فتنہ قادیانیت کیخلاف تاریخ ساز فیصلے
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
مسلمان کے ایمان کامل کیلئے ضروری ہے کہ وہ
سچے من سے اﷲ رب العزت کے خالق کائنات اور وحدہ لاشریک ہونے کے اقرار
کیساتھ ساتھ، نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے خاتم النبین ہونے کا کامل یقین
رکھتاہو۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرنا اور آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم پر نبوت کے باب کو بند سمجھنا،اسلام کی اساس اور وہ بنیاد ہے جس
پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ دشمنان اسلام کی جانب سے ہر دور میں
مسلمانوں کو اسلام سے گمراہ کرنے کی کوششیں جاری رہی ہیں۔ دشمنوں کی ان
سازشوں پر نگاہ رکھنے، اور ان کی مسلمانان اسلام کو راہ راست سے بھٹکانے کی
کھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ہر سال سات ستمبر کا دن یوم تحفظ
ختم نبوت کے طورپر منایا جاتا ہے ۔ کیونکہ بیسویں صدی کے آغاز 1901ء میں
برصغیر پاک و ہند میں جب مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ملعون نے اپنے خود
ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیاتو علماء ومشائخ نے اس فتنے کے سدباب کے لیے ہر
میدان میں قادیانیت کا محاسبہ کیا ، اور سات ستمبر1974 ء کے ہی مبارک دن
پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے مشترکہ طورپر تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے اس
فتنے کی جڑوں پر کاری ضرب لگائی اور متفقہ طور پرقادیانیوں ،احمدیوں
اورمرزائیوں کوغیرمسلم اقلیت قراردیا ۔
تقسیم ہند سے پہلے جب برصغیر پاک و ہندمیں انگریز اپنے ظلم وستم اور
زیادتیوں کے باوجود مسلمانوں کو مغلوب نہ کرسکا تو اس نے ایک کمیشن کے
ذریعے پورے ہندوستان کا سروے کرایا۔کمیشن نے یہ رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں
کو مغلوب کرنے کے لیے ان کے دلوں سے جذبہ جہاد مٹانا اور ان کے ایمان کو
ختم کرنا بے حد ضروری ہے اور اس کا طریقہ کاریہ ہوسکتا ہے کہ یہاں کسی ایسے
شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو
لازم سمجھتا ہو۔اس مقصد کے لیے انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب
کیا، جو اس وقت کسی سرکاری ادارے میں کلرک کے طور پرکام کررہا تھا۔اس کے
انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ قادیانی خاندان شروع دن سے مسلمانوں کے خلاف رہا
ہے۔انہوں نے سکھوں کے دورِ اقتدار میں سکھوں کے ساتھ مل کر پنجاب کے مختلف
علاقوں میں مسلمان حریت پسندوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور پھر انگریزوں
کے دور میں بھی مسلمان مجاہدین کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔مرزا قادیانی نے
جہاد کی حرمت اور انگریزوں کی اطاعت کو لازم قرار دیا اور پھر اس نے بتدریج
خادمِ اسلام،مبلغ اسلام،مجدد،امام مہدی،مثیلِ عیسیٰ،ظلی نبی(یعنی نبی کا
سایہ)،بروزی نبی ،مستقل نبی ،حتیٰ کہ خدائی تک کا دعویٰ کیا، مرزاغلام
احمدقادیانی لکھتاہے کہ میں نے کشف میں دیکھاکہ میں خودخداہوں اوریقین
کیاکہ وہی ہوں سومیں نے پہلے توآسمان اورزمین کواجمالی صورت میں
پیداکیاپھرمیں نے آسمانِ دنیاکوپیداکیا۔(کتاب البریہ،آئینہ کمالاتِ
اسلام)معاذاﷲ۔یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے اور خطرناک سازش کے تحت کیا گیا۔
ملعون مرزاکی کتابوں کامطالعہ کیاجائے تووہ اپنی زندگی اورذاتی کردارکے
اعتبارسے ایک ایسی شخصیت ہے کہ جس کونسل انسانی میں شمارکرنابھی انسانیت کی
توہین ہے وہ عملی اعتبارسے بداخلاق ،فحش گو،افیونی،شرابی،زانی،بدکار،انسان
نمابہروپیاتھا مرزاایسی باتوں سے نبی توکجاایک شریف انسان بھی ثابت نہیں
ہوسکتا ،آہستہ آہستہ جھوٹ بولتے بولتے اس نے نبی ہونے کادعویٰ کردیا۔
آخرکارمرزا 26مئی 1906 ء کی صبح سوادس بجے ہیضے کی بیماری میں
مبتلاہوکراحمدیہ بلڈنگ میں بیت الخلاء کے اندرہی مرااورقادیان میں دفن ہوا۔
جب کافروں کے اس فتنہ نے برصغیر پاک وہندمیں سراٹھایا تویہاں کے علماء
ومشائخ نے اپنی تحریرات ،تقاریر،خطاباتِ جمعہ ،علمی مباحثوں اور مناظروں کے
ذریعے قادیانیت کا ڈٹ کرمقابلہ کیااورمرزا قادیانی اور اس کے حواریوں
عبرتناک شکست دی ۔ اس فتنہ کے کچلنے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا کردار
ہمیشہ سے مثالی رہاہے۔
تاریخی مقدمہ بہاول پورفتنہ قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل ثابت ہوئی ، اس
مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ ،ریاست بہاول پور میں
عبدالرزاق نامی شخص مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا اور اس کی منکوحہ غلام عائشہ
بنت مولوی الٰہی بخش نے اپنے باپ کے توسط سے24جولائی1926ء کو احمد پور
شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخ نکاح کا دعویٰ کر دیا۔یہ مقدمہ بالآخر ڈسٹرکٹ
جج بہاول پور کو بغرض شرعی تحقیق منتقل ہواکہ آیا قادیانی دائرہ اسلام سے
خارج ہیں یا نہیں؟اس طرح یہ مقدمہ دولوگوں کے بجائے اسلام اور قادیانیت کے
مابین حق وباطل کا مقدمہ بن گیا۔ قادیانیت کے خلاف امت مسلمہ کی نمائندگی
کے لیے سب کی نظر دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ پر پڑی
اور وہ مولانا غلام محمد گھوٹوی ؒ کی دعوت پر اپنے تمام پروگرام منسوخ کرکے
بہاول پور تشریف لائے اور فرمایا’’جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈھابیل جانے
کے لیے پابہ رکاب تھا،مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال
تو سیاہ ہے ہی،شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وسلم کا جانب دار بن کر یہاں آیا تھا۔اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو
گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔‘‘
پھر اس مقدمہ میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا غلام محمد گھوٹوی،مولانا محمد
حسین کولوتارڑوی،مولانا محمد شفیع،مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری،مولانا نجم
الدین،مولانا ابوالوفاء شاہ جہانپوری اور مولانا انورشاہ کاشمیری (رحمہم اﷲ
تعالیٰ) کے دلائل اور بیانات پرمرزائیت بوکھلا اٹھی۔مولانا ابوالوفاء شاہ
جہاں پوری نے عدالت میں جواب الجواب داخل کرایا جو چھ سو صفحات پر مشتمل
تھا،جس نے قادیانیت کے پرخچے اڑا دیے۔ عدالت میں موجود علماء حق کا کہنا ہے
کہ مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ جب مرزائیت کے خلاف قرآن وحدیث سے دلائل دیتے
تو عدالت کے درودیوار جھوم اٹھتے اور جب جلال میں آکرمرزائیت کو للکارتے تو
کفر کے نمائندوں پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ایک دن مولانا نے جلال الدین شمس
مرزائی کو للکار کر کہا’’اگر چاہوتو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہوکر دکھا
سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے۔‘ ‘ یہ سن کر عدالت میں موجود
تمام مرزائی کانپ اٹھے اور مسلمانوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ان کے پر اثر
دلائل پر اہل دل گواہی دیتے تھے کہ عدالت میں انور شاہ کاشمیری نہیں،بلکہ
حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔‘‘ جب
مرزائیوں کو اس مقدمہ میں اپنی شکست سامنے نظرآنا شروع ہوئی تو انہوں نے
دسمبر1934ء میں عبدالرزاق کے مرجانے کی وجہ سے یہ درخواست دائر کردی کہ اب
اس مقدمے کے فیصلہ کی ضرورت نہیں ہے ، لہٰذا اس مقدمہ کو خارج کردیا
جائے۔بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شکست سے بچنے کے لیے مرزائیوں نے از
خود عبدالرزاق کو قتل کرادیا،تاکہ مقدمہ خارج ہوجائے،مگر ہوتا وہی ہے جو
منظورِ خدا ہوتا ہے۔لہٰذایہ مقدمہ جاری رہا اور حق وباطل کے اس مقدمہ کا
فیصلہ جناب محمد اکبر خان(اﷲ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا
فرمائے)نے 7فروری1935ء کو سنایا،جس کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اور اس
کے پیروکار اپنے عقائد واعمال کی بنا پر مسلمان نہیں،بلکہ کافر اور خارج از
اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کاغلام عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ
قرار دے دیا گیا۔مرزائیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزابشیر الدین کی
سربراہی میں سر ظفر اﷲ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی
سوچ بچار کی، لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس
بنیادوں پر صادر ہوا ہے کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی ۔ اس تاریخ سا ز
فیصلہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں پر مرزائیت کے عقائد کو آشکار کردیا اور اس
طرح مرزائیوں کی ساکھ روزبروز کمزور ہونے لگی۔
اس مقدمہ کے حوالے سے جہاں علماء کرام ومشائخ عظام اور جج صاحب کی کاوشیں
سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں ،وہیں غلام عائشہ اور ان کے والد
گرامی مولوی الٰہی بخش کا بھی پوری امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے کہ انہوں نے
ایک مرزائی کے خلاف فسخ نکاح کے دعویٰ کیا، جو ردِّ قادیانیت کے لیے پیش
خیمہ ثابت ہوا۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعدپاکستان معرض وجود میں آیا۔ بدنصیبی سے پاکستا ن
کا وزیر خارجہ سر ظفراﷲ خان قادیانی کو بنادیا گیا، جس نے قادیانیت کو
اندرون وبیرونِ ملک متعارف کرانے کے لیے سرکاری ذرائع کا بے دریغ استعمال
کیا۔دوسری طرف خواجہ ناظم الدین کے دوراقتدار میں دستور پاکستان کی تدوین
زیر بحث تھی اور اس ضمن میں مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ مرزائیوں کو
مسلمانوں میں شامل نہ کیا جائے، بلکہ ان کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا
جائے۔ لیکن جب دستور کے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی تو اس
میں ملک کے لیے جداگانہ طریقہ انتخاب تجویز کیا گیا تھااور اقلیتوں کی
نشستیں الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا،مگرمسلمانوں کے لیے حد درجہ دکھ کی
بات یہ تھی کہ قادیانیوں کو اقلیت نہیں بلکہ مسلمانوں میں شمار کیا گیا
تھا۔مندرجہ بالا کام یابیوں کو دیکھتے ہوئے 1952ء میں قادیانیوں کے نام
نہاد خلیفہ مرزا محمود نے اعلان کیا کہ یہ ہمارا سال ہے اور ہم اس سال
بلوچستان کو بالخصوص اور پنجاب کو بالعموم احمدی صوبہ بنا لیں گے۔یہ اعلان
مسلمانوں پر بجلی بن کر گرا۔اس موقع پر اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سید
عطا ء اﷲ شاہ بخاریؒ میدان میں آئے،انہوں نے علماء کو متحد کیا اور ’’مجلس
تحفظ ختم نبوت‘‘کے باضابطہ قیام کا اعلان فرمایا۔
دسمبر1952ء کے آخری دنوں میں چنیوٹ میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا
گیا، جس میں سید عطا اﷲ شاہ بخاری ؒنے انتہائی پر جوش تقریر کرتے ہوئے
فرمایا ’’ اے مرزا محمود! 1952ء تیرا تھا اور اب1953ء میرا ہو گا۔‘‘ اسی
کانفرنس کے موقع پر مجلس تحفظِ ختم نبوت کے رہنماؤں کا ایک خصوصی غیر رسمی
اجلاس منعقد ہوا، جس میں طے پایا کہ مرزائیوں کی جارحیت روز بروز بڑھتی
جارہی ہے اس لیے اس کا سد باب کرنابے حدضروری ہوگیاہے۔اس سلسلے میں حکومت
سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔جنوری 1953ء کے آخر میں علماء کا ایک وفد
خواجہ ناظم الدین سے ملا اور چا ر مطالبات پیش کیے مرزائیوں کو غیر مسلم
اقلیت قرار دیا جائے،سر ظفر اﷲ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹایا جائے،ربوہ کو
کھلا شہر قرار دیا جائے اور مرزائیوں کو کلیدی عہدوں سے برطرف کیا
جائے۔خواجہ صاحب نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ظفر اﷲ خان کو ہٹانے اور
مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے امریکہ پاکستان سے ناراض ہو جائے
گا اور ہر قسم کی امداد بند کر دی جائے گی۔وفد کی طرف سے حکومت کو اتمامِ
حجت کے لیے ایک ماہ کا تحریری نوٹس دیا گیا، جس میں لکھا گیا کہ ہمارے
مطالبات کو تسلیم کیا جائے، ورنہ ہم قادیانیوں کے خلاف براہِ راست تحریک
چلائیں گے۔ ایک ماہ گزر گیا اور حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت دیکھنے میں
نہ آئی تو مجلس تحفظ ختم نبوت نے باضابطہ تحریک کاآغاز کیا۔دیکھتے ہی
دیکھتے ختم نبوت کی یہ تحریک ایک بہت بڑی تحریک میں تبدیل ہوگئی۔ پاکستانی
حکمرانوں نے اس تحریک کو اپنے اقتدار کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ لیا۔چنانچہ
خواجہ ناظم الدین اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز احمد دولتانہ نے اس تحریک
کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔پاکستانی حکمرانوں اور جنرل
اعظم خان کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نے ہلاکو خان اورچنگیز خان
کے مظالم کی یاد تازہ کردی۔اسی دوران جنرل اعظم نے پاکستان میں پہلی مرتبہ
لاہور میں جزوی مارشل لاء لگایا۔ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اٹھنے والی اس
تحریک میں دس ہزار سے زائد مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،ایک
لاکھ کے قریب مسلمانوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور تقریباً دس
لاکھ سے زائد مسلمان اس سے متاثر ہوئے۔مرزائیوں اور ان کے ہم نواؤں نے اس
تحریک کو دبانے کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا ، انہیں یورپی ممالک کی مدد
بھی حاصل تھی،مگر مسلمانوں نے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ مرزائیت کا کفر
کھل کر سامنے آگیا۔اس شکست پر قادیانیوں نے عوامی محاذترک کرکے حکومتی
عہدوں اور سرکاری دفاتر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کردیا اور وہ انقلاب
کے ذریعے اقتدار کا خواب دیکھنے لگے۔اس کے ساتھ ساتھ اﷲ عزوجل کے عذاب کا
کوڑاختم نبوت کی اس مقدس تحریک کی مخالفت کرنے والوں ،اس کو کچلنے
والوں،ظلم کرنے والوں اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والوں پر اس بے
دردی سے برسا کہ سب عبرت کا نشان بن گئے۔
پھرایک ایسا واقعہ رونماء ہوا جس نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا۔ مئی1974ء
میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا ایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب
ایکسپریس سے پشاور جا رہا تھا۔ جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے
معمول کے مطابق مرزا قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع
کردیا۔نوجوان طلبہ اس سے مشتعل ہوگئے اور انہوں نے ختم نبوت زندہ
باداورقادیانیت مردہ بادکے نعرے لگائے۔ 29مئی کو یہ طلبہ سیر و سیاحت کے
بعد جب پشاور سے واپس ملتان آرہے تھے تو ربوہ پہنچتے ہی قادیانی دیسی
ہتھیاروں سے مسلح ہوکر طلبہ پر ٹوٹ پڑے اورطلبہ کو نہایت بے دردی سے مارنا
پیٹنا شروع کردیا، انہیں لہولہان کردیااوران کا سامان لوٹ لیا۔آناً فاناً
یہ خبر فیصل آباد تک پہنچ گئی۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے مقامی رہنما ایک بہت
بڑا جلوس لے کر فیصل آبادا سٹیشن پر پہنچ گئے۔ مسلمانوں نے اس کھلی غنڈہ
گردی پر زبردست احتجاج کیا اور زخمی طلبہ کی مرہم پٹی کرائی ۔ اگلے روز یہ
خبر پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر جگہ مظاہروں کاایک طوفان امڈپڑا۔پنجاب
اسمبلی میں قائد ِ حزب اختلاف علامہ رحمت اﷲ ارشد نے اس واقعہ پر اپنا
احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ’’ختم نبوت کی دینی حیثیت کے متعلق تمام
مسالک کے علماء متفق ہیں کہ قادیانی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ مجلس تحفظ
ِختم نبوت کے اس وقت کے امیر مولانا سید محمدیوسف بنوریؒ کی دعوت پر تمام
طبقات نے لبیک کہا اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی جس کا
امیر بھی مولانا یوسف بنوری ؒکو بنایا گیا۔ 9جون1974ء کولاہور میں اس مجلس
کا پہلااجلاس منعقد ہوا،جس میں قادیانیت کے خلاف ایک بھرپور تحریک چلانے کا
اعلان کیا گیا۔اس تحریک کا بس ایک ہی نعرہ تھا کہ مرزائیت کو غیر مسلم قرار
دیا جائے۔اس حوالے سے مجلس عمل کے قائدین نے پورے ملک کے طوفانی دورے کیے
اور قادیانیت کے خلاف محاذ پر تمام مکاتب فکر کو متحدکیا۔ اخبارات،دینی
جرائد اور طلبہ تنظیموں نے اس تحریک میں ایک جوش کی روح پھونک دی۔قادیانی
اس تحریک سے بلبلا اٹھے اور مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے ہراساں کرنے کے لیے
کئی جگہ دستی بموں سے حملے کیے۔حکومت نے ابتدائی طور پر تحریک کو ختم کرنے
کی بھر پور کوشش کی اورتحریک ختم نبوت کے قائدین کی اکثریت تحفظ ناموس
رسالت کے مطالبے کی پاداش میں جیل کی نذر ہوگئی ،مگر ان تمام معاملات نے
تحریک کو ایک نئی جلا بخشی اور تحریک پھیلتی چلی گئی۔بالآخر حکومت نے قوم
کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے سانحہ
ربوہ اور قادیانی مسئلے پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو
خصوصی کمیٹی قرار دیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد
نورانی ؒنے اپوزیشن کی طرف سے ایک بل پیش کیا(جس پر37معزز و محترم اراکین
اسمبلی کے دستخط موجود تھے) او رحکومت کی طرف سے وزیر قانون عبد الحفیظ
پیرزادہ نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی۔ اس طرح قومی اسمبلی میں
مرزائیت پر بحث شروع ہوگئی۔جبکہ قادیانیوں کے مرزائی اور لاہوری گروپ نے
اپنے اپنے موقف تحریری شکل میں پیش کیے۔ قادیانی گروپ کے جواب میں ’’ملت
اسلامیہ کا موقف،، دوسوصفحات پر مشتمل ایک مکمل کتاب کی شکل میں تیار کیا
گیا۔ مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کی قیادت میں مولانا محمد شریف جالندھری ؒ
،مولانا محمد حیات ؒ،مولانا تاج محمودؒ، مولانا عبدالرحیم اشعرؒنے حوالہ
جات کی تدوین کا کام کیا،جب کہ مولانا محمد تقی عثمانی ؒ اور مولانا سمیع
الحق ؒ نے ان حوالہ جات کو ترتیب دے کر ایک خوب صورت کتاب کی شکل میں مرتب
کیا۔ ملت اسلامیہ کے اس موقف کو اسمبلی میں پڑھنے کی سعادت مولانا مفتی
محمود ؒ کوحاصل ہوئی۔ قادیانی گروپ کی طرف سے مرزا ناصر اورلاہوری گروپ کی
طرف سے صدر الدین،عبدالمنان عمر اور سعود بیگ اسمبلی میں پیش ہوئے۔ لاہوری
گروپ کے جواب میں مولاناغلام غوث ہزارویؒ نے مستقل طور پرایک محضر نامہ
تیارکیا۔یہ بحث دوماہ کے طویل عرصہ تک جاری رہی۔ان دو ماہ میں قومی اسمبلی
کے28اجلاس اور68نشستیں منعقد ہوئیں۔گیارہ روز تک لاہور ی گروپ کے مرزا ناصر
اور نو روز تک قادیانی گروپ کے نمائندوں پر جرح ہوتی رہی۔ اس جرح پر ان کا
سانس پھول جاتا،انہیں پسینے آجاتے اور وہ باربار پانی مانگتے رہتے۔
5،6ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے دو
روز تک اراکین قومی اسمبلی کے سامنے اپنا مفصل بیان پیش کیا۔7ستمبر کو
فیصلے کے دن حالات بہت خراب ہوگئے۔ اس لیے بڑے بڑے شہروں میں فوج تعینات
کردی گئی۔ بالآخر وہ مبارک گھڑی آئی جب 7ستمبر1974ء کو4 بج کر35 منٹ پر
قادیانیوں کے دونوں گروپوں (مرزائی اور لاہوری گروپ) کو قومی اسمبلی نے
متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے قائد ایوان
کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیااور عبدالحفیظ پیر زادہ نے آئینی ترمیم کا
تاریخی بل پیش کیا۔ یہ بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا تو حزبِ اختلاف اور
حزبِ اقتدار کے ارکان فرطِ مسرت سے آپس میں بغل گیر ہو گئے۔یہ اعلان سننا
تھا کہ لوگ خوشی کے مارے سڑکوں پر نکل آئے ، ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں۔
پورے ملک میں اسلامیانِ پاکستان نے گھی کے چراغ جلائے۔اس تاریخ ساز فیصلے
کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو غیرمسلم
قراردیا۔یہ یقینا بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس فیصلے نے جہاں اہلیان پاکستان کے
دینی جذبات کی مکمل ترجمانی کی وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں اسلامیان
پاکستان کی قدر کو بھی بڑھا دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کی ختم نبوت پر کسی کو ڈاکے ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔
قادیانی رات دن یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہم قادیانی مسلمان ہیں ،
ہمیں تو صرف پاکستان کی پارلیمنٹ نے کافر قرار دیا ہے اور اس طرح وہ سادہ
لوح مسلمان جو قادیانیوں کے کفریہ عقیدہ سے صحیح طورپر واقف نہیں ، ان کو
ورغلانے کی دجالانہ کوشش کرتے ہیں جب کہ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات
مبارکہ اور حضور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ و سلم کی تقریبا ً دو سو دس احادیث
مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تاجدار ختم نبوت حضرت محمدصلی اﷲ علیہ
و سلم اﷲ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جو
شخص بھی نبوت کا دعوی کرئے، وہ کافر مرتد ، زندیق ، دائرہ اسلام سے خارج ،
اور واجب القتل ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’نہیں ہیں محمد
(صلی اﷲ علیہ و سلم ) کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ اﷲ کے رسول
اور خاتم النبین ہیں اور اﷲ تعالی ہر چیز کو جانتا ہے ‘‘ (سورۃ الاحزاب آیت
نمبر40)۔اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالی نے اپنے پیارے محبوب صلی اﷲ علیہ و سلم
کا نام مبارک لے کر فرمایا کہ میرے محبوب صلی اﷲ علیہ و سلم خاتم النبین
ہیں۔ ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم ہے ’’میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی
نبی نہیں ‘‘ (مسلم ) ایک اور حدیث مبارکہ ہے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم
نے فرمایا ’’ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے
، جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے
میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہی لوگ اس عمارت کے اردگرد پھرتے اور اس کی
خوبصورتی پر حیران ہوتے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ
رکھی گئی ( آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اینٹ میں ہوں ) اور میں خاتم
النبین ہوں‘‘ (بخاری ، مسلم ، ترمذی )۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت
ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری
امت میں سے تیس کذاب ہوں گے ، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے
حالانکہ میں خاتم النبین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ‘‘ (ابو
داؤد)
17 فروری 1983ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک مبلغ محمد اسلم قریشی کو
مبینہ طور پر مرزا طاہر کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا تو یہ واقعہ ایک
بار پھر بھرپور تحریک کا سبب بنا۔اس تحریک کے سبب صدر جنرل ضیاء الحق نے
26اپریل1984ء کو ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ جاری کیا ،جس کے مطابق
قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر، قادیانی کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا، اذان
دینا،اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنا اور شعائر اسلام استعمال کرنے کو جرم
قرار دے دیا گیا۔اس آرڈیننس کے بعد قادیانیوں کا اس وقت کا سربراہ مرزا
طاہر احمد یکم مئی 1984ء کوبھیس بدل کر بھاگ کر لندن جا پہنچا اور انگریز
کے پاس پناہ حاصل کی اور اپنا ہیڈ کوارٹر چناب نگر سے لندن منتقل کر لیا۔
مگر ختم نبوت پر مر مٹنے والے علماء ومشائخ نے وہاں بھی اس کا پیچھا نہ
چھوڑا اور پوری دنیا کے دورے کیے اور دنیا بھر کے لوگوں اور خاص طور پر
مسلمانوں کو قادیانیت کے کفر سے آگا ہ کیا۔ مسلم کالونی ربوہ میں عالمی
مجلس تحفظ ختم نبوت نے ایک عالی شان ختم نبوت مسجد تیار کی، جہاں 1982ء سے
ہر سال سالانہ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب
کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ’’ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی
میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں
تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا
تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر
و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں
کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ، قویٰ
میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور
خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی
بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا
شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے
نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں، میاں! آقا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد
کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و
رسالت جس کے سر پر ناز کرے۔
قادیانی آج بھی پاکستانی قانون کے مطابق غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی
سازشوں میں مصروف ہیں اور وہ سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہہ کر دھوکا دے رہے
ہیں کہ ہمارا کلمہ، نماز، روزہ تم جیسا ہے پھر فرق کس بات کا ہے، پھر ہم
کافر کیوں؟ اس کا واضح اور دو ٹوک جواب ان کا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننا ہے اور حضور خاتم النبین صلی
اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی امتی کا دعویٰ نبوت کفر ہے اور اس کی نبوت کوتسلیم
کرنا بھی کفر ہے، سات ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر
اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے عمومی طور پر ایک یاد
گار اور تاریخی دن ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ ہم ختم نبوت کے سپاہی، حضور نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دن رات ایک کردیں گے،
اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے والے ہر فتنہ کفر کا محاسبہ کرتے رہیں گے۔
٭……٭……٭ |
|