قوموں کی تاریخ میں کچھ لمحات اتنے معتبر
اور محرم بن جاتے ہیں جوان کے وقار، عزت وتوقیراور فخرکی علامت ہونے کے
ساتھ ساتھ ان کی سلامتی اور استحکام کو کو دوام بخشنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
یہ لمحات ان کی آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں او رکسی
بھی ناگہانی آفت یا مصیبت کی صورت میں یہی لمحات ان کا حوصلے اور یقین کا
باعث بنتے ہیں۔ زندہ قومیں ان تاریخی لمحات کو اپنے دلوں میں زندہ وتازہ
کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ بھی ایسے تاریخی اور مبارک لمحات سے بھری
پڑی ہے۔ 14اگست 1947ء یوم آزادی․․․․برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی
ولولہ انگیز قیادت میں اپنا علیحدہ وطن پاکستان حاصل کیا۔ 6ستمبر 1965ء یوم
دفاع پاکستان ․․․․ جب پاکستانی قوم نے اپنی بہادر مسلح افواج کے شانہ بشانہ
پاکستان کی سرحدوں کو پامال کرنے کی کوشش کرنے والے عددی اور اسلحی برتری
کے زعم میں مبتلا دشمن کو شرمناک شکست سے دوچار کیا۔ اسی طرح 28مئی 1998ء
یوم تکبیر․․․․جب پاکستان نے اپنے ابدی دشمن بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب
میں ایٹمی دھماکے کرکے اس کے مکروہ عزائم اور غرور و تکبر کو تہہ خاک کرکے
رکھ دیا۔
لیکن ․․․․․․افسوس اور دکھ اس وقت ہوتا ہے جب قوم کی کامیابی و کامرانی کے
تاریخی لمحات کو بھی کسی نہ کسی بہانے ’ناکام‘ قراردینے کی کوشش کی جاتی ہے
اور وہ بھی ان گھڑیوں میں جب قوم کڑے امتحان سے دوچار ہواور غیروں کی
سازشیں عروج پر ہوں ۔ ناامیدی اور مایوسی کی سیاہ گھٹائیں چھائی ہوں اور
امید وآس کا قحط پڑ جائے۔اس سے بھی زیادہ افسوس اور دکھ اس وقت ہوتا ہے جب
قومی کامیابیوں کو ناکامی کی فہرست میں شامل کرنے والوں میں اپنے ہی لوگ
ملوث ہوجاتے ہیں۔ جنگ 65ء کو ہی لے لیجئے، ہماری قوم اور افواج کے لازوال
حوصلوں اور بے خوف جذبوں کی تعریف اپنوں نے تو کیا غیروں تک نے کی۔جارح
دشمن تک نے اپنی شکست کا اعتراف کرلیا لیکن ہمارے کچھ لوگ آج تک اس حقیقت
کو تسلیم نہیں کرتے۔قارئین کرام ! میری ذاتی رائے کو چھوڑئیے ، مقامی و
قومی ذرائع ابلاغ کی رائے کو ایک طرف رکھ دیجئے، آئیں، عالمی میڈیا کی
روشنی میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ 6ستمبر قومی تاریخ کے وقار کی علامت
کیوں سمجھا جاتا ہے۔
جنگ 65ء کے دوران جب ہماری قوم اور مسلح افواج عددی اور اسلحی لحاظ سے کئی
گنابڑے دشمن کے خلاف صف آراء تھیں تو ملکی اور عالمی میڈیاکے بہت سے
نمائندے اس کی کوریج کے لئے موجود تھے۔ ان دنوں کے اخبارات کا مطالعہ کریں
تو حق وباطل کے اس معرکے میں افواج پاکستان کی بہادری اور قوم کاجذبہ سب سے
نمایاں نظر آئے گا۔ انڈونیشیاء کے اخبار ’’ڈی جکارتہ ‘‘ نے 9ستمبر1965 کو
لکھا کہ :’’پاکستان کی مسلح افواج بھارتی جارحیت کے خلاف جوابی حملہ کر
سکتی ہیں،اور پاک فوج نے صرف 2دنوں ہی میں بھارتی 30جنگی طیارے تباہ کر
دئیے ہیں۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ پاک مسلح افواج کی نفری بھارتی
افواج سے کم ہے، لیکن پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے جذبے کے باعث دشمن سے
کئی گنا زائد فتو حات حاصل کی ہیں‘‘۔
امریکی اخبار ’’ ٹاپ آف نیوز واشنگٹن‘‘ نے بھی 10ستمبر 1965کو
لکھا:’’پاکستانی فوجیوں سے مقابلہ کرنے والی پہلی بھارتی رجمنٹ جم کر
مقابلہ نہ کر سکی،اور بھارتی فوج اپنا تمام سازوسامان ، توپ خانہ ،سپلائیز،
دیگر سامان اور اپنے اضافی کپڑے تک چھوڑ کر بھاگ گئی‘‘……بھارتی ’’دی انڈین
ہیرالڈ‘‘ نے بھی 15ستمبر 1965 کی اشاعت میں تحریر کیا:’’بھارت ایک فیصلہ کن
کارروائی کے لئے بھاری بکتر بند لشکر کے ساتھ پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا
لیکن پاکستان کی فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی اور اس نے انڈیا کے
دستوں کو زبردست نقصان پہنچایا‘‘……ایک اور بھارتی اخبار ’ ’ٹائمز آف انڈیا
‘‘ نے بھی اسی مہینے اپنی 16ستمبر کی اشاعت میں رقم کیا:’’دشمن(پاکستان) جس
تیز رفتاری اور غیض و غضب سے تمام محاذوں پر لڑ رہا ہے اس صورتحال کے پیشِ
نظر بھارت کی تما م فوج کو پاکستانی علاقے میں پیش قدمی ہر گز آسان نہیں
ہے‘‘……’’دی ٹائمز ویکلی ‘‘ کی 17 ستمبر 1965کی اشاعت میں یوں چھپا :’’بیشتر
فوجی مبصرین کا خیال ہے کہ جنگ توقع کے مطابق لڑی گئی۔مختصراََ یہ کہا جا
سکتا ہے کہ پاکستان کی نہائت مختصر لیکن انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ
فوج،بھارتی فوج کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ صلاحیت رکھتی ہے‘‘۔
جنگ کے تیرھویں روز 19ستمبر 1965کوبرطانوی اخبار’’سنڈے ٹائمز‘‘نے اپنی
اشاعت میں لکھا:’’پاکستان کی فضائیہ، بھارتی فضائیہ کے جہازوں کو بھگا کر
اور صحیح صحیح ہدف بنانے کے بعد مکمل طور پر فضائی برتری حاصل کرنے کے قابل
ہو گئی تھی۔بھارتی پائلٹ، پاکستانی پائلٹوں اور افسروں کے مقابلہ میں
احساسِ کم تری کا شکار ہوچکے تھے، اور اُ ن کی قیادت قابلِ صد افسوس
تھی۔بھارت مکمل طور پرپاکستانی قوم کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو چکا تھا،جس
کا آبادی کے لحاظ سے ایک اور 4 کا تناسب بنتا ہے، جبکہ مسلح افواج کی جسامت
کے لحاظ سے تناسب ایک اور3 کا ہے‘‘۔
انیس سو پینسٹھ کی جنگِ ستمبر میں پاکستانی مسلح افواج کی کامیابیاں دیکھ
کر،عالمی میڈیا اِس کی طرف متوجہ ہوا ، اور اِس طرح پاکستان کی مسلح افواج
کا نام عالمی میڈیا میں ایک طاقتور،انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ اور پروفیشنل
فوج کے طور پر گونجنے لگا……سو ’’لوئیس کرن ٹائم میگزین ‘‘ نے 22 ستمبر 1965
کو لکھا:’’اس قوم کو شکست کون دے سکتا ہے جو موت سے کھیلنا جانتی ہو۔مجھے
پاک بھارت جنگ کے بارے میں کچھ یاد رہے یا نہ رہے ،لیکن میں اس فوجی افسر
کی مسکراہٹ کو کبھی نہیں بھول سکتا جس کی مسکراہٹ نے مجھ پر یہ عیاں کر دیا
کہ پاکستانی جوان کس قدر نڈر اور بہادر ہے……پاک فوج کے جوانوں سے لے کر
جنرل افیسر کمانڈنگ تک کے افراد آگ کے شعلوں سے اس طرح کھیل رہے تھے کہ جس
طرح بچے گلیوں میں گولیاں کھیلتے ہیں ۔میں نے جنرل آفیسر کمانڈنگ سے سوال
کیا کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود آپ بھارت والوں پر کس طرح قابو پاسکتے
ہیں۔اس نے مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا’اگر حوصلہ ،عزم
،بہادری اور حب الوطنی کے عناصر کو خریدا جا سکتا تو بھارت امریکی امدا دکے
ساتھ ان عناصر کو حاصل کر سکتا تھا‘‘……بھارت کو تینوں افواج فضائیہ ،نیوی
اور بری فوج میں پاکستان پر کم از کم تین گنا زیادہ سبقت حاصل تھی،لیکن
پاکستانی مسلح افواج نے بہادری ،جرأت اورشجاعت کے ایسے عملی نمونے پیش کئے
کہ عالمی میڈیا نے بھی پاکستانی فوج کی کامیابیوں کو بہت سراہا۔یہی وجہ ہے
کہ اس جنگ کے بعد کئی ممالک نے اپنی افواج کو تربیت دینے کے لئے پاکستانی
مسلح افواج کا تعاون حاصل کرتے رہے ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ |