جنگ ستمبر 1965 میں جب ہمارے گھوڑوں کی تاب
اورتلواروں کی آب آزمائی گئی
میرے عزیز ہم وطنو! اسلام علیکم ! دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آ
پہنچا ہے۔ آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستانی علاقے پر لاہور کی جانب
سے حملہ کیا اور بھارتی ہوائی بیڑے نے وزیرآباد اسٹیشن پر ٹھہری ہوئی ایک
مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانہ حملے کا نشانا بنایا۔ بھارتی حکمران شروع ہی سے
پاکستان کے وجود سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی علیحدہ آزاد مملکت کو
انہوں نے کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ پچھلے 18 برس سے وہ پاکستان کے
خلاف جنگی تیاریاں کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی 10 کروڑ عوام جن کے دل کی
دھڑکن میں لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ کی صدا گونج رہی ہے اس وقت تک چین
سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کیلئے خاموش نہ ہو جائیں۔
ہندوستانی حکمران شایدابھی تک نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔
ہمارے دلوں میں ایمان اور یقین موجود ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم سچائی
کی یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ ملک میں آج ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دشمن کو فنا کرنے کیلئے ہمارے بہادر فوجیوں کی پیش
قدمی جاری ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کی مسلح فوجوں کو اپنے جوہر دکھانے کا
موقع عطا کیا ہے۔ میرے ہم وطنو! آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ خدا
تمہارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔ پاکستان پائندہ آباد ۔۔۔یہ الفاظ ایوب خان کی
تاریخ ساز تقریر کے ہیں جو انہوں نے 6ستمبر کی صبح 9 یا 10 بجے کی تھی ۔اس
وقت ٹی وی نہیں ہوتا تھا۔ریڈیو پاکستان پر یہ تقریر کی گئی تھی۔ اور لوگوں
نے ریلوے اسٹیشنوں پر ، چائے خانوں پر ، بسوں کے اڈوں پر نیز ہر جگہ یہ
تقریرسانس روک کے سنی،اس لمحے پورے پاکستان میں ٹریفک رک گئی ،
جسے سننا تھا تو وہ ہوا جو دشمن کے خواب و خیال میں نہیں تھا، پاکستان کی
پوری قوم نعرہ تکبیر لگاتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت
پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی صرف یہی نہیں ان 17 دنوں میں
ملک میں چوری ڈکیتی بند ہو گئی۔ رشوت بند ہو گئی ، ٹرینیں وقت پر چلنے لگیں
نیز ایسے ایسے معجزات اور کارنامے رونما ہوئے کہ رہتی دنیا تک دوبارہ ایسے
واقعات کبھی نظر نہیں آئیں گے ،نہ کبھی دیکھے جائیں گے اور نہ ہی آپ کو
کبھی سنائے جائیں گے۔
6ستمبر 1965کا دن بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک امتحان اور کڑی آزمائش سے کم
نہیں تھا مگر پاکستان کی با ہمت افواج نے ہندوؤں کا کوئی حربہ کار آمد نہ
ہونے دیا اور انکوزبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔دشمن جسے اپنی زیادہ تعداد
اور اسلحے کا بے حد غرور تھا جسے ہماری مٹھی بھر فوج کے غازیوں اور شہداء
نے بدروحنین کی یادتازہ کرتے ہوئے بھارتی فوج کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔
انڈیا کے میڈیا اور بی بی سی لندن نے تو یہاں تک گمراہ کن خبر چلادی کہ
بھارت نے لاہور پر قبضہ کرلیاہے مگر پاکستان کے نڈر اور غیور فوجی جوانوں
نے اپنے ملک کودنیابھر میں بہادر ملک کے نام سے متعارف کرایا۔6ستمبر سے
23ستمبر تک جاری رہنے والی اس جنگ میں پاک فضائیہ، بری فوج ، بحریہ اور
پاکستانی قوم کو اپنی طاقت اور صلاحیت کا احساس ہوا۔ ہماری غیور قوم نے
ایسی ضرب لگائی کہ ہندو بنیا اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست کرنے
لگا۔ شہادت کے جذبے سے سرشار فوجیوں نے دشمن کے ایسے پرخچے اڑائے کہ وہ
مورچے، سامان اور اسلحہ چھوڑ کر بھاگ پڑے۔شاعرمشرق علامہ اقبال نے ایسے جری
جوانوں کے لیے کیا خوب کہا ہے کہ
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحراو دریا
سمٹ کے پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
1965 کی مختصر جنگ پاکستانی تاریخ میں ایک طلسماتی داستان سے زیادہ کا درجہ
رکھتی ہے جب ایک قوم نے اچانک ہونے والے حملے کو اپنے عزم و ہمت سے ناکام
بناکر اسے عبرتناک شکست دی۔سپاہیوں نے شجاعت و جرات کی نئی داستانیں رقم
کیں تو شاعروں نے لہوگرمادینے والا کلام لکھا، عام افراد کا حوصلہ ساتویں
آسمان پر اس وقت دیکھا گیا جب 80 سال کا ایک عام بوڑھا گھر سے خندق کھودنے
نکلا۔ مائیں اور بہنیں مصلے پر بیٹھ کر دعا گو رہیں اور پوری قوم یک جان و
یک قالب ہوگئی۔ اور اس عظیم جذبے کا اظہار کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا
جائے گا۔مصنف ایم آر شاہد نے اپنی کتاب ’’شہیدانِ وطن‘‘ میں بہت تحقیق کے
بعد پاکستانی شہداء کا احوال پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 6 ستمبر کی صبح
ٹھیک 3 بج کر 45 منٹ پر ہندوستان کی جانب سے واہگہ پر ایک گولہ آکر گرا جسے
بھارت کی جانب سے پہلا فائر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر ایس جے سی پی
پوسٹ پر موجود پلاٹون کمانڈر محمد شیراز چوکنا ہوگئے اور پوسٹ پر بھارت کی
جانب سے مزید فائرنگ شروع ہوگئی۔ محمد شیراز نے جوابی فائرنگ کی اور یوں
دونوں اطراف سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا جو ستمبر کی تاریخی جنگ کی ابتدا
تھی۔ لڑائی اتنی شدید ہوگئی کہ بھارتی فوجیوں نے قریب آکر دستی بم بھی
پھینکنے شروع کردئیے۔ اگرچہ یہ حملہ اچانک تھا لیکن پاکستانی سپاہیوں نے اس
کا دلیرانہ مقابلہ کیا۔ جب پاکستانی دستی بموں کی ضرورت پڑتی تو سپاہی رینگ
کر کمک کے پاس آتے اور رینگ کر آگے موجود سپاہیوں کو بم تھماتے تھے۔ اسی
اثناء میں محمد شیراز دشمن کی گولیوں سے شہید ہوکر جنگِ ستمبر کے پہلے شہید
کا اعزاز حاصل کرگئے۔1965کے ایک اور ہیرو یونس خان شہید کا نام سنہرے حرفوں
سے زندہ رہے گا۔ انہوں نے پٹھان کوٹ بھارت کے فضائی اڈے پر حملہ کیا اور
اپنی مہارت سے بھارتی فضائیہ کے 15 طیارے تباہ کردئیے جن میں کینبرا اور
دوسرے طیارے شامل تھے۔ بعض ذرائع کے مطابق وہ جب بھارتی حدود میں داخل ہوئے
تو ان کے طیارے پر بھارتی طیاروں کی جانب سے فائرنگ ہوئی اور طیارے کو
نقصان پہنچا لیکن کچھ حوالہ جات کہتے ہیں کہ انہوں نے بھارتی علاقے پٹھان
کوٹ کے پاس فضائی اڈے پر موجود پاکستانی حملے کے لیے کھڑے طیاروں سے اپنا
طیارہ ٹکرادیا جس میں بھارت کے 15 طیارے جل کر راکھ ہوگئے اوردشمن کو
ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔1965کی ولولہ انگیز جنگ میں زخمی فوجیوں کے علاج
پر معمور بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) نصرت جہاں سلیم نے آئی ایس پی آر کے شمارے
میں لکھا ہے کہ جنگ کے دوسرے روز ایک لمبا تڑنگا فوجی اسٹریچر پر لایا گیا
جو اپنی نحیف آواز میں بڑبڑا رہا تھا کہ اس نے ماں سے سینے پر گولی کھانے
کا وعدہ کیا تھا لیکن خود ڈاکٹر یہ جاننے سے قاصر تھے کہ اسے گولی کہاں لگی
ہے۔ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور بلڈ پریشر گرتا جارہا تھا۔ جب ٹانگ کا زخم
کھولا گیا تو وہاں سے گولی کا ایک سوراخ جلد کو چیرتا ہوا پیٹ کی جانب جاتا
معلوم ہوا۔ پھر یکایک معلوم ہوا کہ گولی اس کی خواہش کے مطابق عین اس کے
سینے پر لگی ہے۔ اس تصدیق کے بعد اس فوجی نے آخری سانس لیا اور شہید
ہوگیا۔نصرت جہاں کے مطابق جب خون کے عطیات کی اپیل کی گئی تو ایک شہر اْمڈ
آیا اور سب کی خواہش تھی کہ فوجیوں کو اسی کا خون لگایا جائے۔ خون کی اشد
ضرورت تھی کیونکہ گہرے زخم اہم رگوں کو مجروح کررہے تھے اور زخمیوں کی
لگاتار آمد سے اسپتال کا پورا فرش لہو کی سرخ چادر میں چْھپ گیا تھا۔ ان کے
مطابق زخموں سے چور ہوکر شہید ہونے والے اکثر فوجی آخری دم تک پرسکون رہے۔
وہ اﷲ سے مدد مانگتے اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے تھے۔انسانیت کی
عظیم مثالیں بھی اس جنگ کا حصہ رہیں ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک
پاکستانی میجر کو محاذ پر ایک بھارتی فوجی ملا جو شدید زخمی تھا اور اسے
اپنے سپاہی بھی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ کئی روز سے ایک پل کے نیچے زخمی
پڑا تھا کہ اسے ایک پاکستانی میجر نے اٹھایا، پانی پلایا اور وعدہ کیا کہ
ابھی تو وہ ایک بڑے مشن پر جارہا ہے لیکن واپس آکر ضرور علاج کی غرض سے اسے
کمبائنڈ ملٹری اسپتال ( سی ایم ایچ) لے جائے گا اور یہ وعدہ پورا ہوا۔ یہ
زخمی بھارتی سپاہی لاہور لایا گیا اور کئی ماہ کے علاج کے بعد صحتیاب ہوا
کیونکہ زخم علاج نہ ہونے کی وجہ سے ایک ناسور بن چکا تھا۔1965ء کی جنگ میں
ہماری فضائیہ اور بحریہ کی کارکردگی بھی ہر لحاظ سے قابل فخر رہی۔ بھارتی
فضائیہ کے جیٹ ، مسٹیئر‘ ہنٹر لڑاکا اور کینبرا بمبار طیارے شروع کے ایک دو
دن پاکستان کی فضاؤں میں بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہوئے لیکن 7 ستمبر کی صبح
سرگودھا کے ہوائی اڈے پر حملہ آور بھارتی طیاروں کو سکوارڈن لیڈر ایم ایم
عالم نے اپنے سیبر طیارے کی مشین گنوں کا نشانہ بنایا اور چند سیکنڈ کے
وقفے میں پانچ بھارتی حملہ آور طیاروں کو مار گرایا تو پھر بھارتی طیاروں
کو دن کی روشنی میں پاکستانی اڈوں کا ر خ کرنے کی جرات نہ ہوسکی بھارتی
فضائیہ کے اہم مراکز پٹھان کوٹ، انبالہ، جام نگر، آدم پوراور ہلواڑہ ہمارے
ایف86سیبر، ایف104سٹار فائٹر اور بی 57بمبار طیاروں کا خاص طور پر نشانہ
تھے اور ریڈیو پاکستان کے سنئیر نیوز ریڈر شکیل احمد مرحوم جنکا خبریں
پڑھنے کا ایک خاص انداز تھا اپنے مخصوص لہجے اور بلند آواز میں خبروں میں
جب یہ بتاتے کہ ہمارے شاہینوں نے دشمن کے ہوائی اڈوں ہلواڑہ، آدم پور اور
جام نگر پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے ہیں تو ریڈیو کے گرد بیٹھے خبریں سننے
والوں کی زبانوں پر بے ساختہ اﷲ اکبر کے نعرے بلند ہوجایا کرتے تھے۔بھارتی
بحریہ اگرچہ ہماری بحریہ کے مقابلے میں کئی گنا بڑی تھی لیکن پوری جنگ
ستمبر کے دوران اسکے تباہ کن لڑاکا بحری جہاز ہماری واحد آبدوز ’’غازی‘‘ کے
ڈر سے اپنی گودیوں میں دبکے رہے اور گجرات کاٹھیا واڑہ کے ساحل پرہندؤ ں کے
قدیم اور تاریخی مندر’’سومنات‘‘ کے قریب واقع بھارتی بحری اڈہ ’’دوارکا‘‘
ہماری بحریہ کا نشانہ بنا اور اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔جنگ ستمبر کے
یہ چیدہ چیدہ واقعات ایسے ہیں جن پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ کرنل
شفقت بلوچ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہاکہ’’ یہ اﷲ کی مدد اور معجزہ تھا کہ
ہمارے گولے ٹھیک نشانے پر جا کر لگتے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے
دائیں بائیں سبز اور کالے کپڑوں میں ملبوس بزرگ ہیں جو دشمن کے گولے ہاتھ
میں پکڑ کر نیچے رکھ دیتے تھے۔ ہم ہزاروں ہندو فوجیوں کو ڈھیر کرتے کمانڈر
کو یقین نہیں آتا تھا کہ سو جوانوں کی کمپنی ایسا کارنامہ سرانجام دے سکتی
ہے۔ ہندو تو اپنے فوجیوں کی لاشیں ہی نہیں اٹھا سکتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ
1965ء کی جنگ ایک معجزیاتی جنگ تھی۔
جنگِ ستمبر کے جنگی ترانے قوم کی رگوں میں خون بن کر دوڑتے تھے۔لاہور ریڈیو
نے جنگ ستمبر کے دوران اگلے محاذ کا کردار ادا کیا۔ ہر شعبے خاص طور پر
اناؤنسمنٹ اور موسیقی کے شعبے نے وہ کام کیا جو سنہری تاریخ کا حصہ ہے۔
موسیقی کے شعبے میں پروڈیوسر کے طور پر اہم نام اعظم خان اور تصدق علی جانی
کے ہیں جبکہ قومی نغموں کی سب سے زیادہ دھنیں کالے خان نے بنائیں۔ صوفی
تبسم سمیت کتنے ہی اہل قلم نے لاہور ریڈیو کے کمروں میں بیٹھ کر لمحوں میں
تاریخی ملی نغمے لکھے اور گھنٹوں میں انکو ریکارڈ کر کے نشر کر دیا
گیا۔اناؤنسمنٹ اور لاہور کی خبروں کے ضمن میں لاہور ریڈیو کے شعبہ خبر کی
خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ ان دنوں لاہور ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر شمس
الدین بٹ صاحب تھے جنگِ ستمبر کے دوران کئی جنگی ترانے بنائے گئے جو قوم کی
رگوں میں خون بن کر دوڑتے تھے۔ پاکستانی قوم ان جنگی ترانوں کو کبھی نہیں
بھولی اور سرحدوں کے باہر یا اندر جب بھی قوم پر کوئی امتحان کا وقت آیا،
یہ ترانے ایک بار پھر پاکستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگے۔ دلوں کو گرما
دینے والے ایسے ہی کچھ ترانوں میں سے ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘‘،’’اے دشمنِ
دیں تو نے کس قوم کو للکارا‘‘،’’ اپنی جاں نذر کروں‘‘،’’ایہہ پتر ہٹاں
تے‘‘،’’ جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘اور’’ اے راہ حق کے شہیدو ‘‘شامل ہیں۔
جنگ ستمبر کی مایہ ناز ہیرو ۔۔۔ملکہ نور جہاں
اس حوالے سے ایک مشہور واقعہ ہے کہ نور جہاں نے کس طرح حب الوطنی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے ملی نغموں سے فوجی جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔جب 6 ستمبر
1965ء کو انڈین فوج نے پاکستان پر حملہ کیا اس وقت ریڈیو اسٹیشن لاہور سے
فوجی بھائیوں کے پروگرام نشر کئے جاتے تھے۔ 8ستمبر کو ان کے اسٹیشن
ڈائریکٹر کو ملکہ ترنم نور جہاں کا فون آیا کہ میں ملی نغمے ریکارڈ کروانا
چاہتی ہوں۔ اس وقت شمس الدین بٹ نے سوچا شاید کوئی تنگ کر رہا ہے اس لئے
انہوں نے بغیر جواب دیئے فون بند کر دیا۔ دوبارہ فون آیاتو دوسری طرف سے
معروف کمپوزر حسن لطیف ملک بول رہے تھے’ اعظم خان میں حسن لطیف بات کر رہا
ہوں‘۔ میڈم نور جہاں نے فون کیا ہے وہ ملی نغمے ریکارڈ کرانا چاہتی ہیں۔ اس
پر اسٹیشن ڈائریکٹر شمش الدین بٹ کو بتایا گیاکہ ابھی موصول ہونے والی کال
میں میڈم نور جہاں ہی بات کر رہی تھیں۔ چنانچہ میڈم نور جہاں ریڈیو اسٹیشن
آئیں، معروف شاعر صوفی تبسم، ناصر کاظمی، کی موجودگی میں میٹنگ ہوئی اور
ریکارڈنگ کے انتظامات شروع کر دیئے گئے۔ میڈم صبح 9 سے 10 بجے تک ریڈیو
اسٹیشن آجاتی تھیں۔ جب تک گانا ریکارڈ نہیں ہوجاتا وہ ریڈیو اسٹیشن میں ہی
موجود رہتیں اور وہیں رہرسل کرتی تھیں۔ 8 ستمبر کا دن تھا میڈم نور جہا ں
نے کہا آج کا دن ضائع نہیں جانا چاہئے۔ استاد محترم صوفی تبسم کو کہاگیا کہ
’’ آج کے دن کے لئے کوئی خاص چیز لکھ دیں تو انہوں نے ملی نغمہ ’’میریا
ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں‘‘ لکھا اورمعروف کمپوزر سلیم اقبال نے
کمپوزیشن بنا ئی۔ میڈم نور جہاں نے گانا ریکارڈ کروایا اور وہ ملی نغمہ رات
گیارہ بجے نشر ہوا جسے بہت پسند کیا گیا۔ دوسرے دن ڈپٹی کنٹرولر ایوب
رومانی کے کہنے پر صوفی تبسم نے’’میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی
جرنیل نی‘‘ لکھا اور میڈم نور جہاں نے ریکارڈ کرایا۔ جسے شام کو فوجی
بھائیوں کے پروگرام میں نشر کیا تو فوجی جوانوں کے جوش ولو لے کو تقویت
ملی۔ جنگ کے تیسرے روز صوفی تبسم نے پنجابی ملی نغمہ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں
وکدے‘‘ لکھا۔ ریکارڈنگ کے بعد ،صوفی تبسم اور میڈم نور جہاں نے یہ ملی نغمہ
سنا تو دیکھا سب رو رہے تھے۔ 6 ستمبر 65ء کی جنگ کے لئے ریکارڈ کئے گئے ملی
نغموں میں یہ سب سے بہترین ملی گیت ثابت ہوا۔دشمن کے جہاز آنے پر سائرن
بجتا تو سب لوگ بھاگ کر مورچوں میں چلے جاتے مگر میڈم نور جہاں کہتیں کام
بند نہیں کرنا مریں گے تو یہیں مریں گے۔‘‘ اس وقت جنرل سرفراز لاہور کے
کمانڈر تھے۔ جنرل سرفراز سے ریڈیو کیلئے پروگرام کرتے ہوئے جب ان نے پوچھا
جنرل صاحب 65ء کی جنگ میں عوام اور میڈیا کا کیا کردار تھا؟ انہوں نے کہا
’’اگر عوام اور میڈیا پاک فوج کا ساتھ نہ دیتے ہم یہ جنگ جیت نہیں سکتے
تھے۔ سارے بارڈر پر سپیکر لگے ہوتے تھے۔ سب کو انتظار ہوتا تھا کہ آج شام
کو ریڈیو پاکستان سے نیا نغمہ چلے گا۔ جب پاک فوج کے نوجوان وہ ملی نغمے
سنتے تو یوں محسوس ہوتا ان کے اندر تازہ خون شامل ہو گیا ہے۔ ‘‘ یہی جذبہ
میڈم نورجہاں کا تھا ،ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا صوفی تبسم کا ملی
نغمہ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ انہوں نے ایک ماں کے جذبے کے ساتھ گایا
تھا۔
ایک عزم،ایک ولولہ ،ایک عہد اورایک شان۔۔۔ آپریشن دوارکا
شیر دل آرمی ،،نیوی اور ائیرفورس کی ہزاروں داستانیں گواہ ہیں کہ کس طرح
شیر دلوں نے آپریشن کیے اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیرجرات اور بہادری کی
وہ تاریخ رقم کہ بزدل دشمن آج بھی کانپ رہا ہے،، جرات اور بہادری کی ایسی
ہی ایک داستان کا نام ہے آپریشن دوارکا۔دوارکا نام ہے اس آپریشن کا کہ جس
میں شیر دل بحریہ نے نہ صرف بزدل دشمن کو اس کے گھر میں شکست دی بلکہ اس کے
انتہائی اہم معلوماتی مرکز کو تباہ کیا،بہادر پاکستانی ،ڈیڑھ سو کلومیٹر تک
بھارتی سمندری حدود میں داخل ہوئے،ریڈار اسٹیشن برباد کیا ،اﷲ اکبر کی
صدائیں بلند کیں ،اس آپریشن کے بحری بیڑے میں شاہ جہاں،بدر ، بابر، خیبر،
جہانگیر، عالمگیراور ٹیپو سلطان شامل تھے۔چھ ستمبر کو جیسے ہی دشمن حملہ
آور ہوا، بحری بیڑہ ،،دوارکا روانہ ہو گیا ،،رات کی تاریکی،گہرا سمندر ،
لیکن ہمت جواں ، ہر دل شہادت کیلئے بے تاب،دشمن کو نیست و نابود کرنے کی
جستجو ،ایڈمرل سے سپاہی تک ،سب کے سب ،بس ایک سوچ ایک آرزو،ایک جستجو،،ایک
امنگ،پاکستان۔جہاز کسی مواصلاتی رابطے کے بغیر آگے بڑھ رہے تھے ،لاکھوں میں
پھیلے سمندر کو چیرتے ہوئے ،ان کی رہنمائی انکا جذبہ شہادت تھا،دریاووں کے
دل دہلانے والے ،مشن مکمل کرنے کو بیتاب تھے ،راستے میں آنے والے بھارتی
جنگی جہاز کے چاروں اطراف سے وہ گزرے لیکن اس جہاز کو خبر تک نہ ہوئی ،نصف
شب کو نیوی کے جانباز دوارکا کے سامنے پہنچ گئے ،حکم یہ تھا کہ ہر جہاز کو
پچاس گولے پھینکنے ہیں اور ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنا ہے ،وہ ریڈار اسٹیشن
جو کراچی کی پل پل کی خبر بھارت تک پہنچا رہا تھا۔اﷲ اکبر کی صدا میں گولہ
باری شروع ہوئی اور چند ہی منٹوں میں دوارکا ریڈار اسٹیشن ،اور دوارکا رن
وے ،بھوسے کا ڈھیر بن چکے تھے۔غرور سے بھرے دشمن کو تہ تیغ کرنے کے بعد
غازی بخیر و خوبی کراچی لوٹ آئے،ادھر بھارت کی کراچی پر حملے کی نہ صرف
تمام پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی بلکہ اس کا مورال بھی ختم ہو گیا۔ دوارکا
بحری تاریخ ایک سنہرا باب،پاکستان کے سمندری محافظوں کا عظیم کارنامہ اور
،رہتی دنیا تک بھارتی غرورپر طمانچہ ہے۔
چونڈہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان
اگرچہ جنگِ عظیم دوم میں کئی ممالک کے لاتعداد ٹینک استعمال ہوئے تھے لیکن
1965 کی جنگ میں بہت کم دنوں میں لگ بھگ 600 ٹینکوں نے حصہ لیا تھا۔ جس میں
بھارت کے سنچورین ٹینک بھی شامل تھے۔ عددی برتری کے لحاظ سے بھارت کے پاس
بہت اسلحہ تھا اور ان ٹینکوں کو ناکام بنانے کے لیے
پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے اپنے سینوں پر بم
باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انہیں تباہ کرکے ناکارہ بنادیا۔ بھارت میں
چونڈہ کا مقام اب بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے کیونکہ
پاکستانی سپاہی نے بھارتی صفوں میں گھس کر ان کی سفلی تدابیر کو ناکام
بنایا تھا۔سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن اپنے فرسٹ آرمڈ ڈویڑن ’’فخر ہند‘‘ کی
ٹینک رجمنٹوں کی پوری قوت کے ساتھ اس امید پر حملہ آور ہوا تھا کہ وہ
گوجرانوالہ تک ہر چیز کو روندتا ہوا لاہور کے عقب میں جی ٹی روڈ پر جاپہنچے
گا لیکن چونڈہ کا میدان اس کے ’’فخر ہند‘‘ ڈویڑن کے شرمن ٹینکوں کا قبرستان
بن گیا اور اسکا آگے بڑھنے کا منصوبہ ایک ڈرانے خواب کا روپ دھار گیا۔
دشمن کے دانت کھٹے کرنے والے اقبال کے شاہین۔۔۔ ایم ایم عالم
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جنگ ستمبر1965 میں دشمن کے دانت کھٹے کرنے والے ہیرومحمد محمود عالم پاک
فضائیہ کے لڑاکا ہواباز تھے جنکی وجہ شہرت گینز بک آف ریکارڈ کے مطابق ایک
منٹ میں سب سے زیادہ لڑاکا ہوائی جہاز گرانے کی ہے۔اقبال کا یہ شاہین
پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کا خواب پورا کرنا چاہتا تھا، جو اس نے
پورا کیا۔آپ کو’’لٹل ڈریگن‘‘ کا بھی خطاب دیا گیا۔7 ستمبر 1965 کو ایک منٹ
سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جنگی طیاروں کو تباہ کرکے عالمی ریکارڈ
بنانے والے اسکورڈن لیڈر ایم ایم عالم کے کارنامے زندہ و جاوید اوریوم
فضائیہ کا خاصہ ہیں۔بہادری کے صلے میں 2بار ’’ستارہ جرات‘‘ سے
نوازاگیا۔اسکواڈرن لیڈر محمد محمودعالم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے 1965
کی پاک بھارت جنگ میں سرگودھا کے محاذ پر پانچ انڈین ہنٹر جنگی طیاروں ایک
منٹ کے اندر اندر مار گرایا جن میں سے4 تیس سیکنڈ کے اندر مار گرائے گئے
تھے۔ اس مہم میں ایم ایم عالم ایف 86 سیبر طیارہ اڑا رہے تھے جو اس زمانے
میں ہنٹر طیارے سے تکنیکی اعتبار فرو تر تھا۔ مجموعی طور پر آپ نے 9 طیارے
مار گرائے اور2کو نقصان پہنچایا ۔ جن میں 6 ہاک ہنٹر طیارے تھے۔آپ کو جرات
اور بہادری کے باعث’’ ستارہ جرات‘‘ سے نوازا گیا، وہ 1982 میں ایئر کموڈور
کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ایم ایم عالم چھ جولائی 1935 کو کولکتہ کے ایک
خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے،تاہم آپ کا آبائی تعلق
بہار(پٹنہ)سے تھا،قیام پاکستان کے دوسرے دن خاندان نے ڈھاکہ ہجرت کی۔1967ء
میں ان کے والد، جو ڈپٹی سیکریٹری تھے،وفات پاگئے، جس کے بعد خاندان کے
دیگر افراد نے 1971ء کے بحران کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ ابتدائی تعلیم
1951 میں سندھ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈھاکہ (سابقہ مشرقی پاکستان ) سے حاصل
کی۔ 1952 میں فضائیہ میں آئے اور 2 اکتوبر 1953 کو کمیشنڈ عہدے پر فائز
ہوئے۔ آپ نے1952 میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور2 اکتوبر 1953 کو
کمیشنڈ عہدے پر فائز ہوئے، 1965کی جنگ کے بعد 1967 میں آپ کا تبادلہ بطور
اسکواڈرن کمانڈر برائے اسکواڈرن اول کے طور پر ــ’’ڈسالٹ میراج سوئم لڑاکا
طیارہ‘‘ کے لیے ہوا جو کہ پاکستان ایئر فورس نے بنایا تھا۔ 1969 میں آپ کو
اسٹاف کالج کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ 1972 میں آپ نے 26ویں اسکواڈرن کی
قیادت دو مہینے کے لیے کی۔ بنگالی ہونے کی وجہ سے 71 کی جنگ میں آپ کو
ہوائی جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی گئی، بعد ازاں 1982 میں آپ بطور ایئر
کماڈور ریٹائر ہو کر کراچی میں قیام پذیر رہے، اور یہی آپ کا انتقال ہوا۔
لاہور میں گلبرگ کے علاقے میں ایک اہم سڑک کا نام فخر پاک فضائیہ ایئر
کموڈور محمد محمود عالم کے نام پر ایم ایم عالم روڈ رکھا گیا۔ ایم ایم عالم
جیسے ہیرو اور نفیس انسان کو یہ قوم سلام پیش کرتی ہے۔
نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والے واحد شہید۔۔۔ میجر عزیز بھٹی
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، پاکستان کے ایک بہادر سپاہی تھے جنہیں 1965 کی
پاک بھارت جنگ میں بہادری پر فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیا
گیا۔نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کہ اب تک پاک فوج کے
دس شہداء کو مل چکا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان کی بری فوج
کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے نام پر دیا جاتا ہے کیونکہ ان
کا لقب حیدر تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان صرف ان لوگوں کو
دیا جاتا ہے، جو وطن کے لئے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو
چکے ہوں اور آ پ کو بھی اس اعزاز سے نوازا گیا۔میجر ہانگ کانگ میں پیدا
ہوئے۔پاکستان بننے سے پہلے آپ پاکستان آ گئے تھے اور ضلع گجرات کے گاؤں
لادیں میں رہائش پذیر ہوئے۔میجرنے پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور
1950 میں پنجاب رجمینٹ میں شامل ہوئے۔ میجرعزیز بھٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے
کہ آپ جنگ 1965میں واہگہ اٹاری کے محاذ پر چھ روز تک بھارت کے ٹینکوں اور
توپوں کے پرخچے اڑاتے رہے اور آپ اپنے جانثاروں کے ساتھ بی آر بی نہر کے
پاس ڈٹے تھے، جس پر بھارتی افواج قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ 7 ستمبر کو بھارت نے
پوری طاقت کے ساتھ اس پر حملہ کیا اور میجر عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ
نے صرف 110 سپاہیوں کی مدد سے بھارت کی پوری بریگیڈ کو 10 گھنٹوں تک روک کر
رکھا اور دن رات مورچے پر ڈٹے رہے۔ اس دوران آپ کو کھانے اور آرام کی ضرورت
ہی محسوس نہ ہوئی۔ اس جوان کے سینئر آفیسر نے اسے کہا بھی کہ’’ راجا صاحب
آپ تھک گئے ہیں آپ آرام فرمالیں اور آپ کی جگہ کسی دوسرے جوان کو متعین
کردیتے ہیں ‘‘مگر راجا عزیز بھٹی شہید کی خاک وطن سے محبت نے انہیں ایسا
کرنے سے باز رکھا۔یہ اعصاب شکن معرکہ جب 12 ستمبر کو پانچویں روز میں داخل
ہوا تو اس وقت تک میجر عزیز بھٹی بھارت کے چھ حملے روک چکے تھے۔ آگے جانے
والے پاکستانی سپاہی اور ٹینک ایک مقام پر پھنس گئے تھے جنہیں واپس لانا
ضروری تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی فوج کو منظم کرکے کئی اطراف سے حملہ کیا
اور پاکستانی فوجی گاڑیوں اور سپاہیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے لیکن
اندھا دھند گولہ باری اور فائرنگ کے دوران ایک شیل نے ان کے کندھے کو شدید
زخمی کردیا اور وہ صرف 42 سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرگئے۔ شاعر نے
ایسے ہی جوانوں کے لیے کیا خوب کہا ہے
تمہی سے اے مجاہدو! جہان کا ثبات ہے
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے |