بقر عید کی آمد آمد تھی اور ہر جگہ قربانی
کے جانوروں کی منڈیاں سج گئ تھیں۔۔۔۔جب سے برابر والے مرزا صاحب اپنا بکرا
لے آۓ تھے ہم نے تو ابا جان کی جان کھالی تھی کہ بس اب بہت دیر ہوگئی چلیں
بکرا منڈی ۔۔۔سب لوگ جانور لے آۓ ہیں ۔۔میں اپنی پسند کا بکرا لونگا ۔۔۔۔وغیرہ
وغیرہ۔۔۔ابا جان کب سے ٹال رہے تھے مگر آج ہمارے آنسوؤں نے انہیں بھی موم
کردیا اچھا چلو تم بہت ضدی ہو گۓ ہو۔۔۔چاچا کے ساتھ چلتے وہ ایک دو دن میں
جائیں گے مگر میری رٹ کے آگے مجبور ہوگۓ۔۔۔اور ان کی ہاں سنتے ہی ہم لگے
منڈی جانے کی تیاری کرنے ۔۔۔برابر والے مرزا صاحب سے مول تول کی بابت
دریافت کیا تو ہوش ہی اڑ گۓمگر چہرے سے بلکل ظاہر نہیں ہونے دیا کہ پیسے
بجٹ سے باہر ہیں ۔۔۔۔خیر ابا جان کی موٹر سائیکل پر بیٹھے اور ہوا کی طرح
منزل یعنی منڈی کی طرف روانہ ہوۓ ۔۔۔۔واہ منڈی کیا تھی قربانی کے جانوروں
کا ایک سمندر تھا تا حد نگاہ تک ۔۔۔۔ہم نے ایک سمت سے اپنا گوہر نایاب
ڈھونڈنا شروع کیا ۔۔۔۔ابا جان ہر بکرے کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے مگر
ہمیں جس ہیرے کی تلاش تھی وہ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔خیر ہم نے بھی ہمت نہیں
ہاری ایک جگہ وہ ہمیں نظر آ ہی گیا۔۔۔سفید رنگت ،لمبے گھومے ہوۓ سینگ ،سرمگیں
آنکھیں ،،چہرے پر بلا کی نخوت ۔۔۔جیسے اپنی اہمیت سے واقف ہو۔۔۔۔ابا جان
یہی ہے یہی ہے ہم خوشی سے دیوانے ہوگۓ ۔۔۔۔بھاؤ تاؤ کے لمبے اور تکلیف دہ
دورانیۓ کے بعد بکرے کی رسی ہمارے ھاتھ آئ ۔۔۔۔ابا جان مستقل بڑبڑ ارہے تھے
کہ سونے کے سینگ لگے ہیں جو اتنا مہنگا دیا ہے بس ہماری ضد سے مجبور ہوگۓ
۔۔۔۔۔اب اگلا مرحلہ اس بکرے کو گھر لے کر جانے کا تھا ۔۔۔۔ابا جان نے مجھے
اور بکرے کو دو لوگوں کی مدد سے رکشہ پر سوار کرایا ۔۔اور خود اسکوٹر پر
پھیچے پھیچے ہولۓ۔۔۔ٹھنڈی ہوا کا اثر تھا کہ بکرے صاحب نے کچھ ہلنا جلنا
شروع کردیا اور تھوڑا رسی گھسیٹنے لگے ہم نے رکشے والے کو کہا بھیا زرا تیز
چلاؤ گھر قریب آگیا ہے بکرے کے تیور کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے ۔۔۔۔جیسے ہی ہم
نے اپنی گلی کا ٹرن کاٹا پتہ نہیں کیسے بکرے میاں نے ایک اڑان بھری اور
رکشے سے باہر ۔۔۔۔ہم ابھی صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے کہ ابا جان کی آواز
کان میں پڑی ۔۔۔پھیچے بھاگو شہیر ۔۔۔بکرا تو گیا ۔۔۔بس آؤ دیکھا نہ تاؤ ھم
بھی اس کے پھیچے بھاگے ۔۔۔۔اچانک بکرے نے بریکیں لگائیں اور پلٹ کر ہماری
طرف رخ کرکے کھڑا ہو گیا اور اپنے پاؤں کے کھر زمین پر مارنے لگا ھم نے
سکینڈ کے ہزارویں حصے میں اس کی نیت جان لی اور پلٹ کر بھاگے اب صورتحال یہ
تھی کے ھم آگے تھے اور بکرا اپنی بڑی بڑی سینگوں کا رخُ کۓ ہماری طرف دوڑا
چلا آرہا تھا۔۔۔ہماری سانس بھاگ بھاگ کر نہ اندر تھی نہ باہر آخر ایک گھر
کا دروازہ ہمیںکھلا دکھا اور ہم لپک کر اندر گھس گۓ خیر سے وہ ہمارا ہی گھر
تھا ۔۔۔کچھ پتہ نہیں کہ ابا جان نےبکرے کو کیسے قابو کیا بس اس وقت تو ہم
سب بھول بیٹھے تھے ۔۔۔۔دوسرے دن کچھ ہوش ٹھکانے آۓ تو باہر آکر بکرے کو
دیکھا جسے تین رسیوں سے باندھا گیا تھا اور وہ کھانا کہلانے والوں کو بھی
قریب نہیں آنے دے رہا تھا ۔۔۔مورل آف اسٹوری یہ ہے کہ ھمیشہ بڑوں کا کہنا
ماننا چاہیے کیونکہ ان کی ہر بات میں حکمت ہوتی ہے ۔بے جا ضد کا انجام یہی
ہوتا ہے۔۔۔۔حرما رضوان |