت حال نے
پورے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ آپریشن ہوئے، گرفتاریوں ہوئیں،
ماورائے عدالت قتل ہوئے، دہشت گردی نے قیامت ڈھائی اور اب صورت حال یہ ہے
کہ اس شہر کی نمائندہ جماعت اپنے قائد سے اظہار لاتعلقی کرچکی ہے، تاہم اس
دفاتر اور سرگرمیاں آپریشن کی زد میں ہیں اور اس لاتعلقی کے سچ یا جھوٹ
ہونے کی بحث پوری شدت سے جاری ہے۔ کوئی اس نکتے پر غور کرنے کو تیار نہیں
کہ ایک ایسے طبقے کے افراد جو پاکستان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لسانی
گروہ سمجھا جاتا تھا اور جس کے یہاں ہتھیاروں کا استعمال تو کیا اسلحہ
رکھنے کی بھی روایت نہیں تھی، اس کے نوجوان آخر کیوں اندھے تعصب کا شکار
ہوکر تشدد اور جرائم کی طرف چلے گئے؟
اس سوال پر سوچنا سیاسی راہ نماؤں کا کام تھا، حکم رانوں کا فریضہ تھا،
لیکن انھیں ایشوز پر سیاست چمکانے، بڑھکیں مارنے اور الیکشن جیتنے کے لیے
ہر حربہ استعمال کرنے سے فرصت کب ملتی ہے کہ وہ سلگتے ہوئے مسائل کی گہرائی
میں اتر کر انھیں حل کرنے کی فکر کریں۔ ایسے میں کراچی کے حوالے سے ایک
ایسی آواز سننے کو ملی جو کسی سیاست داں کے لبوں کی صدا ہوتی تو شاید زیادہ
اچھا لگتا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت ہونے والے اپیکس کمیٹی کے
اجلاس میں ڈی جی رینجرزمیجر سندھ جنرل بلال اکبر نے سندھ کے شہری علاقوں کا
احساس محرومی ختم کرنے کے لیے صوبے میں رائج کوٹا سسٹم کو ختم کرنے کی
تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ دیہی کوٹا 60 فی صد جب کہ شہری کوٹا 40 فی صد
ہے، جرائم سے بیزاری کے لیے احساس محرومی کو ختم کرنا ہو گا، صرف آپریشن سے
پرامن سندھ کا خواب پورا نہیں ہوگا بل کہ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں
میرٹ پر عمل کرنا ہوگا۔
اب تنقید کی جائے گی کہ ’’یہ رینجرز کا کام نہیں‘‘ لیکن پھر اس سوال کا بھی
جواب ملنا چاہیے کہ امن قائم کرنے سے لے کر بنیاد ایشوز کی بات اور مسائل
حل کرنے تک یہ جن لوگوں کا کام ہے وہ کیوں نہیں کر رہے؟ یہ امر حیرت انگیز
ہے کہ جس جماعت نے کوٹا سسٹم کی بنیاد پر اپنی سیاست، مہاجر قومیت اور کام
یابیوں کی بنیاد کھڑی کی تھی آج وہ بھی کوٹاسسٹم پر بات کرنے سے مکمل طور
پر گریزاں ہے۔
سندھ میں کوئی چالیس سال سے کوٹا سسٹم نافذ ہے، یہ سسٹم پاکستان کے کسی اور
صوبے میں موجود نہیں۔ اس نظام کے تحت سندھ کو شہری سندھ (کراچی، حیدر آباد
اور سکھر) اور دیہی سندھ میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ شہری سندھ کا حصہ 40 فی
صد ہے، جب کہ دیہی سندھ کا حصہ 60 فی صد ہے۔ چالیس سال پہلے جب یہ نظام
قائم کیا گیا اس وقت شہری سندھ اور دیہی سندھ کی آبادی میں اتنا فرق نہیں
تھا، مگر 40 سال میں اندرون سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں سے ہونے والی نقل
مکانی کے باعث شہری سندھ کی آبادی بہت بڑھ چکی ہے، لیکن اس سسٹم کے تحت
سرکاری ملازمتوں اور داخلوں میں تناسب جوں کا توں برقرار ہے۔ اس کوٹے کے
تحت غریب سندھی کو کئی فائدہ نہیں ہوا، ہاری کی اولادیں اسی حال میں ہیں جس
میں ان کے ماں باپ نے زندگی گزاری ہے، اسی طرح اہلیت رکھنے والے سندھی
نوجوانوں کو بھی اس کا فائدہ نہیں ملا، بل کہ سفارشیں بازی لے جاتی رہی
ہیں۔ گویا کوٹا سسٹم دیہی آبادی کو کچھ نہیں دے سکا لیکن اس نے شہری اور
دیہی آبادی کے درمیان خلیج پیدا کی ہے اور نفرت اور تعصب کو بڑھاوا دیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوبے میں قائم ہونے والی حکومتیں شہری اور دیہی
سندھ دونوں میں زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرتیں، معیاری درس
گاہیں قائم کی جاتیں، صوبے میں نئے اور متحرک صنعتی زون بنائے جاتے، مختلف
صنعتوں کو فروغ دیا جاتا، مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ اگر سندھ میں صنعت
کاری کو اور تجارت فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جاتے تو نجی شعبے سے
اس قدر ملازمتیں پیدا ہوتیں کہ خاص طور پر نچلی سطح کی سرکاری ملازمت کے
حصول کی خواہش کم ہی نوجوان کرتے، ایسے میں کوٹاسسٹم کا ایشو بے معنی ہو کر
رہ جاتا، لیکن سندھ کی صوبائی حکومتیں صرف نعروں اور وعدوں پر چلائی جاتی
رہی ہیں۔
یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ پائے دار امن کسی آپریشن سے ممکن نہیں، جب تک وہ
عوامل موجود رہیں گے جن کی بنا پر کراچی میں یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے، تب
تک حالات میں مکمل طور پر بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس لیے ضروری ہے
کہ کوٹا سسٹم، جو 2013میں اپنی میعاد پوری کرچکا ہے، ختم کرکے شہری سندھ کے
عوام کا احساس محرومی دور کیا جاسکتا ہے اور تعصب اور نفرت کی ان آوازوں کو
ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے جو آج پاکستان کے خلاف واویلے میں بدل چکی
ہیں۔ کتنا اچھا ہو اگر پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کی حکم راں جماعت ہونے کی
حیثیت سے کوٹا سسٹم کے خاتمے کے لیے صوبائی اسمبلی میں قرارداد لائے، وہ دن
سندھ کے عوام میں قربتوں کا دن اور تفریق کے خاتمے کا دن ہوگا۔ |